کوئی نیا پیر تسمہ پا پھر تاک میں ہے
انتظار کیجیے کہ معجزے تو اب ہوتے نہیں، نہ ہی کسی بھلائی کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ بس اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔
فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا:
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
حالات تو پاکستان کے فیضؔ کی زندگی میں بھی دگرگوں تھے، لیکن آج جن حالات سے پوری قوم گزر رہی ہے، اگر وہ زندہ ہوتے تو کم ازکم ایک نوحہ اس صورت حال پر ضرور لکھتے اور اگر اس کی پاداش میں انھیں پھر جیل میں ڈال دیا جاتا تو یقینا چند نظمیں اور وجود میں آجاتیں کیونکہ اقبالؔ نے کہا ہے:
شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم
افسوس کہ آج وہ ہم میں موجود نہیں جو کراچی کا مرثیہ لکھ سکیں، بلوچستان کے لیے نوحہ کہہ سکیں کہ حالات کے جبر نے جبہ و دستار کی عزت خاک میں ملادی ہے گویا وہی حالات ہیں جن کی طرف میر تقی میرؔ نے بہت پہلے اشارہ کردیا تھا کہ:
میر صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
جنہوں نے سچ کا ساتھ دیا، ان کا حشر کامران فیصل جیسا ہوا اور جنہوں نے دستار نوچنے والے ہاتھوں سے دوستی کی وہ ارب پتی بن گئے۔ مقتول اگر با اثر ہے اور قاتل اقتدارکی چابی رکھنے والوں کا دوست تو دونوں فائدے میں۔ مقتول کی جان کا خون بہا کروڑوں میں اور اگر معاملہ برعکس ہے، مرنے والا بے بس لاچار اور مجبور تو اس کی لاش کی قیمت لگانے والا کوئی نہیں۔
قحط الرجال کہتے ہیں اس خوفناک وقت کو جب اہل اور قابل لوگوں کی خطرناک حد تک کمی ہوجائے، لیکن پاکستان میں اہل اور قابل لوگوں کی تو کوئی کمی نہیں، جو اپنے اپنے میدان کے شہ سوار ہیں، لیکن سیاست کے میدان میں باعمل، صاف ستھرے کردار کے مالک لوگوں کی خوفناک حد تک کمی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ میدان ان معاملات میں سرے سے خالی ہے۔ پوری قوم خاص کر پڑھا لکھا باشعور اور حساس متوسط طبقہ ایک صدمے کی حالت میں ہے کہ کوئی لیڈر شپ موجود نہیں۔ سب پٹے ہوئے مہرے اور آزمودہ سیاست دان، جنہوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں اپنے خزانے بھرے، ملیں لگائیں، محل خریدے، شہزادوں اور بادشاہوں کو دوست بنایا اور خود بھی دسترخوان کے بادشاہ بن بیٹھے کہ ملکی خزانے کا لوٹا ہوا پیسہ بڑی فراخ دلی اور بے دردی سے خرچ کیا جاتا ہے۔
ایسی خوفناک صورت حال سے شاید ہی کوئی ملک دوچار ہو۔ اب دیکھ لیجیے۔ پٹاریاں کھل گئی ہیں، بازار سج گیا ہے، بولیاں لگ رہی ہیں، خریدار دانہ ڈال رہے ہیں، جال بچھادیا گیا ہے اور بکاؤ پرندے اپنی عیار سوچ اور مکار آنکھوں سے جال میں پڑے دانے اور جال بچھانے والوں کو دیکھ رہے ہیں کہ کہاں ان کا من بھاتا کھاجا موجود ہے۔ وہ اپنے پرانے ساتھیوں کو دغا دے کر خوشی خوشی اس جال کو خود اپنی گردن میں ڈال لیتے ہیں۔ جال بچھانے والا مسکرا کر دل میں آہستہ سے کہتا ہے کہ ''تم کیا سمجھتے ہو میں تمہاری دغاباز سوچ سے واقف نہیں، کسی غلط فہمی میں نہ رہنا، جب چاہوں گا پر کاٹ دوں گا۔''
الیکشن والے دن خواہ لوگ گھروں میں چھٹی منائیں یا پورا دن سو کر گزاریں، ڈبے پھر بھی بھر جائیں گے، حسب خواہش نشستیں بھی مل جائیں گی اور لوگ اسمبلیوں کے ممبر بھی بن جائیں گے، ایک بار پھر پانچ سال پرانا ڈراما اسٹیج کیا جائے گا۔ وہی اسکرپٹ، وہی اداکار اور وہی ہدایت کار، نیا کچھ بھی نہیں۔ ہاں اگر کچھ نہیں ہوگا تو یہ کہ ڈالر 150/- روپے کا ہوجائے گا، آٹا، چاول، دودھ، دہی، سبزیاں، دوائیں اور ضروریات کی ہر شے ایک عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوجائے گی۔ تب چوریاں، ڈکیتیاں اور بڑھیں گی۔ سر راہ موبائل چھیننے کی وارداتیں بڑھ جائیں گی کہ
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر!
