اصلی امریکا نقلی امریکا
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو امریکا کی شر انگیزی سے محفوظ ہو۔
برطانوی استعمار کے خلاف امریکا کی جنگ آزادی کی قیادت کرنے والے جنرل جارج واشنگٹن نے آزادی کے بعد امریکا کے صدر کی حیثیت سے امریکی حکومت کو یہ تاکید کی تھی کہ وہ دوسرے ممالک کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں اور اپنے آپ کو صرف امریکا کے قومی مفادات تک محدود رکھے۔ ا
مریکا نے خاصے عرصے تک جارج واشنگٹن کی اس نصیحت پر سختی سے عمل کیا لیکن دوسری عالمی جنگ کے دوران صدر روز ویلٹ نے عالمی سیاست میں یہ بہانہ بناکر کودنے کا اعلان کردیاکہ دوسرے ملکوں اور اقوام کو ان کی سوچ، عقیدے اور رائے کی آزادی دلانا امریکا کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ یہی وہ نکتہ آغاز تھا جہاں سے امریکا نے دوسروں کے پھڈے میں اپنی ٹانگ اڑانے کی شروعات کردی۔
امریکا نے اپنے اس خودساختہ عالمی کردار کی عملی شروعات جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ہلاکت خیز ایٹم بم گرا کر کردی۔ بس اس کے بعد چل سو چل کا سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے اور نامعلوم کب اور کہاں جا کر ختم ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ منحوس سلسلہ اس کرۂ ارض پر آخری انسان کے خاتمے پر ہی جاکر ختم ہو۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو امریکا کی شر انگیزی سے محفوظ ہو۔ گویا پوری انسانیت کی فنا یا بقا کا انحصار اب امریکا بہادر کی مرضی پر ہے۔ روئے زمین تو کجا اب خلا بھی امریکا کی زد سے محفوظ نہیں ہے۔ اس حوالے سے ایرانی قائد کا امریکا کو بڑا شیطان کہنا حرف بہ حرف درست معلوم ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی فساد و فتنہ کی اصل جڑ امریکا اور صرف امریکا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آنجہانی جارج واشنگٹن کی روح امریکا کے اس شرانگیز کردار کی وجہ سے بری طرح تڑپتی ہوگی۔
جارج واشنگٹن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ امریکا پر کبھی اتنا برا وقت بھی آئے گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بدنام زمانہ شخص بھی وائٹ ہاؤس کا مکین ہوگا۔ دنیا جانتی ہے کہ امریکی صدارت کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے ہی ٹرمپ نے اپنی شرانگیزی کا سلسلہ شروع کردیا تھا جس میں اب ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے صدارتی منصب کا حلف اٹھاتے ہی ایران، لیبیا، شام، صومالیہ، سوڈان اور یمن وغیرہ کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر 90 روز کے لیے پابندی کا حکم جاری کیا تھا جسے امریکی ریاست ہوائی کی طرف سے مقامی عدالت میں چیلنج کردیا گیا اور اس عدالت نے ٹرمپ کے اس حکم کو معطل کردیا۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر اپیل کورٹ نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ یہ بتانے میں ناکام رہے ہیں کہ سفری پابندی میں شامل مذکورہ چھ ممالک کے افراد اور پناہ گزینوں کے داخلے سے امریکی مفادات کو کوئی نقصان پہنچے گا۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکا کی دو دیگر ریاستوں میری لینڈ اور واشنگٹن ڈی سی کے اٹارنی جنرلز نے صدر ٹرمپ کے خلاف بدعنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے عدالت میں جانے کا اعلان کردیا۔ الزام یہ ہے کہ ٹرمپ بدعنوانی کی روک تھام کے امریکی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ انھوں نے خود کو اپنے کاروباری اداروں سے الگ نہیں کیا حالانکہ انھوں نے گزشتہ جنوری میں اپنے کاروبار کی ذمے داری اپنے بیٹوں کے سپرد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے خلاف ایک الزام یہ بھی ہے کہ ان کی کمپنیوں نے غیر ملکی حکومتوں سے لاکھوں ڈالر اور دیگر فوائد بھی حاصل کیے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف تین امریکی ریاستوں کے جذبات اور اپیل کورٹ کے فیصلے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکا کے سنجیدہ حلقوں کو وہ تبدیلیاں ہضم نہیں ہو رہیں جو امریکا کے موجودہ عالمی کردار کے حوالے سے سامنے آرہی ہیں۔
