سنٹرل جیل سے 2 دہشت گردوں کے فرار نے پولیس کی کارکردگی کا پول کھول دیا

 عملہ کی ملی بھگت کا شبہ، 12 افسران و پولیس اہلکاروں کو مقدمہ درج کر کے گرفتار کرلیا گیا

 کھڑکی میں لگی سوا انچ قطر کی سلاخ کاٹی گئی، واچ ٹاور سے بھی فرار ہوتے قیدی کسی کو نظر نہ آئے ۔ فوٹو : فائل

لاہور:
کراچی سینٹرل جیل سے منظم انداز میں فرار ہونے والے کالعدم تنظیم کے 2 خطرناک دہشت گردوں کے واقعہ سے محکمہ جیل خانہ جات کے افسران کی کارکردگی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ غفلت و لاپروائی کے الزام میں سینٹرل جیل کے 12 افسران و پولیس اہلکاروں کو معطل کر کے مقدمہ درج کیا گیا اور انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ آئی جی سندھ کے حکم پر تفتیش کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے حوالے بھی کر دی گئی جو فرار ہونے والے قیدیوں کا سراغ لگانے میں تاحال ناکام دکھائی دیتی ہے۔

اس حوالے سے سی ٹی ڈی کے افسران کی جانب سے اجلاس ضرور کیے جا رہے ہیں، سینٹرل جیل سے گزشتہ ماہ فرار ہونے والے کالعدم تنظیم کے 2 دہشت گرد شیخ محمد ممتاز عرف فرعون عرف شیر خان عرف شہزاد عرف بھائی اور محمد احمد خان عرف منا کے خلاف دہشت گردی کے کئی مقدمات درج تھے اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ان کے مقدمات سنٹرل جیل میں قائم جوڈیشل کمپلیکس میں زیر سماعت تھے۔ دونوں قیدیوں کے فرار ہونے کی اطلاع جیل حکام نے آئی جی جیل خانہ جات نصرت منگن کو دی جس پر انھوں نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی آئی جی جیل خانہ جات اشرف نظامانی کو ہدایت جاری کی کہ فوری طور پر واقعہ کی اطلاع نیوٹاؤن پولیس کو دی جائے لیکن جب نیوٹاؤن تھانے میں قیدیوں کے فرار کی اطلاع دی گئی تو اس واقعہ کو گزرے ہوئے 24 گھنٹے کا وقت گزر چکا تھا۔

آئی جی جیل خانہ جات نے سینٹرل جیل کے سپرٹنڈنٹ غلام مرتضیٰ شیخ، ڈپٹی سپرٹنڈنٹ جیل فہیم میمن، اسسٹنٹ سپرٹنڈنٹ جیل عبدالرحمن شیخ، اے ایس آئی فروش محمد، کانسٹیبلز نواب علی، عطا محمد، محمد عامر، عبدالغفور، سعید احمد، ساجد، تجیل اور نادر علی کو معطل کر دیا، نیوٹاؤن پولیس نے ڈی آئی جی جیل خانہ جات اشرف نظامانی کی مدعیت میں معطل کیے جانے والے اور فرار ہونے والے دونوں قیدیوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا تاہم حیرت انگیز طور پر مقدمے میں انتہائی کمزور دفعات کو شامل کیا گیا تھا، بعدازاں گرفتار کیے جانے والے سینٹرل جیل کے افسران و اہلکاروں کو عدالت میں پیش کیا گیا جنھیں وہاں سے جیل بھیج دیا گیا۔ سی ٹی ڈی پولیس نے جیل جا کر ان تمام افسران و اہلکاروں کے بیانات قلمبند کرتے ہوئے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7-ATA کو بھی شامل کر دیا۔ اس حوالے سے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عامر فاروقی کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ قیدیوں کے فرار ہونے کا معاملہ صرف غفلت و لاپروائی نہیں بلکہ ملی بھگت کے تحت مجرمانہ سازش بھی ہوسکتی ہے۔

