’’میں غریب ہوں‘‘ راجستھان میں گھروں کے باہر عبارت درج کرنے کے حکومتی اقدام پر عوام مشتعل
راجستھان کا شمار بھارت کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں غربت کا تناسب بلند ہے۔
بھارت کی سوا ارب آبادی کا نمایاں حصہ غریب اور مفلوک الحال عوام پر مشتمل ہے جنھیں دو وقت پیٹ بھر کر کھانا میسر نہیں ہوتا
۔ 2012ء میں بھارتی حکومت نے قبول کیا تھا کہ ملک کی 22 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بائیس فی صد کا مطلب ہے تقریباً ایک چوتھائی آبادی یعنی تیس کروڑ نفوس ! تیس کروڑ بھارتیوں کو دو وقت کا کھانا نصیب نہیں۔ بھارتی حکومت کے مطابق جن لوگوں کی یومیہ آمدنی 80 روپے سے کم ہے انھیں خط غربت سے نیچے خیال کیا جاتا ہے۔
راجستھان کا شمار بھارت کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں غربت کا تناسب بلند ہے۔ ریاست کی سات کروڑ کی آبادی میں سے سوا کروڑ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حکومتی اصطلاح میں ان خاندانوں کو below poverty line ( BPL families ) کہاجاتا ہے۔ ان خاندانوں کے لیے ریاستی حکومت کئی اسکیمیں شروع کررکھی ہیں جن کے تحت انھیں راشن وغیرہ فراہم کیا جاتا ہے۔
حکومت نے حال ہی میں ایک قدم اٹھایا ہے جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی جارہی ہے۔ جو خاندان حکومت سے امداد حاصل کررہے ہیں ان کے گھروں کی بیرونی دیوار پر ہندی میں '' میں غریب ہوں'' اور '' میں بے حد غریب ہوں'' لکھوادیا گیا ہے۔ بیرونی دیواروں پر نارنجی رنگ کے چوکھٹے میں لکھی گئی تحریردور ہی سے دکھائی دے جاتی ہے۔ نارنجی چوکھٹا اس امر کی نشانی ہے کہ اس گھر کے مکین انتہائی غریب ہیں اور حکومتی امداد پر گزارہ کررہے ہیں۔
راجستھان میں ڈیڑھ لاکھ گھروں کے باہر یہ تحریر لکھوائی گئی ہے۔ حکومتی عہدے داروں کے مطابق اس اقدام کا مقصد مستحقین تک حکومتی امداد کی بروقت ترسیل ممکن بنانا اور اسے غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنا ہے۔ تاہم عوام بی جے پی کی حکومت کے اس اقدام پر کڑی تنقید کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گھروں کے باہر لکھی ہوئی یہ تحریر ان کی عزت نفس مجروح کرنے کا باعث بن رہی ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے دوسا نامی نوجوان نے کہا کہ جب سے اس کے گھر کے باہر سرکاری اہل کار یہ لکھ کر گئے ہیں اس کے لیے باہر نکلنا دوبھر ہوگیا ہے، کیوں کہ راہ چلتے ہوئے لوگ اس کے گھر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے طنز کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ بھکاری ہے اور سرکار کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے ۔
ریاست کے ڈیڑھ لاکھ گھروں میں سے ہر گھر کے رہائشیوں کو یہی شکایت ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت راشن یا نقدی کی شکل میں ان کی امداد کررہی ہے تو یہ ان پر کوئی احسان نہیں کیوں کہ عوام کی دیکھ بھال اور انھیں سہولتوں کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے ووٹوں سے منتخب شدہ حکمران اگر یہ ذمہ داری ادا کررہیں ہیں تو ہم ان کے مشکور بالکل نہیں ہیں کیوں کہ انھیں اسی کام کے لیے ووٹ دیے گئے تھے کہ وہ ہمارا خیال رکھیں گے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں اور رہنما بھی عوام کی آواز میں آواز ملارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام انتہائی افسوس ناک اور عوام کی توہین کے مترادف ہے۔ کانگریس کے ترجمان منیش تیواری نے کہا کہا اگر حکومت غریبوں کو راشن دے رہی ہے تو یہ ان کا قانونی حق ہے۔
