ٹرمپ کا نشانہ خطا ہوگیا
اس دورے کے بعد خاص طور سے مسلم دنیا میں بڑے مثبت اثرات مرتب ہوں گے
KARACHI:
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب مشرق اوسط سے اپنے دورے کا آغاز کیا تو بڑے زور و شور سے اس کی ابتدا سعودی عربیہ سے کی، تو امید تھی کہ اس دورے کے بعد خاص طور سے مسلم دنیا میں بڑے مثبت اثرات مرتب ہوں گے، مگر ٹرمپ کی ایران کے خلاف جارحانہ تقریر اور سعودی فرمانروا کی پذیرائی نے مشرق اوسط میں منفی اثرات مرتب کردیے۔ ہونا تو در اصل یہ تھا کہ اس دورے کے بعد بیٹھے بٹھائے کئی اور مداح حکمران امریکا کو ملنے تھے لیکن ہوا یہ کہ بیٹھے بٹھائے ایران کو ترکی اور قطر مل گئے اورکئی ممالک غیر جانبدار بن گئے۔ جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ حالانکہ شام کی جنگ میں ترکی سعودی عرب کا ساتھی تھا اور النصرہ اور دیگر اسلامی مجاہدین کا ہمنوا تھا، مگر مسٹر ٹرمپ کی جارحانہ طرزگفتگو نے حالات کا پانسا پلٹ دیا اور دنیا بھر میں امریکا کی پالیسی کو غیر مناسب قرار دلوادیا۔
27 جون کو آر ٹی وی (Russian TV) نے اپنی نشریات کے ایک بیانیے میں مسٹر ٹرمپ کے بارے میں جو لفظ تحریر کیا گیا ہے ایریٹک (Erratic) کہتے ہیں جس کے معنی بے قاعدگی، ناقابل اعتماد، پھرکہہ کے مکر جانے کے ہیں۔ یہ جرمن چانسلر کے الفاظ ہیں۔ جس کو گزشتہ ہفتے ادا کیا گیا ۔ گویا مسٹر ٹرمپ سیاسی اعتبار سے اپنا عالمی مقام اور نیٹو ممالک میں کھو بیٹھے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ کی ریاض سے روانگی کے فوراً بعد عرب ممالک میں شیعہ سنی رخنہ پیدا ہوا۔ مگر قطر اور سعودی عرب کے درمیان خلیج نے اس کی شدت کم کردی۔ کیوں کہ قطر اور ایران کے مابین اچھے سیاسی روابط نے یہ فاصلہ ختم کردیا۔ البتہ ایران اور سعودی تنازعہ نے شدت اختیار کرلی ہے اور الفاظ کی جنگ سے کھلم کھلا تلخ انداز پیدا ہو گیا ہے۔ ایسے حالات نے پاکستان کو ایک مشکل راہ پر ڈال دیا ہے اور وہ کھلم کھلا کسی ایک فریق کی حمایت کے حق میں نہیں اور حکومتی سطح پر پاکستانی ترجمان غیر جانبدار ہونے پر مجبور ہوگئے، بلکہ خارجہ امور کی کمیٹی کی چیئرپرسن نزہت صادق نے بھی اس معاملے میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرلیا۔
حالانکہ ان کا جھکاؤ بڑی حد تک سعودی گروپ کے ہمراہ تھا۔ بقول ہماری خارجہ امور کی چیئرپرسن نزہت صادق کے کہ سعودی عرب اور ان کے ساتھی پاکستان سے معاشی طور پر قریب تر ہیں۔ اس لیے وہ پاکستان سے قریب تر ہیں۔ بہر حال یہ ایک ایسی صورت ہے جس میں یہ معاملہ ایک پیچیدہ صورت اختیارکرچکا ہے۔ حالانکہ بظاہر ایران اور پاکستان میں کوئی کشیدگی کے آثار نہیں لیکن دونوں جانب سے کوئی گرم جوشی بھی نمایاں نہیں لیکن ایران اور سعودی عرب میں ہر روز عالمی پیمانے پر جنگ کی سی تکرار جاری ہے اور گزشتہ دنوں سے ایران کا پریس ٹی وی جو خبریں نشر کر رہا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی لمحہ کوئی بڑا حادثہ خدانخواستہ رونما ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب اور اس سے ملحقہ ریاستوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کبھی نہ تھی مگر مسٹر ٹرمپ کی آمد کے بعد مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے مابین کشیدگی میں نمایاں اضافہ خبروں سے محسوس ہونے لگا ہے۔ مگر عرب ممالک میں ابھی ایسا نہیں کہ جیسا بڑے پیمانے سے پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے پارا چنار اور کوئٹہ کے ہزارہ علاقے میں مسلسل ہورہا ہے۔ پارا چنار میں خودکش بمباری کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے جس سے اگر موازنہ کیا جائے تو سال میں ایک دو واقعات ہوتے تھے مگر اب اس میں اضافہ ہوگیا ہے جس سے کیا اندازہ لگایا جائے ۔ اگر ہم اس مسئلے کو غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ امریکی خفیہ ایجنسی نے ایک منصوبے کے تحت اسرائیلی حکمت عملی کے تحت شیعہ سنی نفاق سے عالم اسلام کو تقسیم کرنے اور شیشہ کی طرح صاف امت کو توڑنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
کیوں کہ عرب ممالک میں خصوصاً بحرین، لبنان، عراق میں اور سعودی عرب میں صدیوں سے مقیم لوگوں میں خونریزی نہ ہوئی مگر مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلاف کو ہوا دے کر امت مسلمہ کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور داعش نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ مگر اتفاقاً ایک سیاسی اختلاف جو قطر اور عرب امارات میں رونما ہوئے اور ایران اور قطر قریب تر ہوئے اس نے مذہبی اختلافات کو ختم کر کے سیاسی رنگ کو فروغ دیا اور اب یہ پروپیگنڈا بھی دم توڑ گیا کہ ایران اور سعودی عرب کے اختلاف مذہبی ہیں۔ درحقیقت اب یہ بات منظر عام پر آچکی ہے کہ اختلافات کی بنیاد سیاسی ہے کیوں کہ قطر، تحریک حماس، ترکی اور ایران مصر کے سابق حکمران محمد مرسی کے حامی ہیں۔
جب کہ مصر کے موجودہ خود ساختہ امریکا نواز حکمران السیسی اخوان المسلمون کے خلاف ہیں۔ در اصل اندرونی طور پر اسرائیل مرسی کی آمد کے خلاف تھا اور اس نے مصر کے انتخابی نتائج کو نہایت ہوشیاری سے کالعدم قرار دے دیا اور ملک کے آزاد خیال لوگوں کو اکساکر خانہ جنگی کی سی فضا پیدا کردی اور فوج کو ایک بار پھر مصر میں مداخلت کا موقع مل گیا جب مصر اس بحران سے گزر رہا تھا تو اسی دوران قطر نے بہت سے اخوان لیڈروں کو پناہ دے دی تھی جو سعودی عرب اور قطر کے مابین بنیادی طور پر بنائے سیاسی اختلاف بنا۔ ادھر سعودی دورے کے بعد ٹرمپ نے عرب ممالک میں مذہبی اختلاف کو ہوا دینے کی جو منصوبہ بندی کی تھی اس پر عمل در آمد کرنے کے لیے (Test) ٹیسٹ کے طور پر بحران کے لیے بحرین میں شیعہ سنی اختلاف کو ابھارا گیا مگر وہاں پر یہ نسخہ کامیاب نہ ہوا اور بحرین میں اتفاق مزید گہرا ہو گیا۔
ایران پر ٹرمپ نے جو اٹیک گفتگو میں کیا قطر کے امیر نے اس کو رد کردیا اور بعد ازاں جو پابندیاں قطر پر لگائی گئیں اس سے طیب اردوان نے جو رد عمل نمایاں کیا اس سے قطر کی پوزیشن اور مضبوط ہوگئی کیوں کہ ترکی جو نیٹو کا رکن ہے اس نے قطر کو فوجی سامان اور فوجی دستہ بھیج کر باقاعدہ طور پر سعودی پالیسی کو رد کردیا اور متحدہ عرب مارات کی سیاسی اتفاق کو یکسر مسترد کردیا اور عرب ممالک میں مذہبی تقسیم اور منافرت کی سیاست کو شدید دھچکا لگا اور اسلامی فوج کے مقاصد کیا تھے اور اس کو کس کے خلاف صف آرا ہونا تھا وہ بھی کار آمد نہ ہوا۔ لہٰذا پاکستان کو غیر جانبدار پالیسی پر عمل کرنے کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہ رہا اب مسٹر ٹرمپ کو مسائل بات چیت سے حل کرانے کی پالیسی پر ہی عمل کرنا ہوگا۔ شمالی کوریا کو جو دھمکی دی جارہی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ ادھر عراق میں داعش آخری سانس لے رہی ہے۔ عملاً اگر تمام حالات سامنے رکھیں تو مسٹر ٹرمپ کا شام کے بعد قطر پر وار کرنے کا بھی نشانہ بھی خطا ہوگیا۔
