فضل الرحمن کے نواز الطاف شجاعت اسفندیار کو فون
بلوچستا ن میں گورنرراج ہٹانے کیلیے جمہوری قوتوں کومطالبہ کرناچاہیے،جے یو آئی ایف۔
جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ فضل الرحمٰن نے پارلیمنٹ کے مجوزہ مشترکہ اجلاس میں بلوچستان کے گورنر راج پر قراردادکو ناکام بنانے کیلیے سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطے شروع کردیے ہیں۔
گزشتہ روزفضل الرحمن نے ن لیگ کے سربراہ نوازشریف،ایم کیوایم کے قائدالطاف حسین،ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اوراے این پی کے سربراہ اسفند یارولی خان کوٹیلیفون کیے،انھوں نے ان رہنمائوں کوبتایاکہ وزیراعلی بلوچستان سمیت صوبائی کابینہ امن وامان کے معاملے پرمستعفی ہونے پر تیار ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان کوبھی قائل کیاجاسکتا ہے مگرگورنرراج ہٹانے کیلیے جمہوری وسیاسی قوتوںکومتفقہ مطالبہ کرناچاہیے۔ انھوںنے سیاسی قائدین سے پارلیمنٹ میںگورنرراج کے حق میںقراردادکو ناکام بنانے کیلیے تعاون مانگ لیاہے۔
آئی این پی کے مطابق فضل الرحمٰن نے کہا کہ جے یو آئی (ف) اس وقت عوامی امنگوںکی ترجمان بن چکی ہے'آئندہ انتخابات میںپارٹی حیران کن کارکردگی کامظاہرہ کرے گی۔ایکسپریس ڈیسک کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین اورجمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن کے مابین ٹیلی فون پربات چیت ہوئی۔ دونوں رہنماؤںکے مابین مجموعی سیاسی صورتحال، جمہوریت کے فروغ، بلوچستان میں جمہوری عمل کی بحالی اورملک کے مختلف حصوں میں امن وامان کی صورتحال پرتبادلہ خیال ہوا۔
گزشتہ روزفضل الرحمن نے ن لیگ کے سربراہ نوازشریف،ایم کیوایم کے قائدالطاف حسین،ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اوراے این پی کے سربراہ اسفند یارولی خان کوٹیلیفون کیے،انھوں نے ان رہنمائوں کوبتایاکہ وزیراعلی بلوچستان سمیت صوبائی کابینہ امن وامان کے معاملے پرمستعفی ہونے پر تیار ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان کوبھی قائل کیاجاسکتا ہے مگرگورنرراج ہٹانے کیلیے جمہوری وسیاسی قوتوںکومتفقہ مطالبہ کرناچاہیے۔ انھوںنے سیاسی قائدین سے پارلیمنٹ میںگورنرراج کے حق میںقراردادکو ناکام بنانے کیلیے تعاون مانگ لیاہے۔
آئی این پی کے مطابق فضل الرحمٰن نے کہا کہ جے یو آئی (ف) اس وقت عوامی امنگوںکی ترجمان بن چکی ہے'آئندہ انتخابات میںپارٹی حیران کن کارکردگی کامظاہرہ کرے گی۔ایکسپریس ڈیسک کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین اورجمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن کے مابین ٹیلی فون پربات چیت ہوئی۔ دونوں رہنماؤںکے مابین مجموعی سیاسی صورتحال، جمہوریت کے فروغ، بلوچستان میں جمہوری عمل کی بحالی اورملک کے مختلف حصوں میں امن وامان کی صورتحال پرتبادلہ خیال ہوا۔