عوامی مستقبل اور جے آئی ٹی

عمران خان کی طرف سے جے آئی ٹی کی ضرورت سے زیادہ حمایت معاملات خراب کر رہی ہے

سپریم کورٹ کے حکم پر جب جے آئی ٹی کے ذریعے تحقیقات کے اعلان کے ساتھ ہی حکمرانوں نے پہلے تو اطمینان کا اظہار کیا تھا اور وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ جانے والوں نے شک و شبے کا اظہار کیا تھا کہ جے آئی ٹی کے ارکان حکومتی اداروں کے ہوں گے جن پر حکومت اثرانداز ہوکر اپنے خلاف فیصلے پر اثرانداز ہوگی۔ جے آئی ٹی کی تشکیل تک عمران خان، سراج الحق، چوہدری اعتزاز احسن اور شیخ رشید مطمئن نہیں تھے اور جے آئی ٹی کی بجائے جوڈیشل کمیشن کا قیام چاہتے تھے تاکہ انھیں بیان بازی کا موقع ملتا رہتا۔

جے آئی ٹی کے لیے جب سرکاری اداروں سے نام بھیجے جا رہے تھے تو ایک مبینہ واٹس ایپ کے ذریعے دو اداروں سے دو مخصوص نام طلب کرنے کا میڈیا میں انکشاف ہوا تو حکمرانوں کے کان کھڑے ہوگئے اور عمران خان جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے محافظ بن کر سامنے آگئے اور حکمرانوں کی طرف سے دو مذکورہ ممبران کے جے آئی ٹی میں شامل کیے جانے کے بعد وزیر اعظم کے حامیوں نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار اور الزام تراشی شروع کردی اور سپریم کورٹ میں بھی اعتراضات داخل کیے مگر سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی پر اعتراضات مسترد کردیے اور جے آئی ٹی کو اپنا کام مقررہ وقت میں مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

جوں جوں جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے خاندان کی طلبی اور بیانات شروع کیے، وزیراعظم کے صاحبزادوں، وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب و دیگر کی پیشیاں مکمل ہوئیں تو وزیراعظم کے ترجمان اور حامیوں نے جے آئی ٹی پر تعصب کا الزام بھی لگا دیا اور سپریم کورٹ سے فیئر پلے کے حکم کی بھی استدعا کردی۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے بھی کہا کہ صرف نواز شریف کے خاندان کا یک طرفہ احتساب کیا جا رہا ہے اور ان کے نجی کاروبار سے متعلق ان کی تین نسلوں کا حساب لیا جا رہا ہے۔ بعض کو وعدہ معاف گواہ بنانے کے لیے جے آئی ٹی کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

جے آئی ٹی پر سرکاری حلقوں کی طرف جانبداری، تعصب اور شکوک کے اظہار کے بعد میڈیا کی خبروں اور ٹاک شوز میں بھی اعتراضات بڑھنا شروع ہوئے تو عمران خان اور ان کے حامیوں نے جے آئی ٹی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرنا شروع کردیا اور کہا کہ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں حکمرانوں نے فیصلہ نہ مانا تو ہم خود منوائیں گے تحریک انصاف ان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

عمران خان نے تو وزیراعظم کو مجرم بھی قرار دے دیا جب کہ تحقیقات ابھی جاری ہے جس کے مکمل ہونے پر سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا جائزہ لے گی اور وزیراعظم کے مجرم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے گی جس کے بعد سپریم کورٹ اپنا فیصلہ خود منوانے کی طاقت رکھتی ہے اسے عمران خان یا کسی اور کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور عمران خان خود چیمپئن بننے کی جو کوشش کر رہے ہیں اس سے حکمرانوں کی طرف سے جے آئی ٹی پر شکوک مزید بڑھ رہے ہیں۔

حکومتی حلقوں کی طرف سے عمران خان کی نااہلی کی بھی کوشش ہو رہی ہے اور عمران خان، آصف علی زرداری و دیگر کے خلاف جے آئی ٹی بنانے کے مطالبے ہو رہے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب سپریم کورٹ سے اپیل کر رہے ہیں کہ یکطرفہ احتساب نہ کیا جائے۔


