عیدالفطر بخشش انعام و اکرام کا دن
یہ دن خشیت الہٰی اور محبّت رسولؐ کی شاہ راہ پر گام زن ہونے کی ترغیب دیتا ہے
شوال کا پہلا دن عیدالفطر ہے۔ نبی کریمؐ نے اس دن کی فضیلت کے بارے میں فرمایا: '' جب شوال کا پہلا دن ہوتا ہے، آسمانی منادی ندا دیتا ہے : اے مومنو! اپنے تحفوں کی طرف دوڑ پڑو۔
امیر المومنین جنابِ حضرت علیؓ نے عیدالفطر کے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا :
'' اے لوگو! یہ دن وہ ہے جس میں نیک لوگ اپنا انعام حاصل کرتے ہیں اور بُرے لوگ ناامید اور مایوس ہوتے ہیں اور اس دن کی قیامت کے دن کے ساتھ کافی شباہت ہے، اس لیے گھر سے نکلتے وقت اس دن کو یاد کرو جس دن قبروں سے نکال کر خدا کی بارگاہ میں حاضر کیے جاؤ گے، نماز میں کھڑے ہونے کے وقت خدا کے سامنے کھڑے ہونے کو یاد کرو اور اپنے گھروں میں واپس آتے ہوئے اس وقت کو یاد کرو جس وقت بہشت میں اپنی منزلوں کی طرف لوٹو گے۔ اے خدا کے بندو ! سب سے کم چیز جو روزہ دار مردوں اور عورتوں کو رمضان المبارک کے آخری دن عطا کی جاتی ہے، وہ فرشتے کی یہ بشارت ہے جو صدا دیتا ہے : '' اے بندۂ خدا مبارک ہو ! جان لے تمہارے پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے ہیں، اب اگلے دن کے بارے میں ہوشیار رہنا کہ کیسے گذارو گے۔''
عیدالفطر اپنے اعمال اور عبادات کا انعام حاصل کرنے کا دن ہے، اس لیے مستحب ہے کہ اس دن بہت زیادہ دعائیں کی جائیں، خدا کی یاد میں رہا جائے، بے پروائی نہ کی جائے اور دنیا اور آخرت کی نیکی طلب کی جائے۔
عیدالفطر کے دن مسلمانوں کے لیے دو بڑی خوشیاں ہیں۔ ایک یہ کہ اس دن اللہ تعالیٰ ''صدقۃ الفطر'' قبول فرماتا ہے۔ یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال عطا فرما کر پھر اس میں سے کچھ اپنے نام پر قبول فرما لے اور اسے ہماری آخرت کے لیے محفوظ فرما دے۔ اس لیے عید کے دن پہلا کام '' صدقۃالفطر '' ادا کرنا ہے دل کی خوشی کے ساتھ خوب زیادہ سے زیادہ '' صدقۃ الفطر'' اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائی۔
دوسری خوشی مسلمانوں کے اجتماع میں اللہ تعالیٰ کے حضور دو رکعت نماز ادا کرنے کی ہے۔ رمضان المبارک میں محبوب کی خاطر بھوکے پیاسے رہنے والے عاشقین کو آج ایک خاص ملاقات پر بلایا گیا ہے۔ یہ خاص ملاقات ہے عید کی نماز۔ اس لیے صبح اٹھ کر خوب اچھی طرح نہالیں، پاک صاف ہوجائیں، اپنے لباس میں سے جو اچھا ہو وہ زیب تن کریں۔ خوش بو لگائیں، مسواک کرکے منہ کو معطر کریں، جو عَطر میسر ہو وہ لگائیں، سرمہ اور عمامہ سے زینت حاصل کریں۔ ال غرض محبوب سے خصوصی ملاقات کی خوب اچھی طرح تیاری کرکے جلدی عید گاہ پہنچ جائیں۔ پہلی صف میں امام کے قریب کیوں کہ آج خاص نماز ہے اور خاص ملاقات، ایسا نہ ہو بچوں کی انگلیاں پکڑتے قیمتی جوتیاں سنبھالتے اور لوگوں کی خاطر پہنے گئے کپڑوں کو سنوارتے ہماری عید کی نماز سڑک پر ادا ہو رہی ہو۔
