قلم کار

جاویدچوہدری کےمتعلق لکھنابہت مشکل کام ہےانہوں نےکالم نگاری کوایسی نئی شناخت دی جوپہلےکسی کےبھی ذہن میں نہیں تھی

raomanzarhayat@gmail.com

ہم لوگ جائز تعریف کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ شائد شرماتے بھی ہیں۔ مگر لکھاری کسی بھی سماج کاوہ حسن ہوتے ہیں،جس کے بغیر معاشرے بنجر ہوجاتے ہیں۔ بھول جائیے کہ زندگی کی دوڑمیں شہرت،دولت اوروقتی کامیابی کس کے حصے میں آئی۔کیونکہ یہ سب کچھ اگراتفاق نہیں توحسن اتفاق ضرورہے۔یہ بھی تھوڑی دیرکیلیے فراموش کرڈالیے کہ ہمارے قلم کاروں کاذہنی رخ کیاہے۔کون کس کے ساتھ ہے یانہیں۔ان تمام لوگوں کوتعصب کی عینک کے بغیردیکھیے۔تھوڑی دیرکیلیے حیران رہ جائیں گے کہ ہمارے اپنے عہدمیں کیسے کیسے انمول لوگ موجودہیں۔

کوئی بھی اخبار،جریدہ یارسالہ کسی بھی انسانی ذہن کومقیدنہیں کرسکتا۔طالبعلم کی نظرمیں انسانی فکرکوویسے ہی قیدنہیں کیا جاسکتا۔درست ہے کہ مولاناحسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان،شورش کاشمیری فکرانگیزلکھاری تھے۔مگر یہ عہدبھی ذہنی صحرانہیںہے۔کسی بھی لکھاری کادوسرے لکھاری سے مقابلہ نہیں ہوسکتا۔کیونکہ ہرایک کواس کی فکری ساخت سے جانناچاہیے۔قلم کی دھارسے شعلے برامدہورہے ہیں یاسرد پانی کے پُرتاثیرچشمے۔دونوں کی اپنی اپنی جگہ کمال اہمیت ہے۔سوچیے اگرآگ نہ ہوتوٹھنڈی چھاؤں کاکیالطف۔

محترم ہارون رشیدکیاکمال لکھتے ہیں۔اردوزبان کی نوک پلک سنوارنے کاکام اس شخص کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑاہے۔عربی زبان کی اصطلاحوں اورحجازکے قبائل پر گہری نظررکھنے والاقلمی مزدورایک باکمال لکھاری ہے۔ صرف دوملاقاتیں ہیں۔

ایک اسرارکسانہ کے ساتھ پنڈی میں،پروفیسراحمدرفیق اخترکے دفتراوردوسری جنرل (ر) جاویدکے کھانے پر۔سادہ سی گفتگوکرنے والاہارون رشید جب قلم اُٹھاتاہے توالفاظ بے بس ہوجاتے ہیں۔فراموش کردیجئے،کہ وہ کس زاویے سے لکھتاہے۔مگراصل بات یہ ہے کہ کمال لکھتاہے۔عجیب مردِآزاد۔

محترم عطاء الحق قاسمی کے کالموں کو پڑھیے۔ طنزومزاح میں کون ساشخص ہے جواس شخص کے سحرسے آزاد ہے۔ پچیس برس سے قاسمی صاحب سے معمولی سی شناسائی ہے۔ مجھے وہ ہرگزہرگزنہیں پہچانتے۔بہاولپورمیں تعیناتی کے دوران ان سے ملاقاتوں کاسلسلہ شروع ہوا۔کمشنرمرتضیٰ بیگ برلاس ایک ادب شناس انسان تھے۔ اپنے عہدکے بڑے شاعراوراس سے بھی بڑے انسان۔ انھی کی بدولت عطاء الحق قاسمی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ بلکہ ان کے استاد محترم احمدندیم قاسمی صاحب سے بھی پہلی ملاقات بہاولہور کے سرکٹ ہاؤس میں ہوئی۔

احمدندیم قاسمی کے متعلق کیا لکھا جائے۔ اپنی ذات میں ایک عہد تھا۔ بھرپور لکھاری اورپُرتاثیر الفاظ کاشہنشاہ۔خیربات عطاء الحق قاسمی کی ہورہی تھی۔آپ ان سے سیاسی اختلاف رکھ سکتے ہیں۔ یہ آپکاحق ہے۔مگر قلم سے موتی پرونے کافن عطاء الحق قاسمی کے پاس بدرجہ اَتم موجودہے۔طنزومزاح کی آمیزش سے اس درجہ پختہ لکھنے والانظرنہیں آئیگا۔