جنھیں شرافت ورثے میں ملی ہے، ایمان دار اور دیانت جن کے لہو میں شامل ہے وہ خاندانوں سمیت خودکشی کرلیں گے کہ اور کوئی چارہ نہیں۔ اور پھر چند حکومتی گماشتے اور سیاست دانوں کے دستر خوانوں کے نمک خوار مسلسل ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ تبدیلی صرف پرچی سے آئے گی، کیسی تبدیلی؟ تبدیلی کے لیے نئے لوگوں کی موجودگی ضروری ہے۔ پر وہ آئیں گے کہاں سے؟ جاگیردارانہ کلچر اور قبائلی سسٹم میں یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان میں متوسط پڑھے لکھے طبقے سے لوگ آکر اس کرپٹ نظام کو تہہ و بالا کردیں، کیونکہ متوسط، ذہین اور ایماندار لوگوں کے پاس کرپشن سے کمایا ہوا پیسہ نہیں، جو وہ کسی پارٹی کو دے کر ٹکٹ خرید سکیں۔ صرف ایک عمران خان ایسے ہیں جنھیں قوم نے ابھی آزمایا نہیں ہے، لیکن افسوس کہ لوگ ان کے بارے میںاس لحاظ سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ ان کا جھکاؤ اور ہمدردیاں طالبان اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ہیں۔ پھر بھی ایک موقع انھیں ضرور دینا چاہیے، دیکھیں وہ کیا کرتے ہیں۔ کیا وہ ڈالر کو پرویز مشرف کے دور کے ریٹ پر لے آئیں گے؟ کیا وہ معیشت کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرسکتے ہیں، کیا وہ مہنگائی دور کرسکیں گے؟ نہیں وہ بھی کچھ نہیں کرسکیں گے، کیونکہ وہ بھی اوروں کی طرح یہیں کہیں گے کہ ''مہنگائی ہم نے نہیں کی یہ ان چوروں اور لٹیروں کا کیا دھرا ہے جو ملکی خزانے کو لوٹ کر کھا گئے۔ ہمارے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے جو راتوں رات نظام بدل دیں۔''
ایک طبقہ بڑے زور و شور سے مسلسل اس جمہوریت کے لیے واویلا مچارہا ہے جس کا پاکستان میں وجود ہی نہیں۔ یہ ایک ایسا سسٹم ہے جو پاکستان میں جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں اور صنعت کاروں کو تحفظ دے رہا ہے۔ جس ملک کی آبادی کی اکثریت جاہل اور ان پڑھ ہو،انھیں کیا معلوم کہ جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے اور جمہوریت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ حکمراں اپنی غلطی تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ کیونکہ غلطی تسلیم کرنے سے قد کاٹھ میں اضافہ ہوتا ہے، جیساکہ بھارتی وزیر داخلہ نے کہا، اور جن کی بات کی تائید وہاں کے وزیر خارجہ نے بھی کی۔ یہ ایک بہت مثبت رویہ ہے کہ انھوں نے تسلیم کیا کہ ہندو انتہاپسند جماعتیں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ان کے اس بیان کو سراہنا چاہیے تھا نہ کہ تنقید کرنی چاہیے تھی۔ کیا پاکستان کے کسی بھی حکمران، سیاستدان، وزیر داخلہ یا وزیر خارجہ کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ پاکستان میں چلنے والے دہشت گردی کے کیمپوں اور مدرسوں کی مذمت کریں، خودکش بمبار بنانے والوں کی نشاندہی کریں، جن بدبخت دہشت گردوں نے اسلام اور پاکستان کا نام لے کر اندرون ملک اور بیرون ملک معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور اسے جہاد کا نام دیا ان کی نام لے کر نشاندہی کرنی چاہیے، اجمل قصاب، اس کے ساتھیوں اور ان کے گاڈ فادر کون ہیں، سب ہی جانتے ہیں، لیکن حکومتی سطح پر کبھی کسی نے ان کی مذمت نہیں کی، بلکہ دھر شہر قائد میں اجمل پہاڑی کی گرفتاری ورہائی اور پھر گرفتاری کے چرچے ہیں۔
