جنوبی پنجاب کی محرومی
آج ہماری یہ حالت ہے کہ حکمران خوشحالی کی نوید سنا رہے ہیں
آج ہماری یہ حالت ہے کہ حکمران خوشحالی کی نوید سنا رہے ہیں۔ لیکن اصل میں ہماری حقیقت آئل ٹینکر کے گرد 100 دو سو روپے کی خاطر جان گنوانے سے زیادہ کچھ نہیں، عوام کو اس قدر ''بھیک منگا''بنا دیا ہے کہ ہم کہیں سے تھوڑی سی خوشی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔
یہ صرف بہاولپور کی بات نہیں بلکہ ملک کے ہر گلی،ہر سڑک،ہر محلے میں غربت کے مناظر نظر آتے ہیں۔ جس ملک میں لوگ فضا سے پھینکی خوراک اٹھانے کے لیے میلوں کا سفر کریں،تھر میں خوراک کی کمی کے باعث سیکڑوں بچے دنیا سے چلے جائیں، اس ملک میں احمد پور شرقیہ جیسا سانحہ ہوجائے تو اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔
احمد پور شرقیہ میں 177سے زائد ہم وطنوں کی ناگہانی موت کے بعد جذباتی ہر گز نہیں ہوں، بلکہ ہر حادثے کے بعد ایسی ہی فضولیات سننے کو ملتی ہیں کہ اب ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا مگر پھر دوبارہ کوئی نہ کوئی سانحہ رونما ہو جاتاہے۔ اسی سال28مارچ کو ہرن مینار شیخوپورہ کے قریب لاہور سے کراچی جانے والی شالیمار ایکسپریس ایک کھلے پھاٹک پر آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی جس کے نتیجہ میں ٹرین ڈرائیور سمیت متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے تھے،گزشتہ سال کراچی جانے والی ایک مسافر بس شکار پور کے قریب آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی اس حادثہ میں 62افراد جاں بحق ہوئے، اور اسی طرح لاہور کے نواحی علاقے میں بھی متعدد افراد جاں بحق ہوئے تھے مگر کہیں کوئی احتیاطی تدابیر نظر نہ آئیں۔
خیر بات ہورہی تھی جنوبی پنجاب کے عوام کے حالات کی تو یقین مانیں وہاں کے عوام حقیقت میں غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، چونکہ میرا تعلق بھی انھی علاقوں سے ہے اس لیے میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور (جنوبی پنجاب)کی پانچ تحصیلوں میں سے ایک ہے، اس تحصیل کا صدر مقام احمد پور شرقیہ شہر ہے۔ ان علاقوں کے زیادہ تو لوگ اپنی زمین کے مالک نہیں ہیں، ان کا انحصار ٹھیکوں،مستاجری کی زمین پر ہوتا ہے، یا پھر وہ لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں، اگر اس علاقے میں کسی کی اپنی زمین ہے بھی تو 2 یا 3 بیگھہ ہوتی ہے اگر کوئی زیادہ ہی خوشحال ہے تو اس کی زمین 2 ایکڑ تک ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی گزر بسر جانوروں کی خریدو فروخت پر ہوتی ہے۔
ریاست بہاولپور قیام پاکستان کے وقت برصغیر کی دوسری امیر ترین ریاست تھی جہاں عوام کو صحت و تعلیم جیسی سہولیات مفت دستیاب تھیں،یہ شہر پاکستان کا 12واں بڑا شہر ہے جو ملتان سے 80 کلومیٹر دورہے۔یہ پہلی ریاست ہے جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔ کاش اسی بات کو مد نظررکھ کرہمارے اکابرین اس شہر کی جدید تقاضوں کے مطابق ترقی کا سوچ لیتے، احمد پور شرقیہ اس کی سب سے بڑی تحصیل اور آبادی کے لحاظ سے بھی پنجاب کی سب بڑی تحصیل ہے مگر اس کے باجود بہتری نہ آسکی بقول شاعر
امیرِ شہر نے الزام دھر دیئے ورنہ
