نسب کی تلاش میں
نظریوں اور آراء کی یہ کشمکش جاری رہی تاآنکہ 1960ء کے لگ بھگ اس میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔
ممتاز برطانوی مورخ، ہف ٹریور روپر نے، 1965ء میں، اس نظریے کے جواب میں کہ افریقہ کے کالے لوگوں کی اپنی ایک تاریخ ہے، لکھا تھا کہ ''افریقہ میں صرف یورپیوں کی تاریخ ہے، باقی زیادہ تر تاریکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''تاریخ کا کسی تحریک کی صورت میں ہونا لازم ہے، وہ بھی بامقصد تحریک، جو افریقہ میں نہیں پائی جاتی۔''
ٹریور روپرکی کہی ہوئی بات اس نظریے کی گونج تھی جو 19 ویں صدی کے شروع میں پیش کیا گیا تھا، جبکہ ایسا تھا نہیں۔ جب کمسن شہزادے کوسیمو ڈی میڈیسی (1621ء۔ 1590ء ) کی ڈیوک آف تسکینی بننے کے لیے تربیت کی جا رہی تھی اورجب شیکسپیئر ''ہیملٹ'' لکھ رہے تھے، انھیں ''عالمی رہنماؤں کا خلاصہ'' مرتب کرنے کے لیے کہا گیا جن میں کانگوکے بادشاہ، ایلوارو دوئم، موتاپا کی بادشاہت اور ایتھوپیا کے افسانوی شہرت کے مالک ''پریسٹر جان'' بھی شامل ہوں۔
بہرحال، جلد ہی افریقہ کی تاریخ کا اس سطح کا علم نایاب ہوگیا۔ ہمیں شاید اس پرکوئی حیرت نہیں ہوئی کہ افریقیوں اور تاریخ و ثقافت سے ان کی مبینہ لاعلمی کو پوری نئی دنیا میں کروڑوں افریقیوں کو غلام بنانے کا جواز بنایا گیا، خاص طور پر 19 ویں صدی کے دوران جب کیوبا میں چینی کی پیداوار عروج پر تھی اورکپاس کاشتکاروں خواہ تیارکندگان دونوں کو مالدار بنارہی تھی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ یہ نظریے 20 ویں صدی تک، گورے اورکالے امریکیوں میں یکساں موجود تھے۔ ہینری لوئیس گیٹس جونیئر، جو پی بی ایس کی سیریز''افریقہ کی عظیم تہذیب'' کے میزبان اور ہارورڈ کے ہچنس مرکز برائے افریقی اور افریقی امریکی تحقیق کے ڈائریکٹر ہیں،اپنے مقالے میں رقمطراز ہیں کہ 1950ء کے عشرے میں جب میں بڑا ہورہا تھا، افریقہ وہ سایہ تھا جو ہر افریقی امریکی پر پڑرہا تھا۔ ہم میں سے پال کفی، جم کرو اور مارکوس گاروے جیسے کچھ لوگوں کے نزدیک وہ غلامی سے بچنے کے لیے چھپنے کی جگہ تھی، جبکہ بہت سے دوسرے لوگوں کی رائے میں وہ ایسی جگہ تھی جہاں سے بھاگ نکلنے کو جی چاہے۔
نظریوں اور آراء کی یہ کشمکش جاری رہی تاآنکہ 1960ء کے لگ بھگ اس میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ یہ وہ سال تھا جس میں 17 یورپی نوآبادیات آزاد افریقی ریاستیں بنیں، ان سے پہلے سوڈان 1956ء اورگھانا 1957ء میں آزاد ہو چکے تھے۔ جب یہ ممالک دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوئے، میں 5 ویں کلاس کا طالب علم تھا۔ ان میں ٹوگو، مڈغاسکر، صومالیہ، سینیگال، نائجیریا اورکانگو شامل تھے۔ ہمارے جغرافیہ کے استاد نے تختہ سیاہ کے ساتھ افریقہ کا نقشہ آویزاں کر رکھا تھا جس پر تیزی سے آزاد ہونے والے افریقی ممالک کو نشان زد کیا جاتا تھا۔
