صرف بولنا ہی تو ہے
عوام ’’ ووٹ کی صحیح حقدار ‘‘ قیادت کی مہیّا کردہ ٹرانسپورٹ میں بیٹھ کر ووٹ’’ تیسری قوت ‘‘ کو دے آئے تو پھر کیا ہوگا ؟
آفس میں ہمارے ایک ساتھی ہوا کرتے تھے ، آج کل وہ امریکا میں ہوتے ہیں ۔ گزشتہ برس جب اُنہوں نے استعفیٰ دیا اور پوری فیملی سمیت امریکا شفٹ ہونے کا اعلان کیا تو پور ے آفس میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ لیکن یہ انہونی ہوکر رہی اور موصوف اب امریکا میں اپنے خاندان سمیت موجود ہیں ۔ گزشتہ ایک برس سے تو موصوف اور امریکا دونوں ہی خیریت سے ہیں ۔ آگے کا حال اوپر والا جانے ۔ اِن کی وجہِ شہرت یہ تھی کہ موصوف قرض لینے اور پھر واپس نہ دینے کے ماہر تھے ۔
اِس معاملے میں اِن کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ جو شخص اپنا پچھلا قرض وصول کرنے کی نیّت سے آتا ، وہ وصولی تو ایک طرف ، اِن کو ایک اور نیا قرض دے کر اپنی جان چھڑاتا ۔ اگر کوئی نہ آتا تو موصوف خود اپنے قرض خواہ کے گھر جا پہنچتے اور اُس وقت تک نہ ٹلتے ، جب تک اُس سے نیا قرضہ عنقریب ادائیگی کے وعدے پر حاصل نہ کرلیتے ۔ انتہائی مہذّب زبان استعمال کرتے ، کبھی کسی قرض خواہ سے بد تمیزی نہ کی ، لہجہ ایسا شیریں ہوتا کہ قرض خواہ باوجود شدید خواہش کے اِنہیں گالیاں دینے کی حسرت دِل میں ہی لے کر رہ جاتا اور نیا قرض دے کر ، خدا کا شکر ادا کرتا ہوا ، واپس گھر آتا کہ وہ اپنی جیب میں زیادہ رقم رکھ کر اِن سے ملاقات کرنے نہیں گیا تھا ۔
ایک دو کیس تو ایسے بھی سُننے میں آئے کہ قرض خواہ ، اِن سے وصولی کے لیے رکشے میں بیٹھ کر اِن سے پچھلا قرض لینے گیا ، جواباً موصوف نے اِنکی جیب سے واپسی کا کرایہ بھی ڈھیلا کروالیا اور قرض خواہ پیدل واپس آیا ۔ رقم کا تقاضا کرنے والے پر سب سے پہلا حملہ اپنی دلنشین مُسکراہٹ سے کرتے ، مُسکراہٹ کے وقفے میں کبھی کوئی اعلیٰ درجہ کا شعر یا کسی ادبی شہ پارے کا اقتباس بھی شامل کر دیتے ، پھر نرم لہجے میں مسلسل منّت سماجت کا عمل جاری رکھتے ، آخری مرحلے میں خوشامد کے ہتھیار سے قرض خواہ پر حملہ آور ہوتے ۔ یہ فیصلہ کن مرحلہ ہوتا ، کیونکہ یہاں سے اِنکی پیش قدمی یا جارحیت شروع ہوجاتی اور قرض کی واپسی کا تقاضہ کرنے والا دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور ہوجاتا ۔ کیونکہ وہ اب اپنی وصولی بھول کر نئے قرضے سے خود کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد شروع کردیتا ۔ لیکن موصوف اُسے کسی نہ کسی طریقے سے گھیر گھار کر ایک چالاک باکسر کی طرح رنگ کے کونے میں لے جاتے ، جہاں سے حریف کے باہر نکلنے کا واحد راستہ ایک ہی ہوتا اور وہ تھا ایک نیا قرضہ ۔
