انتخابات اور سیاسی جماعتیں
آیندہ انتخابات کاانعقاد سانپ کے منہ میں چھچھوندر والی مثال ثابت ہورہے ہیں، کہ نہ نگلے بن پڑے اور نہ اگلے۔
PESHAWAR:
ایک طرف تمام سیاسی جماعتیں انتخابی تیاریوں کو آخری شکل دینے کی کوششوں میںمصروف ہیں۔تو دوسری طرف انتخابات کے ملتوی ہونے کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ جن کا اظہار صرف ذرایع ابلاغ اور سیاسی تجزیہ نگار ہی نہیں، بلکہ حکومتی جماعت کے اہم اراکین بھی کررہے ہیں۔کہا جارہاہے کہ بعض طاقتور حلقے اور نادیدہ قوتیں انتخابات کوطویل عرصے تک ملتوی کراکے سیاستدانوںکا ایک سفاکانہ اور کڑا احتساب کرانا چاہتی ہیں۔
لیکن اگر حالیہ چند ماہ کے دوران ہونے والی پیش رفت کاجائزہ لیاجائے،تو اندازہ ہوتاہے کہ خود سیاسی جماعتوں کا رویہ اورطرزعمل بھی انتخابات کے بروقت انعقاد کومشکوک بنانے کا سبب بن رہاہے۔اس لیے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان حالات میں جو سیاسی افق پر رونما ہورہے ہیں،عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہے یا نہیں؟ دوسرے اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات کے انعقاد کی صورت میںملک کی مجموعی صورتحال پر کیااثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں؟
عام انتخابات کے حوالے سے پاکستان کے متوشش شہریوں میںاس وقت دو نقطہ ہائے نظر پائے جارہے ہیں۔ پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ معاشرتی نظام کی اصلاح کے لیے جمہوری عمل کا تسلسل ضروری ہے،جو انتخابی عمل کے بغیر کسی تعطل کے جاری رہنے سے ممکن ہے۔اس لیے انتخابی عمل کو جاری رہنا چاہیے اورآیندہ انتخابات کسی ایڈونچرکاشکارہوئے بغیر اپنے وقت مقررہ پرمنعقدہوں۔
دوسرا نقطہ نظریہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی نظام اس طرح ترتیب دیا گیاہے کہ انتخابی عمل کے نتیجے میںمتوسط اور نچلے متوسط طبقے کے افراد کا منتخب ہوناایک دشوار گزار مرحلہ ہے،جس کی وجہ سے ایک مخصوص اشرافیہ ہی اقتدار پر مسلط رہتی ہے۔ اس لیے اگرانتخابات سے قبل بعض کلیدی نوعیت کی انتخابی اصلاحات کرلی جائیں،توکرپٹ اور بدعنوان لوگوں کا راستہ روکنے اور عام آدمی کے لیے منتخب ہونے کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے۔بصورت دیگر مزیدپانچ برس کے لیے اسی اشرافیہ کو بھگتنا پڑے گا،جو نظمِ حکمرانی میںخرابیِ بسیار کی ذمے دار ہے۔
اگران دونوں نقطہ ہائے نظر کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے، تو ان میں سے کسی کو بھی غیر سنجیدہ یاغیرجمہوری قرارنہیں دیا جاسکتا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج ملک جن گوناگوں اندرونی اوربیرونی مسائل میں گھراہواہے،ان کی وجہ سے نہ صرف عوام کی زندگی جہنم بنی ہے،بلکہ ملک کی سلامتی اور بقاء کو بھی مختلف نوعیت کے خطرات لاحق ہوئے ہیں۔اس لیے وہ ایک ایسی حکومت کے متلاشی ہیں،جواپنے سیاسی عزم وبصیرت کے ذریعے ان مسائل کا صائب اور قابل عمل حل تلاش کرتے ہوئے ملک کو اس بحرانی کیفیت سے نکال سکے۔ گزشتہ پانچ برس کی منتخب حکمرانی کے بارے میں بھی مختلف آرا ہمارے سامنے ہیں۔
