مفرور ووٹ اور مفرور بردہ فروش
کسی مردار کے گوشت کی فی کلو قیمت کیا ہوتی ہے؟ ہوتی بھی ہے یا اسے مفت میں اٹھا کے باہر پھینک دیا جاتا ہے؟
ISLAMABAD:
میں نے ایک بار ایک فربہ سیاستدان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ وزن کے لحاظ سے اس کی قیمت 23 ہزار روپے بنتی ہے۔ اس پر وہ ناراض ہوگیا۔ کہنے لگا ''تم نے میری قیمت بڑے گوشت کے حساب کیوں لگائی ہے؟''
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں سیاستدانوں کے خلاف ہوں، جمہوری عمل کے تسلسل کا کوئی بھی حامی سیاست اور سیاستدانوں کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ میں جن لوگوں کے خلاف ہوں ان کا ذکر ذرا بعد میں کروں گا۔ فی الحال ایک اور خبر سن لیجیے، کچھ عرصہ قبل میں نے ذکر کیا تھا کہ لگ بھگ 35 برس تک کراچی میں ووٹ ڈالتے رہنے کے بعد میرا ووٹ اچانک یہاں سے غائب ہوگیا ہے اور اسے صوبہ بدر کردیا گیا ہے۔ کسی نے چپکے چپکے میرے جذبات سے کھلواڑ کیا ہے اور میں جو پاکستانیت، پاکستانیت کی مالا جپ کے اور جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپ کے ہلکان ہوا پھرتا ہوں، مجھے کمر پر لات مار کے میرے شہر بلکہ میرے صوبے کی سرحد کے پار پھینک دیا ہے۔
جب میں نے اپنا یہ دکھ ادھر ادھر شیئر کیا تو معلوم ہوا کہ یہ واردات صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوئی ہے بلکہ بیشتر دوست، احباب میں سے کوئی بھی اپنے حقیقی ٹھکانے پر نہیں بچا، کسی کے ساتھ میرے جیسا سلوک ہوا اور کوئی گھر بیٹھے بیٹھے دس بیس کلومیٹر دور منتقل ہوگیا۔کلفٹن والا اورنگی میں اور اورنگی والا لانڈھی میں۔ یہ تو خیر ہوئی کہ خدا نے سن لی۔ یہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا اور ووٹر لسٹیں درست کیے جانے کا حکم جاری ہوگیا۔ کہا گیا کہ تمام لسٹوں اور ووٹوں کی تصدیق ہوگی اور فوج ساتھ جائے گی۔ اچھا ہی ہوا جو یہ فیصلہ ہوگیا ورنہ میں تو دل شکستہ تھا ۔
تبھی ایک روز کال بیل بجی، معلوم ہوا کہ الیکشن کمیشن والے آئے ہیں، میں لڈیاں ڈالتا ہو باہر نکلا۔ ''ہن ہویا فضل کمال نی، سانوں اللہ ملایا، میرا پیا گھر آیا''۔
میرے دل کی مراد پوری اور میری توہین واپس ہونے والی تھی۔ وہاں گیٹ پر ایک شخص گھبرایا گھبرایا ہوا سا کھڑا تھا۔ بالکل پاکستان الیکشن کمیشن کی طرح، وہ اکیلا تھا اور اس کے جسم پر وردی یا کندھے پر پیتل کے بنے ہوئے پھول نہیں تھے۔ اس نے گھر کے افراد کی تعداد پوچھی اور امتحانی گتّے پر رکھی ہوئی ایک لسٹ میں پینسل سے تعداد درج کردی۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور بار بار آگے پیچھے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا، حالانکہ اس وقت گلی میں میرے اور اس کے سوا کوئی نہیں تھا۔ لکھنے میں غلطی ہوگئی تھی لہٰذا اس نے پینسل کی دم پر لگی ربڑ سے اسے فوراً مٹایا اور عین میرے سامنے درست کردیا۔ اسے آیندہ بھی اسی طرح آسانی سے مٹایا اور درست کیا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد اس نے ایک مارکر سے گھرانہ نمبر میرے مکان کے گیٹ پر درج کردیا، حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ وہ نمبر لکھنے کے بعد گیٹ کو ایک بوسہ بھی دیتا کیونکہ یہ مکان نیک نام چیف الیکشن کمشنر کے بڑے بھائی نامور آرکیٹیکٹ محترم فدا حسین جی ابراہیم کا ڈیزائن کیا ہوا ہے اور اسے خود انھوں نے ہی اپنی نگرانی میں تعمیر کرایا تھا۔ الیکشن کمیشن سے یہ ''رشتہ داری'' ظاہر کرکے دراصل میں نے ایک عرضی ڈال دی ہے کہ ترجیحی اور سفارشی بنیادوں پر میرا ووٹ واپس لایا جائے کیونکہ الحمد للہ کمیشن کی سخت رنگ لائی ہے اور لگ بھگ ایک مہینہ گزرنے کے باوجود میرا ووٹ آج بھی کراچی بدر ہے۔ بات پینسل سے لکھے ہوئے گھرانہ نمبر سے آگے نہیں بڑھی۔
