لٹو کی نوک
ہم بات کر رہے ہیں لٹو کی، تو لٹو کی نوک اچھی ہو تو لٹو دیر تک رقص کناں رہتے ہیں
دنیا کے ہر بچے کے بچپن کا تعلق ''لٹو'' سے ضرور ہے، چاہے اس کا ملک کوئی ہو، قوم کوئی ہو، زبان کوئی ہو، ''لٹو'' کو ہر زبان میں الگ ایک نام دیے گئے ہوں، مگر یقیناً ہر زبان کے اس نام کا مطلب یہی ہوگا کہ ایک نوک پر گھومنے، چلنے، سفر کرنے والی چیز۔ چین جاپان میں تو اسے عام دیکھا جاسکتا ہے، پاکستان، سابق پاکستان، بھارت، سری لنکا، نیپال، بھوٹان میں یہ وہاں کے بچوں کا ''قومی کھیل'' ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ بچے جس قوم سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایک بین الاقوامی برادری ہے اور اسے عام طور پر "Children World" کہا جاتا ہے۔ ان کی اپنی زبان ہے "Communication" لینگویج، افریقہ، ایشیا، یورپ، عرب، ایران، چین، بھارتی، پاکستانی ایک عمر کے بچوں کو ساتھ چھوڑ دیجیے، کچھ دیر میں وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگیں گے۔ اتفاق اور اختلاف کا اظہار کرنے لگیں گے، حالانکہ ان کی زبانیں الگ الگ ہیں، یہ بچوں کا اقوام متحدہ بن جائے گا، بس انھیں کچھ لٹو، قدیم و جدید دے دیں، یہ الگ الگ ان کو پسند کرکے کھیل شروع کردیں گے۔
جب یہ بچے ایک دوسرے سے چیزوں کا لین دین شروع کردیں تو یہ بچوں کا "One Belt One Road" ہے اور جب یہ چیزوں میں انتخاب شروع کردیں، تو یہ ہے بچوں کی سیاست، کوئی بھی اچھی چیز، کوئی کم، اوزان کے بدلے حاصل کرنے والے بچوں کے "World Trade" کا نمونہ ہیں اور یہ یورپین تجارت کا انداز ہے جس میں خسارہ خریدار کے کھاتے میں رہتا ہے کیوں کہ وہ مقروض ہے، جو بچہ ایک چیز کے بدلے تین لے گا، وہ امریکن تجارت کا نمایندہ ہے، F/16 ابھی تک لٹکے ہوئے ہیں، قوم بھول چکی ہے اور ان سے ہی امداد جو اب قرض ہوگی لے رہی ہے اپنا اصل ان کے پاس برسوں سے رکھا ہے۔
خیر ہم تو لٹو کی بات کر رہے تھے ۔ تو لٹو کا ایک پورا خاندان ہوتا ہے، بڑا لٹو، درمیانہ لٹو، چھوٹے لٹو۔ پھر لٹو کا زنان خانہ بھی ہوتا ہے ''بڑی پھرکنی، درمیانی پھرکنی، چھوٹی پھرکنیاں'' یہ سب اپنے اپنے محور پر گھومتے ہیں، چاہے مرکز کہہ لیجیے اور وہ ہے ایک کیل جسے لٹو کی نوک کہتے ہیں۔
بھارت پاکستان میں شاید اور ملکوں میں بھی ہو کہ لٹو مقابلے ہوتے ہیں کہ کس کا لٹو دیر تک گھومتا اور سیدھا کھڑا رہتا ہے اور جس کا لٹو ہار جائے تو اس لٹو کو جیتنے والا اپنے ایک خاص لٹو سے زور سے گودتا ہے اور اس میں گہرے نشان ڈال دیتا ہے یہ ہارنے کی علامت ہے، کمال کی بات یہ ہے کہ جیتنے والے کو سزا کا حق ہے اور ہارنے والے کو سزا برداشت کرنے کی سزا جو نشان بن کر نظر آتی ہے۔ پھرکنیاں رنگین، نازک بناوٹ میں خوبصورت ہوتی ہیں، یہ صرف نمائش یعنی ان کا رقص دیکھنے کے لیے ہوتا ہے یہ ہر لٹو والے کے پاس ہوتی ہیں دل بہلانے کو، شاید یہیں سے پھر کنیوں سے دل بہلانے کا تصور پیدا ہوتا ہے، ہم لٹو اور اس کے متعلقین کا ذکر کر رہے ہیں۔