ایک حلقہ یہ سمجھتاہے کہ تمامتر بدانتظامی اور معاشی بدحالی میں اضافہ اپنی جگہ،لیکن موجودہ حکومت نے سیاسی مفاہمت کی بنیادڈالی اورآئینی ترامیم کے ذریعے جمہوری عمل کو مستحکم کیاہے۔جس کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار منتخب پارلیمان اپنی مدت مکمل کرنے جارہی ہے۔اس کے برعکس ایک بہت بڑے حلقے کا نقطہ نظر ہے کہ انتخابی عمل میں موجود نقائص کے باعث موجودہ پارلیمان میں کرپٹ، بدعنوان اور جعلساز افراد بھاری تعداد میں منتخب ہوگئے۔جنہوں نے ان پانچ برسوں کے دوران کرپشن، بدعنوانیوںاوربدانتظامی کو انتہائی درجہ تک پہنچادیاہے۔اس لیے نظم حکمرانی میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ امیدواروں کی جانچ پڑتال کا ایسا متحرک اورفعال نظام وضع کیاجائے،جس سے گزرنے کے بعد غلط اوربدعنوان لوگوں کے منتخب ہونے کاامکان کم سے کم ہوسکے۔
اب جہاں تک انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کی بااختیاریت اور عبوری حکومت کی غیر جانبداری کا تعلق ہے،تو ملک کے تمام شراکت داراس پر متفق ہیں۔ لیکن اصل اختلاف طریقہ کار پرہے،کیونکہ مختلف شراکت داروں کی ترجیحات مختلف ہیں۔سول سوسائٹی،میڈیااور عوام کاایک بڑا حلقہ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا حامی ہے۔جس کے لیے وہ سیاسی اور انتخابی عمل میں فلٹریشن کو ضروری سمجھتاہے۔یہی سبب ہے کہ عوام کی ایک واضح تعداد نے علامہ طاہر القادری کی ذات اور ان کی سرگرمیوںپر لگنے والے الزامات کے باوجود ان کی جانب سے پیش کردہ بیشتر مطالبات کی حمایت کی۔آج کم وبیش اسی نوعیت کے مطالبات تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) بھی کرنے پر مجبور ہے۔
بلکہ ان دونوں جماعتوں کے بعض مطالبات علامہ قادری سے بھی دو قدم آگے ہیں۔ مثال کے طورپر تحریک انصاف الیکشن سے قبل صدر کو ہٹانے کا مطالبہ کررہی ہے ۔جب کہ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ گورنروں کی تبدیلی کامطالبہ سامنے آرہاہے۔اس کے علاوہ مسلم لیگ(ن) الیکشن کمیشن کی مزید بااختیاریت کے لیے چند دنوں میںپارلیمان کے سامنے دھرنادینے والی ہے۔اس نئی صورتحال کے نتیجے میں سیاسی ماحول کے مزید تلخ ہونے کا خدشہ ہے۔جس کے باعث انتخابات کا بروقت انعقادمشکل نظر آرہا ہے۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ(ن) نے نگران وزیراعظم کے لیے ابتداًجن چھ افراد کی فہرست تیار کی،اس کے دانستہ یا نادانستہ طورپر منظر عام پرآجانے سے ایک نئے سیاسی بحران نے جنم لیاہے۔کیونکہ بیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف نے اپنے اپنے طورپراندرون خانہ طے کردہ چندناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرناتھا۔ ان ناموں کا پوشیدہ رکھا جانا اس لیے بھی ضروری تھا،کیونکہ دونوں طرف سے درجن بھر ناموں کے مشتہرہوجانے سے ایک طرف تو فیصلہ مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف باقی رہ جانے والے افرادپراچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ بعض ناموں پر تحفظات اور تنقید بھی فضا کومکدر کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
