خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی وارداتیں

خیبر پختونخوا میں کوئی دن بھی ایسا نہیں جاتا جب دہشت گرد کسی جگہ کارروائی نہ کرتے ہوں۔

خیبر پختونخوا میں کوئی دن بھی ایسا نہیں جاتا جب دہشت گرد کسی جگہ کارروائی نہ کرتے ہوں۔ فوٹو : آئی این پی / فائل

خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت کی تحصیل سرائے نورنگ میں ہفتے کو علی الصبح سیکیورٹی فورسز کے کیمپ پر دہشت گردوں کے حملے میں کئی اہل کار شہید اور متعدد دہشت گرد مارے گئے۔ اطلاعات کے مطابق جھڑپوں کے دوران شدت پسندوں کی ایک مکان میں فائرنگ سے ایک ہی خاندان کے کئی افراد بھی جاں بحق ہو گئے۔ آرمی کیمپ حملے کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کر لی ہے۔ اس واقعے سے ایک روز قبل خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں عیدگاہ روڈ پر مسجد فیض اللہ اور مسجد پردل میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد بڑی تعداد میں لوگ باہر نکل رہے تھے کہ اس دوران ایک خودکش حملہ آور نے نمازیوں کے درمیان میں پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ پولیس اور اسپتال ذرایع کے مطابق اس خودکش دھماکے میں 27 افراد موقع پر جاں بحق اور 46 زخمی ہوئے۔ ڈی پی او ہنگو کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکا خودکش تھا۔ خودکش بمبار ایک موٹر سائیکل پر سوار تھا۔ ابھی تک کسی نے اس خودکش دھماکے کی ذمے داری قبول نہیں۔

وطن عزیز میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت زیادہ شدت آ گئی ہے۔خیبر پختونخوا میں کوئی دن بھی ایسا نہیں جاتا جب دہشت گرد کسی جگہ کارروائی نہ کرتے ہوں۔ دہشت گردوں کی دیدہ دلیری کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ انھوں نے خیبرپختونخوا کے سینئر وزیر بشیر بلور کو پشاور شہر میں شہید کر دیا۔حالیہ چند برسوں میں دہشت گردی کی وارداتوںپر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ دہشت گرد ایک جانب فرقہ واریت کو ابھارنے کے لیے وارداتیں کر رہے ہیں تو دوسری جانب سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر مسلسل حملے، کراچی میں علماء کرام کا قتل، پشاور میں ایک مسلک سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں پر حملے اور اب ہنگو میں تازہ واقعہ اس امر کی دلیل ہیں کہ دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے دورخی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔

ادھر حکومتی سطح پر کوئی پیش بندی نظر نہیں آتی ہے۔ بہرحال جو بھی ہو، ہمیں بحیثیت قوم یک جان ہو کر نہ صرف بیرونی عناصر کی خفیہ وارداتوں کا مقابلہ کرنا ہے بلکہ امن کی خاطر سیاست دانوں کو ذاتی منافقت سے بالاتر ہو کر اس وقت اس کڑے امتحان اور آزمائش سے قوم کو نکالنا بھی ہے۔ اس وقت پورا ملک دہشت گردی اور لاقانونیت کی لپیٹ میں ہے۔ خیبرپختونخوا' بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے ملک میں بے یقینی اور عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔ دہشت گردی مذہب کے نام پر ہو' قوم پرستی یا لسانیت کے نام پر' یہ ہر صورت میں قابل مذمت ہے اور ایسے عناصر سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جانا چاہیے۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کئی پرتیں ہیں۔ ملک میں کئی گروہ اپنے اپنے مفادات کے لیے سرگرم ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ان گروپوں میں ہم آہنگی بھی موجود ہے کیونکہ سب کا ٹارگٹ پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ یہ دہشت گردی فرقہ واریت کی شکل میں ہو' قوم پرستی کی صورت میں ہو یا لسانیت کی شکل میں، اس کا ٹارگٹ ریاست اور اس کے ادارے ہیں۔


یوں دیکھا جائے تو پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ دہشت گرد فرقہ واریت کو ابھارنے کے لیے قتل وغارت میں ملوث ہیں۔ ایسا کر کے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے شہر شہر میں خانہ جنگی شروع ہو جائے۔ ادھر وہ سیکیورٹی فورسز پر حملہ آور ہیں۔ سیکیورٹی فورسز پر حملے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہو رہے ہیں۔ اس کی مثال لکی مروت میں سرائے نورنگ میں 2 فروری کو ہونے والا حملہ ہے۔ اس طریقے سے وہ ریاستی اداروں میں خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان پر گرفت نہ ہو سکے۔ خیبر پختونخوا کی صورت حال انتہائی پیچیدہ ہے' اس علاقے میں قبائلی ایجنسیاں ہیں جو براہ راست وفاق کے زیرکنٹرول ہیں۔ یہاں کالعدم تحریک طالبان سرگرم عمل ہے' باجوڑ اور خیبر ایجنسی میں مقامی نوعیت کے گروہ بھی سرگرم عمل ہیں۔

مومند، کرم اور وزیرستان میں بھی کوئی نہ کوئی واردات ہوتی رہتی ہے۔ ان علاقوں میں صوبائی حکومت کی سیکیورٹی ایجنسیاں رسائی نہیں رکھتیں۔ ادھر صوبائی حکومت کے زیرانتظام بھی قبائلی علاقے ہیں، اس صوبے کا تیسرا انتظامی یونٹ اسٹیلڈ ایریاز ہیں۔ یہ علاقے دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ یہاں کا کاروباری طبقہ خود کو غیرمحفوظ سمجھ رہا ہے۔ پولیس یہاں حفاظتی اقدامات تو کرتی ہے لیکن جن علاقوں میں پولیس کی رسائی نہیں وہاں سے دراندازی کو روکنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ یوں دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں سے نبٹنا آسان نہیں ہے۔ یہاں انتظامی مشکلات بھی موجود ہیں۔ یہی حال بلوچستان کا ہے۔ کراچی کا معاملہ ان دونوں صوبوں سے مختلف ہے۔ کراچی میں انتظامی کنٹرول کمزور ہے جس کی وجہ سے قانون شکن آزادی سے اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے انتہائی تدبر' دوراندیشی اور اسٹڈی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو نکیل ڈالنے کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں آئینی ابہام کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ سیکیورٹی ایجنسیاں بغیر کسی آئینی اور قانونی رکاوٹوں کے باہمی کوآرڈی نیشن کر سکیں۔ کراچی میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹیلی جنس سسٹم کو موثر بنانے کے ساتھ ساتھ سیاسی دباؤ کو بھی کم کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ ملک میں سیاسی قیادت کو دہشت گردوں کے حوالے سے یکساں خیالات کا حامل ہونا چاہیے۔ قانون سازی کرنے والوں کو ذہنی طور پر دہشت گردی کے خلاف ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے سیکیورٹی ایجنسیاں انھیں بریفنگ دیں تاکہ ارکان اسمبلی اور سیاست دانوں کو حقیقی خطرات سے آگاہی ہو سکے۔ اس طریقے سے ہی ملک کو دہشت گردی سے بچایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story