قرآن حکیم سے بے اعتنائی لمحۂ فکر
ہماری فضیلت امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے مشروط ہے۔ اب ہم اپنا محاسبہ کریں کہ ہم اس فضیلت کے کتنے حق دار ہیں
رب ذوالجلال والا کرام کا فرمان ہے۔
'' اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو، تو دیکھتا کہ خوف الٰہی سے وہ پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔''
رب کائنات اپنے بندوں سے مخاطب ہوکر فرما رہا ہے کہ اگر یہ قرآن ہم انسانوں کے بہ جائے پہاڑ پر اتارتے اور پہاڑ میں وہ فہم و ادراک کی صلاحیت پیدا کردیتے جو انسان کو ودیعت کی گئی ہے تو وہ بلند و بالا اور سخت پہاڑ خوف الٰہی سے پست ہوکر ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ درحقیقت رب کائنات انسان کو یہ مثال دے کر سمجھا رہا ہے کہ پہاڑ اتنی سختی اور وسعت و بلندی کے باوجود خوف الٰہی سے ریزہ ریزہ ہوجاتے مگر اے انسان! تجھے عقل و فہم کی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں لیکن پھر بھی قرآن سن کر اور پڑھ کر تیرا دل کوئی اثر قبول نہیں کرتا، کوئی غور و فکر نہیں کرتا کہ تو اپنے انجام سے ڈرے۔ قرآن کے اوامر و نواہی پر مسلمانوں کو عمل کرنا چاہیے۔ ان احکامات پر عمل کرنا چاہیے جس کا قرآن میں حکم ہے اور ان احکامات پر جن کو منع کیا گیا ہے، ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اسی مفہوم کو اس طرح پیش کیا ہے۔
'' ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھالیا۔ وہ بڑا ہی ظالم، جاہل ہے۔''
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو بااختیار بناکر بھیجا ہے، کائنات کی کوئی اور مخلوق اتنی بااختیار نہیں۔ سورج، چاند، ستارے، ہوائیں اور سمندر سب اﷲ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے پابند ہیں۔ سورج ایک سیکنڈ بھی پہلے یا بعد میں غروب نہیں ہوسکتا۔ کائنات کا ایک ایک ذرہ اﷲ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین یعنی قانون فطرت کا پابند ہے۔ لیکن اس کے برعکس رب کائنات نے انسان کو بااختیار بنایا ہے۔ سیدھا اور کام یابی کا راستہ دکھا دیا اور ناکامی و گم راہی کا راستہ بھی دکھا دیا۔ ساتھ ہی انتخاب کرنے کا اختیار بھی دے دیا یعنی چاہے تو عبادت کرو، اور سیدھے راستے پر چلو یا چاہے تو اﷲ کی نافرمانی اور گناہ کرتے جاؤ اور گم راہی کے راستے کا انتخاب کرو۔ یہ ایک بہت بڑا اختیار اور امانت تھی جسے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کردیا اور وہ ڈر گئے۔ انہوں نے یہ انکار کسی سرکشی یا بغاوت کی بنا پر نہیں کیا بل کہ یہ خوف کار فرما تھا کہ اگر ہم اس امانت کے تقاضے پورے نہ کرسکے تو سخت عذاب الٰہی کے مستحق قرار پائیں گے۔
لیکن یہ عظیم امانت انسان نے اٹھالی حالاں کہ انسان بہت ہی کم زور ضعیف اور بے طاقت تھا۔ اس کم زور انسان نے اپنے کاندھے پر ایک عظیم ذمے داری اٹھالی، بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا کہ ایک بھاری بوجھ اٹھالیا اور اپنی قوت کی کمی سے بے خبر تھا۔ انسان چوں کہ جلدباز ہے اس نے سزا و جزا کے پہلو پر زیادہ غور نہیں کیا اور حصول فضیلت کے شوق میں اس اہم ذمے داری کو قبول کرلیا۔ لیکن یہی کم زور انسان اگر اپنی ذمے داری کو بہ حسن و خوبی پورا کرے اور اپنے اختیارات کا استعمال اﷲ تعالیٰ کے بنائی ہوئی حدود اور دائرے میں رہ کر کرے تو وہ ایک بلند مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