ایسے ہی معاملے سے نمٹنے کے لیے گزشتہ دنوں کراچی میں ایک علامتی دھرنا دیا گیا تھا۔ اس میں باری باری بہت سی سیاسی جماعتوں نے اپنی حاضری لگوائی اور اپنے دکھڑے سنائے، کچھ دریوں پر تو پوری کی پوری جماعت ہی پوری آگئی تھی۔ اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے اپنے عملے اور فوجیوں کے ہمراہ خود بھی شہر کا دورہ کیا اور ووٹ کے تصدیقی عمل کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد بیان دیا کہ اوہو! یہ گھر گھر جا کے تصدیق کرنا تو بڑا مشکل کام ہے۔ یہ مشکل مہم سر ہوتی ہے یا نہیں، دھرنے والے انڈوں سے بچے نکلتے ہیں یا نہیں مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ مجھے تو بس اپنے روٹھے ہوئے ووٹ کی واپسی کا انتظار ہے۔ باقیوں نے جو کرنا ہوگا وہ خود ہی کرلیں گے۔ اور ہاں ایک اور اہم بات، سیاسی بیت بازی میں خواہ وہ کچھ بھی کہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہاں کے بڑے اسٹیک ہولڈرز کو بھی ووٹرز لسٹوں کے درست ہونے پر کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اس کے بارے میں نجی محفلوں میں وہ ہنس کے کہتے ہیں کہ یار مزہ تو تب آئے گا جب دوسروں کی مرضی کی ووٹر لسٹوں پر ہم وہی رزلٹ لے کے دکھائیں گے۔
اب اس کے بعد ایک ادھار چکانا ہے، بات پرانی ہورہی ہے لیکن جب سانپ کی کمر توڑ دی گئی ہو اور وہ پھر سے سر اٹھا کے ادھر ادھر دیکھ رہا ہو تو اس کا نوٹس ضرور لینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس شخص کا نام بھی نہیں لینا چاہتا، کسی جمہوریت دشمن، عہد شکن اور احسان فراموش بردہ فروش کا ذکر کوئی کیوں کرے، لیکن ایک ریٹائرڈ فوجی کی بے تحقیق کتاب نے اور سوشل میڈیا نے ایک بھارتی انٹرویو کو بنیاد بناکر اس ریٹائرڈ جنرل کو بانس پر چڑھا دیا ہے۔ میں نے وہ انٹرویو دیکھا ہے۔ الٹے سیدھے سوالات میں پھنسا ہوا بندہ اور کیا کرتا۔ کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا۔ نون لیگی مشاہد اللہ خان ہی ہوتا تو اس نے بھارتی اینکر کے بخیے ادھیڑ دینے تھے اور جناب آپ کا یہ اپنے فیصل رضا عابدی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کی پرفارمنس کم ازکم ایسے دس جرنیلوں کی مجموعی اداکاری سے بہتر ہوتی۔ اس نے نہ صرف اینکر کو سرعام کچا چبا جانا تھا بلکہ ٹی وی چینل کو ہمیشہ کے لیے بند کرانے سے پہلے اٹھنا بھی نہیں تھا۔ اب ہم اتنے بھی احمق نہیں ہیں کہ ایسے ڈراموں سے کوئی مفرور اپنی لٹی ہوئی عزت اور بکھری ہوئی ساکھ بحال کروانے کا ناٹک دکھائے اور ہمیں سمجھ ہی نہ آئے، جس شخص کی بدنیتی نے میری اور میرے ملک کی زندگی کے نو برسوں کی چٹنی بنا ڈالی ہو اس کی ہر حرکت پر پہرہ دینا چاہیے۔ کوئی رعایت اس بات پر کیوں دی جائے کہ اس کے دور میں ٹماٹر کی قیمت کم تھی۔
