سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اور زرعی اصلاحات
ہمارے پڑوسی ملکوں میں بھی حصول آزادی کے بعد پہلا کام زرعی اصلاحات کا ہی کیا
کسی ملک کی سیاسی قیادت اگر قوم و ملک سے مخلص ہو تو وہ سب سے پہلے اہم قومی مسائل کا تعین کرتی ہے اور پھر ان میں ترجیحات طے کرتی ہے اور اس کے بعد ایک منصوبہ بند طریقے سے ان پر عملدرآمد شروع کرتی ہے۔ افسوس کہ ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوا اس کے برخلاف ہمیشہ نان ایشوز کی سیاست کی گئی۔
ہمارے ملک کا ایک اہم مسئلہ زرعی اصلاحات ہے اس مسئلے پر بار بار لکھنے کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ یہ مسئلہ پاکستان کے حلق میں 70 سال سے ہڈی کی طرح اٹکا ہوا ہے، اس مسئلے کی اہمیت اور حل کی ضرورت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ نو آبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کے بعد تقریباً تمام پسماندہ ملکوں نے سب سے پہلا کام زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کا کیا۔
ہمارے پڑوسی ملکوں میں بھی حصول آزادی کے بعد پہلا کام زرعی اصلاحات کا ہی کیا بھارت میں زرعی اصلاحات کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیوڈلز سیاست سے باہر ہوگئے اور سیاست سازشوں سے پاک ہوگئی اور سب سے بڑا کام یہ ہوا کہ سیاست اور اقتدار پر مڈل کلاس کا قبضہ ہوگیا آج آپ بھارت کی سیاست اور اقتدار پر نظر ڈالیں تو آپ کو ہر طرف مڈل کلاس کی برتری ہی نظر آئے گی۔ حتیٰ کہ بھارت جیسے دنیا کے دوسرے بڑے ملک میں ایک ایسا وزیر اعظم برسر اقتدار ہے جو ماضی میں ایک ڈھابے پر باہر والے کے طور پر کام کرتا رہا۔
کیا پاکستان میں یہ ممکن ہے کہ ڈھابے والے کو چھوڑیے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا کوئی اہل اور دیانتدار شخص وزیر اعظم بن سکے یہ اس لیے ممکن نہیں کہ ہماری اشرافیائی سیاست میں نچلی سطح سے قیادت ابھرنے کے سارے دروازے بند کردیے گئے ہیں اور مڈل کلاس کو اشرافیہ نے اپنا ایجنٹ بنا کر رکھ دیا ہے۔
پاکستان ورکرز پارٹی کے سربراہ اور پاکستان کے معروف وکیل عابد حسن منٹو نے برسوں پہلے عدالت میں زرعی اصلاحات کے حوالے سے ایک کیس دائر کیا ہوا ہے اور ہماری عدالتی روایت کے مطابق اس کیس میں برسوں سے تاریخ مل رہی ہے۔ آج ہمیں زرعی اصلاحات پر ایک بار پھر قلم اٹھانے کی ضرورت یوں پڑی کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات و قومی ورثے کے اجلاس میں سینیٹر تاج حیدر نے یہ انکشاف کیا کہ زرعی اصلاحات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ افراد ہیں جو دس دس ہزار ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں۔
اگر کمیٹی مجھ سے ان بڑے بڑے جاگیرداروں کی فہرست مانگے تو میں فراہم کرنے کے لیے تیار ہوں۔ تاج حیدر نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ میں زرعی اصلاحات کی حمایت کی تھی۔ لیکن پرویز مشرف نے ہمیں جواب دیا کہ وہ ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک افراد پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔
قائمہ کمیٹی کو پاکستان ورکرز پارٹی کے سربراہ عابد حسن منٹو نے زرعی اصلاحات پر بریفنگ میں بتایا کہ زرعی اصلاحات ایکٹ 1977 کی کچھ شقوں کو فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے کہ وہ اسلامی قانون کے خلاف ہیں ۔ جب کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 253 زرعی اصلاحات کے حق میں ہے واضح رہے کہ شریعت کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے کہ وہ اسلامی قانون کے خلاف ہیں۔جب کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 253 زرعی اصلاحات کے حق میں ہے واضح رہے کہ شریعت کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ زرعی اصلاحات خلاف شریعت ہیں۔