غریبِ شہر کچھ اِتنا گناہگار نہ تھا
آج محرومیاں یہاں کے عوام کا مقدر ہیں اور وفاقی و صوبائی حکومت کی ساری توجہ میٹرو اور اورنج ٹرین پر ہے، تعلیم اور صحت اس کی ترجیحات ہی نہیں ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں تقریباً 140 ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز اسپتال ہیں، اگر آٹھ بڑے شہروں کے تین تین یعنی چوبیس اور اسپتال بھی شامل کر لیے جائیں اور پنجاب میں چھتیس گنجان آباد مقامات کا تعین کیا جائے تو کل ملا کر 200 اسپتال یا ایسے مقامات ہوں گے جہاں برن سینٹر کی ضرورت ہے۔
اگر ایک عالمی معیار کے برن سینٹر کی تعمیر پر اندازً بیس کروڑ خرچ ہوں تو 200 برن سینٹرز کی تعمیر پر صرف 40 ارب روپے خرچ ہوتے لیکن اب ذرا حکومت کی دس سالہ ترجیحات دیکھیں، لاہور میٹرو بس، پنڈی میٹرو بس،ملتان میٹرو بس، لاہوراورنج ٹرین صرف ان چار منصوبوں کی کل لاگت کا مجموعہ دیکھیں تو وہ تین چار سو ارب روپے بنتا ہے، اب آپ اندازہ کریں کہ دس سالوں میں پنجاب حکومت صوبے میں برن سینٹرز کے قیام کیلیے چالیس ارب روپے تو خرچ نہیں کر سکی لیکن بسیں چلانے پر سینکڑوں ارب روپے خرچ کردیئے گئے، اس پالیسی کو کیا نام دیا جائے؟
آج عوام کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ لوگ 50 روپے کے پٹرول کی خاطر موت کی بھینٹ چڑھ گئے، اسے جہالت کہہ لیں یا غریبی، یہ تو طے ہوگیا ہے کہ ان جمہوریت پسندوںکے دور میں ''عام آدمی'' یونہی سسک سسک کر مرتا رہے گا، بقول شاعر
گندم امیرِ شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی غریبِ شہر کی فاقوں سے مرگئی
یہ وہ لوگ ہیں جو 2 ڈالر سے بھی کم روزانہ کماتے ہیں، جن کے بچے راہ گزرتے کپاس سے بھرے ٹرالر سے گری کپاس چن کر کسی دکان پر بیچ کرسمجھتے ہیں کہ وہ ان چند روپوں سے بہت امیر ہوگئے ہیں۔ مگر حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ان امیرزادوں کو اس کی کیا پرواہ جن کی عیدیں لندن میں ہوں اور جن کا اُٹھنا بیٹھنا سوئٹزر لینڈ جیسے ملکوں میں ہوانھیں زمینی حقائق کا اندازہ کیسے ہو سکتا ہے۔
میں نے چند دن قبل پنجاب کو انتظامی حوالے سے صوبوں میں تقسیم کرنے کی غرض سے کالم لکھا تھا جس میں تفصیلاًَیہ لکھا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی لاہور بیٹھ کر 300میل دور کی مشکلات کا اندازہ لگالے۔ اور اگر یہ کوئی کہتا ہے کہ لاہور میں بیٹھ کر وہ بھکر کے حالات ٹھیک کردے گا تو اس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے، اور اگر کوئی یہ کہے کہ وہ لاہور میں بیٹھ کر بہاولپور کے حالات ٹھیک کر دے تو وہ بھی احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
آپ فرانس، جرمنی، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، فن لینڈ، آسٹریا، چیک ریپبلک، نیوزی لینڈ، جاپان اور دیگر ممالک کی مثال لے لیں جہاں کی آبادی پنجاب سے کم ہے اور وہاں انتظامی طور پر کئی کئی یونٹ (صوبے) بنائے گئے ہیں تاکہ عوام اور حکومت کا ربط برقرار رہے۔ جنوبی پنجاب کی تین کروڑ آبادی کیلیے پنجاب کے ترقیاتی بجٹ کا حصہ لاہور شہر سے کم ہے۔ اگر آج بہاولپور اپنے صوبے کا دارالحکومت ہوتا تو آج وہاں برن یونٹ کے ساتھ ساتھ وہاں عوام کے لیے ہر سہولت دستیاب ہوتی۔ وہاں اسکول ہوتے، وہاں کالج، یونیورسٹیاں ہوتیں اور عوام باشعور ہوتے ۔