عید کا دن خشیت الہٰی اور محبت رسولؐ کی شاہ راہ پر گام زن ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ دوسروں کے دکھ، درد اور تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے اور ویسے بھی آقائے کونین ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ امت مسلمہ ایک جسد واحد کی مانند ہے، کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے گی تو سارابدن تکلیف محسوس کرے گا۔ اور ان تعلیمات کا حقیقی عکس سرکا ر دو عالم ﷺ کی حیات مبارکہ میں جا بہ جا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اور بہ ظاہر یہ چھوٹا سا واقعہ ہے مگر تاریخ انسانیت اور آبرو آدمیت کی پیشانی پر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وہ آخری برگزیدہ نبی پاکؐ جو کُل جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے اور کارکنان قضا و قدر جس کے اشارہ آبرو کے منتظر رہتے تھے اور قدسیان فلک جن کے دیدار کی خواہش لیے ازل سے چشم بہ راہ تھے اور حور و ملائک کی بزم آرائیاں اور قدرت کی جلوہ آرائیاں جن کی ذات کی بہ دولت استیادہ و آراستہ تھیں۔ آپؐ نماز عید کی ادائی کے لیے نکلے تو صحابہ کرامؓ کے علاوہ آپ کے دونوں نواسے سیدنا اما م حسنؓ اور سیدنا امام حسینؓ بھی ہم راہ تھے۔ دفعتاً نظر رحمت ایک ایسے بچے پر پڑی جو والدین کے سایۂ شفقت سے محروم تھا اور بوسیدہ لباس پہنے ہوئے تھا اور آنکھوں میں آنسو لیے حسرت و یاس کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ رحمت عالم ﷺ کی نگاہِ رحمت پڑی تو آنکھوں کے سامنے اپنا دور یتیمی آگیا۔ آنکھوں سے آنسو موتیوں کی لڑی کی مانند گرنے لگے۔ آپؐ نے اپنی بابرکت چادر مبارک سے اس بچے کے آنسو پونچھے اور اس کو اپنے سایۂ عاطفت میں لے کر کاشانۂ نبوت پر تشریف لائے اور اس بچے کو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے سپرد کیا اور فرمایا کہ اس کو نہلا کر اچھے اور نئے کپڑے پہنائے جائیں۔ پھر جب تک وہ بچہ تیار ہوتا رہا آپؐ محو انتظار رہے اور پھر اس بچے کی انگلی پکڑ کر اسے اپنے ساتھ عید گاہ لے گئے۔
احساس جواب دہی اور پرسش احوال کا خیال ہمارے دل و دماغ سے رخصت ہوتا جارہا ہے۔ ہمارا ہر قدم نمائشی اور ہر عمل آرائشی ہوکر رہ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہمارا تعلقِ بندگی دن بہ دن کم زور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عید کا دن ہو یا سال بھر کے دوسرے دن ہمیں ہر لمحہ رب العزت کی رضا کے حصول کے لیے کمر بستہ رہنا چاہیے۔ ہمیں اپنے کردار کو مضبوط بنانا چاہیے کہ یہی وہ حوالہ ہے جو انسان کو کبھی بھی طاق نسیان کی نذر نہیں ہونے دیتا اور انسان آنے والے زمانے کے لیے نشان منزل مینارہ نور اور ایک مثال بن جاتا ہے۔ عظمتوں کے تمام سرچشمے اور کبریائی کی تمام صورتیں رب العزت کی بارگاہ کے شایان شان ہیں۔ ہمیں اپنی عبادات میں اخلاص اور بندگی کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ تحمل و بردباری کو زندگی میں اہم جگہ دینی چاہیے۔
