دوسرا بڑا سانحہ

اس قسم کے حادثات میں بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے بھی بہت جانی نقصان ہوتا ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

پچھلے ہفتے احمد پور شرقیہ میں ایک آئل ٹینکر الٹنے سے پٹرول اتنی بڑی مقدار میں بہنے لگا کہ علاقے کے غریب طبقات بوتلیں اور برتن لے کر آگئے اور پٹرول بھرنے لگ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ٹینکر کے اندر بھی گھس گئے اور برتنوں میں پٹرول بھرنے لگے کہ اچانک پٹرول میں آگ لگ گئی اور ایک اندازے بلکہ مستند اعداد و شمار کے مطابق 178 سے زیادہ افراد اس آگ میں جل کر اس طرح کوئلہ بن گئے کہ ان کی لاشیں شناخت کے قابل نہیں رہیں اور لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوگئے جنھیں ایمبولینسوں کے ذریعے قریبی شہروں کے اسپتالوں میں پہنچایا گیا زیادہ زخمیوں کو سی 130 کے ذریعے بڑے شہروں کے ان اسپتالوں میں پہنچایا گیا جہاں علاج کی سہولتیں میسر تھیں۔ کراچی کی بلدیہ گارمنٹ فیکٹری کے بعد آگ سے جاں بحق ہونے والوں کا یہ دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ روایت کے مطابق حکام بالا وزرا محترم نے اس دلخراش سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔ ہمارے وزیر اعظم جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ علاج کے سلسلے میں لندن میں مقیم ہیں اپنا دورہ روک کر احمد پور شرقیہ پہنچے اور جاں بحق ہونے والے بدقسمت لوگوں کے ورثا سے دلی رنج کا اظہار کیا اور جائے حادثہ کا معائنہ بھی فرمایا۔ زخمیوں میں سے کچھ افراد دم توڑ گئے اور کہا جا رہا ہے کہ کئی کی حالت تشویش ناک ہے۔

اس سانحے کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ عوام نے احتیاط کا دامن چھوڑ کر بہتے ہوئے پٹرول کو برتنوں میں بھرنے کی غیر عاقلانہ کوشش کی جس کے نتیجے میں انھیں اتنے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہجوم کو بعض لوگوں نے اس رسکی کام سے روکنے کی کوشش کی لیکن ہم جس سرمایہ دارانہ نظام میں زندہ ہیں اس میں غریب لوگوں کو دیہاڑی کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر میں مزدوری کا کام کرنے والے اکثر عمارتوں سے گر کر ہلاک ہوجاتے ہیں جن کی دو تین سطریں خبریں اخباروں میں شایع ہوتی رہتی ہیں یہ کوئی خاص یا تشویش ناک بات اس لیے نہیں کہ غریب طبقات کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر ایک بس کو بچاتے ہوئے الٹ گیا بلاشبہ ڈرائیور نے بس کے مسافروں کی جان بچانے کی ایک عاقلانہ کوشش کی اور اس کوشش میں آئل ٹینکر الٹ گیا آئل ٹینکر الٹنے سے ہزاروں لیٹر پٹرول بہنے لگا۔ اس بہتے ہوئے پٹرول کو برتنوں میں جمع کرنے کے لیے قریبی آبادیوں سے لوگ آگئے اور بہتے ہوئے پٹرول کو برتنوں بوتلوں میں بھرنا شروع کردیا پٹرول لمحوں میں آگ پکڑ لیتا ہے اور ہزاروں لیٹر پٹرول جب سڑکوں پر صورت سیلاب بہنے لگا تو آگ لگنے کا یقینی خطرہ موجود ہوتاہے اس واضح حقیقت کے پیش نظر ہجوم کا پٹرول برتنوں بوتلوں میں بھرنے کی کوشش کرنا ایک سنگین غلطی ہی کہلا سکتی ہے۔


اس قسم کے حادثات میں بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے بھی بہت جانی نقصان ہوتا ہے ۔ احمد پور شرقیہ ایک بڑی جگہ ہے اصولاً اس شہر میں تمام ضرورتوں سے لیس ایک بڑا اسپتال ہونا چاہیے تاکہ متاثرین کو بروقت طبی امداد فراہم کرکے ان کی جان بچائی جاسکے لیکن ترقی کا پروپیگنڈا کرنے والی اشرافیہ طبی سہولتوں جیسی بنیادی ضرورتیں عوام کو فراہم کرنے میں ناکام ہے جس کی وجہ دور دراز شہروں میں متاثرین کو لے جانا پڑتا ہے اور اس شفٹنگ میں بہت ساری جانیں ضایع ہوجاتی ہیں۔ صحت اور تعلیم دو ایسی بنیادی ضرورتیں ہیں جنھیں حکومتوں کی اولین ترجیح ہونا چاہیے لیکن ایسا اس لیے نہیں ہو رہا ہے کہ لوٹ مار اشرافیہ کی اولین ترجیح بن گئی ہے۔

جن غریب لوگوں نے پٹرول کو برتنوں میں جمع کرنے کی کوشش کی اس کی مالیت کتنی تھی ظاہر ہے دو چار لیٹر پٹرول ہی غریبوں کے برتنوں میں آسکتا ہے جس کی مالیت سو دو سو روپوں سے زیادہ نہیں ہوسکتی ان سو دو سو روپوں کی مالیت کے پٹرول کو جمع کرنے پر ان غریبوں کو اکسانے والی طاقت کون سی تھی؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ہے سرمایہ دارانہ نظام جو غریب طبقات کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ چھوٹے سے فائدے کے لیے اپنی جانوں کو خطرات سے دوچار کر دیں بلند و بالا عمارتوں پر پرخطر کام کرنے والے محنت کشوں کی مجبوری یہی ہے کہ انھیں دو وقت کی روٹی کے لیے جان جوکھم والے کام کرنا پڑتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سڑکوں سے پٹرول جمع کرنے والوں کو اس خطرناک کام سے بعض لوگوں نے روکنے کی کوشش کی لیکن ہجوم نے اس تنبیہ کی پرواہ نہیں کی ایک عام آدمی بھی بہتے ہوئے پٹرول کو جمع کرنے کے خطرات کا اندازہ کرسکتا ہے لیکن اس کی معاشی مجبوریاں اسے ایسے خطرناک کام کرا دیتی ہیں۔ یعنی اصل مجرم وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو غریب طبقات کو تھوڑے سے فائدے کی خاطر ایسے خطرناک اور رسکی کاموں پر مجبور کردیتا ہے۔

یہ اتنا بڑا سانحہ تھا کہ اس پر قومی پیمانے پر سوگ منایا جانا چاہیے تھا لیکن حکومت نے اس سانحے پر اس ردعمل کا اظہار نہیں کیا جس کی ضرورت تھی بلکہ ٹی وی چینلوں پر حسب روایت ناچ گانوں کے پروگرام پیش کیے جاتے رہے جب کہ احمد پور شرقیہ میں سوختہ لاشیں اپنی شناخت سے محروم جل سڑ کر کوئلہ بنی پڑی تھیں۔ بلاشبہ عیدالفطر کا موقع تھا اور چینلوں پر اس کی مناسبت سے پروگرام چلائے جا رہے تھے لیکن کیا یہ ہمارا قومی فریضہ اور حکومت کی قومی ذمے داری نہیں تھی کہ کم ازکم ایک دن ''تعزیتی'' پروگرام روک دیے جاتے۔
Load Next Story