ایک خط اور جنات و سحر

جن باتوں کی مناہی ہے وہ ہی کرتے ہیں بلکہ دھڑلے سے کرتے ہیں، تبلیغ دین کا کوئی بیڑہ نہیں اٹھاتا ہے۔

nasim.anjum27@gmail.com

فی زمانہ جہاں قتل و غارت نے مایوسیوں کی بے کراں وسعتوں کو طویل ترین کردیا ہے وہاں توہم پرستی بھی عروج پر ہے، اس کے ساتھ ساتھ جادو ٹونہ، اثرات، سفلی علم، کے چرچے بھی جابجا نظر آتے ہیں، موجودہ دور میں ہر دوسرا یا تیسرا گھر اس قسم کی وبا میں گھرا ہوا ہے، ایک طرف افلاس کی پرخار راہ ہے تو دوسری طرف ذہنی اذیت، روحانی تکلیف نے زندگی کے چار دنوں کو گزارنا دوبھر کردیا ہے، ہر شخص کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا ہوا ہے۔ تفکرات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ سانس لینے میں بھی دشواری پیش آتی ہے، اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو ہر روز بے شمار لوگ زندگی کے جہنم سے آزاد ہوجاتے اسی لیے اللہ ربّ العزت نے خودکشی کو حرام قرار دیا تاکہ لوگ دکھوں اور مصائب پر صبر کرنا سیکھیں ۔

آج جو بے شمار لوگ حالات زمانہ سے تنگ آکر اپنی زندگی کا دیا اپنے ہاتھوں بجھا دیتے ہیں، یقینا وہ گمراہ ہیں، اسلامی و دینوی معلومات سے ان کا دور دور کا واسطہ نہیں، ورنہ اس قدر خودکشیوں کے واقعات ہرگز جنم نہ لیتے، اگر وہ جانتے کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا وہ کبھی ان لوگوں کی طرح معاف ہرگز نہ کیے جائیں گے جو لوگ قتل کرتے اور جادو کرتے ہیں اور دوسروں کی پرسکون زندگیوں میں زہر بھرتے ہیں۔ حسد اور نفرت کی آگ نے ان کی عقل سلیم کو جلاکر خاکستر کردیا ہے، اب وہ اپنے دشمن کو تباہ و برباد کرنے کے خواہش مند ہیں وہ اپنی عاقبت بھول چکے ہیں وہ یہ بھی بھول گئے ہیں کہ دنیا میں بھی ان کا انجام عبرتناک ہوگا، اپنی نمازوں سے بھی غافل ہیں، خوف خدا ختم ہوچکا ہے۔

اپنی اسی جہالت کی بنا پر وہ جادوگروں سے رجوع کرتے ہیں، اللہ پاک نے قرآن پاک میں جادو کے بارے فرمایا ہے کہ وہ(یہود) اس جادو کے پیچھے پڑ گئے جس کو سلیمانؑ کے زمانے میں شیاطین پڑھتے تھے اور سلیمانؑ نے راہ کفر اختیار نہیں کی، بلکہ شیاطین ہی کفر کے مرتکب ہوتے تھے، جو لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور وہ اس جادو کے پیچھے بھی پڑ گئے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کیا گیا تھا اور وہ کسی کو نہیں سکھاتے تھے جب تک ان سے نہ کہہ دیتے کہ ہم تو ایک ذریعہ آزمائش ہیں پس تم کافر نہ بنو (باوجود اس کے ) یہ لوگ ان سے وہ باتیں سیکھتے جو خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالتے تھے ۔ ان لوگوں نے وہ باتیں سیکھیں جو خود ان کے لیے مضر تھیں اور انھیں کوئی نفع نہیں پہنچاتی تھیں اور یقینا انھیں معلوم تھا کہ جن لوگوں نے اس مضر علم کو لے لیا ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، کوئی حصہ نہ ہوگا (1.2) سورۃ البقرہ۔

جادو کرنے والوں کو اپنے اس مکروہ عمل سے باز آجاناچا ہیے ان کے اس قبیح فعل سے بہت سے گھرانے برباد ہوجاتے ہیں، ایسے ہی کئی گھرانوں کی داستانیں ہم ہر روز بذریعہ چینل یا ایک دوسرے سے گفتگو کے ذریعے سنتے ہیں، کہیں شریر قسم کے جنات نے زندگی کو اجیرن کردیا ہے کہیں جادو ٹونے نے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ مغرب میں تو بھوت اور دوسری بلاؤں کے قصے بہت عام ہیں وہاں تقریباً ہر گھر میں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں مسلم خاندان ان سے بچنے کے لیے اللہ کے کلام کا سہارا لیتے ہیں اور غیر مسلم یا تو ڈر کے مارے گھر چھوڑ دیتے ہیں یا پھر انھی حالات میں رہنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوجاتے ہیں۔ جنات کا ذکر بھی قرآن پاک میں ملتا ہے اور سورہ جن میں ان کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن کی تعلیم سیکھنا وغیرہ مذکور ہے۔ جادو ٹونے اور جنات کے حوالے سے ہمیں ایک خاتون اور ان کے مصائب یاد آگئے ہیں، پچھلے دنوں انھوں نے ہماری کالم نگاری کے حوالے سے ایک خط لکھا تھا اور پھر فون پر بھی بات کی، ان کا نام شمیم بیگ ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اچھے برے کا شعور رکھتی ہیں، شاید اسی وجہ سے صبر و شکر کے ساتھ آیات قرآنی سے اپنا علاج خود کرتی ہیں۔ ان کے خط سے 2 پیراگراف نذر قارئین کرتی ہوں، شاید ان کے مسئلے کا حل نکل آئے۔


