جنرل کیانی سُرخرو ٹھہرے 1
اب انتخابات سر پر ہیں۔ فوج پھر نشانے پر ہے، جنرل کیانی کا نام لے کر صلواتیں سنائی جا رہی ہیں۔
تاریخ جنرل کیانی کو یاد رکھے گی۔ ان کے شاہنامے تحریر کیے جائیں گے، رزم ناموں میں ان کا نام سنہری حروف میں چمکے گا۔ ایسا جر نیل جسے اندر اور باہر کے دشمن سے بیک وقت پالا پڑا اور دونوں محاذوں پر اس نے اپنے دشمنوں کو بری طرح پچھاڑ کر رکھ دیا، تیسرا محاذ سیاست کا تھا، اس قدر چکنا کہ ہر جرنیل اس پر پھسل پھسل جاتا ہے مگر جنرل کیانی نے فرمان روز اول جاری کیا کہ ان کے ماتحت فوج سیاست میں منہ نہیں مارے گی، اس عہد کو پانچ سال بیت گئے، ایک سے ایک بڑھ کر نادر موقع آیا، جمہوریت دشمنوں نے اسے بار بار آواز دی، مگر جنرل کیانی نے اپنے کام سے کام رکھا، اقتدار کی طرف اس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
سیاستدان باہم دست و گریبان رہے، عدلیہ اور پارلیمنٹ کا بار بار تصادم ہوا، وزرا کو جیل کی ہوا کھانا پڑی وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا، نامزد وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، وزیر دفاع کو ای سی ایل میں ڈال کر سرکاری دورے پر جانے سے روکا گیا۔ شہر شہر مقتل بنے رہے، خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی، مزاروں، مسجدوں، مدرسوں، اسکولوں، مارکیٹوں، بازاروں، گھروں، جنازوں تک میں لاشوں کے چیتھڑے اڑے، غیر ملکیوں اور مقامی افراد کو اغوا کیا گیا، یرغمال بنا کر تاوان طلب کیا گیا، میزائل داغے گئے، ڈرون حملوں نے تباہی کا بازار گرم رکھا، غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے کنٹریکٹروں نے کھل کھیلا۔
بھارت نے براہ راست الزام تراشی کی، حکومت وقت نے کہا کہ ریاست کے اندر ریاست کو برداشت نہیں کیا جائے گا، میڈیا شور مچاتا رہا کہ خارجہ پالیسی کو جی ایچ کیو نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ جنرل کیانی یہ سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہے، اوائل صبح کی شبنم کے قطروں کی طرح خنک، ٹھنڈے اور دھیمے مزاج والے اس شخص نے کبھی کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔ کسی نے کہا کہ دفاعی پالیسی کی اجارہ دار بھی فوج بنی ہوئی ہے اور کہنے والوں کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ پارلیمنٹ نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں متفقہ قرارداد منظور کر کے جنرل کیانی کو وار آن ٹیرر کی کمان سونپ دی تھی تو پھر اجارہ داریوں کے طعنے کیسے۔ جنرل کیانی کو کس کس نے چرکے نہیں لگائے۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف، اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔
وہ جس نے کہا تھا کہ جنرل کیانی کو توسیع نہ دی جائے، وہ عدلیہ بحالی کے لیے لانگ مارچ پر نکلا تو اسی جنرل کیانی نے اسے فون کر کے کہا کہ لانگ مارچ کی ضرورت نہیں عدلیہ بحالی کا فیصلہ ہو گیا، لانگ مارچ والے گوجرانوالہ کی نہر کنارے ایک گھر میں محو خواب تھے کہ آخر شب عدلیہ بحالی کا اعلان وزیر اعظم کی ہنگامی نشری تقریر کے ذریعے سامنے آ گیا۔ جنرل کیانی ثالث بالخیر بنے، انھوں نے یہ سب کچھ آئین کی بالا دستی قائم کرنے کے لیے کیا۔ اسی لیے آج تک ان پر کوئی معترض نہیں ہوا، اس لیے کہ ہر کوئی اس اقدام پر جنرل کیانی کا مشکور تھا۔