دراصل امریکا کو عرصۂ دراز سے عالمی چوہدراہٹ کا جو چسکہ لگا ہوا ہے اس کی وجہ سے اس کی اپنی پرانی قدریں روایات دم توڑ رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جارج واشنگٹن کا امریکا اب ماضی کا ایک خواب بن چکا ہے۔
امریکا کے ایک سابق صدر جمی کارٹر نے اکتوبر 2005 ''لاس اینجلس ٹائمز'' میں شایع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں اس صورتحال کا جائزہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ان الفاظ میں پیش کیا تھا: ''ہمارے تاریخی اوصاف یہ ہیں کہ ہم اپنے شہریوں کو درست معلومات فراہم کرتے ہیں اور اختلاف رائے اور اختلاف عقائد کو عزت و احترام کے ساتھ برداشت کرتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں ہمارے یہ تاریخی اوصاف خطرات سے دوچار ہوچکے ہیں۔
ہمارے سیاسی رہنماؤں نے یک طرفہ طور پر بین الاقوامی تنظیموں اور دیرینہ معاہدوں کی پابندیوں سے آزادی کا اعلان کردیا ہے۔ ان میں وہ تمام معاہدے بھی شامل ہیں جو ایٹمی اسلحے اور جراثیمی و حیاتیاتی ہتھیاروں کے ضمن میں طے ہوئے تھے یا جو عالمی نظام انصاف کے بارے میں تھے۔ جب تک ہماری ملکی سلامتی کو براہ راست کوئی خطرہ لاحق نہ ہو اس وقت تک امن ہماری قومی ترجیحات میں سر فہرست ہے۔ لیکن ہم اپنی اس روایت کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور ہم نے ''قبل ازوقت'' حملے کی پالیسی اپنالی ہے۔ اگر کسی ناپسندیدہ حکومت کو بدلنا مقصود ہو یا کوئی اور مقصد پیش نظر ہو تو ہم نے اپنے اس یک طرفہ اقدام کو اپنا حق سمجھ لیا ہے۔
ہم اس حکومت کو ''عالمی اچھوت'' قرار دے کر اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کردیتے ہیں۔ ہمارے سرکردہ رہنماؤں کی شدید کوشش یہی ہے کہ ساری دنیا پر امریکی سامراج کو مسلط کردیا جائے۔ انھیں اس خواہش یا کوشش کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ امریکا نے جنیوا معاہدے کو پس پشت ڈال کر عراق، افغانستان اور گوانتانامو میں تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہم اب عالمی سطح پر ایٹمی پھیلاؤ کے بڑے مجرم بن چکے ہیں۔''
سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا یہ تبصرہ اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ آج کا امریکا جارج واشنگٹن یا تھامس جیفرسن کا نہیں بلکہ جارج ڈبلیو بش اور ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا ہے جس کا اصول پسندی، دیانتداری اور عدل و انصاف جیسی کسی بات سے کوئی تعلق نہیں۔
مریکا نے خاصے عرصے تک جارج واشنگٹن کی اس نصیحت پر سختی سے عمل کیا لیکن دوسری عالمی جنگ کے دوران صدر روز ویلٹ نے عالمی سیاست میں یہ بہانہ بناکر کودنے کا اعلان کردیاکہ دوسرے ملکوں اور اقوام کو ان کی سوچ، عقیدے اور رائے کی آزادی دلانا امریکا کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ یہی وہ نکتہ آغاز تھا جہاں سے امریکا نے دوسروں کے پھڈے میں اپنی ٹانگ اڑانے کی شروعات کردی۔
امریکا نے اپنے اس خودساختہ عالمی کردار کی عملی شروعات جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ہلاکت خیز ایٹم بم گرا کر کردی۔ بس اس کے بعد چل سو چل کا سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے اور نامعلوم کب اور کہاں جا کر ختم ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ منحوس سلسلہ اس کرۂ ارض پر آخری انسان کے خاتمے پر ہی جاکر ختم ہو۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو امریکا کی شر انگیزی سے محفوظ ہو۔ گویا پوری انسانیت کی فنا یا بقا کا انحصار اب امریکا بہادر کی مرضی پر ہے۔ روئے زمین تو کجا اب خلا بھی امریکا کی زد سے محفوظ نہیں ہے۔ اس حوالے سے ایرانی قائد کا امریکا کو بڑا شیطان کہنا حرف بہ حرف درست معلوم ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی فساد و فتنہ کی اصل جڑ امریکا اور صرف امریکا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آنجہانی جارج واشنگٹن کی روح امریکا کے اس شرانگیز کردار کی وجہ سے بری طرح تڑپتی ہوگی۔