ہمارے حکمران، سیاست دان اور کسی حد تک اعلیٰ فوجی افسران اس لیے ان بدبختوں کی مذمت کرتے کہ ہر حکومت کو ان کی سپورٹ چاہیے۔ جن کی نشوونما ضیاء الحق کے دور میں ہوئی، بعد کی آنے والی تمام حکومتوں نے ان انتہاپسندوں کو سلام پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں پاکستان کو انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں، مختلف ملکوں کے دہشتگردوں کو جب ان کے ملک سے نکال دیا جاتا ہے تو وہ باآسانی یہاں آجاتے ہیں، کیونکہ ان کے ناک نقشیوسط ایشیائی علاقوں کے لوگوں سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ اس ملک میں کوئی ایسا نظام نہیں جو ان مجرمانہ سرگرمیوں سے وابستہ لوگوں کو پاکستان آنے سے روکے، کیونکہ کہیں نہ کہیں ان کے تعلقات کے ڈانڈے مختلف مذہبی تنظیموں سے ملتے ہیں۔ یہ جسموں پر ٹیٹو بھی بنواتے ہیں، اور ہمارے ارسطو اور افلاطون سے زیادہ قابل اینکر پرسنز انھیں غیر مسلم قرار دے کر اپنا فرض ادا کردیتے کیونکہ نہ ان کا مطالعہ اتنا وسیع ہے نہ معلومات جو وہ ان تاریخی اور ثقافتی حالات سے واقف ہوں کہ بعض مسلم ریاستوں میں بدن پر ٹیٹو بنوانے کا رواج ہے۔ اس کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ کلچر سے ہے۔
بہرحال انتظار کیجیے کہ معجزے تو اب ہوتے نہیں، نہ ہی کسی بھلائی کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ بس اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے کہ آنے والا وقت بہت برا ہے۔ پوری قوم ہر ایک پیر تسمہ پا مسلط ہے اور یہی مختلف ناموں سے بار بار اس بدنصیب قوم پر مسلط رہے گا۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
حالات تو پاکستان کے فیضؔ کی زندگی میں بھی دگرگوں تھے، لیکن آج جن حالات سے پوری قوم گزر رہی ہے، اگر وہ زندہ ہوتے تو کم ازکم ایک نوحہ اس صورت حال پر ضرور لکھتے اور اگر اس کی پاداش میں انھیں پھر جیل میں ڈال دیا جاتا تو یقینا چند نظمیں اور وجود میں آجاتیں کیونکہ اقبالؔ نے کہا ہے:
شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم
افسوس کہ آج وہ ہم میں موجود نہیں جو کراچی کا مرثیہ لکھ سکیں، بلوچستان کے لیے نوحہ کہہ سکیں کہ حالات کے جبر نے جبہ و دستار کی عزت خاک میں ملادی ہے گویا وہی حالات ہیں جن کی طرف میر تقی میرؔ نے بہت پہلے اشارہ کردیا تھا کہ:
میر صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
جنہوں نے سچ کا ساتھ دیا، ان کا حشر کامران فیصل جیسا ہوا اور جنہوں نے دستار نوچنے والے ہاتھوں سے دوستی کی وہ ارب پتی بن گئے۔ مقتول اگر با اثر ہے اور قاتل اقتدارکی چابی رکھنے والوں کا دوست تو دونوں فائدے میں۔ مقتول کی جان کا خون بہا کروڑوں میں اور اگر معاملہ برعکس ہے، مرنے والا بے بس لاچار اور مجبور تو اس کی لاش کی قیمت لگانے والا کوئی نہیں۔
قحط الرجال کہتے ہیں اس خوفناک وقت کو جب اہل اور قابل لوگوں کی خطرناک حد تک کمی ہوجائے، لیکن پاکستان میں اہل اور قابل لوگوں کی تو کوئی کمی نہیں، جو اپنے اپنے میدان کے شہ سوار ہیں، لیکن سیاست کے میدان میں باعمل، صاف ستھرے کردار کے مالک لوگوں کی خوفناک حد تک کمی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ میدان ان معاملات میں سرے سے خالی ہے۔ پوری قوم خاص کر پڑھا لکھا باشعور اور حساس متوسط طبقہ ایک صدمے کی حالت میں ہے کہ کوئی لیڈر شپ موجود نہیں۔ سب پٹے ہوئے مہرے اور آزمودہ سیاست دان، جنہوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں اپنے خزانے بھرے، ملیں لگائیں، محل خریدے، شہزادوں اور بادشاہوں کو دوست بنایا اور خود بھی دسترخوان کے بادشاہ بن بیٹھے کہ ملکی خزانے کا لوٹا ہوا پیسہ بڑی فراخ دلی اور بے دردی سے خرچ کیا جاتا ہے۔