نذیرناجی سے میری کوئی ملاقات نہیں۔ان کے سیاسی کالم اپنی حیثیت میں مستندہیں۔تجزیہ اورتجربے سے بھرپور۔حق ہے آپکوکہ ناجی کی فکری جہت سے اختلاف کریں۔مگرجس آسانی سے وہ مشکل سے مشکل بات لکھنے کی قدرت رکھتا ہے، ایک حیرت کدہ ہے۔ شائدمیں غلط لکھ گیاکہ نذیرناجی سے ملاقات نہیں ہوئی۔1983ء میں شناسائی ضرورتھی۔سی ایس ایس کی تیاری کررہاتھا۔شادمان میں ایک فلیٹ پڑھنے کیلیے لے رکھاتھا۔اس بلڈنگ میں ناجی صاحب بھی رہ رہے تھے۔تیس پنتیس برس پہلے کا نذیر ناجی بالکل اسی طرح کاتھا،جس طرح کاآج ہے۔ان کے کالم پاکستان کی سیاسی تاریخ ہیں۔

محترم مجیب الرحمن شامی کی طرف دیکھیے۔اپنی فکرکے مطابق حددرجہ بھرپورلکھاری اور کالم نویس۔ان سے بہت کم ملاقاتیں ہیں۔چندبرس پہلے،ڈاکٹرنثاراے چوہدری کے ایک کھانے پراوراس کے بعدلاہورجم خانہ میں ایک لکھاری کیلیے برپاتقریب میں۔کمال شخص ہے۔ اردوپر عبوررکھنے والاشخص۔ بالکل علم نہیں تھاکہ ان کے رانااسلم صاحب کے سسرمحترم سے دیرینہ تعلق ہے۔


اسلم صاحب کے سسرمحترم رانانذرالرحمن صاحب چندہفتے پہلے جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ان کے انتقال کے بعد بتایا گیا کہ نذرالرحمن صاحب اور مجیب الرحمن شامی پرانے رفیق تھے۔اس سے پہلے کبھی اس موضوع پربات ہی نہیں ہوئی۔بہرحال تعلق ہونایانہ ہونا مکمل طورپربے معنی ہے۔اصل طلسم تو یہ ہے کہ شامی صاحب بھی غضب کے قلمکارہیں۔اپنے عہد کا منفرد لکھاری۔

آگے بڑھیے،اوریامقبول جان نہ صرف میرابیچ میٹ ہے بلکہ انتہائی قریبی دوست۔1984ء سے اوریا کو جانتا ہوں۔سول سروسزاکیڈمی میں قطعاًاندازہ نہیں تھاکہ اوریا چنددہائیوں بعد ایک قلمی جن بھرکرابھرے گا۔اوریاسے لاکھ اختلاف کریں۔ کرنا بھی چاہیے۔فکری طورپرکئی بارانتہائی مشکل باتیں لکھ جاتاہے۔مگردل پرہاتھ رکھ کربتائیے کہ کوئی اورلکھاری اس درجہ دقیق موضوعات پرلکھنے کی ہمت کر سکتا ہے جواوریاکرتاہے اورببانگ دہل کرتاہے۔مذہبی فکر سے مزین لکھاری آج کے دورمیں بہت کم ہیں۔کیونکہ یہ ان کا عہدنہیں ہے۔ مگر اور یا بغیرکسی ترددکے مسلسل ایک مخصوص فکرکے ساتھ لکھ رہاہے اورکمال لکھ رہاہے۔

عرض کروں گا کہ آپکومکمل اختیارہے کہ اس کے کالموں سے اختلاف کریں، مگر اسے اپنے ذہن کے حساب سے لکھنے کامکمل حق حاصل ہے۔یہ حق اوریاخوب اداکرتاہے۔آپ لکھاری اوریا کو جانتے ہونگے۔ مگرمیری خوش قسمتی ہے کہ اوریا مقبول جان کو ذاتی طور پر جانتاہوں۔ایک بے قرارشخص۔جسکے ہرخلیہ میں بے چینی مقید ہے۔کمال لکھتاہے۔کئی بارمیں بھی اس کے لکھے ہوئے سے اختلاف کرتاہوں۔ مگر یہ معمولی سی بات ہے۔ اصل میں وہ قلمی دنگل ہے جس میں اوریاایک مستندپہلوان ہے۔