جہاں ریاست کی پالیسی نہ ہو وہاں سمجھو عوام سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہوں گے۔ وہاں کے عوام تیل کے ٹینکر گرنے کو خدائی تحفہ قرار دیں گے، اور اگر ایسا عید سے پہلے ہوتو ہر شخص اسے خاص ہی گردانے گا، اگر اسی عوام کو شعور دیا جاتا، تعلیم دی جائے اور ان کے حالات کو بہتربنایا جائے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عوام کے دن پھیرے جا سکتے ہیں لیکن کیا کیا جائے حکمران توخود اپنے آپ کو دو سال سے پاناما سے بچا رہے ہیں، اسی لیے ان حکمرانوں کی اصل مسائل پر توجہ ہی نہیں ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ڈگری ملتی ہے، تعلیم نہیں ملتی، جن اسپتالوں میں صحت دی جانی چاہیے وہاںموت کے انجیکشن لگا کر مریض کو سکون دے دیا جاتا ہے۔ اور حکومت کا یہ کام ہے کہ وہ ایسے دکھاوے کے کام کرتی ہے جو لوگوں کو صرف نظر آئیں، اس عمل کو جدید دنیا میں ''کاسمیٹکس ترقی'' کا نام دیا جا تا ہے۔ جو بس نظر آنا چاہیے اور حکومت کسی ایسی جگہ انویسٹمنٹ بھی کرنے کو تیار نہیں جہاں انھیں کوئی سیاسی فائدہ نظر نہ آئے۔
میرے خیال میں اگر جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کا مطالبہ مان لیا جائے تو وہاں کے عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے، غربت ختم ہو سکتی ہے، جہالت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکمران ہر بات میں جھوٹ بولنے کے ماہر ہیں لیکن میں آج بھی کہتا ہوں کہ ملک میں جتنے صوبے ہوں گے، اتنا ہی ٹیلنٹ نکھر کر سامنے آئے گا، کرپشن کم ہوگی اورکسی صوبے کی اُجارہ داری کا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوسکے گا۔
یہ صرف بہاولپور کی بات نہیں بلکہ ملک کے ہر گلی،ہر سڑک،ہر محلے میں غربت کے مناظر نظر آتے ہیں۔ جس ملک میں لوگ فضا سے پھینکی خوراک اٹھانے کے لیے میلوں کا سفر کریں،تھر میں خوراک کی کمی کے باعث سیکڑوں بچے دنیا سے چلے جائیں، اس ملک میں احمد پور شرقیہ جیسا سانحہ ہوجائے تو اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔
احمد پور شرقیہ میں 177سے زائد ہم وطنوں کی ناگہانی موت کے بعد جذباتی ہر گز نہیں ہوں، بلکہ ہر حادثے کے بعد ایسی ہی فضولیات سننے کو ملتی ہیں کہ اب ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا مگر پھر دوبارہ کوئی نہ کوئی سانحہ رونما ہو جاتاہے۔ اسی سال28مارچ کو ہرن مینار شیخوپورہ کے قریب لاہور سے کراچی جانے والی شالیمار ایکسپریس ایک کھلے پھاٹک پر آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی جس کے نتیجہ میں ٹرین ڈرائیور سمیت متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے تھے،گزشتہ سال کراچی جانے والی ایک مسافر بس شکار پور کے قریب آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی اس حادثہ میں 62افراد جاں بحق ہوئے، اور اسی طرح لاہور کے نواحی علاقے میں بھی متعدد افراد جاں بحق ہوئے تھے مگر کہیں کوئی احتیاطی تدابیر نظر نہ آئیں۔