جنرل کیانی نے ایک گناہ اور کیا، سوات میں بد امنی پر قابو پانے کے لیے انھوں نے ملکی تاریخ میں ایک اور فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ وہ لشکر کشی نہ کرتے تو سوات کے لشکر اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے تیار تھے، کہوٹہ اور انتہا پسندوں کے درمیان صرف مارگلہ کی پہاڑیاں حائل ہیں۔ فوجی آپریشن پہلے بھی ہوتے رہے، بلوچستان میں ہوئے، بار بار ہوئے، ایک آپریشن میں بلوچ سردار پہاڑوں پر چڑھ گئے، کچھ کابل اور لندن میں جا بیٹھے، ایک آپریشن میں سردار بگتی کو نشانہ بنایا گیا، سندھ میں ڈاکووں کے خلاف اور کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوئے مگر ادھورے رہے اور مزید بگاڑ کا باعث بنے، مشرقی پاکستان میں آپریشن ہوا اور پاکستان دو لخت ہو گیا، خود فوج کے نوے ہزار افسر اور جوان بھارتی جنگی کیمپوں میں پہنچ گئے، مگر سوات اور مالاکنڈ کا آپریشن اس حشر سے محفوظ رہا کہ اس کی کمان ایک منجھے ہوئے اور برد بار جرنیل کے ہاتھ میں تھی۔
اس آپریشن کی منصوبہ بندی باریک بینی سے کی گئی تھی، اور انتہائی احتیاط کے ساتھ پیش قدمی کی جا رہی تھی، پھر بھی میڈیا نے شور و غوغا مچایا کہ فوج نے اپنے ہی ہم وطنوں کو گھر بار سے باہر کر دیا ہے، کسی نے کہا کہ بہتر ہو گا کہ سوات پر ایٹم بم مار دیا جائے مگر جنرل کیانی کسی اشتعال میں نہیں آئے، وہ منصوبے کے مطابق چلتے رہے اور تاریخ میں پہلی بار کوئی فوجی آپریشن چند ماہ کے اندر مطلوبہ منزل سے ہمکنار ہو گیا، بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد واپس بھی چلے گئے۔ وہی سوات جس کے بھرے بازاروں میں لوگوں کی گردنیں اڑائی جاتی تھیں، عورتوں کو کوڑے مارے جا رہے تھے اور پھانسیاں دی جا رہی تھیں اور اسکولوں، دفتروں اور دکانوں کو بارودی دھماکے کر کے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جاتا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے اس کی رونقیں واپس آ گئیں، ملکی اور غیر ملکی سیاح اب اسی سوات کی جنت نظیر وادیوں میں آزادانہ طور پر گھوم پھر سکتے ہیں۔
دریائے سوات کے پانیوں کی نغمگی اب دلوں کو پھر سے مسحور کر رہی ہے۔ اس کامیابی نے جنرل کیانی کو حوصلہ مند بنایا۔ اس نے قبائلی علاقوں کی کمیں گاہوں میں مورچہ زن انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔ ڈرانے والوں نے ڈرایا کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسکندر اعظم کی فوج کے قدم نہیں ٹک سکے، جہاں برٹش آرمی کا بھرکس نکال دیا گیا، اور بڑے بڑے فاتحین عالم ان سنگلاخ پہاڑوں کی نوکیلی چٹانوں سے اپنا سر ٹکرا کر پاش پاش کروا بیٹھے۔ اور جس کے بندوق برداروں نے دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت روس کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا۔
