جپھی پہ جپھی

وزیر خارجہ کا عہدہ ہمارے وزیر اعظم کے پاس ہے مگر ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اس وزارت کا حق ادا کرسکیں

usmandamohi@yahoo.com

ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے یہ گٹھ جوڑ اس لیے ممکن ہوسکا کہ جتنے مودی مذہبی انتہا پسند اور جنونی ہیں اتنے ہی ٹرمپ بھی ہیں۔ ٹرمپ بھی مسلمانوں کے دشمن ہیں البتہ ان پر ابھی تک کسی مسلمان کا قتل ثابت نہیں ہوسکا ہے جب کہ مودی نہ صرف مسلمانوں کے پیدائشی دشمن ہیں بلکہ ہزاروں مسلمانوں کے کھلے قاتل ہیں۔

مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی گائے کی آڑ میں اپنے آر ایس ایس کے غنڈوں کے ذریعے مسلمانوں پر مظالم جاری کر رکھے ہیں جب کہ ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھال کر سب سے پہلے اسلامک ملی ٹینٹس کی آڑ میں مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے اور ان کے حامی امریکی غنڈے وہاں کے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کے اعزاز میں افطار اور عید ملن پارٹیوں کی سرکاری روایت توڑ کر اپنی مسلم دشمنی کا اعادہ کردیا ہے۔ بھارت تو پہلے ہی سیکولر ازم کی آڑ میں ایک کٹر ہندو ملک تھا۔ اب امریکا بھی ایک کٹر عیسائی ملک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ٹرمپ اور مودی یکساں رجحان رکھنے کی وجہ سے ہی واشنگٹن میں ایک دوسرے سے خوب جپھی مار مار کر گلے ملے ہیں۔

ٹرمپ نے مودی کو خوش کرنے کے لیے کشمیریوں کی تحریک آزادی کے ایک ہیرو سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا ہے اور انھیں مزید خوش کرنے کے لیے درجنوں جدید جنگی جہاز اور مہلک اسلحہ فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو تنبیہ بھی کردی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے سے گریز کرے۔ مودی اپنے دورے کی کامیابی سے بہت خوش ہیں جب کہ بھارتی عوام سخت ناراض ہیں کیونکہ انھیں اسلحے کی نہیں روٹی کی ضرورت ہے۔

مودی نے اپنے اسی دورے میں بھارتیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے پاکستان پر کامیاب سرجیکل اسٹرائیک کی اور مزید کرنے کی بہ بانگ دہل دھمکی دی مگر اقوام متحدہ سمیت کسی ملک نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہماری سرجیکل اسٹرائیک کی کارروائی اور آیندہ کے لیے دھمکی کا ردعمل تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ پوری دنیا ہم پر تنقید کرتی اور یو این ہمارے سر کے بال پکڑ کر نوچ لیتی۔ ان کے مطابق اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ پاکستان پوری دنیا میں دہشت گردی کے معاملے میں اتنا بدنام ہوگیا ہے کہ اب دنیا یہ سمجھنے لگی ہے کہ پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کرنا بھارت کا پورا حق بنتا ہے۔

اس سے قبل 15 اگست کو انھوں نے اپنے یوم آزادی پر لال قلعے سے للکارتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگائے اور بلوچستان میں مداخلت کرنے کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا۔ اس سے بھی قبل جب وہ ڈھاکہ گئے تھے تو وہاں حسینہ واجد کو بنگلہ دیش بننے کی مبارکباد پیش کی تھی اور پاکستان کو توڑنے کو بھارت کا جائز اقدام قرار دیا تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہماری حکومت نے مودی کی اس ہرزہ سرائی اور عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا تھا جب کہ یہ معاملہ اتنا سنگین اور خوفناک تھا کہ اس کی سخت مذمت کی جانی چاہیے تھی۔

مودی کے زہریلے بیان کو دنیا کے سامنے رکھا جانا چاہیے تھا تاکہ مودی کی بدزبانی کو لگام دی جاتی اور ان کے خطرناک حوصلوں کو پست کیا جاتا۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ مہذب دنیا کے لیے ان کا یہ چنگیزی اور ہٹلرانہ انداز بالکل انوکھا تھا۔ اس سے مودی کی جارحانہ دہشت گردانہ اور جاہلانہ شخصیت کا برملا اظہار ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان نے مودی کے ان دہشت گردانہ بیانات کو اقوام متحدہ میں نہ اٹھا کر یقینا بہت بڑی غلطی کی تھی کم سے کم سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی کو ضرور اقوام متحدہ میں اٹھایا جانا چاہیے تھا اور اس پر ایک مذمتی قرارداد پاس کرائی جانی چاہیے تھی۔