موصوف اپنی ڈھٹائی بلکہ کسی حد تک بے غیرتی کو اپنی ثابت قدمی اور استقامت کا نام دیکر اِس پر فخر کیا کرتے ۔ اِنکے امریکا جانے کے بعد ہم سب دوست اب کافی پُر اُمید ہوچکے ہیں کہ اگر یہ امریکا سے ڈی پورٹ نہ ہوئے تو امریکا کی معیشت عنقریب زوال کی جانب گامزن ہوا ہی چاہتی ہے ۔ سات آٹھ برس پہلے کا ذکر ہے ، موصوف کسی سے فون پر بات کرتے ہوئے اپنا آڈر لکھوا رہے تھے ۔ دوسری جانب کوئی ایسا اناڑی ، سیلز مین تھا ، جو اِنہیں از خود اُدھار کمپیوٹر فراہم کرنے پر تُل گیا تھا ۔ موصوف کے جوابات سے اندازہ ہوتا تھا کہ سیلز مین اِن سے کمپیوٹر کے مختلف حصوں کے بارے میں پوچھ کر آڈر نوٹ کر رہا تھا ۔ غالباً سامان کی قیمت بتا کر پوچھ رہا تھا کہ کون سی اور کتنی پاور کی چیز ڈلوانی ہے ۔ مثلاً سب سے بڑی اور قیمتی ہارڈ ڈسک 80 جی بی کی اُس نے بتائی ۔
موصوف نے 80 جی بی کا آڈر لکھوادیا ۔ سی ڈی ڈرائیو یا ڈی وی ڈی ڈرائیو میں سے ہمارے دوست نے ڈی وی ڈی کا انتخاب کیا جو نسبتاً مہنگی ہوتی ہے ۔ موصوف فون رکھ کر فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا '' حضور بڑے مانیٹر کے ساتھ آپکا یہ کمپیوٹر کم سے کم پچاس ہزار کا آپکو پڑے گا ۔ آپ سستا کیوں نہیں لے لیتے ؟'' فرمایا '' بھائی تین ماہ کے بعد بڑھی ہوئی تنخواہوں کے جو بقایاجات ہمیں ملنے والے ہیں ، اُسی ادائیگی کے وقت اِس کمپیوٹر کی قیمت ادا کرنے کے وعدے پر وہ سیلز مین یہ کمپیوٹر مجھے دس دِنوں میں تیار کر کے فراہم کرنے پر آمادہ ہے ۔ پھر میں سستا والا کیوں خریدوں ؟ مجھے تو صرف لکھوانا تھا ، سو میں نے لکھوا دیا ۔ میرا مسئلہ حل ہوگیا۔ میں نے کون سی ادائیگی کرنی ہے ؟مسئلہ تو تین ماہ کے بعد تو اُس سیلز مین کے لیے پیدا ہوگا ، میرے لیے نہیں ۔
دوسری بات یہ کہ میں خود اُس کے پاس کمپیوٹر لینے نہیں گیا تھا ، وہ خود ہی مجھے یہ کمپیوٹر فروخت کرنے پر بضد ہے ۔ آپ کو کیا اعتراض ہے ؟'' میں سمجھ گیا کہ موصوف کے ہاتھوں ڈسا گیا کوئی زخمی ، قرض خواہ، شاید اُس سیلز مین کے ہاتھوں بھی خود کو ڈسوا چکا ہے اور اب اِس سیلز مین سے انتقام لینے کے لیے اُس نے موصوف کا ٹیلی فون نمبر کسی طرح اُس سیلز مین تک پہنچا دیا ہے ۔ خیر یہ تینوں کا آپس میں ذاتی معاملہ تھا ۔ مجھے تو موصوف کا معصومیت سے بھرپور یہ جُملہ بھلائے نہیں بھولتا کہ '' صرف لکھوانا ہی تو تھا۔'' یہ جُملہ ایسا ذہن سے چپکا ہے کہ ، جب اخبار کھولتا ہوں یا نیوز چینلز دیکھتا ہوں تو سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بیانات پڑھ اور سُن کر ، یہی محسوس ہوتا ہے ، جیسے کہہ رہے ہوں '' صرف بولنا ہی تو ہے ۔'' لہذا مسلسل بول رہے ہیں اور بولتے رہیں گے ۔ حالات قابو سے باہر ہوگئے تو موصوف کی طرح امریکا ہے نا ! موصوف تو وہاں پہنچ کر خاموش ہوگئے ، لیکن ہمارے رہنما امریکا میں بیٹھ کر بھی بولتے رہیں گے ۔ کیونکہ ''صرف بولنا ہی تو ہے ۔'' کون سا کچھ کرنا ہے ؟ کالا باغ ڈیم کے متعلق کسی نے بھی سوال کر لیا تو صرف یہی تو بولنا ہے ۔کراچی میں قتل وغارت پر صرف بولنا ہی تو ہے، حالات کی درستی کون سی کرنی ہے۔