چنانچہ ان ناموں کے مشتہر ہوجانے سے میڈیاپر پسند اور ناپسند کے حوالے ایک نئی بحث چھڑگئی۔ جیساکہ عاصمہ جہانگیرکے معاملے میں ہوا۔تحریک انصاف سمیت بعض جماعتوں نے ان کی مخالفت کی، جب کہ کچھ کالم نگاروں نے ان کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرکے اس حلقے کی دل آزاری کی جو ان کی حقوق انسانی اور علاقائی امن کے لیے خدمات کو قدرمنزلت کی نگاہ سے دیکھتاہے۔یہ ایک افسوسناک پہلو ہے کہ وہ لوگ جو 13 اگست 1947ء تک محمد علی جناح کی ذات پر کیچڑاچھالتے تھے،آج جناح کے پاکستان کے رکھوالے بن کر عاصمہ جہانگیرجیسی امن نواز شخصیت کومتنازعہ بنارہے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں،جو علامہ قادری کے مطالبات کو غیرآئینی اور ان کی سرگرمیوں کوانتخابات کے التوا کا بہانہ قراردے رہی تھیں، آج خود ایسے مطالبات کررہی ہیں، جن کا پورا کیاجانا اس مختصر سی مدت میںممکن نظرنہیں آرہا۔ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ دنوں یہ تسلیم کیا کہ نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے ممکن نظر نہیں آرہا،جس کی وجہ سے حتمی فیصلہ بالآخر چیف الیکشن کمشنر کو کرنا ہوگا۔
لیکن الیکشن کمیشن کے بارے میں بھی مختلف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔سب سے پہلے علامہ قادری نے الیکشن کمیشن کے چار اراکین کی تقرری پرعدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔اس کے بعد تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی ہئیت پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا۔ جب کہ مسلم لیگ(ن) بھی دبے لفظوں پر الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہے۔اس طرح چیف الیکشن کمشنر کے نامزد کردہ نگران وزیر اعظم پر تمام جماعتوں کے متفق ہونے کا امکان نظر نہیں آرہا۔
لہٰذا اس پورے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنامشکل نہیں ہے کہ اس ملک کے طاقتور حلقوں اور نادیدہ قوتوں کے عزائم کچھ ہی کیوں نہ ہوں، خود سیاسی جماعتیں بھی اپنے مخصوص مفادات کی خاطر انتخابی عمل کے تسلسل میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ان کے بیشتر مطالبات اور غیر سنجیدہ روش کے نتیجے میں ا نتخابات کے ملتوی ہونے کے امکانات کورد نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ بھی طے ہے کہ اگر انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا جاتاہے تو اس کے ملکی سالمیت پرگہرے اثرات مرتب ہوں گے۔مگر ساتھ ہی آیندہ انتخابات کے پرامن اور غیر جانبدار ہونے کے امکانات بھی مخدوش ہیں۔خاص طورپر کراچی میں جو ماحول پروان چڑھ چکاہے اور جس طرح مختلف قوتیںاس کی آبیاری کررہی ہیںاورسیاسی جماعتیںاسے ہوادے رہی ہیں۔
اسے دیکھتے ہوئے کراچی میں شدید خونریزی کے خدشات سے صرف نظر ممکن نہیںہے۔اس لیے یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ آیندہ انتخابات کاانعقاد سانپ کے منہ میں چھچھوندر والی مثال ثابت ہورہے ہیں، کہ نہ نگلے بن پڑے اور نہ اگلے۔چنانچہ اب یہ سیاسی جماعتوں کی سیاسی بصیرت اور ان کی دور اندیشی پر منحصر ہے کہ وہ پرامن انتخابات کے انعقاد کے لیے سیاسی فضا کو سازگار بنانے کی خاطراپنے بے جامطالبات سے دست بردار ہوکر مثبت کردار اداکرتی ہیںیاکوتاہ بینی اور ہٹ دھرمی پر مبنی موجودہ روش کو جاری رکھتے ہوئے غیر جمہوری قوتوں کی الیکشن کے التوا کی خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بنی رہیں گی۔