حقیقت میں ارادہ، اختیار اور ذمے داری اٹھانا ہی انسان کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ اسی بنا پر اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا گیا۔ یہی وہ کرامت اور شرف ہے جس کا اعلان اﷲ تعالیٰ نے عالم بالا میں کیا تھا کہ فرشتوں کو حکم ملا کہ انسان کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے بنی آدم کی اس فضیلت کے اعتراف کا تذکرہ اس انداز میں کیا ہے۔
''حقیقت میں ہم نے بنی آدم کو قابل تعظیم بنایا۔''
اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام انسانوں کو بلا امتیاز رنگ و نسل قابل احترام قرار دیا۔
اﷲ رب العزت کا فرمان ہے۔
''اے مومنو! تم سب سے بہتر امت ہو۔''
ہماری فضیلت امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے مشروط کردی گئی ہے۔ اب ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا محاسبہ کریں کہ ہم اس فضیلت کے کتنے حق دار ہیں۔ ہماری یہ عادت بن گئی ہے کہ اپنی کوتاہی دوسروں کے کندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ ہم ساری ناکامیوں اور زبوں حالی کا شکوہ حکم رانوں سے کرتے ہیں۔ دراصل ہمارے اعمال ہی ہمارے حکم ران ہیں، یہ ہمارے اعمال ہی کا نتیجہ ہے جو ہمارے اوپر ظلم و جبر مسلط ہے۔ اس کے ذمے دار تو ہم خود بھی ہیں۔ ہم احکام شرعیہ میں کتنی غفلت برت رہے ہیں؟ کیا ہم قرآن و سنت کے احکامات پر عمل پیرا نہ ہوکر جہالت کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں؟ ک
یا ہم نے کبھی سوچا آج مسلم امہ ہی چاروں طرف سے ظلم و ستم کا شکار کیوں ہے؟ تمام جنگ و جدال امت مسلمہ ہی کو کیوں متاثر کر رہی ہے؟ جنگ مسلم امہ ہی لیے کیوں؟ امت مسلمہ مختلف مسالک، مختلف مکاتب فکر اور سیاسی وابستگی کی بنا پر تقسیم در تقسیم ہوکر کم زور و ناتواں ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا اخلاقی معیار کتنا پست ہوتا چلا جا رہا ہے کہ تمام اخلاقی برائیاں بہ درجہ اتم ہمارے اندر پیوست ہوتی جا رہی ہیں۔ فریب، جھوٹ، دھوکا دہی، حرص و طمع، چوری، ڈکیتی ، رشوت ستانی، بے ایمانی، وعدہ خلافی، بے انصافی، بے رحمی، قانون شکنی، معاشی عدم مساوات اور عدم برداشت غرض یہ کہ تمام اخلاقی برائیاں اپنے عروج پر ہیں اور معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے اور ہماری فضیلت کو بھی ختم کردیا ہے۔
کبھی ہم نے سوچا پبلک ٹائیلٹ میں لوٹا زنجیر سے کیوں بندھا ہوتا ہے؟ پبلک واٹر کولر میں ایک معمولی گلاس بھی زنجیر سے کیوں بندھا ہوتا ہے؟ سڑک پر نصب گٹر کے ڈھکن کیوں غائب ہوجاتے ہیں؟ پارک میں لگے لوہے کے جنگلے کیوں غائب ہوجاتے ہیں؟ کیا ہمارا اخلاقی معیار اتنا پست ہوگیا ہے۔
ہماری تمام تر تنزلی اور اخلاقی خامیوں کی بنیادی وجہ قرآن اور سنت سے دوری ہے۔ قرآن کو ہم صرف تلاوت کرنے، ختم کروانے، وظیفہ کرنے اور اونچے مقام پر رکھنے سے اس کا حق ادا کر رہے ہیںاور قرآن کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں۔ حالاں کہ قرآن تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس سے مکمل راہ نمائی ملتی ہے اور تاقیامت ملتی رہے گی۔ دائمی ہدایات تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں۔ قرآن عالمگیریت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ قرآن نہ صرف پڑھنے والی کتاب ہے بل کہ عمل کرنے والی کتاب ہے۔
اب ہم سب نے مل کر اپنی اصلاح کرنی ہے اور اپنی ذمے داری بہ حسن و خوبی انجام دینی ہے۔ انفرادی طور پر ہم اپنی اصلاح کرلیں تو معاشرے کی اصلاح خود بہ خود ہوجائے گی۔ آج بھی اگر ہم قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوجائیں تو کوئی شک نہیں کہ اﷲ رب العزت اپنی رحمت کی چادر ہم پر پھیلا دے گا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور عمل کرنے اور اسوۂ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا کردے۔ (آمین)
'' اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو، تو دیکھتا کہ خوف الٰہی سے وہ پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔''
رب کائنات اپنے بندوں سے مخاطب ہوکر فرما رہا ہے کہ اگر یہ قرآن ہم انسانوں کے بہ جائے پہاڑ پر اتارتے اور پہاڑ میں وہ فہم و ادراک کی صلاحیت پیدا کردیتے جو انسان کو ودیعت کی گئی ہے تو وہ بلند و بالا اور سخت پہاڑ خوف الٰہی سے پست ہوکر ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ درحقیقت رب کائنات انسان کو یہ مثال دے کر سمجھا رہا ہے کہ پہاڑ اتنی سختی اور وسعت و بلندی کے باوجود خوف الٰہی سے ریزہ ریزہ ہوجاتے مگر اے انسان! تجھے عقل و فہم کی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں لیکن پھر بھی قرآن سن کر اور پڑھ کر تیرا دل کوئی اثر قبول نہیں کرتا، کوئی غور و فکر نہیں کرتا کہ تو اپنے انجام سے ڈرے۔ قرآن کے اوامر و نواہی پر مسلمانوں کو عمل کرنا چاہیے۔ ان احکامات پر عمل کرنا چاہیے جس کا قرآن میں حکم ہے اور ان احکامات پر جن کو منع کیا گیا ہے، ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اسی مفہوم کو اس طرح پیش کیا ہے۔
'' ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھالیا۔ وہ بڑا ہی ظالم، جاہل ہے۔''
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو بااختیار بناکر بھیجا ہے، کائنات کی کوئی اور مخلوق اتنی بااختیار نہیں۔ سورج، چاند، ستارے، ہوائیں اور سمندر سب اﷲ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے پابند ہیں۔ سورج ایک سیکنڈ بھی پہلے یا بعد میں غروب نہیں ہوسکتا۔ کائنات کا ایک ایک ذرہ اﷲ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین یعنی قانون فطرت کا پابند ہے۔ لیکن اس کے برعکس رب کائنات نے انسان کو بااختیار بنایا ہے۔ سیدھا اور کام یابی کا راستہ دکھا دیا اور ناکامی و گم راہی کا راستہ بھی دکھا دیا۔ ساتھ ہی انتخاب کرنے کا اختیار بھی دے دیا یعنی چاہے تو عبادت کرو، اور سیدھے راستے پر چلو یا چاہے تو اﷲ کی نافرمانی اور گناہ کرتے جاؤ اور گم راہی کے راستے کا انتخاب کرو۔ یہ ایک بہت بڑا اختیار اور امانت تھی جسے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کردیا اور وہ ڈر گئے۔ انہوں نے یہ انکار کسی سرکشی یا بغاوت کی بنا پر نہیں کیا بل کہ یہ خوف کار فرما تھا کہ اگر ہم اس امانت کے تقاضے پورے نہ کرسکے تو سخت عذاب الٰہی کے مستحق قرار پائیں گے۔
لیکن یہ عظیم امانت انسان نے اٹھالی حالاں کہ انسان بہت ہی کم زور ضعیف اور بے طاقت تھا۔ اس کم زور انسان نے اپنے کاندھے پر ایک عظیم ذمے داری اٹھالی، بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا کہ ایک بھاری بوجھ اٹھالیا اور اپنی قوت کی کمی سے بے خبر تھا۔ انسان چوں کہ جلدباز ہے اس نے سزا و جزا کے پہلو پر زیادہ غور نہیں کیا اور حصول فضیلت کے شوق میں اس اہم ذمے داری کو قبول کرلیا۔ لیکن یہی کم زور انسان اگر اپنی ذمے داری کو بہ حسن و خوبی پورا کرے اور اپنے اختیارات کا استعمال اﷲ تعالیٰ کے بنائی ہوئی حدود اور دائرے میں رہ کر کرے تو وہ ایک بلند مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
حقیقت میں ارادہ، اختیار اور ذمے داری اٹھانا ہی انسان کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ اسی بنا پر اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا گیا۔ یہی وہ کرامت اور شرف ہے جس کا اعلان اﷲ تعالیٰ نے عالم بالا میں کیا تھا کہ فرشتوں کو حکم ملا کہ انسان کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے بنی آدم کی اس فضیلت کے اعتراف کا تذکرہ اس انداز میں کیا ہے۔