آئین پاکستان زرعی اصلاحات کرنے کا حق پاکستان کو دیتا ہے ہمیں آئین پاکستان کے مطابق اس مسئلے پر کام کرنا چاہیے اور کسی کو پارلیمنٹ کا حق چھیننے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ منٹو صاحب نے کہا کہ سپریم کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر زرعی اصلاحات کا کیس فکس نہیں کرایا جاسکا۔
اگر پارلیمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے اور اس کے اختیارات چھینے جا رہے ہیں تو پارلیمنٹ کو اس کیس میں فریق بننا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی علامتی نمائندگی سے اس کیس میں بڑا فرق پڑے گا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ اس معاملے میں کمیٹی اپنی رپورٹ تیار کرکے سفارشات پیش کرے اور کمیٹی کو چیئرمین سینیٹ کے ذریعے اس کیس میں فریق بننے کے لیے درخواست دینی چاہیے اور اگر کمیٹی نیا بل لانے کے حق میں ہے تو اس بل میں تجویز کیا جائے کہ 25 ایکڑ سے زیادہ زمین کسی کے پاس نہ رہے۔
اٹارنی جنرل سے یہ رائے لی جائے کہ ایک کیس کا فیصلہ ہوچکا ایسے میں کیا نیا بل لایا جاسکتا ہے؟ عابد حسن منٹو نے کہا کہ اگر نیا قانون لانا ہے تو ایسا لایا جائے کہ جس سے زرعی اصلاحات کے حوالے سے قزلباش کیس کا فیصلہ کٹ ڈاؤن ہوجائے تو پھر اس کا فائدہ ہوگا۔
یہ رائے تو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں پیش کی گئی جو ایک خوش آئند بات ہے لیکن جہاں دس دس ہزار ایکڑ زمین کی بات کی گئی ہے وہیں اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے کہ آج بھی کئی جاگیرداروں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین موجود ہے اور جاگیردار اپنی اسی زمین کی وجہ سے سیاست اور حکومت میں بالادست ہیں۔
اگرچہ اس حوالے سے قانونی لڑائی بھی جدوجہد کی ایک حد ہوسکتی ہے لیکن اس کیس ہی سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ قانونی لڑائی کتنی طویل ہوسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی اگر چاہتی ہے کہ ملک میں زرعی اصلاحات ہوں تو پھر اسے اس حوالے سے تحریک کی طرف آنا چاہیے اگر پیپلز پارٹی زرعی اصلاحات کے حق میں تحریک چلاتی ہے تو بلاشبہ پیپلز پارٹی کو حیات نو مل سکتی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے ملک کا ایک اہم مسئلہ زرعی اصلاحات ہے اس مسئلے پر بار بار لکھنے کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ یہ مسئلہ پاکستان کے حلق میں 70 سال سے ہڈی کی طرح اٹکا ہوا ہے، اس مسئلے کی اہمیت اور حل کی ضرورت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ نو آبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کے بعد تقریباً تمام پسماندہ ملکوں نے سب سے پہلا کام زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کا کیا۔
ہمارے پڑوسی ملکوں میں بھی حصول آزادی کے بعد پہلا کام زرعی اصلاحات کا ہی کیا بھارت میں زرعی اصلاحات کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیوڈلز سیاست سے باہر ہوگئے اور سیاست سازشوں سے پاک ہوگئی اور سب سے بڑا کام یہ ہوا کہ سیاست اور اقتدار پر مڈل کلاس کا قبضہ ہوگیا آج آپ بھارت کی سیاست اور اقتدار پر نظر ڈالیں تو آپ کو ہر طرف مڈل کلاس کی برتری ہی نظر آئے گی۔ حتیٰ کہ بھارت جیسے دنیا کے دوسرے بڑے ملک میں ایک ایسا وزیر اعظم برسر اقتدار ہے جو ماضی میں ایک ڈھابے پر باہر والے کے طور پر کام کرتا رہا۔
کیا پاکستان میں یہ ممکن ہے کہ ڈھابے والے کو چھوڑیے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا کوئی اہل اور دیانتدار شخص وزیر اعظم بن سکے یہ اس لیے ممکن نہیں کہ ہماری اشرافیائی سیاست میں نچلی سطح سے قیادت ابھرنے کے سارے دروازے بند کردیے گئے ہیں اور مڈل کلاس کو اشرافیہ نے اپنا ایجنٹ بنا کر رکھ دیا ہے۔