جے آئی ٹی کی طرف سے سپریم کورٹ میں حکومتی اداروں کے عدم تعاون اور سرکاری ریکارڈ میں رد و بدل کے الزامات پیش کیے گئے ہیں جس کے جواب میں حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل نے جے آئی ٹی کے الزامات کی واضح تردید کی اور متعلقہ اداروں نے بھی سرکاری ریکارڈ میں رد و بدل کے الزامات کو غلط اور گمراہ کن قرار دے دیا ہے۔

ایس ای سی پی کے چیئرمین نے سپریم کورٹ سے مبینہ واٹس ایپ کال کے معاملے پر نوٹس لینے کی استدعا کی ہے۔

میڈیا میں مبینہ واٹس ایپ کال کے سلسلے میں رپورٹوں کی اشاعت اور ٹاک شوز میں الزامات کے بعد اس معاملے میں دلچسپی لینے والے عوامی حلقے بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں جب کہ عوام کی اکثریت لاتعلق ہے اور عام آدمی ملک سے کرپشن کا خاتمہ تو چاہتا ہے مگر اسے اپنے اور ملک کے مستقبل کی فکر ہے۔

بعض کے خیال میں وزیر اعظم کے صاحبزادے کی تصویر میڈیا میں آجانا کوئی ان کی تضحیک کا ثبوت نہیں مگر تصویر لیک ہونا، ایمبولینسیں طلب کرکے غلط رنگ آمیزی نے غیر جانبدار حلقوں میں معاملات کو مشکوک کر دیا ، سپریم کورٹ واضح کرچکی ہے کہ جے آئی ٹی کی دو ماہ کی مدت میں توسیع نہیں ہوگی۔

جے آئی ٹی کی شکایات پر سپریم کورٹ نے کہہ دیا ہے کہ جے آئی ٹی کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنا کام جاری رکھے اور جج حضرات جانتے ہیں کہ عدلیہ اور جے آئی ٹی پر تنقید کون کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ موجودہ حکومت کو بھی صورتحال کا ذمے دار سمجھتی ہے اور حکومتی حلقوں کی طرف سے حکومتی شکایات پر توجہ نہ دینے سے بھی حکومتی حلقوں کی مایوسی بڑھ رہی ہے۔

عمران خان جے آئی ٹی کے سب سے بڑے حامی بنے ہوئے ہیں اور ان کے بھائی ڈاکٹر طاہر القادری جے آئی ٹی پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار کرکے اسے ڈرامہ قرار دے چکے ہیں اور سابق صدر آصف زرداری کا خیال ہے کہ نواز شریف بچ جائیں گے۔ شیخ رشید اپنی ساری پیش گوئیاں غلط ثابت ہونے کے باوجود حکومت کا اختتام سپریم کورٹ سے نکلتا دیکھ رہے ہیں۔ سراج الحق کو بھی سپریم کورٹ سے بہت سی امیدیں ہیں۔

عمران خان کی طرف سے جے آئی ٹی کی ضرورت سے زیادہ حمایت معاملات خراب کر رہی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) مسلسل واویلا کر رہی ہے مگر اسے حمایت ملتی نظر نہیں آرہی اور قوم سولی پر لٹکی ہوئی ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن جو حکومت کے خلاف ہیں اور روزانہ میڈیا میں نظر آنے کے لیے حکومت کو دیواروں میں بند بھی دیکھ رہے ہیں اور جے آئی ٹی پر (ن) لیگ کے تحفظات پر سمجھتے ہیں کہ ان کے تحفظات دور نہ ہونے پر وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آیا تو وزیراعظم اور (ن) لیگ کو سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔

عوام کرپشن کا خاتمہ مگر سب کا بلا امتیاز اور بے رحمانہ احتساب چاہتے ہیں تاکہ ان کا مستقبل بہتر ہوسکے کیوں کہ تمام کرپٹ حکمرانوں کی کرپشن کا سب سے زیادہ نقصان عوام اور ملک کا ہوا ہے مگر کسی سابق حکمران سے کرپشن کی ایک پائی وصول نہیں کی جاسکی اور وہ سب فرشتے بنے ہوئے ہیں۔
Load Next Story