یہی وہ دن تھے جب افریقہ سے میرے عشق کی ابتدا ہوئی۔ مجھے ان ممالک اور ان کے رہنماؤں کے نام ازبر ہوگئے۔ پیٹرک لوممبا، شومبے، لیو پولڈ سینگھور اور نکرومہ ان میں سے کچھ ممالک کے شہروں کے نام بھی مجھے یاد تھے، جیسے دار السلام، موغادیشو، ڈاکار اورکنشاسا۔ پھر غالباً ریڈرز ڈائجسٹ میں ہم نے خطِ استوا پارکرنے والے لڑکے کی کہانی پڑھی۔ میں بھی اسے پار کرنا چاہتا تھا۔
میں افریقہ جانے کیلیے موقعے کی تلاش میں تھا جو اس وقت ملا جب ہم 12 طلبا کو ایک تعلیمی سال کی درمیانی مدت کے لیے کسی ترقی پذیر ملک کے مطالعاتی دورے پر افریقہ بھیجا گیا، جہاں ہمیں پڑھنا نہیں کام کرنا تھا۔ میں نے یہ عرصہ تنزانیہ کے وسط میں دارالسلام سے کوئی 340 میل دورکلی میٹائینڈ نامی گاؤں کے اینگلیکن مشن اسپتال میں کام کرتے ہوئے گزارا۔
اگست 1970ء میں جب میں وہاں پہنچا تھا، وہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کی آبادی اب 6000 نفوس پر مشتمل ہے۔کئی ماہ بعد میں نے حال ہی میں ہارورڈ سے گریجویشن کرنے والے لاریس بڈل ویکس کے ہمراہ اس وقت خطِ استوا پارکیا جب ہم لاگوس کے لیے پرواز کرنے سے قبل کنشاسا اور پھر ڈیو بوئس کی قبر ہر حاضری دینے عکرہ گئے تھے۔
دو سال بعد، میں نے خود کو کیمبرج یونیورسٹی میں نائجیریا کے مہان ڈرامہ نگار، وول سوئینکا، کی کلاس روم میں پایا جہاں مجھے اس خیال سے پیار ہوگیا کہ مجھے مطالعہ افریقہ کا پروفیسر بننا چاہیے۔ افریقہ کی تاریخ کالے لوگوں کے صدیوں پرانے ماضی کی امین ہے اور 000،200 سال قبل کے مائیٹوکونڈرل دور اور دورِ جدید کے ہوموسیپئن کے 000،50 سے 000،80 سال پہلے کے آبا واجداد، نیز طلسماتی دریائے نیل والیٔ مصر کی بادشاہت اور 000،3 قبل مسیح کے اس کے دشمن کش کے زمانے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں شہنشاھ مینیلک دوئم کا ذکر بھی ملتا ہے جس نے یکم مارچ، 1896ء کوعدوا کے میدانوں میں بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اطالوی فوجوں کو شکست دی تھی اور جس کے اعتراف میں اسے آرک آف کانویننٹ کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔
افریقہ کی تاریخ میں آپ کو '' بادشاہوں، ملکاؤں اور پادریوں'' کے مقابلوں کے قصے بھی ملیں گے جیسے ایک گیت میں بتایا گیا ہے، میرو کی سیاہ فام ملکہ نے 24 قبل مسیح میں رومنوں کو شکست دی تھی، اس جنگ میں آگستس سیزر کا مجسمہ ضبط کرکے اس کے تخت کے سامنے دفنایا گیا تھا تاکہ اس کے غلام اس کے سرکو روند سکیں۔
دنیا کا تیسرا ملک جس نے 350 زمانہ مسیح میں عیسائیت قبول کی، ایتھوپیا تھا۔ ہم میں سے کتنے جانتے ہیں کہ صحارا ایک تجارتی شاہراہ تھی اور ازمنہ وسطیٰ میں زمبابوے کا حکمران چین کی بنی ہوئی پلیٹوں میں کھایا کرتا تھا؟ دیومالائی قصوں اور طلسماتی کہانیوں والا سب سے الگ تھلگ اور پر اسرار براعظم افریقہ اور دنیا اب ایک دوسرے میں ضم ہوچکے ہیں۔ اس میں نہ تو پرکرنے والی کوئی خالی جگہ ہے اور نہ کوئی ادھوری یا تشنہ طلب بات، سوائے افریقہ کی طویل اور قدیم تاریخ میں غلاموں کی تجارت کے ذکر کے، جسے مغربی دنیا فراموش کردینا چاہتی ہے۔