کتابی اصولوں کے مطابق پاک فوج کو اس علاقے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں ہونی چاہیے تھی مگر جب ریاست پاکستان کی رٹ اور عملداری کا سوال ہو اور اس کے اقتدار اعلیٰ کی بحالی کا مسئلہ ہو تو پھر ہر چہ بادا باد، سروں کی فصل کٹوانا ہی عقل کا راستہ تھا، پاک فوج اس کربلا میں اتری، اس کے سات ہزار افسروں اور جوانوں کو شہید کیا گیا، ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے اور معذوری کا شکار ہو گئے، پاکستانی معاشرے کی بے حسی اور بے اعتنائی کا حال یہ تھا کہ کسی شخص نے کسی شہید کے جنازے کو کندھا دینے، اس کے جنازے میں کھڑے ہو کر تصویر بنوانے یا اس کو لحد میں اتارنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
وہ جو وطن پر قربان ہو رہے تھے، اہل وطن ان سے اغماض برت رہے تھے، جنرل کیانی کا دل دکھی تھا، دونوں طرف سے، ایک طرف ان کے بچے کٹ مر رہے تھے، وطن کی حرمت پر قربان ہو رہے تھے اور دوسری طرف اہل وطن کو ان کی قربانیوں کی کوئی پروا نہ تھی، میڈیا کا ایک حصہ ان کو شہید لکھنے سے بھی کترا رہا تھا، صرف جاں بحق لکھتا، کیا ستم ظریفی ہے کہ دہشت گرد بھی جاں بحق اور ان کا نشانہ بننے والے بھی جاں بحق، صدقے جائوں میں اس میڈیا کی انصاف پسندی اور آزادی کے دعووں پر۔
اب انتخابات سر پر ہیں۔ فوج پھر نشانے پر ہے، جنرل کیانی کا نام لے کر صلواتیں سنائی جا رہی ہیں۔ حکومت اور پارلیمنٹ کے گنتی کے دن باقی ہیں، پانچ سال گزر گئے، جنرل کیانی نے اس حکومت اور پارلیمنٹ سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ بلکہ پارلیمنٹ کی طرف سے بار بار طلبی پر فوج نے ہر موقع پر وضاحتیں پیش کیں، جنرل پاشا نے پارلیمنٹ کے سامنے مستعفی ہونے کی پیش کش کی۔ اس فوج کو کوئی معاف کرنے کو تیار نہیں۔ اب اسے الزام دیا جا رہا ہے کہ وہ انتخاب نہیں ہونے دے گی، ٹیکنو کریٹ کی تین سال کی حکومت لے آئے گی، قومی فوج کے سالار اعلیٰ کے خلاف یہ مہم کیوں، جنرل کیانی جو تاریخ میں سرخرو ہو چکے، انھیں رسوا کیوں کیا جا رہا ہے، اس نکتے کو سمجھنے کے لیے طویل پس منظر میں جانے کی ضرورت ہے۔ (جاری ہے)
سیاستدان باہم دست و گریبان رہے، عدلیہ اور پارلیمنٹ کا بار بار تصادم ہوا، وزرا کو جیل کی ہوا کھانا پڑی وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا، نامزد وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، وزیر دفاع کو ای سی ایل میں ڈال کر سرکاری دورے پر جانے سے روکا گیا۔ شہر شہر مقتل بنے رہے، خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی، مزاروں، مسجدوں، مدرسوں، اسکولوں، مارکیٹوں، بازاروں، گھروں، جنازوں تک میں لاشوں کے چیتھڑے اڑے، غیر ملکیوں اور مقامی افراد کو اغوا کیا گیا، یرغمال بنا کر تاوان طلب کیا گیا، میزائل داغے گئے، ڈرون حملوں نے تباہی کا بازار گرم رکھا، غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے کنٹریکٹروں نے کھل کھیلا۔