خیر بات ہورہی تھی جنوبی پنجاب کے عوام کے حالات کی تو یقین مانیں وہاں کے عوام حقیقت میں غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، چونکہ میرا تعلق بھی انھی علاقوں سے ہے اس لیے میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور (جنوبی پنجاب)کی پانچ تحصیلوں میں سے ایک ہے، اس تحصیل کا صدر مقام احمد پور شرقیہ شہر ہے۔ ان علاقوں کے زیادہ تو لوگ اپنی زمین کے مالک نہیں ہیں، ان کا انحصار ٹھیکوں،مستاجری کی زمین پر ہوتا ہے، یا پھر وہ لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں، اگر اس علاقے میں کسی کی اپنی زمین ہے بھی تو 2 یا 3 بیگھہ ہوتی ہے اگر کوئی زیادہ ہی خوشحال ہے تو اس کی زمین 2 ایکڑ تک ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی گزر بسر جانوروں کی خریدو فروخت پر ہوتی ہے۔
ریاست بہاولپور قیام پاکستان کے وقت برصغیر کی دوسری امیر ترین ریاست تھی جہاں عوام کو صحت و تعلیم جیسی سہولیات مفت دستیاب تھیں،یہ شہر پاکستان کا 12واں بڑا شہر ہے جو ملتان سے 80 کلومیٹر دورہے۔یہ پہلی ریاست ہے جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔ کاش اسی بات کو مد نظررکھ کرہمارے اکابرین اس شہر کی جدید تقاضوں کے مطابق ترقی کا سوچ لیتے، احمد پور شرقیہ اس کی سب سے بڑی تحصیل اور آبادی کے لحاظ سے بھی پنجاب کی سب بڑی تحصیل ہے مگر اس کے باجود بہتری نہ آسکی بقول شاعر
امیرِ شہر نے الزام دھر دیئے ورنہ
غریبِ شہر کچھ اِتنا گناہگار نہ تھا
آج محرومیاں یہاں کے عوام کا مقدر ہیں اور وفاقی و صوبائی حکومت کی ساری توجہ میٹرو اور اورنج ٹرین پر ہے، تعلیم اور صحت اس کی ترجیحات ہی نہیں ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں تقریباً 140 ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز اسپتال ہیں، اگر آٹھ بڑے شہروں کے تین تین یعنی چوبیس اور اسپتال بھی شامل کر لیے جائیں اور پنجاب میں چھتیس گنجان آباد مقامات کا تعین کیا جائے تو کل ملا کر 200 اسپتال یا ایسے مقامات ہوں گے جہاں برن سینٹر کی ضرورت ہے۔
اگر ایک عالمی معیار کے برن سینٹر کی تعمیر پر اندازً بیس کروڑ خرچ ہوں تو 200 برن سینٹرز کی تعمیر پر صرف 40 ارب روپے خرچ ہوتے لیکن اب ذرا حکومت کی دس سالہ ترجیحات دیکھیں، لاہور میٹرو بس، پنڈی میٹرو بس،ملتان میٹرو بس، لاہوراورنج ٹرین صرف ان چار منصوبوں کی کل لاگت کا مجموعہ دیکھیں تو وہ تین چار سو ارب روپے بنتا ہے، اب آپ اندازہ کریں کہ دس سالوں میں پنجاب حکومت صوبے میں برن سینٹرز کے قیام کیلیے چالیس ارب روپے تو خرچ نہیں کر سکی لیکن بسیں چلانے پر سینکڑوں ارب روپے خرچ کردیئے گئے، اس پالیسی کو کیا نام دیا جائے؟
آج عوام کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ لوگ 50 روپے کے پٹرول کی خاطر موت کی بھینٹ چڑھ گئے، اسے جہالت کہہ لیں یا غریبی، یہ تو طے ہوگیا ہے کہ ان جمہوریت پسندوںکے دور میں ''عام آدمی'' یونہی سسک سسک کر مرتا رہے گا، بقول شاعر
گندم امیرِ شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی غریبِ شہر کی فاقوں سے مرگئی