''کالا باغ ڈیم اتفاق رائے سے بنایا جائے گا ''ضیاالحق کے دورِ حکومت سے یہی جملہ سُن سُن کر عوام کے کان پک گئے ہیں ۔ لیکن اتفاق رائے ابھی تک تو آسمان سے نہیں اُترا ۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی بات کیجیے تو جواب ملے گا ۔ ''تھر میں کوئلے کے ذخائر اربوں ڈالر کے موجود ہیں ۔ کوئلہ باہر آتے ہی بجلی کا بُحران حل ہوجائے گا ۔ یعنی عراق سے تریاق آنے ہی والا ہے ۔ مریض کو چاہیے کہ حوصلہ رکھے ۔'' عوامی خدمت کا ذکر ہوا تو فرمائیں گے ۔ '' بلا امتیاز خدمت پر یقین رکھتے ہیں ۔'' بے شک رکھتے ہوں گے ، لیکن عملاً کرتے بھی ہیں یا نہیں ؟ سوال کرنے والے نے یہ تھوڑی پوچھا تھا ؟ کون سی خدمت کرنی ہے ، صرف بیان ہی تو دینا تھا ، سو ، دے دیا ۔ '' غریب اور مظلوم عوام کو اُن کے گھر کی دہلیز پر انصاف پہنچائیں گے ۔'' کب پہنچائیں گے اِس کا کوئی وعدہ نہیں کیا ۔
بیان دینا تھا ، سو ، دے دیا '' نوکریاں میرٹ پر مہیّا کی جائیں گی ۔'' بیان دیکر حکومتی اتحادیوں کے ساتھ سرکاری نوکریوں کے طے شدہ کوٹے پر سنجیدہ مذاکرات شروع ہوجاتے ہیں ۔ حکومتی اتحادی ببانگ دُھل سرکاری نوکریوں کے کوٹے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور حکمران میرٹ پر نوکری دینے کا اعلان کر رہے ہیں ۔ اعلان ہی تو کرنا ہے ، کونسی نوکریاں دینی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک ہوگا ؟ عوام کو نہ امن و امان ملا ، نہ روزگار ، نہ تعلیم ، نہ دوا علاج ، نہ بجلی اور نہ ہی گیس ۔ اگر کہیں عوام نے اِنہی حکمرانوں سے سیکھا ہوا حربہ ، اِنہیں پر آزما لیا یعنی ووٹ دینے کا وعدہ تو اِسی بے لوث اور بے باک قیادت سے کر لیا ۔ پولنگ اسٹیشن بھی اِسی '' ووٹ کی صحیح حقدار '' قیادت کی مہیّا کردہ ٹرانسپورٹ میں بیٹھ کر گئے اور ووٹ کسی '' تیسری قوت '' کو ، دے آئے تو پھر کیا ہوگا ؟ حکمران سوچیں تو ؟
اِس معاملے میں اِن کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ جو شخص اپنا پچھلا قرض وصول کرنے کی نیّت سے آتا ، وہ وصولی تو ایک طرف ، اِن کو ایک اور نیا قرض دے کر اپنی جان چھڑاتا ۔ اگر کوئی نہ آتا تو موصوف خود اپنے قرض خواہ کے گھر جا پہنچتے اور اُس وقت تک نہ ٹلتے ، جب تک اُس سے نیا قرضہ عنقریب ادائیگی کے وعدے پر حاصل نہ کرلیتے ۔ انتہائی مہذّب زبان استعمال کرتے ، کبھی کسی قرض خواہ سے بد تمیزی نہ کی ، لہجہ ایسا شیریں ہوتا کہ قرض خواہ باوجود شدید خواہش کے اِنہیں گالیاں دینے کی حسرت دِل میں ہی لے کر رہ جاتا اور نیا قرض دے کر ، خدا کا شکر ادا کرتا ہوا ، واپس گھر آتا کہ وہ اپنی جیب میں زیادہ رقم رکھ کر اِن سے ملاقات کرنے نہیں گیا تھا ۔