میڈم! میں سالہا سال سے اس تکلیف میں مبتلا ہوں، کئی گھر تبدیل کرچکی ہوں، لیکن ہر گھر میں مجھے مافوق الفطرت چیزوں کا گمان ہوتا ہے، کھانا پکانے کی خوشبوئیں نصف شب کے بعد میرے قریب سے ہی آتی ہیں، عطر کی خوشبو بھی میرے اطراف میں رہتی ہے، پچھلے گھر میں سوتے میں کوئی اس طرح اٹھاتا کہ مجھ پر ہوائی جہاز جیسی آواز کے ساتھ کوئی چیز گرتی اور میری آنکھ کھل جاتی، اس کے بعد یہ ہوا کہ جب ہم نے دوسرا گھر بدلا تو یہ تکلیف دوسری شکل میں آنے لگی، کوئی سوتے میں بائیں پیر میں راڈ جیسی چیز ڈالتا، جس سے میری آنکھ کھل جاتی اور شدید تکلیف میں مبتلا ہوجاتی۔

اس کے بعد جہاں بھی میں ہوتی میرے قریب سے، سانس لینے کی آوازیں، کبھی کتّے کے بھونکنے کی آوازیں، تو کبھی برتن گرنے اور سوئچ آن آف کرنے کی آوازیں آتیں، میں خوفزدہ ہوجاتی، قرآنی آیات کا ورد کرتی اسی وجہ سے مجھے کوئی بھی چیز نقصان نہ پہنچا سکی، لیکن خوف و ہراس غالب آگیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ پانی کے قطرے صبح و شام مجھ پر گرتے رہتے ہیں، خواہ بستر میں ہوں، یا گرم کپڑے پہنے ہوں، سفر میں ہوں یا حضر میں ، پانی گرنے کا سلسلہ جاری ہے، پانی کی نمی مجھے اپنے جسم پر محسوس ہوتی ہے، کمال کی بات یہ ہے کہ کپڑے گیلے نہیں ہوتے، لیکن ایک زمانہ تھا کہ کپڑے اور بستر گیلے ہوجاتے تھے، پانی کی موٹی موٹی بوندیں گرتی تھیں، کئی بزرگان دین سے رجوع کیا وقتی فائدہ ہوا لیکن مکمل طور پر نہیں۔ کچھ معزز حضرات نے رقم بھی طلب کی وہ بھی دی، میرے ایک عزیز کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوگیا ہے، ایسا لگ رہا ہے یہ مسئلہ بڑھتا جارہا ہے، میں شادی شدہ اور چار بچوں کی ماں ہوں، کیا حقیقتاً کوئی ایسا عالم یا طبیب ہے جو مجھے اس تکلیف سے نجات دلادے جو آوازیں میرے اطراف میں ابھرتی ہیں انھیں اکثر میرے شوہر اور بچوں نے بھی سنا ہے، میڈم! آپ ضرور بذریعہ کالم میرے مسئلے کو حل کروائیں۔

شمیم بیگ صاحبہ کا خط 5 صفحات پر مشتمل ہے ، میں نے چند سطور میں ان کی تکالیف کا ذکر کیا ہے، شاید قارئین میں سے کوئی ایسا شخص ہو جو ان کا روحانی علاج کرسکے، میرا اپنا مشورہ یہی ہے کہ جس قدر ممکن ہو قرآن پاک کی تلاوت کی جائے، اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ (اور ہم نے قرآن سے وہ نازل فرمایا جو مسلمانوں کے لیے شفا و رحمت ہے) حدیث میں ہے کہ فاتحہ الکتاب (سورہ فاتحہ) ہر مرض کی دوا ہے، معوذات کا پڑھنا بھی حدیث سے ثابت ہے اس سے مراد قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ہے اور بعض کے نزدیک چاروں قل حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معوذ تین پڑھ کر اپنے اوپر دم فرمایا کرتے تھے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ جادو ٹونہ اور انس و جن کے شر سے بچنے کے لیے دعائے شفا ء سورہ فاتحہ، آیۃالکرسی اور معوذ تین پڑھنی چاہیے۔

آج اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور اپنی زندگیوں پر غور کریں تو اس بات کا اندازہ بدرجہ اتم ہوجاتا ہے کہ ہم مسلمانوں نے اپنی زندگی کا مقصد نمودونمائش کو بنالیا ہے، شادی بیاہ سے لے کر موت کی رسومات تک پیسے کا بے دریغ استعمال اور وقت کا زیاں ہے، اس بات سے ہٹ کر یہ بات قطعی طور نہیں سوچی جاتی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کیا ہے؟ اللہ اور اس کے حبیب احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا احکامات دیے، ہمارے دکھاوے کے طور طریقوں سے کیا امت مسلمہ کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ بات وہ کی جائے، طریقہ وہ اپنایا جائے جس کی بدولت دین و دنیا سنور جائے، مذہبی فریضہ بھی روایت کے تحت ہی ادا کیا جاتا ہے، ہر سال مذہبی تہوار آتے ہیں، ان تہواروں کو جوش و خروش سے منانا بھی اہم قرار دیا جاتا ہے، لیکن جن باتوں کی مناہی ہے وہ ہی کرتے ہیں بلکہ دھڑلے سے کرتے ہیں، تبلیغ دین کا کوئی بیڑہ نہیں اٹھاتا ہے۔ اقبال نے انھی لوگوں کے لیے کہا تھا:

رہ گئی رسم اذاں' روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا' تلقین غزالی نہ رہی
Load Next Story