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب مشرق اوسط سے اپنے دورے کا آغاز کیا تو بڑے زور و شور سے اس کی ابتدا سعودی عربیہ سے کی، تو امید تھی کہ اس دورے کے بعد خاص طور سے مسلم دنیا میں بڑے مثبت اثرات مرتب ہوں گے، مگر ٹرمپ کی ایران کے خلاف جارحانہ تقریر اور سعودی فرمانروا کی پذیرائی نے مشرق اوسط میں منفی اثرات مرتب کردیے۔ ہونا تو در اصل یہ تھا کہ اس دورے کے بعد بیٹھے بٹھائے کئی اور مداح حکمران امریکا کو ملنے تھے لیکن ہوا یہ کہ بیٹھے بٹھائے ایران کو ترکی اور قطر مل گئے اورکئی ممالک غیر جانبدار بن گئے۔ جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ حالانکہ شام کی جنگ میں ترکی سعودی عرب کا ساتھی تھا اور النصرہ اور دیگر اسلامی مجاہدین کا ہمنوا تھا، مگر مسٹر ٹرمپ کی جارحانہ طرزگفتگو نے حالات کا پانسا پلٹ دیا اور دنیا بھر میں امریکا کی پالیسی کو غیر مناسب قرار دلوادیا۔
27 جون کو آر ٹی وی (Russian TV) نے اپنی نشریات کے ایک بیانیے میں مسٹر ٹرمپ کے بارے میں جو لفظ تحریر کیا گیا ہے ایریٹک (Erratic) کہتے ہیں جس کے معنی بے قاعدگی، ناقابل اعتماد، پھرکہہ کے مکر جانے کے ہیں۔ یہ جرمن چانسلر کے الفاظ ہیں۔ جس کو گزشتہ ہفتے ادا کیا گیا ۔ گویا مسٹر ٹرمپ سیاسی اعتبار سے اپنا عالمی مقام اور نیٹو ممالک میں کھو بیٹھے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ کی ریاض سے روانگی کے فوراً بعد عرب ممالک میں شیعہ سنی رخنہ پیدا ہوا۔ مگر قطر اور سعودی عرب کے درمیان خلیج نے اس کی شدت کم کردی۔ کیوں کہ قطر اور ایران کے مابین اچھے سیاسی روابط نے یہ فاصلہ ختم کردیا۔ البتہ ایران اور سعودی تنازعہ نے شدت اختیار کرلی ہے اور الفاظ کی جنگ سے کھلم کھلا تلخ انداز پیدا ہو گیا ہے۔ ایسے حالات نے پاکستان کو ایک مشکل راہ پر ڈال دیا ہے اور وہ کھلم کھلا کسی ایک فریق کی حمایت کے حق میں نہیں اور حکومتی سطح پر پاکستانی ترجمان غیر جانبدار ہونے پر مجبور ہوگئے، بلکہ خارجہ امور کی کمیٹی کی چیئرپرسن نزہت صادق نے بھی اس معاملے میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرلیا۔
حالانکہ ان کا جھکاؤ بڑی حد تک سعودی گروپ کے ہمراہ تھا۔ بقول ہماری خارجہ امور کی چیئرپرسن نزہت صادق کے کہ سعودی عرب اور ان کے ساتھی پاکستان سے معاشی طور پر قریب تر ہیں۔ اس لیے وہ پاکستان سے قریب تر ہیں۔ بہر حال یہ ایک ایسی صورت ہے جس میں یہ معاملہ ایک پیچیدہ صورت اختیارکرچکا ہے۔ حالانکہ بظاہر ایران اور پاکستان میں کوئی کشیدگی کے آثار نہیں لیکن دونوں جانب سے کوئی گرم جوشی بھی نمایاں نہیں لیکن ایران اور سعودی عرب میں ہر روز عالمی پیمانے پر جنگ کی سی تکرار جاری ہے اور گزشتہ دنوں سے ایران کا پریس ٹی وی جو خبریں نشر کر رہا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی لمحہ کوئی بڑا حادثہ خدانخواستہ رونما ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب اور اس سے ملحقہ ریاستوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کبھی نہ تھی مگر مسٹر ٹرمپ کی آمد کے بعد مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے مابین کشیدگی میں نمایاں اضافہ خبروں سے محسوس ہونے لگا ہے۔ مگر عرب ممالک میں ابھی ایسا نہیں کہ جیسا بڑے پیمانے سے پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے پارا چنار اور کوئٹہ کے ہزارہ علاقے میں مسلسل ہورہا ہے۔ پارا چنار میں خودکش بمباری کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے جس سے اگر موازنہ کیا جائے تو سال میں ایک دو واقعات ہوتے تھے مگر اب اس میں اضافہ ہوگیا ہے جس سے کیا اندازہ لگایا جائے ۔ اگر ہم اس مسئلے کو غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ امریکی خفیہ ایجنسی نے ایک منصوبے کے تحت اسرائیلی حکمت عملی کے تحت شیعہ سنی نفاق سے عالم اسلام کو تقسیم کرنے اور شیشہ کی طرح صاف امت کو توڑنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
کیوں کہ عرب ممالک میں خصوصاً بحرین، لبنان، عراق میں اور سعودی عرب میں صدیوں سے مقیم لوگوں میں خونریزی نہ ہوئی مگر مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلاف کو ہوا دے کر امت مسلمہ کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور داعش نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ مگر اتفاقاً ایک سیاسی اختلاف جو قطر اور عرب امارات میں رونما ہوئے اور ایران اور قطر قریب تر ہوئے اس نے مذہبی اختلافات کو ختم کر کے سیاسی رنگ کو فروغ دیا اور اب یہ پروپیگنڈا بھی دم توڑ گیا کہ ایران اور سعودی عرب کے اختلاف مذہبی ہیں۔ درحقیقت اب یہ بات منظر عام پر آچکی ہے کہ اختلافات کی بنیاد سیاسی ہے کیوں کہ قطر، تحریک حماس، ترکی اور ایران مصر کے سابق حکمران محمد مرسی کے حامی ہیں۔
جب کہ مصر کے موجودہ خود ساختہ امریکا نواز حکمران السیسی اخوان المسلمون کے خلاف ہیں۔ در اصل اندرونی طور پر اسرائیل مرسی کی آمد کے خلاف تھا اور اس نے مصر کے انتخابی نتائج کو نہایت ہوشیاری سے کالعدم قرار دے دیا اور ملک کے آزاد خیال لوگوں کو اکساکر خانہ جنگی کی سی فضا پیدا کردی اور فوج کو ایک بار پھر مصر میں مداخلت کا موقع مل گیا جب مصر اس بحران سے گزر رہا تھا تو اسی دوران قطر نے بہت سے اخوان لیڈروں کو پناہ دے دی تھی جو سعودی عرب اور قطر کے مابین بنیادی طور پر بنائے سیاسی اختلاف بنا۔ ادھر سعودی دورے کے بعد ٹرمپ نے عرب ممالک میں مذہبی اختلاف کو ہوا دینے کی جو منصوبہ بندی کی تھی اس پر عمل در آمد کرنے کے لیے (Test) ٹیسٹ کے طور پر بحران کے لیے بحرین میں شیعہ سنی اختلاف کو ابھارا گیا مگر وہاں پر یہ نسخہ کامیاب نہ ہوا اور بحرین میں اتفاق مزید گہرا ہو گیا۔
ایران پر ٹرمپ نے جو اٹیک گفتگو میں کیا قطر کے امیر نے اس کو رد کردیا اور بعد ازاں جو پابندیاں قطر پر لگائی گئیں اس سے طیب اردوان نے جو رد عمل نمایاں کیا اس سے قطر کی پوزیشن اور مضبوط ہوگئی کیوں کہ ترکی جو نیٹو کا رکن ہے اس نے قطر کو فوجی سامان اور فوجی دستہ بھیج کر باقاعدہ طور پر سعودی پالیسی کو رد کردیا اور متحدہ عرب مارات کی سیاسی اتفاق کو یکسر مسترد کردیا اور عرب ممالک میں مذہبی تقسیم اور منافرت کی سیاست کو شدید دھچکا لگا اور اسلامی فوج کے مقاصد کیا تھے اور اس کو کس کے خلاف صف آرا ہونا تھا وہ بھی کار آمد نہ ہوا۔ لہٰذا پاکستان کو غیر جانبدار پالیسی پر عمل کرنے کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہ رہا اب مسٹر ٹرمپ کو مسائل بات چیت سے حل کرانے کی پالیسی پر ہی عمل کرنا ہوگا۔ شمالی کوریا کو جو دھمکی دی جارہی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ ادھر عراق میں داعش آخری سانس لے رہی ہے۔ عملاً اگر تمام حالات سامنے رکھیں تو مسٹر ٹرمپ کا شام کے بعد قطر پر وار کرنے کا بھی نشانہ بھی خطا ہوگیا۔