نشے کی مار
مسجد پر حاکمیت تو اﷲ کی ہونی چاہیے لیکن ہمارے ہاں مسجد کا حاکم مولوی ہے۔
نشہ ایک لعنت ہے۔ یہ انسان کو اس قدر بے حس اور ظالم بنادیتا ہے کہ اس کی لت میں مبتلا۔ انسان اچھے اور برے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے نہ صرف یہ بلکہ نشے کی لت سے مجبور آدمی اپنی زندگی تک کو دائو پر لگا دیتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پچھلے دنوں شاہدرہ لاہور میں نشہ آور شربت پینے ہونے والی ہلاکتیں ہیں یہ سلسلہ ابھی جاری ہے کیونکہ اس صورت حال کی دو طرح کی وجوہات ہیں ایک شربت پینے کا نشہ اور دوسرا دولت کمانے کا نشہ۔
نشہ کئی قسم کا ہوتا ہے۔ نشہ صرف شراب کا نہیں ہوتا بلکہ نشہ چرس پینے سے، افیون کھانے سے، پوڈر کے استعمال سے، بھنگ پینے اور ٹنال نگلنے کے علاوہ اور کئی چیزوں یا دوائوں وغیرہ کے استعمال سے بھی ہوتا ہے۔ بعض صورتوں میں نشئی اپنی علت مختلف قسم کے انجکشن لگوانے سے بھی پوری کرلیتا ہے۔ نشہ کی حالت کا تعارف بس نشئی کی علت نشہ جاننے سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ نشئی صرف نشئی ہے، نشئی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُسے حالت نشہ میں کسی قسم کا ہوش نہیں رہتا، وہ نشہ کرتا ہی اس لیے ہے کہ اسے کسی چیز کا ہوش نہ رہے اور مکمل سکون اور اطمینان کی لذت میں گم رہے۔ نشہ چونکہ ہر قسم کے فکرات سے بے نیاز کردیتا ہے اس لیے لوگ کہتے ہیں کہ وہ غم غلط کرنے کے لیے نشہ کرتے ہیں۔
غم توغلط ہو جاتا ہے کیونکہ جس غم سے چھٹکارحاصل کرنے کے لیے آدمی نشہ کرتا ہے حالتِ نشہ میں کم از کم اس مخصوص غم کا شعور نہیں رہتا اور آدمی اس غم کے اثرات سے اور اس کے ساتھ وابستہ کربناک اذیتوں کے درد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ کم ازکم اس وقت تک محفوظ ہوجاتا ہے جب تک وہ حالتِ نشہ میں ہوتا ہے۔ نشے کا دورانیہ چند ساعتوں کا ہوتا ہے اور آدمی چند ساعتوں کے لیے نشہ کر کے تازہ دم ہو جاتا ہے۔
یورپ، امریکا اور مشرق بعید کے لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ دن بھر دل لگا کر اور خوب محنت کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں اور شام کو اپنے گھر والوں یا دوستوں کے ساتھ شراب خانوں کا رخ کرتے ہیں اور محفل جام و سبو منعقد کرتے ہیں تاکہ ناصرف تازہ دم ہوسکیں بلکہ فکرات سے آزاد ہوکر اور ہر قسم کے اندیشہ ہائے دور دراز کو ایک طرف رکھ کر اگلے دن کی محنت شاقہ کے لیے تیار ہوسکیں۔ مشغولیت کا یہ انداز ان علاقوں یا ملکوں کی تہذیب اور ثقافت کا حصہ ہے اور کہنے والے اور سوچنے والے غالباً اسی لیے کہتے ہیں کہ ان ملکوں نے اسی لیے معاشی اور سائنسی ترقی کے اعلیٰ معیار حاصل کیے ہیں۔ کیونکہ انھوں نے نہ صرف کام کرنا سیکھا ہے بلکہ کام کرنے کے بعد آرام کرنا بھی سیکھا ہے۔ مشغولیت کا یہ انداز کسی خاص طبقے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر غریب اور امیر کا تقریباً یہی شغل ہوتا ہے۔ یہی مصروفیت کا انداز ہوتا ہے ہاں البتہ اپنی اپنی حیثیت اور اوقات کے مدِ نظر وہ اچھا یا بُرا، قیمتی یا سستا نشہ کرتے ہیں اور اس کے لیے انھیں اپنے اپنے انداز کو چننے کے لیے بے شمار سہولیات حاصل ہیں۔ ہمارے ہاں دو طرح کے طبقے ہیں، ایک دن رات کام کرتا ہے اور پھر بھی بھوکا رہتا ہے، دوسرا کوئی کام نہیں کرتا اور صرف آرام کرتا ہے کیونکہ بہت ساری دُنیا اس کے کام آنے کے لیے آگے پیچھے موجود ہوتی ہے۔