عید کے دن شکر کریں احتجاج نہیں۔ بعض لوگ خصوصاً خواتین عید کے دن احتجاج کا موڈ بنا لیتی ہیں۔ وہ گھرانے جن میں کسی کا انتقال ہوگیا ہو یا گھر کا کوئی عزیز مصیبت میں ہو، ایسے گھرانوں کی خواتین عام طور سے کہتی ہیں اس سال ہم عید نہیں منا رہے اور پھر پرانے کپڑے پہن کر احتجاج کرتی ہیں، خود بھی روتی ہیں، دوسروں کو بھی رلاتی ہیں۔ یہ طریقہ ناشکری اور تکبر والا ہے۔ عید تو ایک ''دینی خوشی'' ہے۔ رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کی خوشی، پس جس کی رمضان المبارک میں بخشش ہوگئی اس کی عید تو خود ہی ہوجاتی ہے اور جو رمضان المبارک میں محروم رہا وہ لاکھ خوشیاں اور مستیاں کرلے اس کی کوئی عید نہیں۔ عید کا دن شکر اور شکرانے کا دن ہے اگر آپ کے کسی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے تو آپ تلاوت کرکے اور نوافل ادا کرکے اس کے لیے خوب ساری دعائیں کریں۔ اگر آپ کے عزیز مصیبت میں ہیں تو تلاوت اور نوافل کے بعد ان کے لیے دعا مانگیں مگر احتجاج والا ماحول نہ بنائیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، ہم خدا نہیں کہ سب کچھ ہماری مرضی سے ہو۔ اللہ پاک کی مرضی جس کو چاہے زندہ رکھے اور جس کو چاہے موت دے ہمارا کام اس کی تقدیر پر راضی ہونا ہے اور اس سے صبر کی دعا کرنا ہے۔ اگر ہم اکڑیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا ؟ تو یہ تکبر کی علامت ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ اور غلام رہے اور خود کو کچھ نہ سمجھے۔
٭ عید کے دن غریبوں کا دل نہ دکھائیں
اللہ تعالیٰ نے آپ کو مال دیا ہے تو اس کی اتنی نمائش نہ کریں کہ غریبوں کے لیے زندہ رہنا مشکل ہوجائے۔ بہت قیمتی چیزیں اپنے بچوں کو نہ لاکر دیں۔ مل بانٹ کر کھائیں اور ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھیں اور تو اور کسی غریب کے گھر کے سامنے گوشت کی ہڈیاں اور پھلوں کے چھلکے تک نہ ڈالیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بچے بھی گوشت اور پھل مانگنے لگیں اور وہ بے چارہ غم کے آنسو پی کر جلتا رہے۔
اللہ تعالیٰ نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مال داروں سے افضل ہیں، وہ مال داروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ انبیائے علیہم السلام کے طریقے پر ہیں، وہ اپنی آنکھوں میں لالچ، محرومی اور سوال کی ذلت نہ بھریں۔ اپنے سر پر قناعت کا تاج رکھیں۔ عید کے دن نئے کپڑے بالکل ضروری نہیں ہیں۔ بچوں کے لیے نئے جوتے ضروری نہیں ہیں۔
اس لیے ان چیزوں کا غم نہ کھائیں اور نہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ لائیں۔ پیوند لگے کپڑوں میں جو عزت اور شان ہے وہ ریشم کے لباس میں نہیں ہے، کسی کو اس بات پر نہ کوسیں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو کسی کے مال پر نظر کرنے دیں۔
قناعت اور استغنا کا تاج پہنیں اور قبر کی مٹی کو یاد رکھیں۔ رب کعبہ کی قسم دنیا انہی لوگوں کو ستاتی ہے جو موت اور قبر کو بھول جاتے ہیں اور جو لوگ موت اور قبر کو یاد رکھتے ہیں، یہ دنیا ان کے قدموں پر گرتی ہے۔ عید کا ایک دن بھی گزر جائے گا، چاروں طرف دنیا کے میلے دیکھ کر اپنی غریبی اور فقیری کو داغ دار نہ ہونے دیں۔ n