ایک طرف تمام سیاسی جماعتیں انتخابی تیاریوں کو آخری شکل دینے کی کوششوں میںمصروف ہیں۔تو دوسری طرف انتخابات کے ملتوی ہونے کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ جن کا اظہار صرف ذرایع ابلاغ اور سیاسی تجزیہ نگار ہی نہیں، بلکہ حکومتی جماعت کے اہم اراکین بھی کررہے ہیں۔کہا جارہاہے کہ بعض طاقتور حلقے اور نادیدہ قوتیں انتخابات کوطویل عرصے تک ملتوی کراکے سیاستدانوںکا ایک سفاکانہ اور کڑا احتساب کرانا چاہتی ہیں۔
لیکن اگر حالیہ چند ماہ کے دوران ہونے والی پیش رفت کاجائزہ لیاجائے،تو اندازہ ہوتاہے کہ خود سیاسی جماعتوں کا رویہ اورطرزعمل بھی انتخابات کے بروقت انعقاد کومشکوک بنانے کا سبب بن رہاہے۔اس لیے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان حالات میں جو سیاسی افق پر رونما ہورہے ہیں،عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہے یا نہیں؟ دوسرے اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات کے انعقاد کی صورت میںملک کی مجموعی صورتحال پر کیااثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں؟
عام انتخابات کے حوالے سے پاکستان کے متوشش شہریوں میںاس وقت دو نقطہ ہائے نظر پائے جارہے ہیں۔ پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ معاشرتی نظام کی اصلاح کے لیے جمہوری عمل کا تسلسل ضروری ہے،جو انتخابی عمل کے بغیر کسی تعطل کے جاری رہنے سے ممکن ہے۔اس لیے انتخابی عمل کو جاری رہنا چاہیے اورآیندہ انتخابات کسی ایڈونچرکاشکارہوئے بغیر اپنے وقت مقررہ پرمنعقدہوں۔
دوسرا نقطہ نظریہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی نظام اس طرح ترتیب دیا گیاہے کہ انتخابی عمل کے نتیجے میںمتوسط اور نچلے متوسط طبقے کے افراد کا منتخب ہوناایک دشوار گزار مرحلہ ہے،جس کی وجہ سے ایک مخصوص اشرافیہ ہی اقتدار پر مسلط رہتی ہے۔ اس لیے اگرانتخابات سے قبل بعض کلیدی نوعیت کی انتخابی اصلاحات کرلی جائیں،توکرپٹ اور بدعنوان لوگوں کا راستہ روکنے اور عام آدمی کے لیے منتخب ہونے کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے۔بصورت دیگر مزیدپانچ برس کے لیے اسی اشرافیہ کو بھگتنا پڑے گا،جو نظمِ حکمرانی میںخرابیِ بسیار کی ذمے دار ہے۔
اگران دونوں نقطہ ہائے نظر کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے، تو ان میں سے کسی کو بھی غیر سنجیدہ یاغیرجمہوری قرارنہیں دیا جاسکتا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج ملک جن گوناگوں اندرونی اوربیرونی مسائل میں گھراہواہے،ان کی وجہ سے نہ صرف عوام کی زندگی جہنم بنی ہے،بلکہ ملک کی سلامتی اور بقاء کو بھی مختلف نوعیت کے خطرات لاحق ہوئے ہیں۔اس لیے وہ ایک ایسی حکومت کے متلاشی ہیں،جواپنے سیاسی عزم وبصیرت کے ذریعے ان مسائل کا صائب اور قابل عمل حل تلاش کرتے ہوئے ملک کو اس بحرانی کیفیت سے نکال سکے۔ گزشتہ پانچ برس کی منتخب حکمرانی کے بارے میں بھی مختلف آرا ہمارے سامنے ہیں۔
