ریاض کانفرنس کا حاصل

سعودی عرب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کا عقائدی مرکز ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

مسلم ملکوں میں عقائدی حوالے سے بعض مسائل کو اس قدر سنگین بنادیا گیا ہے کہ وہ اہل خرد اہل علم جو امہ کے اجتماعی مفادات کو پہنچنے والے نقصانات کا علم و ادراک رکھنے کے باوجود زبان بند کیے بیٹھے ہیں۔ اس حوالے سے اور زیادہ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں یا مسلم ملکوں کی بڑی بڑی تنظیمیں پتھر بنی ہوئی ہیں جو فرقہ وارانہ اختلافات سے مسلمانوں کے اجتماعی نقصانات کو سمجھتے ہوں گے۔

او آئی سی اور عرب لیگ جیسی بڑی تنظیموں کی یہ فطری ذمے داری بنتی ہے کہ وہ فرقہ واریت سے مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کو پہنچنے والے نقصانات کا احساس کرکے ان غیر منطقی اختلافات کو ختم کرانے میں موثر کردار ادا کریں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ تنظیمیں منہ بند کیے بیٹھی ہیں۔

مذہبی انتہا پسندوں یا دہشتگردوں کا فلسفہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا کی دوسری قوموں سے برتر و اعلیٰ قوم ہے، اس پس منظر میں مسلمانوں کا یہ حق ہے کہ وہ دنیا کی قیادت کریں۔ اس حوالے سے سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی اور حال میں جو قومیں دنیا کی قیادت کر رہی ہیں کیا وہ غیر منطقی عقائد و نظریات کے حوالے سے اس مقام تک پہنچی ہیں یا سائنس ٹیکنالوجی جدید علوم حربی اور اقتصادی طاقت کے ذریعے وہ دنیا کی قیادت کر رہی ہیں۔

یہ کوئی سیکرٹ نہیں بلکہ اوپن سیکرٹ ہے، لیکن اسے ہماری بدقسمتی کہا جائے یا اغیار کی سازش کہ مسلم ملکوں کو ایسے فروعی مسائل میں الجھا دیا گیا ہے کہ ان کی ساری طاقت ان ہی فروعی مسائل میں لگ رہی ہے، مذہبی انتہا پسندی کی یہ ''سادگی'' ہے یا اغیار کی سازش کہ دنیا پر حکومت کرنے کے دعویدار خود مسلمانوں کے قتل میں مصروف ہیں۔

پچھلے ہفتے دہشتگردوں نے ایرانی پارلیمنٹ اور آیت اﷲ خمینی کے مزار پر حملہ کر کے فقہی اختلافات کو اور گہرا کرنے کی منصوبہ بند کوشش کی ہے۔ مسلم ملکوں خصوصاً عراق، شام، پاکستان وغیرہ میں برسوں سے جس دہشتگردی کا سلسلہ جاری ہے اس کی بنیاد فقہی اختلافات ہیں۔ ویسے تو فقہی اختلافات کی جڑیں صدیوں میں پیوست ہیں لیکن اکیسویں صدی میں فقہی اختلافات نے جس دہشتگردی کا مظاہرہ شروع کیا ہے، وہ مسلم ملکوں کے مستقبل کے لیے اس قدر زہر آلود ہے کہ اگر بلائے بے درماں کا سختی اور سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا گیا تو مسلم ملکوں کا نہ صرف مستقبل مخدوش ہوجائے گا بلکہ دنیا میں مسلم ملک اچھوت بن کر رہ جائیں گے۔


اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ بعض مسلم ملکوں نے فقہی اختلافات کو داخلی اور خارجی حوالوں سے اپنی سیاست کا حصہ بنالیا ہے۔ ماضی میں یہ ملک مسلم ملکوں میں موجود فقہی تنظیموں کو بھاری مالی امداد فراہم کرکے عام سادہ لوح مسلمانوں میں بھی فقہی نفرتیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور مسلم ملکوں کی مذہبی قیادت مسلمانوں کے اجتماعی نقصانات کو نظرانداز کرکے محض فنڈ بٹورنے کی خاطر مسلمانوں میں فرقہ وارانہ نفرتوں کی آبیاری کرتی تھیں اور یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں آج بھی جاری ہے۔

یہ سلسلہ اگرچہ صدیوں پر پھیلا ہوا ہے لیکن افسوس کہ مسلم مذہبی اکابرین نے اس گھن کی طرح مسلم امہ کے ذہنوں کو کھا جانے والے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ المیہ یہ ہے کہ یہ اکابرین ان غیر منطقی فرقوں کا خود بھی حصہ بنتے رہے۔ دہشتگردی کی حالیہ لہر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہدف بے گناہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عبادت گاہیں، مسجدیں، امام بارگاہیں اور تاریخی مزارات بھی بن رہے ہیں۔ایران کے ''نظریاتی'' رہنما آیت اللہ خمینی کے مزار پر حملہ اسی تشویشناک سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

سعودی عرب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کا عقائدی مرکز ہے، اس حوالے سے اس کی ذمے داری یہ ہونی چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور مسلم امہ کے اجتماعی مفادات کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کر دیتا۔ ابھی پچھلے دنوں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں 40 سے زیادہ مسلم ملکوں کی جو کانفرنس ہوئی اس کا مقصد دہشتگردی کے خلاف متحد ہوکر جنگ کرنا بتایا گیا۔ لیکن دنیا خاص طور پر مسلم دنیا حیرت سے دیکھتی رہی کہ یہ کانفرنس امریکی صدر ٹرمپ کے مقاصد کے لیے پلیٹ فارم کا کام انجام دیتی رہی۔

اس کانفرنس کا ٹرمپ نے سب سے بڑا فائدہ یہ اٹھایا کہ کانفرنس کے شرکاء کو ایران کے خلاف متحد کردیا۔ قطر کے بارے میں یہ خیال ہے کہ اس کا جھکاؤ ایران کی طرف رہا ہے اس کی سزا قطر کو یہ دی گئی کہ اس سے ہمارے محترم عرب ملکوں نے سفارتی تعلقات توڑ لیے اور اس پر ایسی سخت پابندیاں لگائیں کہ قطری عوام روٹی کے لیے ترس گئے۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یہ سازش رہی ہے کہ وہ مسلم ملکوں کی افرادی قوت اور بے پناہ وسائل کو درست اور بامقصد سمت میں استعمال سے ہر قیمت پر روکنا چاہتے ہیں، اس کے لیے ان ملکوں کو فروعی مسائل میں الجھانا ضروری ہے اور یہ کام مغربی ملک امریکا کی سرپرستی میں پوری ''دیانت داری'' سے انجام دے رہے ہیں ریاض کانفرنس میں مسلمانوں کو فرقہ واریت میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی اور ٹرمپ نے سعودیہ سے اربوں روپے کے اسلحے کے معاہدے کیے یہ دو کامیابیاں ایسی ہیں جس پر ٹرمپ فخر کرسکتا ہے۔
Load Next Story