ڈاکٹر روتھ فاؤ کے ساتھ ایک شام
کراچی کے کینٹ اسٹیشن کے باہر کوڑھیوں کی بستی تھی اور دوسری بستی سٹی اسٹیشن سے پہلے ریلوے کالونی کے قریب آباد تھی،
بہت عرصے بعد کراچی میں ایک خوبصورت شام، میں نے گزاری یہ 28 جنوری 2013 کی سہانی شام تھی، چار روز قبل اس شام کا دعوت نامہ مجھے موصول ہوچکا تھا اور اب اس شام کے انتظاری لمحات گزر رہے تھے، آخر کار 28 جنوری کا سورج طلوع ہوا، میں نے الماری کا پٹ کھولا اور پنک کلر کی قمیض کا انتخاب کیا، دن کے اجالے مدھم پڑنے لگے، سورج الوداعی کرنوں کے ساتھ سطح سمندر کے قریب پہنچ گیا تھا، میں نے آخری بار خود کو آئینے میں دیکھا، سب کچھ اچھا لگ رہا تھا، گھر سے نکلا، چوراہے پر آیا، پہلے ہی رکشے والے سے کرائے کی بات طے ہوگئی اور رکشہ آرٹس کونسل کراچی کی جانب چل دیا۔
آج آرٹس کونسل کراچی میں ایک بہت ہی عظیم خاتون کے ساتھ شام کا اہتمام تھا، یہ خاتون صدیوں پر محیط ہے اور رہے گی، آج اس خاتون کے قائم کردہ ادارے کے 60 سال مکمل ہوئے تھے اور اس دن کو منانے کے لیے لوگ جمع تھے۔
یہ 87 سال کی خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ ہیں، جن کا آبائی وطن جرمنی تھا، 60 سال پہلے یہ پری چہرہ دوشیزہ ہندوستان جانے کے لیے جرمنی سے نکلی، اس لڑکی کو انسانوں کی خدمت کرنے کا جنون تھا، یہ پیدائشی خدائی خدمت گار تھی، ہندوستان جاتے ہوئے کچھ دن کراچی میں رکنا تھا، روتھ فاؤ نے یہ کچھ دن بھی دکھی انسانوں کی تلاش میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ یہ 1955 کا زمانہ تھا، پاکستان نیا نیا بنا تھا، روتھ فائو کو پتہ چلا کہ کوڑھ کے موذی مرض میں مبتلا لوگ بہت برے حالوں اس شہر میں زندگی گزار رہے ہیں، بس یہ پتہ چلنا تھا اور خوبصورت روتھ فاؤ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوڑھیوں کی بستی میں جا پہنچیں۔ اسی زمانے میں کراچی شہر کے کینٹ اسٹیشن کے باہر کوڑھیوں کی بستی تھی اور دوسری بستی سٹی اسٹیشن سے پہلے ریلوے کالونی کے قریب آباد تھی، کوڑھی مرد عورتیں، بوڑھے، جوان انتہائی برے حالات میں ان بستیوں میں رہ رہے تھے، اس وقت لوگوں کو اس موذی مرض کے بارے میں مکمل آگاہی بھی نہیں تھی اور لوگ اپنے مریضوں کو ان بستیوں میں مرنے کے لیے چھوڑ جاتے تھے۔ روتھ فائو جب ان بستیوں میں پہنچیں تو دیکھا کہ جگہ جگہ گٹر کا گندا پانی کھڑا تھا اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، ان حالات میں کوڑھی لوگ جھونپڑیوں میں روپوش پڑے ہوئے تھے، نوجوان خوبصورت روتھ فاؤ نے ان کو حوصلہ دیا اور لوگوں کو بتایا کہ کوڑھ موذی مرض نہیں ہے، ان مریضوں سے دوری اچھی بات نہیں، بلکہ ان کو پیار دینا چاہیے۔یہ قابل رحم ہیں۔
کراچی میں کوڑھ کے مریضوں کو دیکھ کر جواں سال روتھ فاؤ نے اسی شہر میں مستقل رہنے کا ارادہ کرلیا اور ہندوستان جانے کا پروگرام ترک کردیا۔ روتھ فاؤ نے کراچی میں موجود کوڑھیوں کی بستیوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ صفائی ستھرائی کے کام کیے اور ان مریضوں کے کوڑھ زدہ حصوں پر اپنے ہاتھوں سے مرہم رکھا۔