امیر المومنین جنابِ حضرت علیؓ نے عیدالفطر کے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا :
'' اے لوگو! یہ دن وہ ہے جس میں نیک لوگ اپنا انعام حاصل کرتے ہیں اور بُرے لوگ ناامید اور مایوس ہوتے ہیں اور اس دن کی قیامت کے دن کے ساتھ کافی شباہت ہے، اس لیے گھر سے نکلتے وقت اس دن کو یاد کرو جس دن قبروں سے نکال کر خدا کی بارگاہ میں حاضر کیے جاؤ گے، نماز میں کھڑے ہونے کے وقت خدا کے سامنے کھڑے ہونے کو یاد کرو اور اپنے گھروں میں واپس آتے ہوئے اس وقت کو یاد کرو جس وقت بہشت میں اپنی منزلوں کی طرف لوٹو گے۔ اے خدا کے بندو ! سب سے کم چیز جو روزہ دار مردوں اور عورتوں کو رمضان المبارک کے آخری دن عطا کی جاتی ہے، وہ فرشتے کی یہ بشارت ہے جو صدا دیتا ہے : '' اے بندۂ خدا مبارک ہو ! جان لے تمہارے پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے ہیں، اب اگلے دن کے بارے میں ہوشیار رہنا کہ کیسے گذارو گے۔''
عیدالفطر اپنے اعمال اور عبادات کا انعام حاصل کرنے کا دن ہے، اس لیے مستحب ہے کہ اس دن بہت زیادہ دعائیں کی جائیں، خدا کی یاد میں رہا جائے، بے پروائی نہ کی جائے اور دنیا اور آخرت کی نیکی طلب کی جائے۔
عیدالفطر کے دن مسلمانوں کے لیے دو بڑی خوشیاں ہیں۔ ایک یہ کہ اس دن اللہ تعالیٰ ''صدقۃ الفطر'' قبول فرماتا ہے۔ یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال عطا فرما کر پھر اس میں سے کچھ اپنے نام پر قبول فرما لے اور اسے ہماری آخرت کے لیے محفوظ فرما دے۔ اس لیے عید کے دن پہلا کام '' صدقۃالفطر '' ادا کرنا ہے دل کی خوشی کے ساتھ خوب زیادہ سے زیادہ '' صدقۃ الفطر'' اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائی۔
دوسری خوشی مسلمانوں کے اجتماع میں اللہ تعالیٰ کے حضور دو رکعت نماز ادا کرنے کی ہے۔ رمضان المبارک میں محبوب کی خاطر بھوکے پیاسے رہنے والے عاشقین کو آج ایک خاص ملاقات پر بلایا گیا ہے۔ یہ خاص ملاقات ہے عید کی نماز۔ اس لیے صبح اٹھ کر خوب اچھی طرح نہالیں، پاک صاف ہوجائیں، اپنے لباس میں سے جو اچھا ہو وہ زیب تن کریں۔ خوش بو لگائیں، مسواک کرکے منہ کو معطر کریں، جو عَطر میسر ہو وہ لگائیں، سرمہ اور عمامہ سے زینت حاصل کریں۔ ال غرض محبوب سے خصوصی ملاقات کی خوب اچھی طرح تیاری کرکے جلدی عید گاہ پہنچ جائیں۔ پہلی صف میں امام کے قریب کیوں کہ آج خاص نماز ہے اور خاص ملاقات، ایسا نہ ہو بچوں کی انگلیاں پکڑتے قیمتی جوتیاں سنبھالتے اور لوگوں کی خاطر پہنے گئے کپڑوں کو سنوارتے ہماری عید کی نماز سڑک پر ادا ہو رہی ہو۔