آخر میں ایک سوال، کسی مردار کے گوشت کی فی کلو قیمت کیا ہوتی ہے؟ ہوتی بھی ہے یا اسے مفت میں اٹھا کے باہر پھینک دیا جاتا ہے؟
میں نے ایک بار ایک فربہ سیاستدان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ وزن کے لحاظ سے اس کی قیمت 23 ہزار روپے بنتی ہے۔ اس پر وہ ناراض ہوگیا۔ کہنے لگا ''تم نے میری قیمت بڑے گوشت کے حساب کیوں لگائی ہے؟''
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں سیاستدانوں کے خلاف ہوں، جمہوری عمل کے تسلسل کا کوئی بھی حامی سیاست اور سیاستدانوں کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ میں جن لوگوں کے خلاف ہوں ان کا ذکر ذرا بعد میں کروں گا۔ فی الحال ایک اور خبر سن لیجیے، کچھ عرصہ قبل میں نے ذکر کیا تھا کہ لگ بھگ 35 برس تک کراچی میں ووٹ ڈالتے رہنے کے بعد میرا ووٹ اچانک یہاں سے غائب ہوگیا ہے اور اسے صوبہ بدر کردیا گیا ہے۔ کسی نے چپکے چپکے میرے جذبات سے کھلواڑ کیا ہے اور میں جو پاکستانیت، پاکستانیت کی مالا جپ کے اور جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپ کے ہلکان ہوا پھرتا ہوں، مجھے کمر پر لات مار کے میرے شہر بلکہ میرے صوبے کی سرحد کے پار پھینک دیا ہے۔
جب میں نے اپنا یہ دکھ ادھر ادھر شیئر کیا تو معلوم ہوا کہ یہ واردات صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوئی ہے بلکہ بیشتر دوست، احباب میں سے کوئی بھی اپنے حقیقی ٹھکانے پر نہیں بچا، کسی کے ساتھ میرے جیسا سلوک ہوا اور کوئی گھر بیٹھے بیٹھے دس بیس کلومیٹر دور منتقل ہوگیا۔کلفٹن والا اورنگی میں اور اورنگی والا لانڈھی میں۔ یہ تو خیر ہوئی کہ خدا نے سن لی۔ یہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا اور ووٹر لسٹیں درست کیے جانے کا حکم جاری ہوگیا۔ کہا گیا کہ تمام لسٹوں اور ووٹوں کی تصدیق ہوگی اور فوج ساتھ جائے گی۔ اچھا ہی ہوا جو یہ فیصلہ ہوگیا ورنہ میں تو دل شکستہ تھا ۔
تبھی ایک روز کال بیل بجی، معلوم ہوا کہ الیکشن کمیشن والے آئے ہیں، میں لڈیاں ڈالتا ہو باہر نکلا۔ ''ہن ہویا فضل کمال نی، سانوں اللہ ملایا، میرا پیا گھر آیا''۔
میرے دل کی مراد پوری اور میری توہین واپس ہونے والی تھی۔ وہاں گیٹ پر ایک شخص گھبرایا گھبرایا ہوا سا کھڑا تھا۔ بالکل پاکستان الیکشن کمیشن کی طرح، وہ اکیلا تھا اور اس کے جسم پر وردی یا کندھے پر پیتل کے بنے ہوئے پھول نہیں تھے۔ اس نے گھر کے افراد کی تعداد پوچھی اور امتحانی گتّے پر رکھی ہوئی ایک لسٹ میں پینسل سے تعداد درج کردی۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور بار بار آگے پیچھے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا، حالانکہ اس وقت گلی میں میرے اور اس کے سوا کوئی نہیں تھا۔ لکھنے میں غلطی ہوگئی تھی لہٰذا اس نے پینسل کی دم پر لگی ربڑ سے اسے فوراً مٹایا اور عین میرے سامنے درست کردیا۔ اسے آیندہ بھی اسی طرح آسانی سے مٹایا اور درست کیا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد اس نے ایک مارکر سے گھرانہ نمبر میرے مکان کے گیٹ پر درج کردیا، حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ وہ نمبر لکھنے کے بعد گیٹ کو ایک بوسہ بھی دیتا کیونکہ یہ مکان نیک نام چیف الیکشن کمشنر کے بڑے بھائی نامور آرکیٹیکٹ محترم فدا حسین جی ابراہیم کا ڈیزائن کیا ہوا ہے اور اسے خود انھوں نے ہی اپنی نگرانی میں تعمیر کرایا تھا۔ الیکشن کمیشن سے یہ ''رشتہ داری'' ظاہر کرکے دراصل میں نے ایک عرضی ڈال دی ہے کہ ترجیحی اور سفارشی بنیادوں پر میرا ووٹ واپس لایا جائے کیونکہ الحمد للہ کمیشن کی سخت رنگ لائی ہے اور لگ بھگ ایک مہینہ گزرنے کے باوجود میرا ووٹ آج بھی کراچی بدر ہے۔ بات پینسل سے لکھے ہوئے گھرانہ نمبر سے آگے نہیں بڑھی۔