ایک دو کیس تو ایسے بھی سُننے میں آئے کہ قرض خواہ ، اِن سے وصولی کے لیے رکشے میں بیٹھ کر اِن سے پچھلا قرض لینے گیا ، جواباً موصوف نے اِنکی جیب سے واپسی کا کرایہ بھی ڈھیلا کروالیا اور قرض خواہ پیدل واپس آیا ۔ رقم کا تقاضا کرنے والے پر سب سے پہلا حملہ اپنی دلنشین مُسکراہٹ سے کرتے ، مُسکراہٹ کے وقفے میں کبھی کوئی اعلیٰ درجہ کا شعر یا کسی ادبی شہ پارے کا اقتباس بھی شامل کر دیتے ، پھر نرم لہجے میں مسلسل منّت سماجت کا عمل جاری رکھتے ، آخری مرحلے میں خوشامد کے ہتھیار سے قرض خواہ پر حملہ آور ہوتے ۔ یہ فیصلہ کن مرحلہ ہوتا ، کیونکہ یہاں سے اِنکی پیش قدمی یا جارحیت شروع ہوجاتی اور قرض کی واپسی کا تقاضہ کرنے والا دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور ہوجاتا ۔ کیونکہ وہ اب اپنی وصولی بھول کر نئے قرضے سے خود کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد شروع کردیتا ۔ لیکن موصوف اُسے کسی نہ کسی طریقے سے گھیر گھار کر ایک چالاک باکسر کی طرح رنگ کے کونے میں لے جاتے ، جہاں سے حریف کے باہر نکلنے کا واحد راستہ ایک ہی ہوتا اور وہ تھا ایک نیا قرضہ ۔
موصوف اپنی ڈھٹائی بلکہ کسی حد تک بے غیرتی کو اپنی ثابت قدمی اور استقامت کا نام دیکر اِس پر فخر کیا کرتے ۔ اِنکے امریکا جانے کے بعد ہم سب دوست اب کافی پُر اُمید ہوچکے ہیں کہ اگر یہ امریکا سے ڈی پورٹ نہ ہوئے تو امریکا کی معیشت عنقریب زوال کی جانب گامزن ہوا ہی چاہتی ہے ۔ سات آٹھ برس پہلے کا ذکر ہے ، موصوف کسی سے فون پر بات کرتے ہوئے اپنا آڈر لکھوا رہے تھے ۔ دوسری جانب کوئی ایسا اناڑی ، سیلز مین تھا ، جو اِنہیں از خود اُدھار کمپیوٹر فراہم کرنے پر تُل گیا تھا ۔ موصوف کے جوابات سے اندازہ ہوتا تھا کہ سیلز مین اِن سے کمپیوٹر کے مختلف حصوں کے بارے میں پوچھ کر آڈر نوٹ کر رہا تھا ۔ غالباً سامان کی قیمت بتا کر پوچھ رہا تھا کہ کون سی اور کتنی پاور کی چیز ڈلوانی ہے ۔ مثلاً سب سے بڑی اور قیمتی ہارڈ ڈسک 80 جی بی کی اُس نے بتائی ۔
موصوف نے 80 جی بی کا آڈر لکھوادیا ۔ سی ڈی ڈرائیو یا ڈی وی ڈی ڈرائیو میں سے ہمارے دوست نے ڈی وی ڈی کا انتخاب کیا جو نسبتاً مہنگی ہوتی ہے ۔ موصوف فون رکھ کر فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا '' حضور بڑے مانیٹر کے ساتھ آپکا یہ کمپیوٹر کم سے کم پچاس ہزار کا آپکو پڑے گا ۔ آپ سستا کیوں نہیں لے لیتے ؟'' فرمایا '' بھائی تین ماہ کے بعد بڑھی ہوئی تنخواہوں کے جو بقایاجات ہمیں ملنے والے ہیں ، اُسی ادائیگی کے وقت اِس کمپیوٹر کی قیمت ادا کرنے کے وعدے پر وہ سیلز مین یہ کمپیوٹر مجھے دس دِنوں میں تیار کر کے فراہم کرنے پر آمادہ ہے ۔ پھر میں سستا والا کیوں خریدوں ؟ مجھے تو صرف لکھوانا تھا ، سو میں نے لکھوا دیا ۔ میرا مسئلہ حل ہوگیا۔ میں نے کون سی ادائیگی کرنی ہے ؟مسئلہ تو تین ماہ کے بعد تو اُس سیلز مین کے لیے پیدا ہوگا ، میرے لیے نہیں ۔