۔ 2012ء میں بھارتی حکومت نے قبول کیا تھا کہ ملک کی 22 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بائیس فی صد کا مطلب ہے تقریباً ایک چوتھائی آبادی یعنی تیس کروڑ نفوس ! تیس کروڑ بھارتیوں کو دو وقت کا کھانا نصیب نہیں۔ بھارتی حکومت کے مطابق جن لوگوں کی یومیہ آمدنی 80 روپے سے کم ہے انھیں خط غربت سے نیچے خیال کیا جاتا ہے۔
راجستھان کا شمار بھارت کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں غربت کا تناسب بلند ہے۔ ریاست کی سات کروڑ کی آبادی میں سے سوا کروڑ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حکومتی اصطلاح میں ان خاندانوں کو below poverty line ( BPL families ) کہاجاتا ہے۔ ان خاندانوں کے لیے ریاستی حکومت کئی اسکیمیں شروع کررکھی ہیں جن کے تحت انھیں راشن وغیرہ فراہم کیا جاتا ہے۔
حکومت نے حال ہی میں ایک قدم اٹھایا ہے جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی جارہی ہے۔ جو خاندان حکومت سے امداد حاصل کررہے ہیں ان کے گھروں کی بیرونی دیوار پر ہندی میں '' میں غریب ہوں'' اور '' میں بے حد غریب ہوں'' لکھوادیا گیا ہے۔ بیرونی دیواروں پر نارنجی رنگ کے چوکھٹے میں لکھی گئی تحریردور ہی سے دکھائی دے جاتی ہے۔ نارنجی چوکھٹا اس امر کی نشانی ہے کہ اس گھر کے مکین انتہائی غریب ہیں اور حکومتی امداد پر گزارہ کررہے ہیں۔
راجستھان میں ڈیڑھ لاکھ گھروں کے باہر یہ تحریر لکھوائی گئی ہے۔ حکومتی عہدے داروں کے مطابق اس اقدام کا مقصد مستحقین تک حکومتی امداد کی بروقت ترسیل ممکن بنانا اور اسے غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنا ہے۔ تاہم عوام بی جے پی کی حکومت کے اس اقدام پر کڑی تنقید کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گھروں کے باہر لکھی ہوئی یہ تحریر ان کی عزت نفس مجروح کرنے کا باعث بن رہی ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے دوسا نامی نوجوان نے کہا کہ جب سے اس کے گھر کے باہر سرکاری اہل کار یہ لکھ کر گئے ہیں اس کے لیے باہر نکلنا دوبھر ہوگیا ہے، کیوں کہ راہ چلتے ہوئے لوگ اس کے گھر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے طنز کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ بھکاری ہے اور سرکار کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے ۔
ریاست کے ڈیڑھ لاکھ گھروں میں سے ہر گھر کے رہائشیوں کو یہی شکایت ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت راشن یا نقدی کی شکل میں ان کی امداد کررہی ہے تو یہ ان پر کوئی احسان نہیں کیوں کہ عوام کی دیکھ بھال اور انھیں سہولتوں کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے ووٹوں سے منتخب شدہ حکمران اگر یہ ذمہ داری ادا کررہیں ہیں تو ہم ان کے مشکور بالکل نہیں ہیں کیوں کہ انھیں اسی کام کے لیے ووٹ دیے گئے تھے کہ وہ ہمارا خیال رکھیں گے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں اور رہنما بھی عوام کی آواز میں آواز ملارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام انتہائی افسوس ناک اور عوام کی توہین کے مترادف ہے۔ کانگریس کے ترجمان منیش تیواری نے کہا کہا اگر حکومت غریبوں کو راشن دے رہی ہے تو یہ ان کا قانونی حق ہے۔