محبت کے لیے
محبت وہ حسین جذبہ ہے جو انسان میں نرمی پیدا کرتا ہے وسعت دیتا ہے
SANAA:
یہ واقعہ مجھے ثمینہ پیرزادہ نے سنایا تھا، ان دنوں وہ کراچی کے ایک اپارٹمنٹ میں مقیم تھیں۔ اس انٹرویو کے دوران بہت سی باتوں کے درمیان یہ واقعہ مجھے یاد رہ گیا ، جو اداکار شان نے ثمینہ پیرزادہ سے شیئرکیا تھا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ کسی فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں شان اپنے فلمی یونٹ کے ہمراہ غالباً ترکی گئے وہاں شوٹنگ کے علاوہ کسی تفریحی مقام جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ ان کو اس مقام پر لے جانے والا ٹیکسی ڈرائیور ان کا انتظار کرتا رہا اور وہ لوگ اس مقام تک گئے، واپسی پر اس مقام سے یاد یا محبت کے حوالے سے اداکار شان نے ایک پتھر اٹھا لیا۔
یہ عمل ٹیکسی ڈرائیور کو کہیں سے نظر آرہا ہوگا نجانے کہاں سے وہ دوڑتا ہوا آیا اور شان سے وہ پتھر اسی جگہ رکھنے کو کہا، شان نے اس سے کہا کہ کیا ہوا یہ محض ایک پتھر ہی تو ہے کوئی قیمتی شے تو نہیں اور وہ تو اسے محض سووینئر کے طور پر ایک یاد کے حوالے سے کہ کبھی وہ اس مقام آئے تھے رکھ رہے ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور کا جواب بڑا خوبصورت تھا، اس کا کہنا تھا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک پتھر ہی ہے لیکن یہاں اکثر سیاح گھومنے پھرنے آتے رہتے ہیں اگر اسی طرح سب لوگ پتھر اٹھا کر لے جاتے رہے تو اس مقام کی خوبصورتی پر اثر پڑے گا اور انھیں اچھا نہیں لگے گا کہ ان کے ملک کے اس مقام کی خوبصورتی متاثر ہو۔ اداکار شان کو اس شخص کی یہ حب الوطنی بہت اچھی لگی انھوں نے وہ پتھر اسی جگہ رکھ دیا لیکن اپنے وطن سے محبت کا یہ حال انھوں نے نجانے کتنے لوگوں سے کہا ہوگا۔
ابھی کچھ دن ہی ہوئے کسی ٹی وی کے پروگرام میں سنا کہ کوئی صاحب سری لنکا گئے، وہاں کسی کام کے سلسلے میں ٹیکسی کے ذریعے جانا ہوا ،غالباً صبح کا وقت تھا واپس لوٹے تو دیکھا کہ ٹیکسی ڈرائیور کوڑا چن رہا تھا، صاحب کو تعجب ہوا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ پوچھا کہ میاں تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ ٹیکسی ڈرائیور نے جواب دیا کہ پہلی آنکھ جو اس کوڑے کو دیکھے گی اس کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کوڑے کو اٹھائے تو پہلی آنکھ میری ہے میں نے اس کوڑے کو دیکھا لہٰذا یہ میرا ہی فرض ہے کہ میں اس کوڑے کو اٹھاؤں۔
دنیا بھر میں آپ گھوم پھر لیں آپ کو خاص کر ان ممالک کی ترقی کا راز سمجھ میں آجائے گا جنھوں نے 1947 کے بعد آزادی حاصل کی، ہم ترقی کا راز کس کو سمجھتے ہیں ایک اعلیٰ منصب ، ایک اعلیٰ نوکری، عالی شان گھر بہت بڑا کاروبار، ڈھیروں نئے ماڈلز کی گاڑیاں، ایک حکم کی بجا آوری کے لیے ڈھیروں افسران ہاتھ باندھے کھڑے ہوں۔ ہم نے حقیقتاً اس طرح بہت ترقی کی ہے۔ لاکھوں کروڑوں خاندان جو پہلے فرش پر رہتے تھے اب ایئرکنڈیشنڈ ٹھنڈے کمروں میں اپنا موسم گرما گزارتے ہیں جنھیں اپنی اولاد کے لیے کسی وقت دوائی کے پیسے نہ نصیب تھے آج وہ ہوائی جہازوں کے مالک ہیں بڑی بڑی ملیں اور پروجیکٹ چل رہے ہیں، ترقی کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن ترقی کرنے کے بعد اس کا حق ادا کرنا فرض ہے ہمیں اپنی عسرت میں گزاری زندگی سے کوفت محسوس ہوتی ہے لوگوں سے چھپاتے ہیں کہ انھیں ہمارا ماضی نہ نظر آجائے کہ ہم تو جدی پشتی امیر ہیں ۔ یہ زمین سے آسمان تک کا سفر جسے ترقی کا سفر کہا جاتا ہے محض محنت سے ہی حاصل کیا جاتا ہے یا اس میں اللہ رب العزت کی رحمت کا کوئی حصہ نہیں لیکن ہم اپنی محنت کا ذکر زیادہ کرتے ہیں کیونکہ ان کی رحمت کا ذکر کرنے سے ان کی عائد کردہ ذمے داریاں ہمارے دل میں چٹکیاں لیتی ہیں۔ اپنے ہی ہم وطن، اپنی زمین، اپنی مٹی کا حق ادا کرتے شرم محسوس کرتے ہیں اور پیچھا چھڑو کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
بات ملک سے محبت سے شروع ہوئی تھی کہ آج اس ملک نے نجانے کتنے بے ناموں کو بڑے بڑے ناموں اور عہدوں سے نواز دیا کیا وہ واقعی اس کے حق دار تھے، یہ ملک ہماری ماں ہے اور ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اس کی محبت کا حق جس قدر ادا کریں گے جنت میں اتنا ہی حصہ اپنے نام کرتے جائیں گے، خدارا! اس حصے سے مراد اسلام آباد یا کسی اعلیٰ مقام میں پلاٹ لینے سے ہرگز نہیں ہے۔
محبت وہ حسین جذبہ ہے جو انسان میں نرمی پیدا کرتا ہے وسعت دیتا ہے، جب دوسروں کے دکھ سن کر آنکھ بھر آئے تو محبت ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، لیکن یہ ملک کے اعلیٰ سرکردہ حضرات کی اپنے ملک سے محبت کی کیسی مثال ہے کہ نہ آنکھ نم ہوئی نہ چہرے پر دکھ اور شرمندگی کے آثار نظر آئے بلکہ غرور و طاقت کا نشہ چھلکتا دکھائی دیا۔ خدایا یہ کیسا اندھیر ہے ایک جیتا جاگتا انسان جس کے جسم میں اس رنگ کا خون دوڑ رہا تھا جس رنگ کا دنیا کے اعلیٰ ترین (بظاہر) شخص کے جسم میں دوڑ رہا ہے، اس کا بھی سانس چل رہا تھا، وہ کچھ لمحے پہلے اپنی سرکاری نوکری کے فرائض بھی انجام دے رہا تھا سڑک پر ٹریفک اس قدر تھا کہ جتنا شاید کراچی کے گلی کوچوں میں ہوتا ہے، نہ لوگوں کا ہجوم، نہ گاڑیوں کی یلغار کا شور نہ ہی کہیں سے بلوے کا احتمال، پھر ایسا بھی کیا کہ سیدھے چلتے گئے اور ایک اللہ کے بندے کو اس طرح اڑا ڈالا کہ جیسے وہ پلاسٹک کا بنا گڈا ہوا۔ فضا میں اس کا وجود ایسے اچھلا کہ جیسے وہ ایک کھلونا ہو۔ شاید وہ کھلونا ہی تو تھا۔ ہم سب کھلونے ہی تو ہیں جدھر چاہا موڑ دیا، جب دل چاہا کان پکڑ کر مروڑ دیا دل چاہا تو چابی گھما ڈالی ورنہ زنگ آلود کسی کونے میں پڑے رہے پھر پانچ برسوں بعد زنگ کو صاف کرنے کا خیال آہی جاتا ہے۔
ترکی کے اس کیب ڈرائیور کی اپنے وطن کے ایک پتھر کی حفاظت، سری لنکا کے اس ٹیکسی ڈرائیور کی اپنے ملک کی کسی سڑک سے کوڑا چننے کی ذمے داری، ہم سب کو سیکھنا چاہیے محبت کرنے کے لیے سیکھنے کی ضرورت تو پڑے گی چاہے وہ عوام میں سے ہو یا عوام کے نمائندے۔ محبت کے لوازمات تو ضروری ہیں ناں اور اگر محبت کرنا نہیں سیکھ سکتے تو بحیرہ عرب کا پانی ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ ڈروکیا تم۔۔۔۔کیا ہم۔