شہر میں موجود ریلوے اسٹیشن کے قریب آباد کوڑھی بستیوں میں اناج کی بھری ریلوے بوگیوں سے بڑے بڑے چوہے نکل کر آجاتے اور کوڑھیوں کے جسموں کو کتر کتر کر کھاتے رہتے، جن کا سوئے ہوئے کوڑھیوں کو احساس بھی نہ ہوتا۔ ان حالات میں روتھ فاؤ نے اس عظیم انسانی خدمت کا آغاز کیا، اور پھر اس کام کو پورے ملک میں پھیلادیا۔ صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) میں یہ مرض بہت زیادہ تھا، پنجاب اور بلوچستان بھی محفوظ نہیں تھے، مگر آج اس عظیم ہستی کی بدولت پورے پاکستان سے کوڑھ کا موذی مرض تقریباً ختم ہوچکا ہے۔
ایک خوبصورت لڑکی جرمنی سے اپنا گھر بار، ماں باپ، بہن بھائی چھوڑ کر ہمارے ملک پاکستان میں آئی اور یہیں کی ہوکر رہ گئی، اس عظیم انسان نے ان کوڑھیوں کے ساتھ اپنی جوانی گزاردی، اپنی امنگیں نچھاور کردیں اور کوڑھ کے موذی مرض کو پاکستان سے ختم کردیا، وہ کوڑھی مریض جن کو ان کے اپنے بھی چھوڑ دیتے تھے، ان کی مونس و غم گسار بنا کر ڈاکٹر روتھ فاؤکو اللہ نے بھیج دیا۔
"Merie Adelaide Leprosy Center" کے نام سے ڈاکٹر روتھ فاؤ کا ادارہ ریگل صدر کراچی میں موجود ہے اور آج بھی انسانی خدمات جاری و ساری ہیں۔
میں آرٹس کونسل کراچی کے ہال میں پہنچا، اسٹیج پر 87 سالہ ڈاکٹر روتھ فاؤ وہیل چیئر پر بیٹھی تھیں، ان کا سرخ و سفید نور سے چمکتا دمکتا چہرہ، نیلی آنکھیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ میں دیکھ رہا تھا، اور اپنی قسمت پر خوش ہورہا تھا کہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کے ساتھ میں بھی ہوں اور وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر میرے سامنے بیٹھی ہیں۔ اسٹیج پر شہر کے ایڈمنسٹریٹر محمد حسین سید بھی بیٹھے تھے، تقریریں ہوتی رہیں، مگر میں ڈاکٹر صاحبہ ہی کو دیکھ رہا تھا، میرا دھیان انھی کی طرف تھا، میں نے کچھ بھی نہیں سنا کہ میرے سامنے ڈاکٹر روتھ فاؤ کا بولتا کردار تھا، تقریب ختم ہورہی تھی، اب سارے مہمان آرٹس کونسل کے کیفے گلرنگ میں جمع تھے، جہاں چائے کا اہتمام تھا، ڈاکٹر روتھ فاؤ بھی وہیل چیئر پر موجود تھیں، میں اس تاک میں تھا کہ کسی طرح ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ سکوں اور پھر ایسا ہوگیا، اب میں ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا تھا، میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا، پھر ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیا کہ جن ہاتھوں نے ہزاروں لاکھوں کوڑھی مریضوں کے زخموں پر مرہم رکھا تھا، پھر میں نے ان ہاتھوں پر اپنا ماتھا ٹیکا۔ میری آنکھیں نم تھیں، ڈاکٹر صاحبہ نے میرے جھکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔ یہ لمحات میرے زندگی کا حاصل ہیں۔ میں پاکستان کی زندہ مدر ٹریسا کے ساتھ تھا۔