''حقیقت میں ہم نے بنی آدم کو قابل تعظیم بنایا۔''
اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام انسانوں کو بلا امتیاز رنگ و نسل قابل احترام قرار دیا۔
اﷲ رب العزت کا فرمان ہے۔
''اے مومنو! تم سب سے بہتر امت ہو۔''
ہماری فضیلت امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے مشروط کردی گئی ہے۔ اب ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا محاسبہ کریں کہ ہم اس فضیلت کے کتنے حق دار ہیں۔ ہماری یہ عادت بن گئی ہے کہ اپنی کوتاہی دوسروں کے کندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ ہم ساری ناکامیوں اور زبوں حالی کا شکوہ حکم رانوں سے کرتے ہیں۔ دراصل ہمارے اعمال ہی ہمارے حکم ران ہیں، یہ ہمارے اعمال ہی کا نتیجہ ہے جو ہمارے اوپر ظلم و جبر مسلط ہے۔ اس کے ذمے دار تو ہم خود بھی ہیں۔ ہم احکام شرعیہ میں کتنی غفلت برت رہے ہیں؟ کیا ہم قرآن و سنت کے احکامات پر عمل پیرا نہ ہوکر جہالت کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں؟ ک
یا ہم نے کبھی سوچا آج مسلم امہ ہی چاروں طرف سے ظلم و ستم کا شکار کیوں ہے؟ تمام جنگ و جدال امت مسلمہ ہی کو کیوں متاثر کر رہی ہے؟ جنگ مسلم امہ ہی لیے کیوں؟ امت مسلمہ مختلف مسالک، مختلف مکاتب فکر اور سیاسی وابستگی کی بنا پر تقسیم در تقسیم ہوکر کم زور و ناتواں ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا اخلاقی معیار کتنا پست ہوتا چلا جا رہا ہے کہ تمام اخلاقی برائیاں بہ درجہ اتم ہمارے اندر پیوست ہوتی جا رہی ہیں۔ فریب، جھوٹ، دھوکا دہی، حرص و طمع، چوری، ڈکیتی ، رشوت ستانی، بے ایمانی، وعدہ خلافی، بے انصافی، بے رحمی، قانون شکنی، معاشی عدم مساوات اور عدم برداشت غرض یہ کہ تمام اخلاقی برائیاں اپنے عروج پر ہیں اور معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے اور ہماری فضیلت کو بھی ختم کردیا ہے۔
کبھی ہم نے سوچا پبلک ٹائیلٹ میں لوٹا زنجیر سے کیوں بندھا ہوتا ہے؟ پبلک واٹر کولر میں ایک معمولی گلاس بھی زنجیر سے کیوں بندھا ہوتا ہے؟ سڑک پر نصب گٹر کے ڈھکن کیوں غائب ہوجاتے ہیں؟ پارک میں لگے لوہے کے جنگلے کیوں غائب ہوجاتے ہیں؟ کیا ہمارا اخلاقی معیار اتنا پست ہوگیا ہے۔
ہماری تمام تر تنزلی اور اخلاقی خامیوں کی بنیادی وجہ قرآن اور سنت سے دوری ہے۔ قرآن کو ہم صرف تلاوت کرنے، ختم کروانے، وظیفہ کرنے اور اونچے مقام پر رکھنے سے اس کا حق ادا کر رہے ہیںاور قرآن کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں۔ حالاں کہ قرآن تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس سے مکمل راہ نمائی ملتی ہے اور تاقیامت ملتی رہے گی۔ دائمی ہدایات تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں۔ قرآن عالمگیریت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ قرآن نہ صرف پڑھنے والی کتاب ہے بل کہ عمل کرنے والی کتاب ہے۔
اب ہم سب نے مل کر اپنی اصلاح کرنی ہے اور اپنی ذمے داری بہ حسن و خوبی انجام دینی ہے۔ انفرادی طور پر ہم اپنی اصلاح کرلیں تو معاشرے کی اصلاح خود بہ خود ہوجائے گی۔ آج بھی اگر ہم قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوجائیں تو کوئی شک نہیں کہ اﷲ رب العزت اپنی رحمت کی چادر ہم پر پھیلا دے گا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور عمل کرنے اور اسوۂ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا کردے۔ (آمین)