حسن نثارایک ظالم لکھاری ہے۔سچ اورحقیقت کے تیشہ سے پتھرتوڑنے والاانسان۔چندہفتے پہلے لندن سے ڈاکٹرطارق امین آیاہواتھا۔باتوں باتوں میں ذکر ہوا، تو بتانے لگاکہ حسن نثارسے انتہائی محبت کارشتہ ہے۔صرف ایک بار بات ہوئی۔ جب بتایاکہ میں بھی لائل پورسے تعلق رکھتا ہوںتوحسن نثارکی آوازمیں مٹھاس سی آگئی۔

پنجاب یونیورسٹی میں حسن نثارکے کلاس فیلو،ضیاء الرحمن صاحب میرے بہنوئی ہیں۔ حسن نثارسے ان کی خاصی دوستی ہے۔جب یہ دو تعلق بتائے توحسن صاحب کی آوازمیں مٹھاس کے ساتھ ساتھ ایک انسیت بھی شامل ہوگئی۔کہنے لگے کہ کسی وقت میں ضرورآؤں۔اپنی زندگی اپنے تخیل کے تابع گزارنے والاشخص۔بہت کم لوگ اس پایہ کے ہوتے ہیں کہ دوست اوردشمن اس کی بات کوبغورسنیں اورا س سے سیکھیں۔

جاویدچوہدری کے متعلق لکھنابہت مشکل کام ہے۔ اس لیے کہ اس شخص نے کالم نگاری کوایک ایسی نئی شناخت دی جوپہلے کسی کے بھی ذہن میں نہیں تھی۔حقیقی واقعات کونفس مضمون بناکراس اچھوتے طریقے سے لکھنا،کہ لوگ سردھنتے ہیں۔کمال کالکھنے والا۔ہرکالم اپنی جگہ ایک نایاب تحریرہوتی ہے۔آسان ترین طریقے سے مشکل ترین باتیں لکھنے کافن صرف اورصرف جاویدچوہدری کے پاس ہے۔

عجیب بات ہے کہ میں بہاولپورتین برس رہا۔مگروہاں کبھی بھی اس بڑے آدمی سے ملاقات نہ ہوپائی۔اتنے رکھ رکھاؤ والاانسان ہے کہ جب بھی آپ کال کریں،میسج کریں، سو فیصدواپسی کال کرتاہے۔انسان دوست لکھاری ہے۔ زندگی کے مشکل ترین مرحلے طے کرکے آج جس قلمی پختگی پر جاویدچوہدری کھڑاہواہے،اس پرتبصرہ آنے والاوقت ہی کریگا۔اس شخص نے کالم نویسی کواس طرح تبدیل کیاکہ ہر چیزبدل گئی۔جب بھی اسلام آباد جانا ہو، جاوید چوہدری سے ملاقات کی کوشش کرتاہوں۔ اتنا اچھا انسان ہے، کہ اپنی مصروف ترین زندگی میں سے بھی آپکے لیے کچھ وقت نکال ہی لیتاہے۔ایک وسیع لائبریری کا مالک اورنظم وضبط کے تحت زندگی گزارنے والابے مثال انسان۔

اوربہت سے لکھاری ہیں جن کا تذکرہ نہیں کر سکا۔ کیونکہ بہرحال کالم میں تمام اہل فکراورتمام اہل فن کو سمویا نہیں جاسکتا۔دوبارہ عرض کرونگاکہ آپکواس زمانے کے قلم کاروں سے نظریاتی اختلاف کرنے کابھرپورحق ہے۔ مگر سوچیے کہ اگریہ فکری فرق نہ ہوتوکتنابڑاذہنی جمودہوجائے۔ یہ تنوع ہی سب کچھ ہے۔یہی تحریرکاحسن ہے اور معاشرے کوبدلنے کاایک زندہ طریقہ۔ہمارے ہاں اپنے لکھاریوں کی تعریف نہ کرنے کی روایت کوتوڑتاہوں۔یہ عیدان عظیم قلم کاروں کے توسط سے تمام لوگوں کے نام کرتا ہوں۔ میری طرف سے عید مبارک!
Load Next Story