ایسی خوفناک صورت حال سے شاید ہی کوئی ملک دوچار ہو۔ اب دیکھ لیجیے۔ پٹاریاں کھل گئی ہیں، بازار سج گیا ہے، بولیاں لگ رہی ہیں، خریدار دانہ ڈال رہے ہیں، جال بچھادیا گیا ہے اور بکاؤ پرندے اپنی عیار سوچ اور مکار آنکھوں سے جال میں پڑے دانے اور جال بچھانے والوں کو دیکھ رہے ہیں کہ کہاں ان کا من بھاتا کھاجا موجود ہے۔ وہ اپنے پرانے ساتھیوں کو دغا دے کر خوشی خوشی اس جال کو خود اپنی گردن میں ڈال لیتے ہیں۔ جال بچھانے والا مسکرا کر دل میں آہستہ سے کہتا ہے کہ ''تم کیا سمجھتے ہو میں تمہاری دغاباز سوچ سے واقف نہیں، کسی غلط فہمی میں نہ رہنا، جب چاہوں گا پر کاٹ دوں گا۔''
الیکشن والے دن خواہ لوگ گھروں میں چھٹی منائیں یا پورا دن سو کر گزاریں، ڈبے پھر بھی بھر جائیں گے، حسب خواہش نشستیں بھی مل جائیں گی اور لوگ اسمبلیوں کے ممبر بھی بن جائیں گے، ایک بار پھر پانچ سال پرانا ڈراما اسٹیج کیا جائے گا۔ وہی اسکرپٹ، وہی اداکار اور وہی ہدایت کار، نیا کچھ بھی نہیں۔ ہاں اگر کچھ نہیں ہوگا تو یہ کہ ڈالر 150/- روپے کا ہوجائے گا، آٹا، چاول، دودھ، دہی، سبزیاں، دوائیں اور ضروریات کی ہر شے ایک عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوجائے گی۔ تب چوریاں، ڈکیتیاں اور بڑھیں گی۔ سر راہ موبائل چھیننے کی وارداتیں بڑھ جائیں گی کہ
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر!
جنھیں شرافت ورثے میں ملی ہے، ایمان دار اور دیانت جن کے لہو میں شامل ہے وہ خاندانوں سمیت خودکشی کرلیں گے کہ اور کوئی چارہ نہیں۔ اور پھر چند حکومتی گماشتے اور سیاست دانوں کے دستر خوانوں کے نمک خوار مسلسل ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ تبدیلی صرف پرچی سے آئے گی، کیسی تبدیلی؟ تبدیلی کے لیے نئے لوگوں کی موجودگی ضروری ہے۔ پر وہ آئیں گے کہاں سے؟ جاگیردارانہ کلچر اور قبائلی سسٹم میں یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان میں متوسط پڑھے لکھے طبقے سے لوگ آکر اس کرپٹ نظام کو تہہ و بالا کردیں، کیونکہ متوسط، ذہین اور ایماندار لوگوں کے پاس کرپشن سے کمایا ہوا پیسہ نہیں، جو وہ کسی پارٹی کو دے کر ٹکٹ خرید سکیں۔ صرف ایک عمران خان ایسے ہیں جنھیں قوم نے ابھی آزمایا نہیں ہے، لیکن افسوس کہ لوگ ان کے بارے میںاس لحاظ سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ ان کا جھکاؤ اور ہمدردیاں طالبان اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ہیں۔ پھر بھی ایک موقع انھیں ضرور دینا چاہیے، دیکھیں وہ کیا کرتے ہیں۔ کیا وہ ڈالر کو پرویز مشرف کے دور کے ریٹ پر لے آئیں گے؟ کیا وہ معیشت کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرسکتے ہیں، کیا وہ مہنگائی دور کرسکیں گے؟ نہیں وہ بھی کچھ نہیں کرسکیں گے، کیونکہ وہ بھی اوروں کی طرح یہیں کہیں گے کہ ''مہنگائی ہم نے نہیں کی یہ ان چوروں اور لٹیروں کا کیا دھرا ہے جو ملکی خزانے کو لوٹ کر کھا گئے۔ ہمارے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے جو راتوں رات نظام بدل دیں۔''
