غیر طبقاتی سماج کا خواب
بلدیہ ٹاؤن میں شہید ہونے والے مزدوروں کے قاتلوں کے خلاف مقدمہ واپس لے کر حکمرانوں نے مزدور دشمنی کا ثبوت پیش کیا ہے۔
خواب ایک ایسا تصور ہے کہ اگر ہم خواب دیکھنا بند کردیں تو گویا زندگی کی حرکت اور تغیر ہی ختم ہوجائے ۔ اگر ہم پرندوں کی طرح اڑنے کا خواب نہ دیکھتے تو شاید ہوائی جہاز اور راکٹ نہ بن پاتے، اگر ہم مکڑی کے جالے کی تیاری سے کپڑا بننے کی مطابقت کا خواب نہ دیکھتے تو شاید دور وحشت کی طرح بے لباس پھرتے، جیساکہ آج بھی ہمارے پسماندہ آباؤ اجداد، سماج کی ترقی سے بچھڑ کر رہ گئے ہیں۔ خواب میں ہم وہی کچھ دیکھتے ہیں جو اردگرد کے ماحول میں ہوتا رہتا ہے اسی کا عکس تصور یا خواب ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم ماضی کی سچائی کو جب دور وحشت میں تلاش کرتے ہیں تو ہمیں ان ننگ دھڑنگ معصوم وحشی انسانوں میں آج کے ترقی یافتہ اور مہذب انسانوں کے مقابلے میں کچھ ایسی باتیں ذہنوں میں نقش ہوجاتی ہیں جو دور جدید سے اعلیٰ اور ارفع ہیں۔
مثال کے طور پر دور وحشت میں سب سے برا کام اور جرم یہ تھا کہ اگر کوئی کسی کی مدد کرنے سے انکار کردے۔ حسد، قتل، دشمن، تیرا اور میرا کے الفاظ سے بھی ناآشنا تھے۔ ملکیت کا تصور ہی نہیں تھا۔ مگر آج ہم ملکیت کے تصور کے خواب غفلت میں جی رہے ہیں، مگر انسان شروع سے ایسا نہیں تھا۔ اس لیے کہ انسان کو بحیثیت مجموعی اجتماعی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑتا تھا۔ خاص کر خونخوار جانوروں سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کو مل کر پالنے کے لیے۔ اس لیے بھی کہ ایک سال سے قبل انسان کے بچے چل بھی نہیں سکتے جب کہ مرغی، بکری، ہرن، گائے بھینس، مگرمچھ، کچھوا اور سانپ وغیرہ کے بچے پیدا ہوتے ہی چل پڑتے ہیں۔ جانور ذخیرہ نہیں کرتے اور بھوکے بھی نہیں مرتے جب کہ طبقاتی نظام میں انسان ذخیرہ کرتا ہے اور وہی بھوکا بھی رہتا ہے۔
اکثر میرے پاس فون آتے ہیں کہ آپ غیر طبقاتی معاشرے کی خواب نما بات کرتے ہیں، غیر طبقاتی معاشرہ ہوتا کیا ہے؟ اور طبقہ کس کو کہتے ہیں؟ نسل انسانی کی مساوات یا برابری اور برادری والا معاشرہ کیسے نافذ ہوگا یا یہ صرف ایک خواب تک رہ جائے گا۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ایسا معاشرہ ممکن نہیں، جیساکہ آپ کہتے ہیں کہ ''ساری دنیا سارے لوگوں کی ہوگی اور ہر طرف محبت کے پھول کھلیں گے۔'' سماج میں بسنے والے ایسے انسانی گروہ جن کے معاشی مفادات یکساں ہوتے ہیں، اسے طبقہ کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر حیات آباد، ماڈل ٹاؤن، ڈیفنس، کلفٹن اور سیٹلائٹ ٹاؤن وغیرہ وغیرہ۔ یہاں اعلیٰ طبقہ یا حکمران طبقات کے لوگ بستے ہیں۔ جن کے ہر گھر میں بڑی بڑی گاڑیاں اور متعدد ملازمین ہوتے ہیں، جن کے بچے اولیول میں پڑھ سکتے ہیں۔ پھر متوسط طبقہ ہے جیساکہ ہشت نگری، روسی مارکیٹ، مغل پورہ، لیاقت آباد اور ناظم آباد وغیرہ یہاںکے باسیوں کی آمدنی کروڑوں نہیں بلکہ 25 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ محنت کش طبقہ ہوتا ہے جو مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ہے۔ جیساکہ شہروں میں مچھر کالونی،گیدڑ کالونی، بھینس کالونی، نمک منڈی، بھگوان پورہ، اورنگی ٹاؤن، لیاری اور کیماڑی وغیرہ ۔ یہاں کے لوگ محنت کش طبقہ یا مزدور طبقے کے لوگ کہلاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کی تنخواہیں یا آمدنی 5 ہزار سے 25 ہزار روپے سے اوپر نہیں ہے۔ جہاں تک دیہی علاقوں کے بے زمین اور کم زمین رکھنے والے کسانوں کا تعلق ہے ان کی حالت تو اور بھی بری ہے، ہمارے ہاں انھیں ایک طرح کا زرعی غلام بھی کہا جاسکتا ہے، ان کی آمدنی چار ہزار سے 15 ہزار سے اوپر نہیں ہوتی۔ حکمران طبقات اور اعلیٰ طبقات کے لوگ ذہنی طور پر پسماندہ، بزدل، موقع پرست اور انقلاب دشمن ہوتے ہیں جب کہ محنت کش طبقہ (مزدور اور کسان) ذہنی طور پر ترقی پسند، بہادر اور انقلابی ہوتا ہے۔ جب انقلاب کے لیے محنت کش طبقہ سڑکوں پر نکل آتا ہے تو متوسط طبقہ ان کے پیچھے اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ انقلابی ہوجاتا ہے بلکہ اپنے مستقبل کے مفاد کی نگہبانی کے لیے مزدور طبقے کے پیچھے ہولیتا ہے۔
اب ہم جس نسل انسانی کی مساوات کی بات کرتے ہیں یہ کوئی خواب غفلت نہیں ہے بلکہ ماضی کے حقیقت پسندانہ خواب کو دور جدید کے تقاضے کے تحت عملی جامع پہنانا چاہتے ہیں۔ دنیا میں کون سا ایسا خطہ نہیں جہاں انسان، برادری اور برابری کی بنیاد پر نہ رہا ہو اور محبت کے گیت نہ گایا ہو۔ پیرو کی تہذیب ، نال کی تہذیب، سیہون شریف کی تہذیب، موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیب، بھنبھور کی تہذیب، پنجاب کی پریم نگری، امریکا میں رابرٹ اوین کی بستی، لندن میں پال کی بستی، دہلی میں مولا بخش کے مریدوں کے اقدامات وغیرہ بہترین مثالیں ہیں۔ صوفی عنایت اللہ نے ضلع ٹھٹھہ کے بھنبھور میں اشتراکی بستی تشکیل دی تھی۔ مشترکہ کاشت ہوتی تھی اور مشترکہ لنگر بٹتا تھا۔ جنھیں ایرانی حکمرانوں کے حکم پر خراسان کے گورنر نے شہید کردیا۔ دہلی کے مولا بخش کو آئیبک نے شہید کیا۔ آج بھی موئن جو دڑو سے ہتھیار کا کوئی بھی نمونہ نہ مل پایا۔ کتنا پرامن اور محبت بھرا سماج تھا، جہاں کوئی بھوکا نہیں مرتا تھا۔
ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کے اصولوںپر سماج رواں دواں تھا۔ شاید لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی آتا ہوکہ ریاست کے بغیر دفاع، امور خارجہ، تعلیم، صحت اور امن و امان وغیرہ کے کام کیسے چلائیں گے۔ ذرا غور سے دیکھیں کہ صرف پاکستان میں 65 سال میں ریاست نے عوام کا خون نچوڑنے اور دولت مندوں کو مزید دولت مند بنانے کے سوا اور کیا کیا۔ صحت کی صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ لوگ اسپتالوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو ایسی وزارت صحت سے کیا فائدہ؟ عوام خود امداد باہمی کے ذریعے صحت، علاج معالجہ کا کام انجام دے سکتے ہیں، تعلیم کے شعبے کو لے لیں، سرکاری اسکولوں کی عمارتیں اور احاطے موجود ہیں مگر دیگر سہولتیں ناپید ہیں۔ تعلیم کا بجٹ 1 فیصد ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے تعلیم کو ایک بڑھیا تجارت بنا رکھا ہے۔ اگر تعلیمی ادارے نہ ہوں اور سارے لوگ با روزگار ہوں تو خود لکھے پڑھے لوگ ان پڑھوں کو پڑھائیں گے۔