تو یہ لٹو دنیا بھر کا کھیل ہے بچوں کا اور ان کے انہماک کی وجہ سے کچھ شعرا نے جو خود بھی لٹویات میں مبتلا رہے تھے یہاں سے ایک اصطلاح ایجاد کی ''لٹو ہوجانا'' یعنی بس ایک طرف ہی دھیان رکھنا اور سب کچھ فراموش، جیسے صاحب اقتدار جو ایک پڑوسی پر لٹو ہوکر، اس کے کہنے پر ہر پڑوسی کے گناہ نظرانداز کرنا چاہتے ہیں، پہلے کی طرح ان کا جاسوس بھی شاید دے دیتے یا دے دیں یا ارادہ رکھتے ہوں، اسے عرف عام میں لٹو ہوجانا کہتے ہیں، جیسے کئی جماعتوں کے مالشیے سیاستدان جو اب اس جماعت میں ہیں اقتدار پر لٹو ہیں، کیوں کہ وہ سمجھ رہے ہیں شکار میں سے ایک آدھ ٹکڑا یعنی گاڑی جھنڈا مل جائے۔
خیر ہم تو لٹو کی بات کر رہے تھے اور پھرکنیوں کی، یہ تو سمجھانے کو چند مثالیں دی تھیں، دراصل ہم نے محسوس کیا کہ دنیا کا نظام لٹو پر یا لٹو کی طرح چل رہا ہے۔ کلبھوشن کے معاملے میں کون لٹو، معلوم ہوجائے گا، افغانستان کے معاملے میں یا افغانستان کا لٹو کون گھما رہا ہے۔ نیوز لیکس کیسے رک گیا، نوک تو اچھی تھی۔ سارا کام لٹو گھمانے میں نوک کا ہوتا ہے، نوک کھردری ہوجائے تو لٹو زیادہ دیر نہیں گھومتا۔
پھرکنیاں تو ہر کورٹ کی پیشی کے بعد آپ ٹی وی پر دیکھ رہے ہوتے ہیں ان پر کیا تبصرہ کریں یہ تو ہوتی ہی ہیں تماشے کے لیے صنف کی بھی قید نہیں۔ تینوں صنفوں کی پھرکنیاں یہ کام کرتی ہیں۔ اب لٹو کو ذرا الٹا گھماتے ہیں۔
لٹو نوک پر گھومتا ہے اور نوک ہی اس کا وزن، اس کا زور برداشت کرتی ہے۔ اچھے ملکوں میں لٹو ''ست'' ہوجاتے ہیں یعنی ''سو'' جاتے ہیں لگتا ہے کہ لٹو سو گیا ہے اور جب وہ رکتا ہے تو بالکل یوں لگتا ہے کہ نیند سے بیدار ہوا ہے۔ پتنگیں بھی جو ہوا میں ایک جگہ قائم ہوجائیں ''ست'' کہلاتی ہیں۔ اس کے لیے اس کے ''کانے'' یعنی سائیڈ پر باندھے جانے والے والی ڈور میں توازن ہونا چاہیے، بہت سے ماہر تھے، ہوں گے ''کنے'' باندھنے والے، اب بھی سیاست میں تو ہیں، نظر آتے ہیں۔
ہم بات کر رہے ہیں لٹو کی، تو لٹو کی نوک اچھی ہو تو لٹو دیر تک رقص کناں رہتے ہیں، پنجاب کے ایک وزیر کی طرح یہ تو ایسے ہی سوشل میڈیا پر ان کی تصویریں دیکھ کر یاد آیا۔ تو ثابت ہوا کہ لٹو کی نوک بہت اہم ہے اور وہ ہے ایک عدد کیل، اس پر لٹو قائم رہتا ہے۔
لٹو کا تصور شاید نظام شمسی سے لیا گیا ہو، مگر ہم نے ان سے محبوب کا لٹو ہو جانا، محبوب پر لٹو ہو جانا کی ترکیبیں استعمال کرکے اس کی سائنسی حیثیت کا بیڑہ غرق کردیا اور چیزوں کا بیڑہ غرق کرنے میں بھارت پاکستان اچھے پڑوسی ہیں فی الوقت، اس نے کلبھوشن بھیج کر امن کا بیڑہ غرق کردیا پاکستان میں ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اپنے مفادات پر پاکستان کے مفادات کو ترجیح دی، اوباما نے ایبٹ آباد آپریشن کرکے دنیا میں انسانیت کا بیڑہ غرق کردیا۔ یہ سارے لٹو مفادات کی کیل پر رقص کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔
امریکا میں لٹو کی نوک پر الیکشن جیت لیا ٹرمپ نے مگر ٹرمپ کی ''ٹرمپ'' ختم ہونے والی ہے اور لٹو بہت جلد رکنے والا ہے بہت بھدے انداز میں چاہے وہ کہیں بھی جاکر کچھ بھی کر لیں کیل کھردری ہوگئی ہے عوام اب ان کا محاسبہ چاہتے ہیں اور وہ ہوکر رہے گا۔ پاکستان میں الیکشن کی کیل یعنی الیکشن کے لٹو کی کیل کو سیدھا کرنے کی بہت کوشش ہو رہی ہے مگر ایسا ہوگا نہیں، لٹو گھومتا رہے اور دکھ جھیلے کیل یعنی عوام ایسا نہیں ہونا چاہ رہے اور اس بار سارے لٹو ہی نتائج پر حیران رہ جائیں گے۔ بادشاہت کی جو بنیاد رکھی گئی ہے وہ دیوار شروع سے ٹیڑھی ہے یعنی لٹو ٹیڑھا گھوم رہا ہے ضیا الحق کے دور سے۔
پر یہ کیل بھی کم نہیں کون سا عیب ہے جو اس میں نہیں، قانون شکنی، ظلم، ناانصافی، دھوکہ بازی ہر جگہ حسب توفیق ہے تھی اور رہے گی، تمام دوسری برائیوں کے ساتھ اب ایک اور برائی رمضان میں شروع ہوگی اور اب تک آپ بھگت چکے ہوں گے، ملاوٹ اور مہنگائی، یہ تحفے حکمرانوں کے ہیں کہ کچھ تو ان کے کاروبار ہیں چینی، لوہار، مرغی، اجناس اور نہ جانے کیا کیا اور ملاوٹ ان کی آنکھوں کے نیچے اور مہنگائی ان کے نام پر ہوگی اور یہ کچھ نہیں کرسکیں گے جس ملک کو وزیر تجارت اور بڑے صوبے کو وزیر قانون چلا رہا ہو اور کیل یعنی عوام بے ایمانی میں مبتلا ہوں اس کو اگر پسند کرے تو شاید خدا ہی بچائے ورنہ اس لٹو کی کشتی ڈوبنے والی ہے اور ذمے دار اگر لٹو کا وزن ہے تو کیل یعنی نوک بھی ذمے دار ہے۔ اس لیے کہتے ہیں لٹو کی نوک ٹھیک ہونی چاہیے۔ لٹو بھی ہے نوک بھی ہے اور ہم بھی بات ابھی باقی ہے دوست!
آپ جانتے ہیں کہ بچے جس قوم سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایک بین الاقوامی برادری ہے اور اسے عام طور پر "Children World" کہا جاتا ہے۔ ان کی اپنی زبان ہے "Communication" لینگویج، افریقہ، ایشیا، یورپ، عرب، ایران، چین، بھارتی، پاکستانی ایک عمر کے بچوں کو ساتھ چھوڑ دیجیے، کچھ دیر میں وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگیں گے۔ اتفاق اور اختلاف کا اظہار کرنے لگیں گے، حالانکہ ان کی زبانیں الگ الگ ہیں، یہ بچوں کا اقوام متحدہ بن جائے گا، بس انھیں کچھ لٹو، قدیم و جدید دے دیں، یہ الگ الگ ان کو پسند کرکے کھیل شروع کردیں گے۔
جب یہ بچے ایک دوسرے سے چیزوں کا لین دین شروع کردیں تو یہ بچوں کا "One Belt One Road" ہے اور جب یہ چیزوں میں انتخاب شروع کردیں، تو یہ ہے بچوں کی سیاست، کوئی بھی اچھی چیز، کوئی کم، اوزان کے بدلے حاصل کرنے والے بچوں کے "World Trade" کا نمونہ ہیں اور یہ یورپین تجارت کا انداز ہے جس میں خسارہ خریدار کے کھاتے میں رہتا ہے کیوں کہ وہ مقروض ہے، جو بچہ ایک چیز کے بدلے تین لے گا، وہ امریکن تجارت کا نمایندہ ہے، F/16 ابھی تک لٹکے ہوئے ہیں، قوم بھول چکی ہے اور ان سے ہی امداد جو اب قرض ہوگی لے رہی ہے اپنا اصل ان کے پاس برسوں سے رکھا ہے۔