دوسری بات یہ کہ میں خود اُس کے پاس کمپیوٹر لینے نہیں گیا تھا ، وہ خود ہی مجھے یہ کمپیوٹر فروخت کرنے پر بضد ہے ۔ آپ کو کیا اعتراض ہے ؟'' میں سمجھ گیا کہ موصوف کے ہاتھوں ڈسا گیا کوئی زخمی ، قرض خواہ، شاید اُس سیلز مین کے ہاتھوں بھی خود کو ڈسوا چکا ہے اور اب اِس سیلز مین سے انتقام لینے کے لیے اُس نے موصوف کا ٹیلی فون نمبر کسی طرح اُس سیلز مین تک پہنچا دیا ہے ۔ خیر یہ تینوں کا آپس میں ذاتی معاملہ تھا ۔ مجھے تو موصوف کا معصومیت سے بھرپور یہ جُملہ بھلائے نہیں بھولتا کہ '' صرف لکھوانا ہی تو تھا۔'' یہ جُملہ ایسا ذہن سے چپکا ہے کہ ، جب اخبار کھولتا ہوں یا نیوز چینلز دیکھتا ہوں تو سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بیانات پڑھ اور سُن کر ، یہی محسوس ہوتا ہے ، جیسے کہہ رہے ہوں '' صرف بولنا ہی تو ہے ۔'' لہذا مسلسل بول رہے ہیں اور بولتے رہیں گے ۔ حالات قابو سے باہر ہوگئے تو موصوف کی طرح امریکا ہے نا ! موصوف تو وہاں پہنچ کر خاموش ہوگئے ، لیکن ہمارے رہنما امریکا میں بیٹھ کر بھی بولتے رہیں گے ۔ کیونکہ ''صرف بولنا ہی تو ہے ۔'' کون سا کچھ کرنا ہے ؟ کالا باغ ڈیم کے متعلق کسی نے بھی سوال کر لیا تو صرف یہی تو بولنا ہے ۔کراچی میں قتل وغارت پر صرف بولنا ہی تو ہے، حالات کی درستی کون سی کرنی ہے۔
''کالا باغ ڈیم اتفاق رائے سے بنایا جائے گا ''ضیاالحق کے دورِ حکومت سے یہی جملہ سُن سُن کر عوام کے کان پک گئے ہیں ۔ لیکن اتفاق رائے ابھی تک تو آسمان سے نہیں اُترا ۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی بات کیجیے تو جواب ملے گا ۔ ''تھر میں کوئلے کے ذخائر اربوں ڈالر کے موجود ہیں ۔ کوئلہ باہر آتے ہی بجلی کا بُحران حل ہوجائے گا ۔ یعنی عراق سے تریاق آنے ہی والا ہے ۔ مریض کو چاہیے کہ حوصلہ رکھے ۔'' عوامی خدمت کا ذکر ہوا تو فرمائیں گے ۔ '' بلا امتیاز خدمت پر یقین رکھتے ہیں ۔'' بے شک رکھتے ہوں گے ، لیکن عملاً کرتے بھی ہیں یا نہیں ؟ سوال کرنے والے نے یہ تھوڑی پوچھا تھا ؟ کون سی خدمت کرنی ہے ، صرف بیان ہی تو دینا تھا ، سو ، دے دیا ۔ '' غریب اور مظلوم عوام کو اُن کے گھر کی دہلیز پر انصاف پہنچائیں گے ۔'' کب پہنچائیں گے اِس کا کوئی وعدہ نہیں کیا ۔
بیان دینا تھا ، سو ، دے دیا '' نوکریاں میرٹ پر مہیّا کی جائیں گی ۔'' بیان دیکر حکومتی اتحادیوں کے ساتھ سرکاری نوکریوں کے طے شدہ کوٹے پر سنجیدہ مذاکرات شروع ہوجاتے ہیں ۔ حکومتی اتحادی ببانگ دُھل سرکاری نوکریوں کے کوٹے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور حکمران میرٹ پر نوکری دینے کا اعلان کر رہے ہیں ۔ اعلان ہی تو کرنا ہے ، کونسی نوکریاں دینی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک ہوگا ؟ عوام کو نہ امن و امان ملا ، نہ روزگار ، نہ تعلیم ، نہ دوا علاج ، نہ بجلی اور نہ ہی گیس ۔ اگر کہیں عوام نے اِنہی حکمرانوں سے سیکھا ہوا حربہ ، اِنہیں پر آزما لیا یعنی ووٹ دینے کا وعدہ تو اِسی بے لوث اور بے باک قیادت سے کر لیا ۔ پولنگ اسٹیشن بھی اِسی '' ووٹ کی صحیح حقدار '' قیادت کی مہیّا کردہ ٹرانسپورٹ میں بیٹھ کر گئے اور ووٹ کسی '' تیسری قوت '' کو ، دے آئے تو پھر کیا ہوگا ؟ حکمران سوچیں تو ؟