یہ واقعہ مجھے ثمینہ پیرزادہ نے سنایا تھا، ان دنوں وہ کراچی کے ایک اپارٹمنٹ میں مقیم تھیں۔ اس انٹرویو کے دوران بہت سی باتوں کے درمیان یہ واقعہ مجھے یاد رہ گیا ، جو اداکار شان نے ثمینہ پیرزادہ سے شیئرکیا تھا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ کسی فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں شان اپنے فلمی یونٹ کے ہمراہ غالباً ترکی گئے وہاں شوٹنگ کے علاوہ کسی تفریحی مقام جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ ان کو اس مقام پر لے جانے والا ٹیکسی ڈرائیور ان کا انتظار کرتا رہا اور وہ لوگ اس مقام تک گئے، واپسی پر اس مقام سے یاد یا محبت کے حوالے سے اداکار شان نے ایک پتھر اٹھا لیا۔
یہ عمل ٹیکسی ڈرائیور کو کہیں سے نظر آرہا ہوگا نجانے کہاں سے وہ دوڑتا ہوا آیا اور شان سے وہ پتھر اسی جگہ رکھنے کو کہا، شان نے اس سے کہا کہ کیا ہوا یہ محض ایک پتھر ہی تو ہے کوئی قیمتی شے تو نہیں اور وہ تو اسے محض سووینئر کے طور پر ایک یاد کے حوالے سے کہ کبھی وہ اس مقام آئے تھے رکھ رہے ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور کا جواب بڑا خوبصورت تھا، اس کا کہنا تھا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک پتھر ہی ہے لیکن یہاں اکثر سیاح گھومنے پھرنے آتے رہتے ہیں اگر اسی طرح سب لوگ پتھر اٹھا کر لے جاتے رہے تو اس مقام کی خوبصورتی پر اثر پڑے گا اور انھیں اچھا نہیں لگے گا کہ ان کے ملک کے اس مقام کی خوبصورتی متاثر ہو۔ اداکار شان کو اس شخص کی یہ حب الوطنی بہت اچھی لگی انھوں نے وہ پتھر اسی جگہ رکھ دیا لیکن اپنے وطن سے محبت کا یہ حال انھوں نے نجانے کتنے لوگوں سے کہا ہوگا۔
ابھی کچھ دن ہی ہوئے کسی ٹی وی کے پروگرام میں سنا کہ کوئی صاحب سری لنکا گئے، وہاں کسی کام کے سلسلے میں ٹیکسی کے ذریعے جانا ہوا ،غالباً صبح کا وقت تھا واپس لوٹے تو دیکھا کہ ٹیکسی ڈرائیور کوڑا چن رہا تھا، صاحب کو تعجب ہوا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ پوچھا کہ میاں تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ ٹیکسی ڈرائیور نے جواب دیا کہ پہلی آنکھ جو اس کوڑے کو دیکھے گی اس کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کوڑے کو اٹھائے تو پہلی آنکھ میری ہے میں نے اس کوڑے کو دیکھا لہٰذا یہ میرا ہی فرض ہے کہ میں اس کوڑے کو اٹھاؤں۔
دنیا بھر میں آپ گھوم پھر لیں آپ کو خاص کر ان ممالک کی ترقی کا راز سمجھ میں آجائے گا جنھوں نے 1947 کے بعد آزادی حاصل کی، ہم ترقی کا راز کس کو سمجھتے ہیں ایک اعلیٰ منصب ، ایک اعلیٰ نوکری، عالی شان گھر بہت بڑا کاروبار، ڈھیروں نئے ماڈلز کی گاڑیاں، ایک حکم کی بجا آوری کے لیے ڈھیروں افسران ہاتھ باندھے کھڑے ہوں۔ ہم نے حقیقتاً اس طرح بہت ترقی کی ہے۔ لاکھوں کروڑوں خاندان جو پہلے فرش پر رہتے تھے اب ایئرکنڈیشنڈ ٹھنڈے کمروں میں اپنا موسم گرما گزارتے ہیں جنھیں اپنی اولاد کے لیے کسی وقت دوائی کے پیسے نہ نصیب تھے آج وہ ہوائی جہازوں کے مالک ہیں بڑی بڑی ملیں اور پروجیکٹ چل رہے ہیں، ترقی کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن ترقی کرنے کے بعد اس کا حق ادا کرنا فرض ہے ہمیں اپنی عسرت میں گزاری زندگی سے کوفت محسوس ہوتی ہے لوگوں سے چھپاتے ہیں کہ انھیں ہمارا ماضی نہ نظر آجائے کہ ہم تو جدی پشتی امیر ہیں ۔ یہ زمین سے آسمان تک کا سفر جسے ترقی کا سفر کہا جاتا ہے محض محنت سے ہی حاصل کیا جاتا ہے یا اس میں اللہ رب العزت کی رحمت کا کوئی حصہ نہیں لیکن ہم اپنی محنت کا ذکر زیادہ کرتے ہیں کیونکہ ان کی رحمت کا ذکر کرنے سے ان کی عائد کردہ ذمے داریاں ہمارے دل میں چٹکیاں لیتی ہیں۔ اپنے ہی ہم وطن، اپنی زمین، اپنی مٹی کا حق ادا کرتے شرم محسوس کرتے ہیں اور پیچھا چھڑو کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
بات ملک سے محبت سے شروع ہوئی تھی کہ آج اس ملک نے نجانے کتنے بے ناموں کو بڑے بڑے ناموں اور عہدوں سے نواز دیا کیا وہ واقعی اس کے حق دار تھے، یہ ملک ہماری ماں ہے اور ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اس کی محبت کا حق جس قدر ادا کریں گے جنت میں اتنا ہی حصہ اپنے نام کرتے جائیں گے، خدارا! اس حصے سے مراد اسلام آباد یا کسی اعلیٰ مقام میں پلاٹ لینے سے ہرگز نہیں ہے۔
محبت وہ حسین جذبہ ہے جو انسان میں نرمی پیدا کرتا ہے وسعت دیتا ہے، جب دوسروں کے دکھ سن کر آنکھ بھر آئے تو محبت ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، لیکن یہ ملک کے اعلیٰ سرکردہ حضرات کی اپنے ملک سے محبت کی کیسی مثال ہے کہ نہ آنکھ نم ہوئی نہ چہرے پر دکھ اور شرمندگی کے آثار نظر آئے بلکہ غرور و طاقت کا نشہ چھلکتا دکھائی دیا۔ خدایا یہ کیسا اندھیر ہے ایک جیتا جاگتا انسان جس کے جسم میں اس رنگ کا خون دوڑ رہا تھا جس رنگ کا دنیا کے اعلیٰ ترین (بظاہر) شخص کے جسم میں دوڑ رہا ہے، اس کا بھی سانس چل رہا تھا، وہ کچھ لمحے پہلے اپنی سرکاری نوکری کے فرائض بھی انجام دے رہا تھا سڑک پر ٹریفک اس قدر تھا کہ جتنا شاید کراچی کے گلی کوچوں میں ہوتا ہے، نہ لوگوں کا ہجوم، نہ گاڑیوں کی یلغار کا شور نہ ہی کہیں سے بلوے کا احتمال، پھر ایسا بھی کیا کہ سیدھے چلتے گئے اور ایک اللہ کے بندے کو اس طرح اڑا ڈالا کہ جیسے وہ پلاسٹک کا بنا گڈا ہوا۔ فضا میں اس کا وجود ایسے اچھلا کہ جیسے وہ ایک کھلونا ہو۔ شاید وہ کھلونا ہی تو تھا۔ ہم سب کھلونے ہی تو ہیں جدھر چاہا موڑ دیا، جب دل چاہا کان پکڑ کر مروڑ دیا دل چاہا تو چابی گھما ڈالی ورنہ زنگ آلود کسی کونے میں پڑے رہے پھر پانچ برسوں بعد زنگ کو صاف کرنے کا خیال آہی جاتا ہے۔
ترکی کے اس کیب ڈرائیور کی اپنے وطن کے ایک پتھر کی حفاظت، سری لنکا کے اس ٹیکسی ڈرائیور کی اپنے ملک کی کسی سڑک سے کوڑا چننے کی ذمے داری، ہم سب کو سیکھنا چاہیے محبت کرنے کے لیے سیکھنے کی ضرورت تو پڑے گی چاہے وہ عوام میں سے ہو یا عوام کے نمائندے۔ محبت کے لوازمات تو ضروری ہیں ناں اور اگر محبت کرنا نہیں سیکھ سکتے تو بحیرہ عرب کا پانی ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ ڈروکیا تم۔۔۔۔کیا ہم۔