اگرچہ اس کا امکان کم ہے، میرا خیال ہے دادی جین گیٹس نے بھی یہ ساری کہانیاں پڑھی یا سنی ہوں گی اور ان ہی کی وساطت سے یہ مجھ تک پہنچی ہیں۔ وہ کہتے ہیں میں سوچا کرتا تھا وہ کہاں سے آئی ہوں گی، اور وہ کن لوگوں میں سے تھیں، ان کی ماں کونسی زبان بولتی تھیں، ان کی مادری زبان کیا تھی۔ میں نے یہ بعد میں جانا کہ جین افریقہ میں پیدا نہیں ہوئی تھیں،کیونکہ امریکا کیلیے غلاموں کی تجارت 1808ء میں ختم ہو چکی تھی، مگر ان کے آبا واجداد ضرور افریقی رہے ہوںگے۔ غلاموں کی تجارت کے مورخ ڈیوڈ ایلٹس نے مجھے بتایا کہ انھوں نے بر اعظم کو دریائے گیمبیا کے ذریعے یا پھر شمالی کانگو کی طرف سے چھوڑا ہوگا اور وہ بھی یقینی طور پر برطانوی جہاز میں۔
مجھے مزید معلومات صرف ڈی این اے سے مل سکتی ہے۔ان کے مضبوطی سے گندھے ہوئے گھنگھریالے بال اورگالوں کی ابھری ہوئی ہڈیاں ان کے افریقی ہونے پر دلالت کرتی تھیں، جو ورثے میں ان کے بچوں کے بچوں کو بھی ملی ہوں گی۔ وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ افریقی جین گیٹس جانے کہاں پیدا ہوئی ہوں گی؟ کیا ہم کبھی ان کی ثقافت اور تاریخ کو منظر عام پر لا سکیں گے؟
میں آج بھی بچپن میں کی گئی اپنی بے عزتیاں نہیں بھلا سکا جن کی وجہ صرف میری کالی رنگت تھی۔ جس کو گالی دینا مقصود ہوتا اسے کالا افریقی کہا جاتا تھا۔ ہم میں سے بہتوں کو برین واشننگ کے ذریعے باور کرایا گیا تھا کہ تاریک بر اعظم کے لوگوں کی رنگت اور ذہنی حالت بھی اسی کی طرح تاریک ہوتی ہے۔ آج اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ اس جیسی زیادہ سے زیادہ کہانیوں کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے اور دستاویزی فلموں کا موضوع بنایا جائے تاکہ انھیں پھر کبھی بھلایا نہ جا سکے۔
ٹریور روپرکی کہی ہوئی بات اس نظریے کی گونج تھی جو 19 ویں صدی کے شروع میں پیش کیا گیا تھا، جبکہ ایسا تھا نہیں۔ جب کمسن شہزادے کوسیمو ڈی میڈیسی (1621ء۔ 1590ء ) کی ڈیوک آف تسکینی بننے کے لیے تربیت کی جا رہی تھی اورجب شیکسپیئر ''ہیملٹ'' لکھ رہے تھے، انھیں ''عالمی رہنماؤں کا خلاصہ'' مرتب کرنے کے لیے کہا گیا جن میں کانگوکے بادشاہ، ایلوارو دوئم، موتاپا کی بادشاہت اور ایتھوپیا کے افسانوی شہرت کے مالک ''پریسٹر جان'' بھی شامل ہوں۔
بہرحال، جلد ہی افریقہ کی تاریخ کا اس سطح کا علم نایاب ہوگیا۔ ہمیں شاید اس پرکوئی حیرت نہیں ہوئی کہ افریقیوں اور تاریخ و ثقافت سے ان کی مبینہ لاعلمی کو پوری نئی دنیا میں کروڑوں افریقیوں کو غلام بنانے کا جواز بنایا گیا، خاص طور پر 19 ویں صدی کے دوران جب کیوبا میں چینی کی پیداوار عروج پر تھی اورکپاس کاشتکاروں خواہ تیارکندگان دونوں کو مالدار بنارہی تھی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ یہ نظریے 20 ویں صدی تک، گورے اورکالے امریکیوں میں یکساں موجود تھے۔ ہینری لوئیس گیٹس جونیئر، جو پی بی ایس کی سیریز''افریقہ کی عظیم تہذیب'' کے میزبان اور ہارورڈ کے ہچنس مرکز برائے افریقی اور افریقی امریکی تحقیق کے ڈائریکٹر ہیں،اپنے مقالے میں رقمطراز ہیں کہ 1950ء کے عشرے میں جب میں بڑا ہورہا تھا، افریقہ وہ سایہ تھا جو ہر افریقی امریکی پر پڑرہا تھا۔ ہم میں سے پال کفی، جم کرو اور مارکوس گاروے جیسے کچھ لوگوں کے نزدیک وہ غلامی سے بچنے کے لیے چھپنے کی جگہ تھی، جبکہ بہت سے دوسرے لوگوں کی رائے میں وہ ایسی جگہ تھی جہاں سے بھاگ نکلنے کو جی چاہے۔