فرار قیدیوں کے حوالے سے ڈی آئی جی جیل خانہ جات اشرف علی نظامانی کا کہنا تھا کہ دونوں قیدی سینٹرل جیل میں قائم جوڈیشنل کمپلیکس کے واش روم کی ایک کھڑکی سے لوہے کی سلاخ کاٹ کر فرار ہوئے ہیں جبکہ جیل کے ذرائع کا کہنا تھا کہ فرار ہونے والے قیدیوں کو حیرت انگیز طور پر واچ ٹاور پر تعینات ایف سی اور جیل پولیس کے اہلکاروں نے بھی فرار ہوتے ہوئے نہیں دیکھا جبکہ جیل میں دس سے بارہ فٹ اونچی دیواروںکو پھلانگ کر فرار ہونا آسان نہیں، انھیں فرار کرانے میں مبینہ طور پر جیل کا عملہ ملوث ہے اور اس فرار میں مبینہ طور پر لاکھوں روپے کی ڈیل کی گئی ہے۔


سنٹرل جیل سے فرار ہونے والے دونوں قیدیوں کو اپنے فرار کا اتنا پختہ یقین تھا کہ انھوں نے فرار سے قبل اپنا حلیہ تبدیل کیا اور ان کے فرار پر جب تلاشی کا عمل شروع کیا گیا تو جوڈیشل کمپلیکس کے واش روم سے سیفٹی ریزر اور داڑھی کے بال بھی ملے ہیں تاکہ فرار ہونے کے دوران انھیں کوئی شناخت نہ کرلے، تاہم واش روم سے وہ آری کا بلیڈ نہیں مل سکا جس کی مدد سے آہنی سلاخ اور جالی کو اتنی صفائی سے کاٹا گیا تھا کہ ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ اسے کسی آری کے بلیڈ سے کاٹا گیا ہو۔ اس حوالے سے سی ٹی ڈی کے تفیتش کاروں کا کہنا ہے کہ جو آہنی راڈ کاٹی گئی ہے وہ تقریباً سوا انچ قطر کی ہے اور اسے ایک دن میں نہیں کاٹا جا سکتا اور جس صفائی سے راڈ کاٹی گئی ہے۔

اس بات کا بھی شبہ ہے کہ اسے کاٹنے کے لیے مشن استعمال کی گئی ہو جبکہ تفتیش کار اس بات پر بھی باریک بینی سے تحقیقات کر رہے ہیں کہ قیدیوں کے فرار کی اطلاع 24 گھنٹے گزرنے کے بعد کیوں دی گئی؟ کیا فرار ہونے والے دہشت گردوں کو اتنا وقت دیا گیا کہ وہ جیل توڑ کر فرار ہونے کے بعد شہر سے باہر نکل جائیں یا پھر شہر میں اپنی محفوظ کمین گاہ تک پہنچ کر روپوش ہوجائیں؟ قیدیوں کے فرار ہونے پر بھی جیل حکام ہوش میں نہیں آئے اور ان کی جانب سے جیل میں کسی بھی قسم کا کوئی سرچ آپریشن نہیں کیا گیا، تاہم رینجرز سندھ کی بھاری نفری نے کراچی سینٹرل جیل پہنچ کر سرچ اینڈ سوئپ آپریشن شروع کیا، اس طرح کا آپریشن 25 سال قبل کیا گیا تھا، سینٹرل جیل کراچی میں کیے جانے والے گرینڈ آپریشن سے متعلق سندھ رینجرز کے سیکٹر کمانڈر بھٹائی رینجرز بریگیڈیئر شاہد جاوید نے بتایا کہ سنٹرل جیل میں کیے جانے والا سرچ اینڈ سوئپ آپریشن جیل حکام کی سفارش پر کیا گیا تھا۔