ایک حلقہ یہ سمجھتاہے کہ تمامتر بدانتظامی اور معاشی بدحالی میں اضافہ اپنی جگہ،لیکن موجودہ حکومت نے سیاسی مفاہمت کی بنیادڈالی اورآئینی ترامیم کے ذریعے جمہوری عمل کو مستحکم کیاہے۔جس کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار منتخب پارلیمان اپنی مدت مکمل کرنے جارہی ہے۔اس کے برعکس ایک بہت بڑے حلقے کا نقطہ نظر ہے کہ انتخابی عمل میں موجود نقائص کے باعث موجودہ پارلیمان میں کرپٹ، بدعنوان اور جعلساز افراد بھاری تعداد میں منتخب ہوگئے۔جنہوں نے ان پانچ برسوں کے دوران کرپشن، بدعنوانیوںاوربدانتظامی کو انتہائی درجہ تک پہنچادیاہے۔اس لیے نظم حکمرانی میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ امیدواروں کی جانچ پڑتال کا ایسا متحرک اورفعال نظام وضع کیاجائے،جس سے گزرنے کے بعد غلط اوربدعنوان لوگوں کے منتخب ہونے کاامکان کم سے کم ہوسکے۔
اب جہاں تک انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کی بااختیاریت اور عبوری حکومت کی غیر جانبداری کا تعلق ہے،تو ملک کے تمام شراکت داراس پر متفق ہیں۔ لیکن اصل اختلاف طریقہ کار پرہے،کیونکہ مختلف شراکت داروں کی ترجیحات مختلف ہیں۔سول سوسائٹی،میڈیااور عوام کاایک بڑا حلقہ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا حامی ہے۔جس کے لیے وہ سیاسی اور انتخابی عمل میں فلٹریشن کو ضروری سمجھتاہے۔یہی سبب ہے کہ عوام کی ایک واضح تعداد نے علامہ طاہر القادری کی ذات اور ان کی سرگرمیوںپر لگنے والے الزامات کے باوجود ان کی جانب سے پیش کردہ بیشتر مطالبات کی حمایت کی۔آج کم وبیش اسی نوعیت کے مطالبات تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) بھی کرنے پر مجبور ہے۔
بلکہ ان دونوں جماعتوں کے بعض مطالبات علامہ قادری سے بھی دو قدم آگے ہیں۔ مثال کے طورپر تحریک انصاف الیکشن سے قبل صدر کو ہٹانے کا مطالبہ کررہی ہے ۔جب کہ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ گورنروں کی تبدیلی کامطالبہ سامنے آرہاہے۔اس کے علاوہ مسلم لیگ(ن) الیکشن کمیشن کی مزید بااختیاریت کے لیے چند دنوں میںپارلیمان کے سامنے دھرنادینے والی ہے۔اس نئی صورتحال کے نتیجے میں سیاسی ماحول کے مزید تلخ ہونے کا خدشہ ہے۔جس کے باعث انتخابات کا بروقت انعقادمشکل نظر آرہا ہے۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ(ن) نے نگران وزیراعظم کے لیے ابتداًجن چھ افراد کی فہرست تیار کی،اس کے دانستہ یا نادانستہ طورپر منظر عام پرآجانے سے ایک نئے سیاسی بحران نے جنم لیاہے۔کیونکہ بیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف نے اپنے اپنے طورپراندرون خانہ طے کردہ چندناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرناتھا۔ ان ناموں کا پوشیدہ رکھا جانا اس لیے بھی ضروری تھا،کیونکہ دونوں طرف سے درجن بھر ناموں کے مشتہرہوجانے سے ایک طرف تو فیصلہ مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف باقی رہ جانے والے افرادپراچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ بعض ناموں پر تحفظات اور تنقید بھی فضا کومکدر کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