نظریوں اور آراء کی یہ کشمکش جاری رہی تاآنکہ 1960ء کے لگ بھگ اس میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ یہ وہ سال تھا جس میں 17 یورپی نوآبادیات آزاد افریقی ریاستیں بنیں، ان سے پہلے سوڈان 1956ء اورگھانا 1957ء میں آزاد ہو چکے تھے۔ جب یہ ممالک دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوئے، میں 5 ویں کلاس کا طالب علم تھا۔ ان میں ٹوگو، مڈغاسکر، صومالیہ، سینیگال، نائجیریا اورکانگو شامل تھے۔ ہمارے جغرافیہ کے استاد نے تختہ سیاہ کے ساتھ افریقہ کا نقشہ آویزاں کر رکھا تھا جس پر تیزی سے آزاد ہونے والے افریقی ممالک کو نشان زد کیا جاتا تھا۔
یہی وہ دن تھے جب افریقہ سے میرے عشق کی ابتدا ہوئی۔ مجھے ان ممالک اور ان کے رہنماؤں کے نام ازبر ہوگئے۔ پیٹرک لوممبا، شومبے، لیو پولڈ سینگھور اور نکرومہ ان میں سے کچھ ممالک کے شہروں کے نام بھی مجھے یاد تھے، جیسے دار السلام، موغادیشو، ڈاکار اورکنشاسا۔ پھر غالباً ریڈرز ڈائجسٹ میں ہم نے خطِ استوا پارکرنے والے لڑکے کی کہانی پڑھی۔ میں بھی اسے پار کرنا چاہتا تھا۔
میں افریقہ جانے کیلیے موقعے کی تلاش میں تھا جو اس وقت ملا جب ہم 12 طلبا کو ایک تعلیمی سال کی درمیانی مدت کے لیے کسی ترقی پذیر ملک کے مطالعاتی دورے پر افریقہ بھیجا گیا، جہاں ہمیں پڑھنا نہیں کام کرنا تھا۔ میں نے یہ عرصہ تنزانیہ کے وسط میں دارالسلام سے کوئی 340 میل دورکلی میٹائینڈ نامی گاؤں کے اینگلیکن مشن اسپتال میں کام کرتے ہوئے گزارا۔
اگست 1970ء میں جب میں وہاں پہنچا تھا، وہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کی آبادی اب 6000 نفوس پر مشتمل ہے۔کئی ماہ بعد میں نے حال ہی میں ہارورڈ سے گریجویشن کرنے والے لاریس بڈل ویکس کے ہمراہ اس وقت خطِ استوا پارکیا جب ہم لاگوس کے لیے پرواز کرنے سے قبل کنشاسا اور پھر ڈیو بوئس کی قبر ہر حاضری دینے عکرہ گئے تھے۔
دو سال بعد، میں نے خود کو کیمبرج یونیورسٹی میں نائجیریا کے مہان ڈرامہ نگار، وول سوئینکا، کی کلاس روم میں پایا جہاں مجھے اس خیال سے پیار ہوگیا کہ مجھے مطالعہ افریقہ کا پروفیسر بننا چاہیے۔ افریقہ کی تاریخ کالے لوگوں کے صدیوں پرانے ماضی کی امین ہے اور 000،200 سال قبل کے مائیٹوکونڈرل دور اور دورِ جدید کے ہوموسیپئن کے 000،50 سے 000،80 سال پہلے کے آبا واجداد، نیز طلسماتی دریائے نیل والیٔ مصر کی بادشاہت اور 000،3 قبل مسیح کے اس کے دشمن کش کے زمانے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں شہنشاھ مینیلک دوئم کا ذکر بھی ملتا ہے جس نے یکم مارچ، 1896ء کوعدوا کے میدانوں میں بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اطالوی فوجوں کو شکست دی تھی اور جس کے اعتراف میں اسے آرک آف کانویننٹ کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔
افریقہ کی تاریخ میں آپ کو '' بادشاہوں، ملکاؤں اور پادریوں'' کے مقابلوں کے قصے بھی ملیں گے جیسے ایک گیت میں بتایا گیا ہے، میرو کی سیاہ فام ملکہ نے 24 قبل مسیح میں رومنوں کو شکست دی تھی، اس جنگ میں آگستس سیزر کا مجسمہ ضبط کرکے اس کے تخت کے سامنے دفنایا گیا تھا تاکہ اس کے غلام اس کے سرکو روند سکیں۔
دنیا کا تیسرا ملک جس نے 350 زمانہ مسیح میں عیسائیت قبول کی، ایتھوپیا تھا۔ ہم میں سے کتنے جانتے ہیں کہ صحارا ایک تجارتی شاہراہ تھی اور ازمنہ وسطیٰ میں زمبابوے کا حکمران چین کی بنی ہوئی پلیٹوں میں کھایا کرتا تھا؟ دیومالائی قصوں اور طلسماتی کہانیوں والا سب سے الگ تھلگ اور پر اسرار براعظم افریقہ اور دنیا اب ایک دوسرے میں ضم ہوچکے ہیں۔ اس میں نہ تو پرکرنے والی کوئی خالی جگہ ہے اور نہ کوئی ادھوری یا تشنہ طلب بات، سوائے افریقہ کی طویل اور قدیم تاریخ میں غلاموں کی تجارت کے ذکر کے، جسے مغربی دنیا فراموش کردینا چاہتی ہے۔
اگرچہ اس کا امکان کم ہے، میرا خیال ہے دادی جین گیٹس نے بھی یہ ساری کہانیاں پڑھی یا سنی ہوں گی اور ان ہی کی وساطت سے یہ مجھ تک پہنچی ہیں۔ وہ کہتے ہیں میں سوچا کرتا تھا وہ کہاں سے آئی ہوں گی، اور وہ کن لوگوں میں سے تھیں، ان کی ماں کونسی زبان بولتی تھیں، ان کی مادری زبان کیا تھی۔ میں نے یہ بعد میں جانا کہ جین افریقہ میں پیدا نہیں ہوئی تھیں،کیونکہ امریکا کیلیے غلاموں کی تجارت 1808ء میں ختم ہو چکی تھی، مگر ان کے آبا واجداد ضرور افریقی رہے ہوںگے۔ غلاموں کی تجارت کے مورخ ڈیوڈ ایلٹس نے مجھے بتایا کہ انھوں نے بر اعظم کو دریائے گیمبیا کے ذریعے یا پھر شمالی کانگو کی طرف سے چھوڑا ہوگا اور وہ بھی یقینی طور پر برطانوی جہاز میں۔
مجھے مزید معلومات صرف ڈی این اے سے مل سکتی ہے۔ان کے مضبوطی سے گندھے ہوئے گھنگھریالے بال اورگالوں کی ابھری ہوئی ہڈیاں ان کے افریقی ہونے پر دلالت کرتی تھیں، جو ورثے میں ان کے بچوں کے بچوں کو بھی ملی ہوں گی۔ وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ افریقی جین گیٹس جانے کہاں پیدا ہوئی ہوں گی؟ کیا ہم کبھی ان کی ثقافت اور تاریخ کو منظر عام پر لا سکیں گے؟
میں آج بھی بچپن میں کی گئی اپنی بے عزتیاں نہیں بھلا سکا جن کی وجہ صرف میری کالی رنگت تھی۔ جس کو گالی دینا مقصود ہوتا اسے کالا افریقی کہا جاتا تھا۔ ہم میں سے بہتوں کو برین واشننگ کے ذریعے باور کرایا گیا تھا کہ تاریک بر اعظم کے لوگوں کی رنگت اور ذہنی حالت بھی اسی کی طرح تاریک ہوتی ہے۔ آج اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ اس جیسی زیادہ سے زیادہ کہانیوں کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے اور دستاویزی فلموں کا موضوع بنایا جائے تاکہ انھیں پھر کبھی بھلایا نہ جا سکے۔