آپریشن سندھ رینجرز نے پولیس، جیل عملے اور انٹیلی جنس اداروں کی مدد سے کیا، انھوں نے بتایا کہ سینٹرل جیل میں 6 ہزار قیدی موجود ہیں جن کا تعلق مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں، کالعدم تنظیموں اور دیگر جرائم پیشہ گروہوں سے ہے، آپریشن کے دوران قیدیوں کی فزیکل سرچنگ کے ساتھ ساتھ بیرکوں اور قیدیوں کے سامان کی بھی مکمل تلاشی لی گئی۔ اس دوران بیرکس کی دیواروں پر لگے ہوئے بلب اور پنکھوں کی جگہ سے ممنوعہ سامان برآمد ہوا ہے، سرچ آپریشن کے دوران 102 قیمتی موبائل فونز، 18عدد ڈیپ فریزر، 449 ٹیلی ویژن، 163ایل سی ڈیز، 35 لاکھ 52 ہزار 337روپے، 995بریکٹ پنکھے، 5 پیکٹ ہیروئن، 82 اسپیکرز، 22 ہیٹر، 3 ڈی وی ڈی پلیئر، 10 قینچی، 31 واٹر ڈسپینسرز، 400 سے زائد مختلف سگریٹ کے پیکٹس، 45 اقسام کی چھریاں و چاقو، 46 میموری کارڈز، اور 50 اقسام کے ریموٹ کنٹرول، مختلف موبائل فون کمپنیز کی سمز اور دیگر الیکٹرانک ڈیوائسز برآمد کی گئیں اور اس میں کچھ ڈیوائسز ایسی بھی تھیں جن کی مدد سے موبائل جیمرز کے ہونے کے باوجود موبائل فون استعمال کیا جا سکتا تھا۔

تلاشی کے دوران سینٹرل جیل کے اپنے باورچی خانے کے علاوہ 8 سے 10 باورچی خانے ایسے تھے جو مکمل طور پر فعال تھے جبکہ جیل میں چھوٹے بڑے اقسام کے 163 گیس سلینڈر بھی برآمد کیے گئے اور ان کی مدد سے جیل بھی توڑی جا سکتی تھی آپریشن کے دوران سینٹرل جیل سے جہادی لٹریچر بھی برآمد ہوا، جیل کی لائبریری کی بھی مکمل تلاشی لی گئی اور وہاں پر رکھی ہوئی کتابوں کا استعمال موبائل فونز اور دیگر ممنوعہ اشیا چھپانے کر لانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ رینجرز کی جانب سے سینٹرل جیل میں سرچ اینڈ سوئپ آپریشن پر سب سے دلچسپ پہلو یہ سامنے آیا کہ آئی جی جیل خانہ جات نصرت منگن نے رینجرز کے آپریشن کے دوران برآمد کیے جانے والے ممنوعہ ساز و سامان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا آپریشن کے دوران جو بھی اشیا برآمد کی گئی ان میں صرف موبائل فونز غیر قانونی تھے لیکن وہ بھی ناکارہ ہیں جبکہ باقی تمام اشیا جیل کی ضرورت ہے اور کوئی بھی غیر قانونی چیز نہیں ہے، آپریشن کے دوران جو اضافی اور غیر قانونی اشیا بتائی گئی ہیں وہ جیل مینول اور قانون کے مطابق ہیں اور ان کی اجازت ہے۔

کراچی پولیس کی جانب سے روزآنہ کی بنیاد پر درجنوں ملزمان، دہشت گردوں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریوں کے دعوؤں کے باوجود کراچی پولیس چیف مشتاق مہر نہ تو شہر میں اسٹریٹ کرائمز کے بے قابو جن کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو سکے اور نہ ہی شہر میں پولیس اہلکاروں کی جاری ٹارگٹ کلنگز کو روکنے میں اپنا کردار ادا کر سکے جس سے ان کی ناقص کارکردگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story