دنیا بھر کے بڑے بڑے اداروں نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ دیے ہیں، پاکستان نے بھی انھیں ''نشان قائد اعظم'' دیا ہے۔ حبیب جالب امن ایوارڈ (سال2011) بھی ڈاکٹر روتھ فاؤ نے قبول کیا اور اس ایوارڈ کی توقیر میں اضافہ کیا، ڈاکٹر صاحب جیسے لوگوں کا دم غنیمت ہے، ورنہ'' اس شہر خرابی میں۔۔۔۔'' میں خوشیاں سمیٹے گھر واپس جارہا ہوں، ستاروں ٹنکے سرمئی، آنچل لیے رات اتر رہی ہے، میں دیکھ رہا ہوں، رات اتر رہی ہے، ہاں رات اتر رہی ہے۔
آج آرٹس کونسل کراچی میں ایک بہت ہی عظیم خاتون کے ساتھ شام کا اہتمام تھا، یہ خاتون صدیوں پر محیط ہے اور رہے گی، آج اس خاتون کے قائم کردہ ادارے کے 60 سال مکمل ہوئے تھے اور اس دن کو منانے کے لیے لوگ جمع تھے۔
یہ 87 سال کی خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ ہیں، جن کا آبائی وطن جرمنی تھا، 60 سال پہلے یہ پری چہرہ دوشیزہ ہندوستان جانے کے لیے جرمنی سے نکلی، اس لڑکی کو انسانوں کی خدمت کرنے کا جنون تھا، یہ پیدائشی خدائی خدمت گار تھی، ہندوستان جاتے ہوئے کچھ دن کراچی میں رکنا تھا، روتھ فاؤ نے یہ کچھ دن بھی دکھی انسانوں کی تلاش میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ یہ 1955 کا زمانہ تھا، پاکستان نیا نیا بنا تھا، روتھ فائو کو پتہ چلا کہ کوڑھ کے موذی مرض میں مبتلا لوگ بہت برے حالوں اس شہر میں زندگی گزار رہے ہیں، بس یہ پتہ چلنا تھا اور خوبصورت روتھ فاؤ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوڑھیوں کی بستی میں جا پہنچیں۔ اسی زمانے میں کراچی شہر کے کینٹ اسٹیشن کے باہر کوڑھیوں کی بستی تھی اور دوسری بستی سٹی اسٹیشن سے پہلے ریلوے کالونی کے قریب آباد تھی، کوڑھی مرد عورتیں، بوڑھے، جوان انتہائی برے حالات میں ان بستیوں میں رہ رہے تھے، اس وقت لوگوں کو اس موذی مرض کے بارے میں مکمل آگاہی بھی نہیں تھی اور لوگ اپنے مریضوں کو ان بستیوں میں مرنے کے لیے چھوڑ جاتے تھے۔ روتھ فائو جب ان بستیوں میں پہنچیں تو دیکھا کہ جگہ جگہ گٹر کا گندا پانی کھڑا تھا اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، ان حالات میں کوڑھی لوگ جھونپڑیوں میں روپوش پڑے ہوئے تھے، نوجوان خوبصورت روتھ فاؤ نے ان کو حوصلہ دیا اور لوگوں کو بتایا کہ کوڑھ موذی مرض نہیں ہے، ان مریضوں سے دوری اچھی بات نہیں، بلکہ ان کو پیار دینا چاہیے۔یہ قابل رحم ہیں۔
کراچی میں کوڑھ کے مریضوں کو دیکھ کر جواں سال روتھ فاؤ نے اسی شہر میں مستقل رہنے کا ارادہ کرلیا اور ہندوستان جانے کا پروگرام ترک کردیا۔ روتھ فاؤ نے کراچی میں موجود کوڑھیوں کی بستیوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ صفائی ستھرائی کے کام کیے اور ان مریضوں کے کوڑھ زدہ حصوں پر اپنے ہاتھوں سے مرہم رکھا۔
شہر میں موجود ریلوے اسٹیشن کے قریب آباد کوڑھی بستیوں میں اناج کی بھری ریلوے بوگیوں سے بڑے بڑے چوہے نکل کر آجاتے اور کوڑھیوں کے جسموں کو کتر کتر کر کھاتے رہتے، جن کا سوئے ہوئے کوڑھیوں کو احساس بھی نہ ہوتا۔ ان حالات میں روتھ فاؤ نے اس عظیم انسانی خدمت کا آغاز کیا، اور پھر اس کام کو پورے ملک میں پھیلادیا۔ صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) میں یہ مرض بہت زیادہ تھا، پنجاب اور بلوچستان بھی محفوظ نہیں تھے، مگر آج اس عظیم ہستی کی بدولت پورے پاکستان سے کوڑھ کا موذی مرض تقریباً ختم ہوچکا ہے۔