ہمارے دفتر خارجہ سے پہلے بھی بہت سی غلطیاں سرزد ہوچکی ہیں ان میں یہ ایک بڑی غلطی تھی۔ یہ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری فارن منسٹری بھارت کی طرح ہرگز چاک و چوبند نہیں ہے۔ اظہر مسعود کو بھارت کی جانب سے دہشت گرد قرار دلوانے کے لیے اقوام متحدہ میں متعین بھارتی وفد نے مثالی چابک دستی دکھائی تھی جب کہ ہمارے لوگ بالکل غافل رہے۔ چنانچہ بھارتی قرارداد کو منظوری سے روکنے کے لیے چین کے ویٹو کا سہارا لینا پڑا تھا۔ ابھی بھی یہ مسئلہ سنگین بنا ہوا ہے اور ہمیں آگے بھی چین کی مدد کی ضرورت پڑتی رہے گی کاش کہ ہماری فارن منسٹری کے لوگ ہوش و حواس اور فرض شناسی سے کام کریں تو ایسی صورتحال پیش نہ آسکے۔ وزارت خارجہ کی نگرانی کے لیے ایک فل ٹائم وزیر خارجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

وزیر خارجہ کا عہدہ ہمارے وزیر اعظم کے پاس ہے مگر ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اس وزارت کا حق ادا کرسکیں۔ اس طرح اس وقت ہماری وزارت خارجہ وزیر خارجہ کے بغیر ہی کام کر رہی ہے۔ جہاں تک مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا تعلق ہے ان کے بارے میں حزب اختلاف کے کئی رہنما کہہ چکے ہیں کہ وہ اب بہت بوڑھے ہوچکے ہیں،تاہم میرے نزدیک وزارت خارجہ نے تین اشخاص کا صحیح انتخاب کیا ہے ایک منجھی ہوئی سفارت کار ملیحہ لودھی کو اقوام متحدہ میں متعین کیا گیا ہے وہ وہاں اپنا فرض انتہائی ہوشیاری اور دیانت داری سے نبھا رہی ہیں۔ اعزاز چوہدری کو امریکا میں سفیر متعین کیا گیا ہے وہ وہاں بڑی مہارت سے بھارتی پروپیگنڈے کا ازالہ کر رہے ہیں۔

بھارت میں پاکستان کے سفیر عبدالباسط ایک کامیاب سفیر ثابت ہوئے ہیں وہ انتہائی حوصلہ مندی اور جرأت کے ساتھ پاکستانی موقف کو اجاگر کر رہے ہیں ساتھ ہی کشمیریوں کی آزادی کی حمایت اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے لیے بڑے موثر بیان دے رہے ہیں۔ بھارتی حکومت ان کے دبنگ بیانات سے بہت گھبرائی ہوئی ہے۔ وہ سابقہ تمام سفیروں سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئے ہیں مگر سننے میں آرہا ہے کہ انھیں جلد ہی کسی دوسرے ملک میں سفیر بناکر بھیجا جانے والا ہے۔

جہاں تک مودی کے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کے بیان کا معاملہ ہے اس سلسلے میں کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت سے غلطی ضرور ہوئی ہے مگر اس معاملے کو طول اس لیے نہیں دیا گیا کیونکہ مودی نے سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور جہاں تک آیندہ سرجیکل اسٹرائیک کا سوال ہے تو مودی میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ ایسا کبھی کرسکیں کیونکہ وہ پاکستانی فوج کی صلاحیتوں اور کارکردگی سے خوب واقف ہیں۔ دراصل انھوں نے سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ اپنی جنتا کو خوش کرنے اور فوج کی ہمت بڑھانے کے لیے کیا تھا لیکن جس فوج کو پیٹ بھر کے کھانا بھی میسر نہ ہو اس سے بھلا میدان جنگ میں کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔

ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اگر ہمارے پاس ایٹم بم نہ ہوتا تو وہ ہم پر کئی مرتبہ سرجیکل اسٹرائیک کرچکے ہوتے چنانچہ مودی کی بھڑکی سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے والا البتہ وہ افغانستان کے راستے ہمارے ہاں دہشت گردی کرانے میں ضرور کامیاب ہیں۔ تاہم اس دہشت گردی کو اب بند ہوجانا چاہیے۔

ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے درست ہی بیان دیا ہے کہ جب دنیا افغان مسئلے کے حل کے سلسلے میں ہماری خدمات اور قربانیوں کو تسلیم نہیں کرتی تو اب اس مسئلے کے اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرکے اسے حل کرنا چاہیے۔ پاکستان اب طالبان کو مذاکرات کی میز پر نہیں لاسکتا اس لیے کہ اس عمل سے پاکستان پر شک و شبہ کیا جاتا ہے اور اسے طالبان کا ہمدرد سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے چنانچہ اب یہ سلسلہ نہیں چل سکتا۔ اب افغانستان امریکا اور ٹرمپ کے سچے دوست مودی کو مل کر اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے لیکن بھارت جس نے اپنے مفاد اور پاکستان دشمنی میں اس مسئلے کو ناقابل حل بنا دیا ہے وہ اس کے حل میں کیونکر مدد کرسکتا ہے؟
Load Next Story