پاکستان ورکرز پارٹی کے سربراہ اور پاکستان کے معروف وکیل عابد حسن منٹو نے برسوں پہلے عدالت میں زرعی اصلاحات کے حوالے سے ایک کیس دائر کیا ہوا ہے اور ہماری عدالتی روایت کے مطابق اس کیس میں برسوں سے تاریخ مل رہی ہے۔ آج ہمیں زرعی اصلاحات پر ایک بار پھر قلم اٹھانے کی ضرورت یوں پڑی کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات و قومی ورثے کے اجلاس میں سینیٹر تاج حیدر نے یہ انکشاف کیا کہ زرعی اصلاحات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ افراد ہیں جو دس دس ہزار ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں۔
اگر کمیٹی مجھ سے ان بڑے بڑے جاگیرداروں کی فہرست مانگے تو میں فراہم کرنے کے لیے تیار ہوں۔ تاج حیدر نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ میں زرعی اصلاحات کی حمایت کی تھی۔ لیکن پرویز مشرف نے ہمیں جواب دیا کہ وہ ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک افراد پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔
قائمہ کمیٹی کو پاکستان ورکرز پارٹی کے سربراہ عابد حسن منٹو نے زرعی اصلاحات پر بریفنگ میں بتایا کہ زرعی اصلاحات ایکٹ 1977 کی کچھ شقوں کو فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے کہ وہ اسلامی قانون کے خلاف ہیں ۔ جب کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 253 زرعی اصلاحات کے حق میں ہے واضح رہے کہ شریعت کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے کہ وہ اسلامی قانون کے خلاف ہیں۔جب کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 253 زرعی اصلاحات کے حق میں ہے واضح رہے کہ شریعت کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ زرعی اصلاحات خلاف شریعت ہیں۔
آئین پاکستان زرعی اصلاحات کرنے کا حق پاکستان کو دیتا ہے ہمیں آئین پاکستان کے مطابق اس مسئلے پر کام کرنا چاہیے اور کسی کو پارلیمنٹ کا حق چھیننے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ منٹو صاحب نے کہا کہ سپریم کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر زرعی اصلاحات کا کیس فکس نہیں کرایا جاسکا۔
اگر پارلیمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے اور اس کے اختیارات چھینے جا رہے ہیں تو پارلیمنٹ کو اس کیس میں فریق بننا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی علامتی نمائندگی سے اس کیس میں بڑا فرق پڑے گا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ اس معاملے میں کمیٹی اپنی رپورٹ تیار کرکے سفارشات پیش کرے اور کمیٹی کو چیئرمین سینیٹ کے ذریعے اس کیس میں فریق بننے کے لیے درخواست دینی چاہیے اور اگر کمیٹی نیا بل لانے کے حق میں ہے تو اس بل میں تجویز کیا جائے کہ 25 ایکڑ سے زیادہ زمین کسی کے پاس نہ رہے۔
اٹارنی جنرل سے یہ رائے لی جائے کہ ایک کیس کا فیصلہ ہوچکا ایسے میں کیا نیا بل لایا جاسکتا ہے؟ عابد حسن منٹو نے کہا کہ اگر نیا قانون لانا ہے تو ایسا لایا جائے کہ جس سے زرعی اصلاحات کے حوالے سے قزلباش کیس کا فیصلہ کٹ ڈاؤن ہوجائے تو پھر اس کا فائدہ ہوگا۔
یہ رائے تو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں پیش کی گئی جو ایک خوش آئند بات ہے لیکن جہاں دس دس ہزار ایکڑ زمین کی بات کی گئی ہے وہیں اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے کہ آج بھی کئی جاگیرداروں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین موجود ہے اور جاگیردار اپنی اسی زمین کی وجہ سے سیاست اور حکومت میں بالادست ہیں۔
اگرچہ اس حوالے سے قانونی لڑائی بھی جدوجہد کی ایک حد ہوسکتی ہے لیکن اس کیس ہی سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ قانونی لڑائی کتنی طویل ہوسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی اگر چاہتی ہے کہ ملک میں زرعی اصلاحات ہوں تو پھر اسے اس حوالے سے تحریک کی طرف آنا چاہیے اگر پیپلز پارٹی زرعی اصلاحات کے حق میں تحریک چلاتی ہے تو بلاشبہ پیپلز پارٹی کو حیات نو مل سکتی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