رضا ربانی کے پاس کسی سازش کا ثبوت ہے تو سامنے لائیں فاروق نائیک

نگراں سیٹ اپ لمبےعرصے تک نہیں چلے گا، صدر الیکشن کا اعلان8سے 14مارچ کے درمیان کردینگے ، خود انتخابی مہم نہیں چلائیں گے

ناگزیر حالات میں صدر ایمرجنسی نافذ کرسکتے ہیں، قومی اسمبلی ایک سال کی توسیع دے سکتی ہے، ایکسپریس کو خصوصی انٹرویو۔ فوٹو: فائل

حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے عام انتخابات کا بروقت انعقاد ہونے یا نہ ہونے پر متضاد بیانات سے تشویشناک صورتحال پیدا ہوتی نظر آتی ہے۔

سینیٹر رضا ربانی28جنوری کو کہہ چکے ہیں کہ عام انتخابات 2یا 3سال تک موخر کرانے کیلیے ''کچھ عناصر'' سازش کرکے غیرآئینی عبوری سیٹ اپ قائم کرنا چاہتے ہیں تاہم وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے ان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے ابہام میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ خود وزیراعظم راجا پرویز اشرف بھی30 جنوری کو ایسی وضاحت کرچکے ہیں۔ گذشتہ روز ایکسپریس نیوزکے ڈائریکٹرکرنٹ افیئرزمظہر عباس سے خصوصی انٹرویو میں فاروق نائیک اس تاثر کو مستردکردیا کہ عام انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ صدر آصف زرداری الیکشن کی تاریخ کا اعلان 8سے 14مارچ کے درمیان کردیں گے ۔ اگر رضا ربانی کے پاس کسی سازش کا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں تاکہ تمام جمہوری قوتیں مل کر ایسے عناصر کی مزاحمت کرسکیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ملک میں کوئی نگراں سیٹ اپ لمبے عرصے تک چلے گا یا حکومت اور عدلیہ میں کوئی تصادم ہے۔ اسی طرح چیئرمین نیب کے مستقبل کا معاملہ بھی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا تاہم اس کے ساتھ ہی فاروق نائیک نے ان وجوہات کا بھی حوالہ دیا جن کے تحت انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔




انھوں نے بتایا کہ ملک کو اگر کوئی بیرونی خطرہ لاحق ہو یا پرتشدد واقعات تشویشناک حد تک ہورہے ہوں تو صدر مملکت آرٹیکل 232کے تحت ملک میں ایمرجنسی نافذ کرسکتے ہیں البتہ اس اقدام کو قومی اسمبلی کے سامنے10روز کے اندر رکھنا پڑے گا اور صرف ایوان قانون سازی کرکے ایمرجنسی کی میعاد ایک سال بڑھانے کا اختیار رکھتا ہے۔ لیکن فی الحال مجھے ایسے کوئی حالات نظر نہیں آرہے۔ انھوں نے بتایا کہ صدر مملکت الیکشن مہم میں حصہ نہیں لیں گے اور وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے سے پہلے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بارے میں وزرائے اعلیٰ کی رضامندی بھی حاصل کریں گے۔

وزیر قانون نے خبردار کیا کہ حکومت نے اگر طاہرالقادری کے دو مطالبات یعنی الیکشن کمیشن کی تحلیل اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے پہلے30یوم میں امیدواروں کی اہلیت کی تصدیق من و عن تسلیم کرلیے تو یہ الیکشن میں تاخیر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک ہفتے کے وقت کی 30یوم تک توسیع بڑھ کر 60ایام تک جاسکتی ہے۔ میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ ان دونوں مطالبات کو بالکل نہ چھیڑے کیونکہ ان کے قابل عمل بننے کیلئے آئینی ترمیم سمیت بڑی تبدیلیاں کرنا پڑسکتی ہیں۔

اسی طرح الیکشن کمیشن کی تحلیل بھی مناسب نہیں بلکہ بہتر ہوگا کہ اس مسئلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا جائے۔ انھوں نے الیکشن سے پہلے گورنروں کی تبدیلی کو خارج ازامکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ گورنر کا کوئی سیاسی کردار ہوتا ہے نہ اس کے پاس اختیارات ہوتے ہیں۔ ایک سوال پر فاروق نائیک نے کہا کہ حکومت کو3ماہ گزرنے کے بعد بھی سوئس مقدمات کھولنے سے متعلق لکھے گئے خط کا جواب موصول نہیں ہوا۔

Recommended Stories

Load Next Story