عید کا دن خشیت الہٰی اور محبت رسولؐ کی شاہ راہ پر گام زن ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ دوسروں کے دکھ، درد اور تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے اور ویسے بھی آقائے کونین ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ امت مسلمہ ایک جسد واحد کی مانند ہے، کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے گی تو سارابدن تکلیف محسوس کرے گا۔ اور ان تعلیمات کا حقیقی عکس سرکا ر دو عالم ﷺ کی حیات مبارکہ میں جا بہ جا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اور بہ ظاہر یہ چھوٹا سا واقعہ ہے مگر تاریخ انسانیت اور آبرو آدمیت کی پیشانی پر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وہ آخری برگزیدہ نبی پاکؐ جو کُل جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے اور کارکنان قضا و قدر جس کے اشارہ آبرو کے منتظر رہتے تھے اور قدسیان فلک جن کے دیدار کی خواہش لیے ازل سے چشم بہ راہ تھے اور حور و ملائک کی بزم آرائیاں اور قدرت کی جلوہ آرائیاں جن کی ذات کی بہ دولت استیادہ و آراستہ تھیں۔ آپؐ نماز عید کی ادائی کے لیے نکلے تو صحابہ کرامؓ کے علاوہ آپ کے دونوں نواسے سیدنا اما م حسنؓ اور سیدنا امام حسینؓ بھی ہم راہ تھے۔ دفعتاً نظر رحمت ایک ایسے بچے پر پڑی جو والدین کے سایۂ شفقت سے محروم تھا اور بوسیدہ لباس پہنے ہوئے تھا اور آنکھوں میں آنسو لیے حسرت و یاس کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ رحمت عالم ﷺ کی نگاہِ رحمت پڑی تو آنکھوں کے سامنے اپنا دور یتیمی آگیا۔ آنکھوں سے آنسو موتیوں کی لڑی کی مانند گرنے لگے۔ آپؐ نے اپنی بابرکت چادر مبارک سے اس بچے کے آنسو پونچھے اور اس کو اپنے سایۂ عاطفت میں لے کر کاشانۂ نبوت پر تشریف لائے اور اس بچے کو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے سپرد کیا اور فرمایا کہ اس کو نہلا کر اچھے اور نئے کپڑے پہنائے جائیں۔ پھر جب تک وہ بچہ تیار ہوتا رہا آپؐ محو انتظار رہے اور پھر اس بچے کی انگلی پکڑ کر اسے اپنے ساتھ عید گاہ لے گئے۔
احساس جواب دہی اور پرسش احوال کا خیال ہمارے دل و دماغ سے رخصت ہوتا جارہا ہے۔ ہمارا ہر قدم نمائشی اور ہر عمل آرائشی ہوکر رہ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہمارا تعلقِ بندگی دن بہ دن کم زور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عید کا دن ہو یا سال بھر کے دوسرے دن ہمیں ہر لمحہ رب العزت کی رضا کے حصول کے لیے کمر بستہ رہنا چاہیے۔ ہمیں اپنے کردار کو مضبوط بنانا چاہیے کہ یہی وہ حوالہ ہے جو انسان کو کبھی بھی طاق نسیان کی نذر نہیں ہونے دیتا اور انسان آنے والے زمانے کے لیے نشان منزل مینارہ نور اور ایک مثال بن جاتا ہے۔ عظمتوں کے تمام سرچشمے اور کبریائی کی تمام صورتیں رب العزت کی بارگاہ کے شایان شان ہیں۔ ہمیں اپنی عبادات میں اخلاص اور بندگی کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ تحمل و بردباری کو زندگی میں اہم جگہ دینی چاہیے۔