زراعت کے شعبے میں وزراء زرعی اجناس کی لوٹ مار اور ذخیرہ کرنے کے سوا کرتے ہی کیا ہیں۔ سب سے زیادہ برآمدات چاول کی ویتنام اور انڈیا نے کی۔ ہمارے پاس 27 میٹرک ٹن چاول پڑا ہوا ہے جب کہ بازار میں 100 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ حکمران چاول کو بلاوجہ ذخیرہ کرنے کے بجائے عوام کو سستے داموں میں فروخت کرسکتے ہیں، یہی صورت حال کارخانوں کی ہے۔ یہاں پیداوار لوگوں کی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے نہیں کی جاتی بلکہ اپنے منافع میں اضافے کے لیے کی جاتی ہے۔ جہاں تک دفاع کا تعلق ہے تو 18 کروڑ عوام فوجی تربیت لے سکتے ہیں اور امور خارجہ کی ضرورت نہیں۔ ہر علاقے کے سرحدی شہری کمیٹیاں بناکر کسی کو آلو دے کر مچھلی لے لیں، کسی کو چاول دے کر تیل لے لیں، اس طرح باآسانی تبادلہ ہوسکتا ہے۔ گورنر آف اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان پر ملکی وغیرملکی قرضوں کا بوجھ15 ہزار ارب روپے کی خطرناک سطح پر پہنچ گیا ہے۔ مختلف شعبوں میں خرچ کیے جانے والی رقم کے عوض میں شہریوں کو کچھ نہیں ملتا۔
یہ سارے پیسے دولت مندوں کی دولت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن کراچی میں شہید ہونے والے مزدوروں (ہمارے سگے بھائی بہن) کے قاتلوں کے خلاف دائر کردہ مقدمہ واپس لے کر حکمرانوں نے کھلم کھلا سرمایہ داروں کا آلہ کار ہونے اور مزدور دشمنی کا بین ثبوت پیش کیا ہے۔ مگر مزدور طبقہ ان اقدامات کو کبھی بھی بھلا نہیں پائے گا۔ بہت زیادہ فلاحی ریاستیں کہلانے والے ملک آئس لینڈ، اسرائیل، ناروے، جاپان، جرمنی، امریکا اور کینیڈا وغیرہ خود اپنے عوام کا بدترین استحصال کر رہے ہیں۔ وہاں عوام کروڑوں کی تعداد میں بے روزگار ہیں اور اس جبروظلم کے خلاف آئے روز احتجاج بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے عوام کے حقیقی مسائل دال دلیہ سے توجہ ہٹانے کے لیے فضول اقدامات اور مباحثے میڈیا میں کروائے جاتے ہیں۔ آٹا مہنگا ہونے، تیل مہنگا ہونے اور بے روزگاری میں اضافے پر کوئی ہڑتال نہیں کرتا۔انھیں تو صرف بھارت کے خلاف اور بھارت پاکستان کے خلاف بیان بازی میں عوام کو الجھائے رکھنا ہیں۔ انھیں صرف دولت مند ہی یاد آتے ہیں۔ وہ پیسے وصول کرکے عوام پر خرچ تو ہوتے نہیں نجانے کہاں جاتے ہیں۔ اس لیے اس طبقاتی معاشرے کو ختم کرکے محنت کش طبقہ انقلاب کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے گا جو ملکیت کے تصور کو ختم کرکے ساری دولت کو سماجی ملکیت میں تبدیل کرکے عوام کو خوشحال، محبت اور انسانی اخوت کا راج قائم کرے گا۔
مثال کے طور پر دور وحشت میں سب سے برا کام اور جرم یہ تھا کہ اگر کوئی کسی کی مدد کرنے سے انکار کردے۔ حسد، قتل، دشمن، تیرا اور میرا کے الفاظ سے بھی ناآشنا تھے۔ ملکیت کا تصور ہی نہیں تھا۔ مگر آج ہم ملکیت کے تصور کے خواب غفلت میں جی رہے ہیں، مگر انسان شروع سے ایسا نہیں تھا۔ اس لیے کہ انسان کو بحیثیت مجموعی اجتماعی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑتا تھا۔ خاص کر خونخوار جانوروں سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کو مل کر پالنے کے لیے۔ اس لیے بھی کہ ایک سال سے قبل انسان کے بچے چل بھی نہیں سکتے جب کہ مرغی، بکری، ہرن، گائے بھینس، مگرمچھ، کچھوا اور سانپ وغیرہ کے بچے پیدا ہوتے ہی چل پڑتے ہیں۔ جانور ذخیرہ نہیں کرتے اور بھوکے بھی نہیں مرتے جب کہ طبقاتی نظام میں انسان ذخیرہ کرتا ہے اور وہی بھوکا بھی رہتا ہے۔