ایسے ہی معاملے سے نمٹنے کے لیے گزشتہ دنوں کراچی میں ایک علامتی دھرنا دیا گیا تھا۔ اس میں باری باری بہت سی سیاسی جماعتوں نے اپنی حاضری لگوائی اور اپنے دکھڑے سنائے، کچھ دریوں پر تو پوری کی پوری جماعت ہی پوری آگئی تھی۔ اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے اپنے عملے اور فوجیوں کے ہمراہ خود بھی شہر کا دورہ کیا اور ووٹ کے تصدیقی عمل کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد بیان دیا کہ اوہو! یہ گھر گھر جا کے تصدیق کرنا تو بڑا مشکل کام ہے۔ یہ مشکل مہم سر ہوتی ہے یا نہیں، دھرنے والے انڈوں سے بچے نکلتے ہیں یا نہیں مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ مجھے تو بس اپنے روٹھے ہوئے ووٹ کی واپسی کا انتظار ہے۔ باقیوں نے جو کرنا ہوگا وہ خود ہی کرلیں گے۔ اور ہاں ایک اور اہم بات، سیاسی بیت بازی میں خواہ وہ کچھ بھی کہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہاں کے بڑے اسٹیک ہولڈرز کو بھی ووٹرز لسٹوں کے درست ہونے پر کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اس کے بارے میں نجی محفلوں میں وہ ہنس کے کہتے ہیں کہ یار مزہ تو تب آئے گا جب دوسروں کی مرضی کی ووٹر لسٹوں پر ہم وہی رزلٹ لے کے دکھائیں گے۔
اب اس کے بعد ایک ادھار چکانا ہے، بات پرانی ہورہی ہے لیکن جب سانپ کی کمر توڑ دی گئی ہو اور وہ پھر سے سر اٹھا کے ادھر ادھر دیکھ رہا ہو تو اس کا نوٹس ضرور لینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس شخص کا نام بھی نہیں لینا چاہتا، کسی جمہوریت دشمن، عہد شکن اور احسان فراموش بردہ فروش کا ذکر کوئی کیوں کرے، لیکن ایک ریٹائرڈ فوجی کی بے تحقیق کتاب نے اور سوشل میڈیا نے ایک بھارتی انٹرویو کو بنیاد بناکر اس ریٹائرڈ جنرل کو بانس پر چڑھا دیا ہے۔ میں نے وہ انٹرویو دیکھا ہے۔ الٹے سیدھے سوالات میں پھنسا ہوا بندہ اور کیا کرتا۔ کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا۔ نون لیگی مشاہد اللہ خان ہی ہوتا تو اس نے بھارتی اینکر کے بخیے ادھیڑ دینے تھے اور جناب آپ کا یہ اپنے فیصل رضا عابدی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کی پرفارمنس کم ازکم ایسے دس جرنیلوں کی مجموعی اداکاری سے بہتر ہوتی۔ اس نے نہ صرف اینکر کو سرعام کچا چبا جانا تھا بلکہ ٹی وی چینل کو ہمیشہ کے لیے بند کرانے سے پہلے اٹھنا بھی نہیں تھا۔ اب ہم اتنے بھی احمق نہیں ہیں کہ ایسے ڈراموں سے کوئی مفرور اپنی لٹی ہوئی عزت اور بکھری ہوئی ساکھ بحال کروانے کا ناٹک دکھائے اور ہمیں سمجھ ہی نہ آئے، جس شخص کی بدنیتی نے میری اور میرے ملک کی زندگی کے نو برسوں کی چٹنی بنا ڈالی ہو اس کی ہر حرکت پر پہرہ دینا چاہیے۔ کوئی رعایت اس بات پر کیوں دی جائے کہ اس کے دور میں ٹماٹر کی قیمت کم تھی۔
آخر میں ایک سوال، کسی مردار کے گوشت کی فی کلو قیمت کیا ہوتی ہے؟ ہوتی بھی ہے یا اسے مفت میں اٹھا کے باہر پھینک دیا جاتا ہے؟