کہتے ہیں تین قسم کے نشے ایسے ہوتے ہیں کہ جو ایک مرتبہ لگ جائیں تو زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتے، انھیں شراب، کتاب اور رباب کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔ یعنی علم کا نشہ، شراب کا نشہ اور موسیقی کا نشہ۔ یہ اگر ایک مرتبہ لگ جائے تو آخر دم تک رہتا ہے۔ نشہ آدمی کو دیوانہ بنا دیتا ہے اور آدمی کو زندگی میں کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے دیوانگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مقصد سے دیوانگی کی حد تک لگن ہی اس کے حصول میں نہ صرف مدد گار ثابت ہوتی ہے بلکہ فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، بڑے بڑے ناموں کے ساتھ ان کے مقاصد ہی اُن کے ناموں کی پہچان ہوتے ہیں اور ان مقاصد کا حصول صرف دیوانگی ہی ممکن بناتی ہے۔ اس دیوانگی کا دوسرا نام نشہ ہے۔
نشے دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک مثبت نشہ اور ایک منفی نشہ۔ مثبت نشہ آدمی کو وہ کُچھ بنا دیتا ہے جس کے ساتھ عزت، احترام اور دوام وابستہ ہوتے ہیں جب کہ منفی نشہ آدمی کو جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی صف میں کھڑا کرکے بے نام و نمود کر دیتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں میں وہ سب حضرات وخواتین شامل ہیں جو نشے کو غم غلط کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں جس سے ان کا ایک غم تو غلط ہو جاتا ہے لیکن باقی ماندہ ساری زندگی غم ناک بن جاتی ہے لہذا نشے کو غم غلط کرنے کے لیے اختیار کرنا ناصرف وقت اور پیسے کا ضیاع ہے بلکہ بے وقوفی بھی ہوتا ہے۔ ایسی بے وقوفی سے خُدا بچائے منفی نشے میں شراب وشباب، رنگ وترنگ اور رقص وسرور اور ہائو ہو ہی کے نشے شامل نہیں ہیں بلکہ وہ تمام نشے شامل ہیں جو آدمی کو بالکل اندھا اور بے حس کر دیتے ہیں جس طرح اقتدار کا نشہ ، پاکی اور طہارت کے غرور کا نشہ، رنگ و نسل کی برتری کا نشہ اور طاقت کا حیوانی نشہ قسم کے سارے نشے شامل ہیں۔ یہ سب قسم کے نشے آدمی کو صرف اور صرف جانور بنا دیتے ہیں اور ہم سے زیادہ اس قسم کے جانوروں سے بھلا کون واقف ہوسکتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ان کی صرف کمی ہی نہیں ہے بلکہ تسلی بخش حد تک بُہتات بھی ہے۔
زیادہ دور نہیں جاتے صرف مسجد کے نشے کو لے لیتے ہیں۔ مسجد پر حاکمیت تو اﷲ کی ہونی چاہیے لیکن ہمارے ہاں مسجد کا حاکم مولوی ہے۔ مولوی کی طاقت پچھلے دنوں میں گوجرے کے واقعات نے ثابت کی ہے۔ ایک تاجر اور صنعت کار کی لوگوں کے ہاتھوں موت نے واضح کی ہے۔ (لیکن سب ایک جیسے نہیں ہوتے، بہت سے ایسے بھی ہیں جو حقیقی معنوں میں دین کی خدمت کر رہے ہیں) سوات اور باڑہ کی شورش نے واضح کی ہے۔ لال مسجد کے واقعات نے واضح کی ہے۔ مختصر یہ کہ پاکستان آج جس دوراہے پر کھڑاہے اس کے اندر مولوی کا مسجد پر بلا شرکت غیرے اقتدار کا کردار ایک ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر سامنے آچُکا ہے۔ دین اور مذہب کی حفاظت مولوی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ایک عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق صرف اور صرف مولوی کی تصدیق سے منسلک ہے۔ جو کُچھ مولوی نے آپ کے بارے میں فرمادیا وہ حق تسلیم کیا جائے گا۔ مولوی سے اس کے اعمال کے بارے میں باز پُرس دین اور مذہب کی مخالفت کے زمرے میں آجائے گی۔ یہ بڑی خوفناک اور بھیانک صورتِ حال ہے۔ اس کا خمیازہ ہم نے جی ایچ کیو پر حملے کی صورت میں بھی دیکھ لیاہے۔ مولوی کا نشہ توڑنا ہوگا۔ اگر مولوی کا یہ نشہ نہ توڑا گیا تو مسلمان تتربتر ہوجائیں گے۔ ان کا شیرازہ پارہ پارہ ہو جائے گا۔ گلی گلی محلے محلے مسلمانوں کے گروہ بنتے چلے جائیں گے کیونکہ بعض مولوی اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اور اپنے اپنے مقاصد کے مطابق اس نشے میں دُھت بھائی کو بھائی سے لڑوانے میں پیش بیش ہیں۔ جو فصل بعض مولوی بو رہے ہیں اُسے کاٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ سارے مولوی حضرات ایک ہی طرح کے ہیں۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے کیونکہ ہر طبقے میں اچھے اور بُرے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ محلے کی مسجدوں سے اکثر جو آوازیں آتی ہیں وہ ایک دوسرے پر گند اچھالنے کے علاوہ شاذو نادر ہی کچھ اور طرح کی ہوتی ہیں بھائی چارے کی آوازیں شاذ و نادر ہی کبھی کسی نے سُنی ہونگی۔ نفرت مسلسل اُگلی جارہی ہے جب کہ محبت کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ یہ نشہ ہے پاکی اور طہارت کے تکبر کا نشہ۔ بظاہر اچھے اعمال کے پرچار کرنے کی ٹھیکیداری کا نشہ۔ یہ بڑا گھنائونا نشہ ہے یہ نشہ اپنے ہی بھائی کا گلہ کاٹنے کے لیے ناصرف رضا مند کرتا ہے بلکہ اسے عین عبادت بھی سمجھتا ہے۔ ہم نے سوات میں جس انداز میں مسلمان ذبح ہوتے دیکھے ہیں وہ اسی نشے کا نتیجہ تھا۔ اس نشے کو توڑنا پڑے گا۔
میں دعا کرتا ہوں کہ خدا مجھے کبھی کسی بھی قسم کے نشے کا عادی نہ بنائے۔ آمین
نشہ کئی قسم کا ہوتا ہے۔ نشہ صرف شراب کا نہیں ہوتا بلکہ نشہ چرس پینے سے، افیون کھانے سے، پوڈر کے استعمال سے، بھنگ پینے اور ٹنال نگلنے کے علاوہ اور کئی چیزوں یا دوائوں وغیرہ کے استعمال سے بھی ہوتا ہے۔ بعض صورتوں میں نشئی اپنی علت مختلف قسم کے انجکشن لگوانے سے بھی پوری کرلیتا ہے۔ نشہ کی حالت کا تعارف بس نشئی کی علت نشہ جاننے سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ نشئی صرف نشئی ہے، نشئی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُسے حالت نشہ میں کسی قسم کا ہوش نہیں رہتا، وہ نشہ کرتا ہی اس لیے ہے کہ اسے کسی چیز کا ہوش نہ رہے اور مکمل سکون اور اطمینان کی لذت میں گم رہے۔ نشہ چونکہ ہر قسم کے فکرات سے بے نیاز کردیتا ہے اس لیے لوگ کہتے ہیں کہ وہ غم غلط کرنے کے لیے نشہ کرتے ہیں۔
غم توغلط ہو جاتا ہے کیونکہ جس غم سے چھٹکارحاصل کرنے کے لیے آدمی نشہ کرتا ہے حالتِ نشہ میں کم از کم اس مخصوص غم کا شعور نہیں رہتا اور آدمی اس غم کے اثرات سے اور اس کے ساتھ وابستہ کربناک اذیتوں کے درد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ کم ازکم اس وقت تک محفوظ ہوجاتا ہے جب تک وہ حالتِ نشہ میں ہوتا ہے۔ نشے کا دورانیہ چند ساعتوں کا ہوتا ہے اور آدمی چند ساعتوں کے لیے نشہ کر کے تازہ دم ہو جاتا ہے۔