خیر ہم تو لٹو کی بات کر رہے تھے ۔ تو لٹو کا ایک پورا خاندان ہوتا ہے، بڑا لٹو، درمیانہ لٹو، چھوٹے لٹو۔ پھر لٹو کا زنان خانہ بھی ہوتا ہے ''بڑی پھرکنی، درمیانی پھرکنی، چھوٹی پھرکنیاں'' یہ سب اپنے اپنے محور پر گھومتے ہیں، چاہے مرکز کہہ لیجیے اور وہ ہے ایک کیل جسے لٹو کی نوک کہتے ہیں۔
بھارت پاکستان میں شاید اور ملکوں میں بھی ہو کہ لٹو مقابلے ہوتے ہیں کہ کس کا لٹو دیر تک گھومتا اور سیدھا کھڑا رہتا ہے اور جس کا لٹو ہار جائے تو اس لٹو کو جیتنے والا اپنے ایک خاص لٹو سے زور سے گودتا ہے اور اس میں گہرے نشان ڈال دیتا ہے یہ ہارنے کی علامت ہے، کمال کی بات یہ ہے کہ جیتنے والے کو سزا کا حق ہے اور ہارنے والے کو سزا برداشت کرنے کی سزا جو نشان بن کر نظر آتی ہے۔ پھرکنیاں رنگین، نازک بناوٹ میں خوبصورت ہوتی ہیں، یہ صرف نمائش یعنی ان کا رقص دیکھنے کے لیے ہوتا ہے یہ ہر لٹو والے کے پاس ہوتی ہیں دل بہلانے کو، شاید یہیں سے پھر کنیوں سے دل بہلانے کا تصور پیدا ہوتا ہے، ہم لٹو اور اس کے متعلقین کا ذکر کر رہے ہیں۔
تو یہ لٹو دنیا بھر کا کھیل ہے بچوں کا اور ان کے انہماک کی وجہ سے کچھ شعرا نے جو خود بھی لٹویات میں مبتلا رہے تھے یہاں سے ایک اصطلاح ایجاد کی ''لٹو ہوجانا'' یعنی بس ایک طرف ہی دھیان رکھنا اور سب کچھ فراموش، جیسے صاحب اقتدار جو ایک پڑوسی پر لٹو ہوکر، اس کے کہنے پر ہر پڑوسی کے گناہ نظرانداز کرنا چاہتے ہیں، پہلے کی طرح ان کا جاسوس بھی شاید دے دیتے یا دے دیں یا ارادہ رکھتے ہوں، اسے عرف عام میں لٹو ہوجانا کہتے ہیں، جیسے کئی جماعتوں کے مالشیے سیاستدان جو اب اس جماعت میں ہیں اقتدار پر لٹو ہیں، کیوں کہ وہ سمجھ رہے ہیں شکار میں سے ایک آدھ ٹکڑا یعنی گاڑی جھنڈا مل جائے۔
خیر ہم تو لٹو کی بات کر رہے تھے اور پھرکنیوں کی، یہ تو سمجھانے کو چند مثالیں دی تھیں، دراصل ہم نے محسوس کیا کہ دنیا کا نظام لٹو پر یا لٹو کی طرح چل رہا ہے۔ کلبھوشن کے معاملے میں کون لٹو، معلوم ہوجائے گا، افغانستان کے معاملے میں یا افغانستان کا لٹو کون گھما رہا ہے۔ نیوز لیکس کیسے رک گیا، نوک تو اچھی تھی۔ سارا کام لٹو گھمانے میں نوک کا ہوتا ہے، نوک کھردری ہوجائے تو لٹو زیادہ دیر نہیں گھومتا۔
پھرکنیاں تو ہر کورٹ کی پیشی کے بعد آپ ٹی وی پر دیکھ رہے ہوتے ہیں ان پر کیا تبصرہ کریں یہ تو ہوتی ہی ہیں تماشے کے لیے صنف کی بھی قید نہیں۔ تینوں صنفوں کی پھرکنیاں یہ کام کرتی ہیں۔ اب لٹو کو ذرا الٹا گھماتے ہیں۔