چنانچہ ان ناموں کے مشتہر ہوجانے سے میڈیاپر پسند اور ناپسند کے حوالے ایک نئی بحث چھڑگئی۔ جیساکہ عاصمہ جہانگیرکے معاملے میں ہوا۔تحریک انصاف سمیت بعض جماعتوں نے ان کی مخالفت کی، جب کہ کچھ کالم نگاروں نے ان کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرکے اس حلقے کی دل آزاری کی جو ان کی حقوق انسانی اور علاقائی امن کے لیے خدمات کو قدرمنزلت کی نگاہ سے دیکھتاہے۔یہ ایک افسوسناک پہلو ہے کہ وہ لوگ جو 13 اگست 1947ء تک محمد علی جناح کی ذات پر کیچڑاچھالتے تھے،آج جناح کے پاکستان کے رکھوالے بن کر عاصمہ جہانگیرجیسی امن نواز شخصیت کومتنازعہ بنارہے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں،جو علامہ قادری کے مطالبات کو غیرآئینی اور ان کی سرگرمیوں کوانتخابات کے التوا کا بہانہ قراردے رہی تھیں، آج خود ایسے مطالبات کررہی ہیں، جن کا پورا کیاجانا اس مختصر سی مدت میںممکن نظرنہیں آرہا۔ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ دنوں یہ تسلیم کیا کہ نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے ممکن نظر نہیں آرہا،جس کی وجہ سے حتمی فیصلہ بالآخر چیف الیکشن کمشنر کو کرنا ہوگا۔
لیکن الیکشن کمیشن کے بارے میں بھی مختلف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔سب سے پہلے علامہ قادری نے الیکشن کمیشن کے چار اراکین کی تقرری پرعدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔اس کے بعد تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی ہئیت پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا۔ جب کہ مسلم لیگ(ن) بھی دبے لفظوں پر الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہے۔اس طرح چیف الیکشن کمشنر کے نامزد کردہ نگران وزیر اعظم پر تمام جماعتوں کے متفق ہونے کا امکان نظر نہیں آرہا۔
لہٰذا اس پورے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنامشکل نہیں ہے کہ اس ملک کے طاقتور حلقوں اور نادیدہ قوتوں کے عزائم کچھ ہی کیوں نہ ہوں، خود سیاسی جماعتیں بھی اپنے مخصوص مفادات کی خاطر انتخابی عمل کے تسلسل میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ان کے بیشتر مطالبات اور غیر سنجیدہ روش کے نتیجے میں ا نتخابات کے ملتوی ہونے کے امکانات کورد نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ بھی طے ہے کہ اگر انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا جاتاہے تو اس کے ملکی سالمیت پرگہرے اثرات مرتب ہوں گے۔مگر ساتھ ہی آیندہ انتخابات کے پرامن اور غیر جانبدار ہونے کے امکانات بھی مخدوش ہیں۔خاص طورپر کراچی میں جو ماحول پروان چڑھ چکاہے اور جس طرح مختلف قوتیںاس کی آبیاری کررہی ہیںاورسیاسی جماعتیںاسے ہوادے رہی ہیں۔
اسے دیکھتے ہوئے کراچی میں شدید خونریزی کے خدشات سے صرف نظر ممکن نہیںہے۔اس لیے یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ آیندہ انتخابات کاانعقاد سانپ کے منہ میں چھچھوندر والی مثال ثابت ہورہے ہیں، کہ نہ نگلے بن پڑے اور نہ اگلے۔چنانچہ اب یہ سیاسی جماعتوں کی سیاسی بصیرت اور ان کی دور اندیشی پر منحصر ہے کہ وہ پرامن انتخابات کے انعقاد کے لیے سیاسی فضا کو سازگار بنانے کی خاطراپنے بے جامطالبات سے دست بردار ہوکر مثبت کردار اداکرتی ہیںیاکوتاہ بینی اور ہٹ دھرمی پر مبنی موجودہ روش کو جاری رکھتے ہوئے غیر جمہوری قوتوں کی الیکشن کے التوا کی خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بنی رہیں گی۔