ایک خوبصورت لڑکی جرمنی سے اپنا گھر بار، ماں باپ، بہن بھائی چھوڑ کر ہمارے ملک پاکستان میں آئی اور یہیں کی ہوکر رہ گئی، اس عظیم انسان نے ان کوڑھیوں کے ساتھ اپنی جوانی گزاردی، اپنی امنگیں نچھاور کردیں اور کوڑھ کے موذی مرض کو پاکستان سے ختم کردیا، وہ کوڑھی مریض جن کو ان کے اپنے بھی چھوڑ دیتے تھے، ان کی مونس و غم گسار بنا کر ڈاکٹر روتھ فاؤکو اللہ نے بھیج دیا۔
"Merie Adelaide Leprosy Center" کے نام سے ڈاکٹر روتھ فاؤ کا ادارہ ریگل صدر کراچی میں موجود ہے اور آج بھی انسانی خدمات جاری و ساری ہیں۔
میں آرٹس کونسل کراچی کے ہال میں پہنچا، اسٹیج پر 87 سالہ ڈاکٹر روتھ فاؤ وہیل چیئر پر بیٹھی تھیں، ان کا سرخ و سفید نور سے چمکتا دمکتا چہرہ، نیلی آنکھیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ میں دیکھ رہا تھا، اور اپنی قسمت پر خوش ہورہا تھا کہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کے ساتھ میں بھی ہوں اور وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر میرے سامنے بیٹھی ہیں۔ اسٹیج پر شہر کے ایڈمنسٹریٹر محمد حسین سید بھی بیٹھے تھے، تقریریں ہوتی رہیں، مگر میں ڈاکٹر صاحبہ ہی کو دیکھ رہا تھا، میرا دھیان انھی کی طرف تھا، میں نے کچھ بھی نہیں سنا کہ میرے سامنے ڈاکٹر روتھ فاؤ کا بولتا کردار تھا، تقریب ختم ہورہی تھی، اب سارے مہمان آرٹس کونسل کے کیفے گلرنگ میں جمع تھے، جہاں چائے کا اہتمام تھا، ڈاکٹر روتھ فاؤ بھی وہیل چیئر پر موجود تھیں، میں اس تاک میں تھا کہ کسی طرح ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ سکوں اور پھر ایسا ہوگیا، اب میں ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا تھا، میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا، پھر ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیا کہ جن ہاتھوں نے ہزاروں لاکھوں کوڑھی مریضوں کے زخموں پر مرہم رکھا تھا، پھر میں نے ان ہاتھوں پر اپنا ماتھا ٹیکا۔ میری آنکھیں نم تھیں، ڈاکٹر صاحبہ نے میرے جھکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔ یہ لمحات میرے زندگی کا حاصل ہیں۔ میں پاکستان کی زندہ مدر ٹریسا کے ساتھ تھا۔
دنیا بھر کے بڑے بڑے اداروں نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ دیے ہیں، پاکستان نے بھی انھیں ''نشان قائد اعظم'' دیا ہے۔ حبیب جالب امن ایوارڈ (سال2011) بھی ڈاکٹر روتھ فاؤ نے قبول کیا اور اس ایوارڈ کی توقیر میں اضافہ کیا، ڈاکٹر صاحب جیسے لوگوں کا دم غنیمت ہے، ورنہ'' اس شہر خرابی میں۔۔۔۔'' میں خوشیاں سمیٹے گھر واپس جارہا ہوں، ستاروں ٹنکے سرمئی، آنچل لیے رات اتر رہی ہے، میں دیکھ رہا ہوں، رات اتر رہی ہے، ہاں رات اتر رہی ہے۔