لٹو نوک پر گھومتا ہے اور نوک ہی اس کا وزن، اس کا زور برداشت کرتی ہے۔ اچھے ملکوں میں لٹو ''ست'' ہوجاتے ہیں یعنی ''سو'' جاتے ہیں لگتا ہے کہ لٹو سو گیا ہے اور جب وہ رکتا ہے تو بالکل یوں لگتا ہے کہ نیند سے بیدار ہوا ہے۔ پتنگیں بھی جو ہوا میں ایک جگہ قائم ہوجائیں ''ست'' کہلاتی ہیں۔ اس کے لیے اس کے ''کانے'' یعنی سائیڈ پر باندھے جانے والے والی ڈور میں توازن ہونا چاہیے، بہت سے ماہر تھے، ہوں گے ''کنے'' باندھنے والے، اب بھی سیاست میں تو ہیں، نظر آتے ہیں۔
ہم بات کر رہے ہیں لٹو کی، تو لٹو کی نوک اچھی ہو تو لٹو دیر تک رقص کناں رہتے ہیں، پنجاب کے ایک وزیر کی طرح یہ تو ایسے ہی سوشل میڈیا پر ان کی تصویریں دیکھ کر یاد آیا۔ تو ثابت ہوا کہ لٹو کی نوک بہت اہم ہے اور وہ ہے ایک عدد کیل، اس پر لٹو قائم رہتا ہے۔
لٹو کا تصور شاید نظام شمسی سے لیا گیا ہو، مگر ہم نے ان سے محبوب کا لٹو ہو جانا، محبوب پر لٹو ہو جانا کی ترکیبیں استعمال کرکے اس کی سائنسی حیثیت کا بیڑہ غرق کردیا اور چیزوں کا بیڑہ غرق کرنے میں بھارت پاکستان اچھے پڑوسی ہیں فی الوقت، اس نے کلبھوشن بھیج کر امن کا بیڑہ غرق کردیا پاکستان میں ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اپنے مفادات پر پاکستان کے مفادات کو ترجیح دی، اوباما نے ایبٹ آباد آپریشن کرکے دنیا میں انسانیت کا بیڑہ غرق کردیا۔ یہ سارے لٹو مفادات کی کیل پر رقص کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔
امریکا میں لٹو کی نوک پر الیکشن جیت لیا ٹرمپ نے مگر ٹرمپ کی ''ٹرمپ'' ختم ہونے والی ہے اور لٹو بہت جلد رکنے والا ہے بہت بھدے انداز میں چاہے وہ کہیں بھی جاکر کچھ بھی کر لیں کیل کھردری ہوگئی ہے عوام اب ان کا محاسبہ چاہتے ہیں اور وہ ہوکر رہے گا۔ پاکستان میں الیکشن کی کیل یعنی الیکشن کے لٹو کی کیل کو سیدھا کرنے کی بہت کوشش ہو رہی ہے مگر ایسا ہوگا نہیں، لٹو گھومتا رہے اور دکھ جھیلے کیل یعنی عوام ایسا نہیں ہونا چاہ رہے اور اس بار سارے لٹو ہی نتائج پر حیران رہ جائیں گے۔ بادشاہت کی جو بنیاد رکھی گئی ہے وہ دیوار شروع سے ٹیڑھی ہے یعنی لٹو ٹیڑھا گھوم رہا ہے ضیا الحق کے دور سے۔
پر یہ کیل بھی کم نہیں کون سا عیب ہے جو اس میں نہیں، قانون شکنی، ظلم، ناانصافی، دھوکہ بازی ہر جگہ حسب توفیق ہے تھی اور رہے گی، تمام دوسری برائیوں کے ساتھ اب ایک اور برائی رمضان میں شروع ہوگی اور اب تک آپ بھگت چکے ہوں گے، ملاوٹ اور مہنگائی، یہ تحفے حکمرانوں کے ہیں کہ کچھ تو ان کے کاروبار ہیں چینی، لوہار، مرغی، اجناس اور نہ جانے کیا کیا اور ملاوٹ ان کی آنکھوں کے نیچے اور مہنگائی ان کے نام پر ہوگی اور یہ کچھ نہیں کرسکیں گے جس ملک کو وزیر تجارت اور بڑے صوبے کو وزیر قانون چلا رہا ہو اور کیل یعنی عوام بے ایمانی میں مبتلا ہوں اس کو اگر پسند کرے تو شاید خدا ہی بچائے ورنہ اس لٹو کی کشتی ڈوبنے والی ہے اور ذمے دار اگر لٹو کا وزن ہے تو کیل یعنی نوک بھی ذمے دار ہے۔ اس لیے کہتے ہیں لٹو کی نوک ٹھیک ہونی چاہیے۔ لٹو بھی ہے نوک بھی ہے اور ہم بھی بات ابھی باقی ہے دوست!