بھارت نے براہ راست الزام تراشی کی، حکومت وقت نے کہا کہ ریاست کے اندر ریاست کو برداشت نہیں کیا جائے گا، میڈیا شور مچاتا رہا کہ خارجہ پالیسی کو جی ایچ کیو نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ جنرل کیانی یہ سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہے، اوائل صبح کی شبنم کے قطروں کی طرح خنک، ٹھنڈے اور دھیمے مزاج والے اس شخص نے کبھی کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔ کسی نے کہا کہ دفاعی پالیسی کی اجارہ دار بھی فوج بنی ہوئی ہے اور کہنے والوں کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ پارلیمنٹ نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں متفقہ قرارداد منظور کر کے جنرل کیانی کو وار آن ٹیرر کی کمان سونپ دی تھی تو پھر اجارہ داریوں کے طعنے کیسے۔ جنرل کیانی کو کس کس نے چرکے نہیں لگائے۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف، اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔
وہ جس نے کہا تھا کہ جنرل کیانی کو توسیع نہ دی جائے، وہ عدلیہ بحالی کے لیے لانگ مارچ پر نکلا تو اسی جنرل کیانی نے اسے فون کر کے کہا کہ لانگ مارچ کی ضرورت نہیں عدلیہ بحالی کا فیصلہ ہو گیا، لانگ مارچ والے گوجرانوالہ کی نہر کنارے ایک گھر میں محو خواب تھے کہ آخر شب عدلیہ بحالی کا اعلان وزیر اعظم کی ہنگامی نشری تقریر کے ذریعے سامنے آ گیا۔ جنرل کیانی ثالث بالخیر بنے، انھوں نے یہ سب کچھ آئین کی بالا دستی قائم کرنے کے لیے کیا۔ اسی لیے آج تک ان پر کوئی معترض نہیں ہوا، اس لیے کہ ہر کوئی اس اقدام پر جنرل کیانی کا مشکور تھا۔
جنرل کیانی نے ایک گناہ اور کیا، سوات میں بد امنی پر قابو پانے کے لیے انھوں نے ملکی تاریخ میں ایک اور فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ وہ لشکر کشی نہ کرتے تو سوات کے لشکر اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے تیار تھے، کہوٹہ اور انتہا پسندوں کے درمیان صرف مارگلہ کی پہاڑیاں حائل ہیں۔ فوجی آپریشن پہلے بھی ہوتے رہے، بلوچستان میں ہوئے، بار بار ہوئے، ایک آپریشن میں بلوچ سردار پہاڑوں پر چڑھ گئے، کچھ کابل اور لندن میں جا بیٹھے، ایک آپریشن میں سردار بگتی کو نشانہ بنایا گیا، سندھ میں ڈاکووں کے خلاف اور کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوئے مگر ادھورے رہے اور مزید بگاڑ کا باعث بنے، مشرقی پاکستان میں آپریشن ہوا اور پاکستان دو لخت ہو گیا، خود فوج کے نوے ہزار افسر اور جوان بھارتی جنگی کیمپوں میں پہنچ گئے، مگر سوات اور مالاکنڈ کا آپریشن اس حشر سے محفوظ رہا کہ اس کی کمان ایک منجھے ہوئے اور برد بار جرنیل کے ہاتھ میں تھی۔
اس آپریشن کی منصوبہ بندی باریک بینی سے کی گئی تھی، اور انتہائی احتیاط کے ساتھ پیش قدمی کی جا رہی تھی، پھر بھی میڈیا نے شور و غوغا مچایا کہ فوج نے اپنے ہی ہم وطنوں کو گھر بار سے باہر کر دیا ہے، کسی نے کہا کہ بہتر ہو گا کہ سوات پر ایٹم بم مار دیا جائے مگر جنرل کیانی کسی اشتعال میں نہیں آئے، وہ منصوبے کے مطابق چلتے رہے اور تاریخ میں پہلی بار کوئی فوجی آپریشن چند ماہ کے اندر مطلوبہ منزل سے ہمکنار ہو گیا، بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد واپس بھی چلے گئے۔ وہی سوات جس کے بھرے بازاروں میں لوگوں کی گردنیں اڑائی جاتی تھیں، عورتوں کو کوڑے مارے جا رہے تھے اور پھانسیاں دی جا رہی تھیں اور اسکولوں، دفتروں اور دکانوں کو بارودی دھماکے کر کے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جاتا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے اس کی رونقیں واپس آ گئیں، ملکی اور غیر ملکی سیاح اب اسی سوات کی جنت نظیر وادیوں میں آزادانہ طور پر گھوم پھر سکتے ہیں۔