اکثر میرے پاس فون آتے ہیں کہ آپ غیر طبقاتی معاشرے کی خواب نما بات کرتے ہیں، غیر طبقاتی معاشرہ ہوتا کیا ہے؟ اور طبقہ کس کو کہتے ہیں؟ نسل انسانی کی مساوات یا برابری اور برادری والا معاشرہ کیسے نافذ ہوگا یا یہ صرف ایک خواب تک رہ جائے گا۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ایسا معاشرہ ممکن نہیں، جیساکہ آپ کہتے ہیں کہ ''ساری دنیا سارے لوگوں کی ہوگی اور ہر طرف محبت کے پھول کھلیں گے۔'' سماج میں بسنے والے ایسے انسانی گروہ جن کے معاشی مفادات یکساں ہوتے ہیں، اسے طبقہ کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر حیات آباد، ماڈل ٹاؤن، ڈیفنس، کلفٹن اور سیٹلائٹ ٹاؤن وغیرہ وغیرہ۔ یہاں اعلیٰ طبقہ یا حکمران طبقات کے لوگ بستے ہیں۔ جن کے ہر گھر میں بڑی بڑی گاڑیاں اور متعدد ملازمین ہوتے ہیں، جن کے بچے اولیول میں پڑھ سکتے ہیں۔ پھر متوسط طبقہ ہے جیساکہ ہشت نگری، روسی مارکیٹ، مغل پورہ، لیاقت آباد اور ناظم آباد وغیرہ یہاںکے باسیوں کی آمدنی کروڑوں نہیں بلکہ 25 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ محنت کش طبقہ ہوتا ہے جو مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ہے۔ جیساکہ شہروں میں مچھر کالونی،گیدڑ کالونی، بھینس کالونی، نمک منڈی، بھگوان پورہ، اورنگی ٹاؤن، لیاری اور کیماڑی وغیرہ ۔ یہاں کے لوگ محنت کش طبقہ یا مزدور طبقے کے لوگ کہلاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کی تنخواہیں یا آمدنی 5 ہزار سے 25 ہزار روپے سے اوپر نہیں ہے۔ جہاں تک دیہی علاقوں کے بے زمین اور کم زمین رکھنے والے کسانوں کا تعلق ہے ان کی حالت تو اور بھی بری ہے، ہمارے ہاں انھیں ایک طرح کا زرعی غلام بھی کہا جاسکتا ہے، ان کی آمدنی چار ہزار سے 15 ہزار سے اوپر نہیں ہوتی۔ حکمران طبقات اور اعلیٰ طبقات کے لوگ ذہنی طور پر پسماندہ، بزدل، موقع پرست اور انقلاب دشمن ہوتے ہیں جب کہ محنت کش طبقہ (مزدور اور کسان) ذہنی طور پر ترقی پسند، بہادر اور انقلابی ہوتا ہے۔ جب انقلاب کے لیے محنت کش طبقہ سڑکوں پر نکل آتا ہے تو متوسط طبقہ ان کے پیچھے اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ انقلابی ہوجاتا ہے بلکہ اپنے مستقبل کے مفاد کی نگہبانی کے لیے مزدور طبقے کے پیچھے ہولیتا ہے۔
اب ہم جس نسل انسانی کی مساوات کی بات کرتے ہیں یہ کوئی خواب غفلت نہیں ہے بلکہ ماضی کے حقیقت پسندانہ خواب کو دور جدید کے تقاضے کے تحت عملی جامع پہنانا چاہتے ہیں۔ دنیا میں کون سا ایسا خطہ نہیں جہاں انسان، برادری اور برابری کی بنیاد پر نہ رہا ہو اور محبت کے گیت نہ گایا ہو۔ پیرو کی تہذیب ، نال کی تہذیب، سیہون شریف کی تہذیب، موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیب، بھنبھور کی تہذیب، پنجاب کی پریم نگری، امریکا میں رابرٹ اوین کی بستی، لندن میں پال کی بستی، دہلی میں مولا بخش کے مریدوں کے اقدامات وغیرہ بہترین مثالیں ہیں۔ صوفی عنایت اللہ نے ضلع ٹھٹھہ کے بھنبھور میں اشتراکی بستی تشکیل دی تھی۔ مشترکہ کاشت ہوتی تھی اور مشترکہ لنگر بٹتا تھا۔ جنھیں ایرانی حکمرانوں کے حکم پر خراسان کے گورنر نے شہید کردیا۔ دہلی کے مولا بخش کو آئیبک نے شہید کیا۔ آج بھی موئن جو دڑو سے ہتھیار کا کوئی بھی نمونہ نہ مل پایا۔ کتنا پرامن اور محبت بھرا سماج تھا، جہاں کوئی بھوکا نہیں مرتا تھا۔
ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کے اصولوںپر سماج رواں دواں تھا۔ شاید لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی آتا ہوکہ ریاست کے بغیر دفاع، امور خارجہ، تعلیم، صحت اور امن و امان وغیرہ کے کام کیسے چلائیں گے۔ ذرا غور سے دیکھیں کہ صرف پاکستان میں 65 سال میں ریاست نے عوام کا خون نچوڑنے اور دولت مندوں کو مزید دولت مند بنانے کے سوا اور کیا کیا۔ صحت کی صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ لوگ اسپتالوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو ایسی وزارت صحت سے کیا فائدہ؟ عوام خود امداد باہمی کے ذریعے صحت، علاج معالجہ کا کام انجام دے سکتے ہیں، تعلیم کے شعبے کو لے لیں، سرکاری اسکولوں کی عمارتیں اور احاطے موجود ہیں مگر دیگر سہولتیں ناپید ہیں۔ تعلیم کا بجٹ 1 فیصد ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے تعلیم کو ایک بڑھیا تجارت بنا رکھا ہے۔ اگر تعلیمی ادارے نہ ہوں اور سارے لوگ با روزگار ہوں تو خود لکھے پڑھے لوگ ان پڑھوں کو پڑھائیں گے۔
زراعت کے شعبے میں وزراء زرعی اجناس کی لوٹ مار اور ذخیرہ کرنے کے سوا کرتے ہی کیا ہیں۔ سب سے زیادہ برآمدات چاول کی ویتنام اور انڈیا نے کی۔ ہمارے پاس 27 میٹرک ٹن چاول پڑا ہوا ہے جب کہ بازار میں 100 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ حکمران چاول کو بلاوجہ ذخیرہ کرنے کے بجائے عوام کو سستے داموں میں فروخت کرسکتے ہیں، یہی صورت حال کارخانوں کی ہے۔ یہاں پیداوار لوگوں کی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے نہیں کی جاتی بلکہ اپنے منافع میں اضافے کے لیے کی جاتی ہے۔ جہاں تک دفاع کا تعلق ہے تو 18 کروڑ عوام فوجی تربیت لے سکتے ہیں اور امور خارجہ کی ضرورت نہیں۔ ہر علاقے کے سرحدی شہری کمیٹیاں بناکر کسی کو آلو دے کر مچھلی لے لیں، کسی کو چاول دے کر تیل لے لیں، اس طرح باآسانی تبادلہ ہوسکتا ہے۔ گورنر آف اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان پر ملکی وغیرملکی قرضوں کا بوجھ15 ہزار ارب روپے کی خطرناک سطح پر پہنچ گیا ہے۔ مختلف شعبوں میں خرچ کیے جانے والی رقم کے عوض میں شہریوں کو کچھ نہیں ملتا۔
یہ سارے پیسے دولت مندوں کی دولت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن کراچی میں شہید ہونے والے مزدوروں (ہمارے سگے بھائی بہن) کے قاتلوں کے خلاف دائر کردہ مقدمہ واپس لے کر حکمرانوں نے کھلم کھلا سرمایہ داروں کا آلہ کار ہونے اور مزدور دشمنی کا بین ثبوت پیش کیا ہے۔ مگر مزدور طبقہ ان اقدامات کو کبھی بھی بھلا نہیں پائے گا۔ بہت زیادہ فلاحی ریاستیں کہلانے والے ملک آئس لینڈ، اسرائیل، ناروے، جاپان، جرمنی، امریکا اور کینیڈا وغیرہ خود اپنے عوام کا بدترین استحصال کر رہے ہیں۔ وہاں عوام کروڑوں کی تعداد میں بے روزگار ہیں اور اس جبروظلم کے خلاف آئے روز احتجاج بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے عوام کے حقیقی مسائل دال دلیہ سے توجہ ہٹانے کے لیے فضول اقدامات اور مباحثے میڈیا میں کروائے جاتے ہیں۔ آٹا مہنگا ہونے، تیل مہنگا ہونے اور بے روزگاری میں اضافے پر کوئی ہڑتال نہیں کرتا۔انھیں تو صرف بھارت کے خلاف اور بھارت پاکستان کے خلاف بیان بازی میں عوام کو الجھائے رکھنا ہیں۔ انھیں صرف دولت مند ہی یاد آتے ہیں۔ وہ پیسے وصول کرکے عوام پر خرچ تو ہوتے نہیں نجانے کہاں جاتے ہیں۔ اس لیے اس طبقاتی معاشرے کو ختم کرکے محنت کش طبقہ انقلاب کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے گا جو ملکیت کے تصور کو ختم کرکے ساری دولت کو سماجی ملکیت میں تبدیل کرکے عوام کو خوشحال، محبت اور انسانی اخوت کا راج قائم کرے گا۔