عید کے دن شکر کریں احتجاج نہیں۔ بعض لوگ خصوصاً خواتین عید کے دن احتجاج کا موڈ بنا لیتی ہیں۔ وہ گھرانے جن میں کسی کا انتقال ہوگیا ہو یا گھر کا کوئی عزیز مصیبت میں ہو، ایسے گھرانوں کی خواتین عام طور سے کہتی ہیں اس سال ہم عید نہیں منا رہے اور پھر پرانے کپڑے پہن کر احتجاج کرتی ہیں، خود بھی روتی ہیں، دوسروں کو بھی رلاتی ہیں۔ یہ طریقہ ناشکری اور تکبر والا ہے۔ عید تو ایک ''دینی خوشی'' ہے۔ رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کی خوشی، پس جس کی رمضان المبارک میں بخشش ہوگئی اس کی عید تو خود ہی ہوجاتی ہے اور جو رمضان المبارک میں محروم رہا وہ لاکھ خوشیاں اور مستیاں کرلے اس کی کوئی عید نہیں۔ عید کا دن شکر اور شکرانے کا دن ہے اگر آپ کے کسی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے تو آپ تلاوت کرکے اور نوافل ادا کرکے اس کے لیے خوب ساری دعائیں کریں۔ اگر آپ کے عزیز مصیبت میں ہیں تو تلاوت اور نوافل کے بعد ان کے لیے دعا مانگیں مگر احتجاج والا ماحول نہ بنائیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، ہم خدا نہیں کہ سب کچھ ہماری مرضی سے ہو۔ اللہ پاک کی مرضی جس کو چاہے زندہ رکھے اور جس کو چاہے موت دے ہمارا کام اس کی تقدیر پر راضی ہونا ہے اور اس سے صبر کی دعا کرنا ہے۔ اگر ہم اکڑیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا ؟ تو یہ تکبر کی علامت ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ اور غلام رہے اور خود کو کچھ نہ سمجھے۔
٭ عید کے دن غریبوں کا دل نہ دکھائیں
اللہ تعالیٰ نے آپ کو مال دیا ہے تو اس کی اتنی نمائش نہ کریں کہ غریبوں کے لیے زندہ رہنا مشکل ہوجائے۔ بہت قیمتی چیزیں اپنے بچوں کو نہ لاکر دیں۔ مل بانٹ کر کھائیں اور ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھیں اور تو اور کسی غریب کے گھر کے سامنے گوشت کی ہڈیاں اور پھلوں کے چھلکے تک نہ ڈالیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بچے بھی گوشت اور پھل مانگنے لگیں اور وہ بے چارہ غم کے آنسو پی کر جلتا رہے۔
اللہ تعالیٰ نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مال داروں سے افضل ہیں، وہ مال داروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ انبیائے علیہم السلام کے طریقے پر ہیں، وہ اپنی آنکھوں میں لالچ، محرومی اور سوال کی ذلت نہ بھریں۔ اپنے سر پر قناعت کا تاج رکھیں۔ عید کے دن نئے کپڑے بالکل ضروری نہیں ہیں۔ بچوں کے لیے نئے جوتے ضروری نہیں ہیں۔
اس لیے ان چیزوں کا غم نہ کھائیں اور نہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ لائیں۔ پیوند لگے کپڑوں میں جو عزت اور شان ہے وہ ریشم کے لباس میں نہیں ہے، کسی کو اس بات پر نہ کوسیں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو کسی کے مال پر نظر کرنے دیں۔
قناعت اور استغنا کا تاج پہنیں اور قبر کی مٹی کو یاد رکھیں۔ رب کعبہ کی قسم دنیا انہی لوگوں کو ستاتی ہے جو موت اور قبر کو بھول جاتے ہیں اور جو لوگ موت اور قبر کو یاد رکھتے ہیں، یہ دنیا ان کے قدموں پر گرتی ہے۔ عید کا ایک دن بھی گزر جائے گا، چاروں طرف دنیا کے میلے دیکھ کر اپنی غریبی اور فقیری کو داغ دار نہ ہونے دیں۔ n