دریائے سوات کے پانیوں کی نغمگی اب دلوں کو پھر سے مسحور کر رہی ہے۔ اس کامیابی نے جنرل کیانی کو حوصلہ مند بنایا۔ اس نے قبائلی علاقوں کی کمیں گاہوں میں مورچہ زن انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔ ڈرانے والوں نے ڈرایا کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسکندر اعظم کی فوج کے قدم نہیں ٹک سکے، جہاں برٹش آرمی کا بھرکس نکال دیا گیا، اور بڑے بڑے فاتحین عالم ان سنگلاخ پہاڑوں کی نوکیلی چٹانوں سے اپنا سر ٹکرا کر پاش پاش کروا بیٹھے۔ اور جس کے بندوق برداروں نے دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت روس کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا۔
کتابی اصولوں کے مطابق پاک فوج کو اس علاقے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں ہونی چاہیے تھی مگر جب ریاست پاکستان کی رٹ اور عملداری کا سوال ہو اور اس کے اقتدار اعلیٰ کی بحالی کا مسئلہ ہو تو پھر ہر چہ بادا باد، سروں کی فصل کٹوانا ہی عقل کا راستہ تھا، پاک فوج اس کربلا میں اتری، اس کے سات ہزار افسروں اور جوانوں کو شہید کیا گیا، ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے اور معذوری کا شکار ہو گئے، پاکستانی معاشرے کی بے حسی اور بے اعتنائی کا حال یہ تھا کہ کسی شخص نے کسی شہید کے جنازے کو کندھا دینے، اس کے جنازے میں کھڑے ہو کر تصویر بنوانے یا اس کو لحد میں اتارنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
وہ جو وطن پر قربان ہو رہے تھے، اہل وطن ان سے اغماض برت رہے تھے، جنرل کیانی کا دل دکھی تھا، دونوں طرف سے، ایک طرف ان کے بچے کٹ مر رہے تھے، وطن کی حرمت پر قربان ہو رہے تھے اور دوسری طرف اہل وطن کو ان کی قربانیوں کی کوئی پروا نہ تھی، میڈیا کا ایک حصہ ان کو شہید لکھنے سے بھی کترا رہا تھا، صرف جاں بحق لکھتا، کیا ستم ظریفی ہے کہ دہشت گرد بھی جاں بحق اور ان کا نشانہ بننے والے بھی جاں بحق، صدقے جائوں میں اس میڈیا کی انصاف پسندی اور آزادی کے دعووں پر۔
اب انتخابات سر پر ہیں۔ فوج پھر نشانے پر ہے، جنرل کیانی کا نام لے کر صلواتیں سنائی جا رہی ہیں۔ حکومت اور پارلیمنٹ کے گنتی کے دن باقی ہیں، پانچ سال گزر گئے، جنرل کیانی نے اس حکومت اور پارلیمنٹ سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ بلکہ پارلیمنٹ کی طرف سے بار بار طلبی پر فوج نے ہر موقع پر وضاحتیں پیش کیں، جنرل پاشا نے پارلیمنٹ کے سامنے مستعفی ہونے کی پیش کش کی۔ اس فوج کو کوئی معاف کرنے کو تیار نہیں۔ اب اسے الزام دیا جا رہا ہے کہ وہ انتخاب نہیں ہونے دے گی، ٹیکنو کریٹ کی تین سال کی حکومت لے آئے گی، قومی فوج کے سالار اعلیٰ کے خلاف یہ مہم کیوں، جنرل کیانی جو تاریخ میں سرخرو ہو چکے، انھیں رسوا کیوں کیا جا رہا ہے، اس نکتے کو سمجھنے کے لیے طویل پس منظر میں جانے کی ضرورت ہے۔ (جاری ہے)