ایک طبقہ بڑے زور و شور سے مسلسل اس جمہوریت کے لیے واویلا مچارہا ہے جس کا پاکستان میں وجود ہی نہیں۔ یہ ایک ایسا سسٹم ہے جو پاکستان میں جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں اور صنعت کاروں کو تحفظ دے رہا ہے۔ جس ملک کی آبادی کی اکثریت جاہل اور ان پڑھ ہو،انھیں کیا معلوم کہ جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے اور جمہوریت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ حکمراں اپنی غلطی تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ کیونکہ غلطی تسلیم کرنے سے قد کاٹھ میں اضافہ ہوتا ہے، جیساکہ بھارتی وزیر داخلہ نے کہا، اور جن کی بات کی تائید وہاں کے وزیر خارجہ نے بھی کی۔ یہ ایک بہت مثبت رویہ ہے کہ انھوں نے تسلیم کیا کہ ہندو انتہاپسند جماعتیں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ان کے اس بیان کو سراہنا چاہیے تھا نہ کہ تنقید کرنی چاہیے تھی۔ کیا پاکستان کے کسی بھی حکمران، سیاستدان، وزیر داخلہ یا وزیر خارجہ کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ پاکستان میں چلنے والے دہشت گردی کے کیمپوں اور مدرسوں کی مذمت کریں، خودکش بمبار بنانے والوں کی نشاندہی کریں، جن بدبخت دہشت گردوں نے اسلام اور پاکستان کا نام لے کر اندرون ملک اور بیرون ملک معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور اسے جہاد کا نام دیا ان کی نام لے کر نشاندہی کرنی چاہیے، اجمل قصاب، اس کے ساتھیوں اور ان کے گاڈ فادر کون ہیں، سب ہی جانتے ہیں، لیکن حکومتی سطح پر کبھی کسی نے ان کی مذمت نہیں کی، بلکہ دھر شہر قائد میں اجمل پہاڑی کی گرفتاری ورہائی اور پھر گرفتاری کے چرچے ہیں۔
ہمارے حکمران، سیاست دان اور کسی حد تک اعلیٰ فوجی افسران اس لیے ان بدبختوں کی مذمت کرتے کہ ہر حکومت کو ان کی سپورٹ چاہیے۔ جن کی نشوونما ضیاء الحق کے دور میں ہوئی، بعد کی آنے والی تمام حکومتوں نے ان انتہاپسندوں کو سلام پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں پاکستان کو انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں، مختلف ملکوں کے دہشتگردوں کو جب ان کے ملک سے نکال دیا جاتا ہے تو وہ باآسانی یہاں آجاتے ہیں، کیونکہ ان کے ناک نقشیوسط ایشیائی علاقوں کے لوگوں سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ اس ملک میں کوئی ایسا نظام نہیں جو ان مجرمانہ سرگرمیوں سے وابستہ لوگوں کو پاکستان آنے سے روکے، کیونکہ کہیں نہ کہیں ان کے تعلقات کے ڈانڈے مختلف مذہبی تنظیموں سے ملتے ہیں۔ یہ جسموں پر ٹیٹو بھی بنواتے ہیں، اور ہمارے ارسطو اور افلاطون سے زیادہ قابل اینکر پرسنز انھیں غیر مسلم قرار دے کر اپنا فرض ادا کردیتے کیونکہ نہ ان کا مطالعہ اتنا وسیع ہے نہ معلومات جو وہ ان تاریخی اور ثقافتی حالات سے واقف ہوں کہ بعض مسلم ریاستوں میں بدن پر ٹیٹو بنوانے کا رواج ہے۔ اس کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ کلچر سے ہے۔
بہرحال انتظار کیجیے کہ معجزے تو اب ہوتے نہیں، نہ ہی کسی بھلائی کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ بس اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے کہ آنے والا وقت بہت برا ہے۔ پوری قوم ہر ایک پیر تسمہ پا مسلط ہے اور یہی مختلف ناموں سے بار بار اس بدنصیب قوم پر مسلط رہے گا۔