یورپ، امریکا اور مشرق بعید کے لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ دن بھر دل لگا کر اور خوب محنت کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں اور شام کو اپنے گھر والوں یا دوستوں کے ساتھ شراب خانوں کا رخ کرتے ہیں اور محفل جام و سبو منعقد کرتے ہیں تاکہ ناصرف تازہ دم ہوسکیں بلکہ فکرات سے آزاد ہوکر اور ہر قسم کے اندیشہ ہائے دور دراز کو ایک طرف رکھ کر اگلے دن کی محنت شاقہ کے لیے تیار ہوسکیں۔ مشغولیت کا یہ انداز ان علاقوں یا ملکوں کی تہذیب اور ثقافت کا حصہ ہے اور کہنے والے اور سوچنے والے غالباً اسی لیے کہتے ہیں کہ ان ملکوں نے اسی لیے معاشی اور سائنسی ترقی کے اعلیٰ معیار حاصل کیے ہیں۔ کیونکہ انھوں نے نہ صرف کام کرنا سیکھا ہے بلکہ کام کرنے کے بعد آرام کرنا بھی سیکھا ہے۔ مشغولیت کا یہ انداز کسی خاص طبقے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر غریب اور امیر کا تقریباً یہی شغل ہوتا ہے۔ یہی مصروفیت کا انداز ہوتا ہے ہاں البتہ اپنی اپنی حیثیت اور اوقات کے مدِ نظر وہ اچھا یا بُرا، قیمتی یا سستا نشہ کرتے ہیں اور اس کے لیے انھیں اپنے اپنے انداز کو چننے کے لیے بے شمار سہولیات حاصل ہیں۔ ہمارے ہاں دو طرح کے طبقے ہیں، ایک دن رات کام کرتا ہے اور پھر بھی بھوکا رہتا ہے، دوسرا کوئی کام نہیں کرتا اور صرف آرام کرتا ہے کیونکہ بہت ساری دُنیا اس کے کام آنے کے لیے آگے پیچھے موجود ہوتی ہے۔
کہتے ہیں تین قسم کے نشے ایسے ہوتے ہیں کہ جو ایک مرتبہ لگ جائیں تو زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتے، انھیں شراب، کتاب اور رباب کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔ یعنی علم کا نشہ، شراب کا نشہ اور موسیقی کا نشہ۔ یہ اگر ایک مرتبہ لگ جائے تو آخر دم تک رہتا ہے۔ نشہ آدمی کو دیوانہ بنا دیتا ہے اور آدمی کو زندگی میں کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے دیوانگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مقصد سے دیوانگی کی حد تک لگن ہی اس کے حصول میں نہ صرف مدد گار ثابت ہوتی ہے بلکہ فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، بڑے بڑے ناموں کے ساتھ ان کے مقاصد ہی اُن کے ناموں کی پہچان ہوتے ہیں اور ان مقاصد کا حصول صرف دیوانگی ہی ممکن بناتی ہے۔ اس دیوانگی کا دوسرا نام نشہ ہے۔
نشے دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک مثبت نشہ اور ایک منفی نشہ۔ مثبت نشہ آدمی کو وہ کُچھ بنا دیتا ہے جس کے ساتھ عزت، احترام اور دوام وابستہ ہوتے ہیں جب کہ منفی نشہ آدمی کو جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی صف میں کھڑا کرکے بے نام و نمود کر دیتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں میں وہ سب حضرات وخواتین شامل ہیں جو نشے کو غم غلط کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں جس سے ان کا ایک غم تو غلط ہو جاتا ہے لیکن باقی ماندہ ساری زندگی غم ناک بن جاتی ہے لہذا نشے کو غم غلط کرنے کے لیے اختیار کرنا ناصرف وقت اور پیسے کا ضیاع ہے بلکہ بے وقوفی بھی ہوتا ہے۔ ایسی بے وقوفی سے خُدا بچائے منفی نشے میں شراب وشباب، رنگ وترنگ اور رقص وسرور اور ہائو ہو ہی کے نشے شامل نہیں ہیں بلکہ وہ تمام نشے شامل ہیں جو آدمی کو بالکل اندھا اور بے حس کر دیتے ہیں جس طرح اقتدار کا نشہ ، پاکی اور طہارت کے غرور کا نشہ، رنگ و نسل کی برتری کا نشہ اور طاقت کا حیوانی نشہ قسم کے سارے نشے شامل ہیں۔ یہ سب قسم کے نشے آدمی کو صرف اور صرف جانور بنا دیتے ہیں اور ہم سے زیادہ اس قسم کے جانوروں سے بھلا کون واقف ہوسکتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ان کی صرف کمی ہی نہیں ہے بلکہ تسلی بخش حد تک بُہتات بھی ہے۔
زیادہ دور نہیں جاتے صرف مسجد کے نشے کو لے لیتے ہیں۔ مسجد پر حاکمیت تو اﷲ کی ہونی چاہیے لیکن ہمارے ہاں مسجد کا حاکم مولوی ہے۔ مولوی کی طاقت پچھلے دنوں میں گوجرے کے واقعات نے ثابت کی ہے۔ ایک تاجر اور صنعت کار کی لوگوں کے ہاتھوں موت نے واضح کی ہے۔ (لیکن سب ایک جیسے نہیں ہوتے، بہت سے ایسے بھی ہیں جو حقیقی معنوں میں دین کی خدمت کر رہے ہیں) سوات اور باڑہ کی شورش نے واضح کی ہے۔ لال مسجد کے واقعات نے واضح کی ہے۔ مختصر یہ کہ پاکستان آج جس دوراہے پر کھڑاہے اس کے اندر مولوی کا مسجد پر بلا شرکت غیرے اقتدار کا کردار ایک ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر سامنے آچُکا ہے۔ دین اور مذہب کی حفاظت مولوی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ایک عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق صرف اور صرف مولوی کی تصدیق سے منسلک ہے۔ جو کُچھ مولوی نے آپ کے بارے میں فرمادیا وہ حق تسلیم کیا جائے گا۔ مولوی سے اس کے اعمال کے بارے میں باز پُرس دین اور مذہب کی مخالفت کے زمرے میں آجائے گی۔ یہ بڑی خوفناک اور بھیانک صورتِ حال ہے۔ اس کا خمیازہ ہم نے جی ایچ کیو پر حملے کی صورت میں بھی دیکھ لیاہے۔ مولوی کا نشہ توڑنا ہوگا۔ اگر مولوی کا یہ نشہ نہ توڑا گیا تو مسلمان تتربتر ہوجائیں گے۔ ان کا شیرازہ پارہ پارہ ہو جائے گا۔ گلی گلی محلے محلے مسلمانوں کے گروہ بنتے چلے جائیں گے کیونکہ بعض مولوی اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اور اپنے اپنے مقاصد کے مطابق اس نشے میں دُھت بھائی کو بھائی سے لڑوانے میں پیش بیش ہیں۔ جو فصل بعض مولوی بو رہے ہیں اُسے کاٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ سارے مولوی حضرات ایک ہی طرح کے ہیں۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے کیونکہ ہر طبقے میں اچھے اور بُرے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ محلے کی مسجدوں سے اکثر جو آوازیں آتی ہیں وہ ایک دوسرے پر گند اچھالنے کے علاوہ شاذو نادر ہی کچھ اور طرح کی ہوتی ہیں بھائی چارے کی آوازیں شاذ و نادر ہی کبھی کسی نے سُنی ہونگی۔ نفرت مسلسل اُگلی جارہی ہے جب کہ محبت کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ یہ نشہ ہے پاکی اور طہارت کے تکبر کا نشہ۔ بظاہر اچھے اعمال کے پرچار کرنے کی ٹھیکیداری کا نشہ۔ یہ بڑا گھنائونا نشہ ہے یہ نشہ اپنے ہی بھائی کا گلہ کاٹنے کے لیے ناصرف رضا مند کرتا ہے بلکہ اسے عین عبادت بھی سمجھتا ہے۔ ہم نے سوات میں جس انداز میں مسلمان ذبح ہوتے دیکھے ہیں وہ اسی نشے کا نتیجہ تھا۔ اس نشے کو توڑنا پڑے گا۔
میں دعا کرتا ہوں کہ خدا مجھے کبھی کسی بھی قسم کے نشے کا عادی نہ بنائے۔ آمین