جارج واشنگٹن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ امریکا پر کبھی اتنا برا وقت بھی آئے گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بدنام زمانہ شخص بھی وائٹ ہاؤس کا مکین ہوگا۔ دنیا جانتی ہے کہ امریکی صدارت کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے ہی ٹرمپ نے اپنی شرانگیزی کا سلسلہ شروع کردیا تھا جس میں اب ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے صدارتی منصب کا حلف اٹھاتے ہی ایران، لیبیا، شام، صومالیہ، سوڈان اور یمن وغیرہ کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر 90 روز کے لیے پابندی کا حکم جاری کیا تھا جسے امریکی ریاست ہوائی کی طرف سے مقامی عدالت میں چیلنج کردیا گیا اور اس عدالت نے ٹرمپ کے اس حکم کو معطل کردیا۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر اپیل کورٹ نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ یہ بتانے میں ناکام رہے ہیں کہ سفری پابندی میں شامل مذکورہ چھ ممالک کے افراد اور پناہ گزینوں کے داخلے سے امریکی مفادات کو کوئی نقصان پہنچے گا۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکا کی دو دیگر ریاستوں میری لینڈ اور واشنگٹن ڈی سی کے اٹارنی جنرلز نے صدر ٹرمپ کے خلاف بدعنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے عدالت میں جانے کا اعلان کردیا۔ الزام یہ ہے کہ ٹرمپ بدعنوانی کی روک تھام کے امریکی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ انھوں نے خود کو اپنے کاروباری اداروں سے الگ نہیں کیا حالانکہ انھوں نے گزشتہ جنوری میں اپنے کاروبار کی ذمے داری اپنے بیٹوں کے سپرد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے خلاف ایک الزام یہ بھی ہے کہ ان کی کمپنیوں نے غیر ملکی حکومتوں سے لاکھوں ڈالر اور دیگر فوائد بھی حاصل کیے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف تین امریکی ریاستوں کے جذبات اور اپیل کورٹ کے فیصلے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکا کے سنجیدہ حلقوں کو وہ تبدیلیاں ہضم نہیں ہو رہیں جو امریکا کے موجودہ عالمی کردار کے حوالے سے سامنے آرہی ہیں۔
دراصل امریکا کو عرصۂ دراز سے عالمی چوہدراہٹ کا جو چسکہ لگا ہوا ہے اس کی وجہ سے اس کی اپنی پرانی قدریں روایات دم توڑ رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جارج واشنگٹن کا امریکا اب ماضی کا ایک خواب بن چکا ہے۔
امریکا کے ایک سابق صدر جمی کارٹر نے اکتوبر 2005 ''لاس اینجلس ٹائمز'' میں شایع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں اس صورتحال کا جائزہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ان الفاظ میں پیش کیا تھا: ''ہمارے تاریخی اوصاف یہ ہیں کہ ہم اپنے شہریوں کو درست معلومات فراہم کرتے ہیں اور اختلاف رائے اور اختلاف عقائد کو عزت و احترام کے ساتھ برداشت کرتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں ہمارے یہ تاریخی اوصاف خطرات سے دوچار ہوچکے ہیں۔
ہمارے سیاسی رہنماؤں نے یک طرفہ طور پر بین الاقوامی تنظیموں اور دیرینہ معاہدوں کی پابندیوں سے آزادی کا اعلان کردیا ہے۔ ان میں وہ تمام معاہدے بھی شامل ہیں جو ایٹمی اسلحے اور جراثیمی و حیاتیاتی ہتھیاروں کے ضمن میں طے ہوئے تھے یا جو عالمی نظام انصاف کے بارے میں تھے۔ جب تک ہماری ملکی سلامتی کو براہ راست کوئی خطرہ لاحق نہ ہو اس وقت تک امن ہماری قومی ترجیحات میں سر فہرست ہے۔ لیکن ہم اپنی اس روایت کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور ہم نے ''قبل ازوقت'' حملے کی پالیسی اپنالی ہے۔ اگر کسی ناپسندیدہ حکومت کو بدلنا مقصود ہو یا کوئی اور مقصد پیش نظر ہو تو ہم نے اپنے اس یک طرفہ اقدام کو اپنا حق سمجھ لیا ہے۔
ہم اس حکومت کو ''عالمی اچھوت'' قرار دے کر اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کردیتے ہیں۔ ہمارے سرکردہ رہنماؤں کی شدید کوشش یہی ہے کہ ساری دنیا پر امریکی سامراج کو مسلط کردیا جائے۔ انھیں اس خواہش یا کوشش کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ امریکا نے جنیوا معاہدے کو پس پشت ڈال کر عراق، افغانستان اور گوانتانامو میں تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہم اب عالمی سطح پر ایٹمی پھیلاؤ کے بڑے مجرم بن چکے ہیں۔''
سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا یہ تبصرہ اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ آج کا امریکا جارج واشنگٹن یا تھامس جیفرسن کا نہیں بلکہ جارج ڈبلیو بش اور ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا ہے جس کا اصول پسندی، دیانتداری اور عدل و انصاف جیسی کسی بات سے کوئی تعلق نہیں۔