یہ وہ لوگ ہیں جو 2 ڈالر سے بھی کم روزانہ کماتے ہیں، جن کے بچے راہ گزرتے کپاس سے بھرے ٹرالر سے گری کپاس چن کر کسی دکان پر بیچ کرسمجھتے ہیں کہ وہ ان چند روپوں سے بہت امیر ہوگئے ہیں۔ مگر حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ان امیرزادوں کو اس کی کیا پرواہ جن کی عیدیں لندن میں ہوں اور جن کا اُٹھنا بیٹھنا سوئٹزر لینڈ جیسے ملکوں میں ہوانھیں زمینی حقائق کا اندازہ کیسے ہو سکتا ہے۔
میں نے چند دن قبل پنجاب کو انتظامی حوالے سے صوبوں میں تقسیم کرنے کی غرض سے کالم لکھا تھا جس میں تفصیلاًَیہ لکھا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی لاہور بیٹھ کر 300میل دور کی مشکلات کا اندازہ لگالے۔ اور اگر یہ کوئی کہتا ہے کہ لاہور میں بیٹھ کر وہ بھکر کے حالات ٹھیک کردے گا تو اس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے، اور اگر کوئی یہ کہے کہ وہ لاہور میں بیٹھ کر بہاولپور کے حالات ٹھیک کر دے تو وہ بھی احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
آپ فرانس، جرمنی، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، فن لینڈ، آسٹریا، چیک ریپبلک، نیوزی لینڈ، جاپان اور دیگر ممالک کی مثال لے لیں جہاں کی آبادی پنجاب سے کم ہے اور وہاں انتظامی طور پر کئی کئی یونٹ (صوبے) بنائے گئے ہیں تاکہ عوام اور حکومت کا ربط برقرار رہے۔ جنوبی پنجاب کی تین کروڑ آبادی کیلیے پنجاب کے ترقیاتی بجٹ کا حصہ لاہور شہر سے کم ہے۔ اگر آج بہاولپور اپنے صوبے کا دارالحکومت ہوتا تو آج وہاں برن یونٹ کے ساتھ ساتھ وہاں عوام کے لیے ہر سہولت دستیاب ہوتی۔ وہاں اسکول ہوتے، وہاں کالج، یونیورسٹیاں ہوتیں اور عوام باشعور ہوتے ۔
جہاں ریاست کی پالیسی نہ ہو وہاں سمجھو عوام سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہوں گے۔ وہاں کے عوام تیل کے ٹینکر گرنے کو خدائی تحفہ قرار دیں گے، اور اگر ایسا عید سے پہلے ہوتو ہر شخص اسے خاص ہی گردانے گا، اگر اسی عوام کو شعور دیا جاتا، تعلیم دی جائے اور ان کے حالات کو بہتربنایا جائے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عوام کے دن پھیرے جا سکتے ہیں لیکن کیا کیا جائے حکمران توخود اپنے آپ کو دو سال سے پاناما سے بچا رہے ہیں، اسی لیے ان حکمرانوں کی اصل مسائل پر توجہ ہی نہیں ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ڈگری ملتی ہے، تعلیم نہیں ملتی، جن اسپتالوں میں صحت دی جانی چاہیے وہاںموت کے انجیکشن لگا کر مریض کو سکون دے دیا جاتا ہے۔ اور حکومت کا یہ کام ہے کہ وہ ایسے دکھاوے کے کام کرتی ہے جو لوگوں کو صرف نظر آئیں، اس عمل کو جدید دنیا میں ''کاسمیٹکس ترقی'' کا نام دیا جا تا ہے۔ جو بس نظر آنا چاہیے اور حکومت کسی ایسی جگہ انویسٹمنٹ بھی کرنے کو تیار نہیں جہاں انھیں کوئی سیاسی فائدہ نظر نہ آئے۔
میرے خیال میں اگر جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کا مطالبہ مان لیا جائے تو وہاں کے عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے، غربت ختم ہو سکتی ہے، جہالت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکمران ہر بات میں جھوٹ بولنے کے ماہر ہیں لیکن میں آج بھی کہتا ہوں کہ ملک میں جتنے صوبے ہوں گے، اتنا ہی ٹیلنٹ نکھر کر سامنے آئے گا، کرپشن کم ہوگی اورکسی صوبے کی اُجارہ داری کا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوسکے گا۔