ملک ٹھیک کرنے کی کوشش میں ہماری ٹانگیں کھینچی جارہی ہیں سعد رفیق
میثاق جمہوریت کے بعد نفرت اور تعصب کا باب بند ہوچکا ہے، سعد رفیق
خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ پاکستان 20 کروڑ عوام کا ملک ہے جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا تھا لیکن جب ہم اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں۔
لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی سے جھگڑا نہیں کرنا اور نہ کسی کو چیلنج کرنا ہے، انتخابی مہم سے قبل ہمیں نفرت اور انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے میثاق جمہوریت قرارداد پاکستان کے بعد اہم دستاویز ہے، میثاق جمہوریت میں طے ہوا تھا کہ کسی پر جھوٹے الزامات نہیں لگائیں گے اور کسی مارشل لاء کا سہارا نہیں بنیں گے لیکن میثاق جمہوریت بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آیا تھا، میثاق جمہوریت کے بعد نفرت اور تعصب کا باب بند ہوچکا ہے لیکن اس وقت کچھ نئے مہرے اور کٹھ پتلیاں میثاق جمہوریت کو نشانا بنارہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب ووٹ مانگنے آئے تھے تو اس وقت میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی نے کچھ وعدے کیے تھے، آج 4 سال گزر چکے ہیں ملکی حالات میں کیا تبدیلی آئی یہ بتانا میرا کام ہے، میری ذمہ داری ہے، ہمیں بولنے سے نہیں روکا جاسکتا، ہمارا کام بولنا ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جب ہم اقتدار میں آئے تو ملکی ادارے ڈوب رہے تھے، دہشت گردی کا راج تھا۔ کراچی میں سیکڑوں لوگ مار دیے جاتے تھے، پاکستان کا پرچم بہت سے علاقوں میں لہرایا نہیں جاسکتا تھا، لوڈشیڈنگ عروج پر تھی اور پاکستان کا خزانہ خالی تھا لیکن آج کراچی کا امن لوٹ آیا ہے، بلوچستان میں لوگوں کے چہروں پر خوشیاں ہیں، دہشت گردی کا نیٹ ورک ٹوٹ چکا ہے،بجلی کے کارخانے لگ رہے ہیں اور پاکستان کے ادارے دوبارہ چل پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاناما کیس سے پہلے اسٹاک مارکیٹ اوپر جارہی تھی، اسٹیٹ بینک نے رپورٹ دی کہ ترقی کی شرح 10 سال کی بلند ترین سطح پر ہے، ایک گھر خراب ہوجائے تو اسے ٹھیک کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں ، پاکستان 20 کروڑ انسانوں کا گھر ہے اگر بگڑجائے تو ٹھیک کرنا آسان کام نہیں لیکن ہمیں اسے ٹھیک نہیں کرنے دیا جارہا، جب ہم ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں، جنہیں ہماری شکلیں پسند نہیں وہ اپنی مرضی کا پاکستان چاہتے ہیں، اگر داد نہیں دے سکتے تو کم از کم خاموش ہوجاؤ۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جنہیں ہماری موجودگی کھٹکتی ہے وہ اپنی مرضی کا پاکستان ڈیزائن کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی کی مرضی کا پاکستان ڈیزائن نہیں ہوسکتا، ان 4سالوں میں پہلا سال دھرنوں کی نزر کیا گیا پھر دھرنا پلس آیا اور جب دھاندلی کا ڈرامہ ناکام ہوگیا تو پھر غیبی مدد پاناما کیس کی صورت میں آئی جس کی کوئی قانونی حثیت نہیں ہے اور نہ کسی ملک نے سنجیدگی سے لیا لیکن صرف پاکستان میں ایک منتخب وزیراعظم اور اس کے خاندان کو احتساب کے کٹھرے میں کھڑا کردیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں پاناما کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کیونکہ اس کا ہدف صرف پاکستان تھا، پاکستان کی خوشحالی اس کے دشمنوں اور رقیبوں کی موت ہے، اگر پاکستان اپنے پاؤں پرکھڑا ہوتا ہے اور ترقی کا پہیہ چلتا ہے تو پھر کوئی پاکستان کو نہیں روک سکتا اور یہ بات پاکستان کے پڑوسی دشمن، اسرائیل اور سپر پاورز کو بھی پتہ ہے جب کہ یہ پاکستان کو سرنگوں رکھنا چاہتے ہیں۔
وزیر ریلوے نے کہا کہ ہمارے دشمن نہیں چاہتے کہ ہم سر اٹھائیں کیونکہ اگر پاکستان مضبوط ہوگا تو بھارت کشمیر پر تسلط برقرار نہیں رکھ سکے گا اور کوئی ریمنڈ ڈیوس کو بھی نہیں لے جاسکے گا، جو اس ملک میں لوگوں کو خودداری کا درس دیتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ خودداری اور آزادی معاشی آزادی کے ساتھ مشروط ہے جب کہ جو قومیں کشکول ہاتھ میں لیکر امیر ملکوں کے پاس جاتی ہیں وہ کبھی آزاد نہیں ہوتیں لہذا حکومت کسی کی بھی ہو اگر بھیک نہیں مانگیں گے تو ملکی عزت اور وقار پر کوئی بھی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ نواز شریف کا قصور اتنا ہے کہ نہ وہ سر جھکاتے ہیں اور نہ پاکستان کا سر جھکنے دیتے ہیں، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنے تھے تو پاکستان کی حکومت اور ریاستی ادارے ایک پیج پر تھے، بڑی دھمکیاں ملیں کہ امداد بند کردیں گے لیکن ہم نے دھماکے کیے اور امداد بند ہوگئی لیکن پاکستان بھوکا نہیں مرگیا۔ انہوں نے کہا کہ آج 9 وزرائے اعظم کو رسوا کرکے یہاں سے نکالا جاچکا ہے، کبھی مارشل لاء اور کبھی نظریہ ضرورت کے تحت لیکن اب لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے، جب عدلیہ بحالی کی تحریک چلی تھی پوری قوم جڑ گئی تھی، نواز شریف کو 2 وزرائے خارجہ کے فون آئے کہ باہر نہ جایئے گا خود کش حملہ ہوسکتا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ عدلیہ اگر بحال نہیں ہوئی تو ملک سرزمین بے آئین بن جائے گا۔
سعد رفیق کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جدید سیاسی جماعتیں نہیں بنیں، ہماری صفوں میں جمہوریت ہے لیکن اتنی نہیں مگر اسکا طریقا یہ نہیں کہ سیاسی جماعتوں کا سرقلم کردو، پیپلز پارٹی کو توڑا گیا تو آصف زرداری نکل آئے،ملک کو سیاسی جماعتیں جوڑتی ہیں لیکن اگر ہم سیاسی جماعتوں کو کمزور کردیں تو لوگوں کا ووٹ اور جمہوریت سے یقین اٹھنے لگے گا اور پھر لوگ ڈنڈیں اٹھالیں گے اور ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کو شام یا یمن نہیں بنانا بلکہ آگے جانا ہے اور اس کے لیے سب کو آئین کی حدود میں رہنا ہوگا اور بغیر ثبوت کے الزامات لگانا بند کرنا ہوں گے۔
سعد رفیق نے کہا کہ پاناما کا مقدمہ کرپشن کا مقدمہ نہیں ہے، منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا وہ کاغذ دیے گئے جس میں پکوڑے بیچنے چاہیئں، ہم جے آئی ٹی میں تحفظات کے باوجود پیش ہوتے ہیں، جے آئی ٹی فون بھی ٹیپ کرتی ہے، عید کے دن نوٹس بھی بھیجتی ہے اور اب بیٹیوں کو بلانا بھی شروع کردیا ہے لیکن کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ فون ٹیپ کرنے کی اجازت کس نے دی، جے آئی ٹی ریاستی اداروں پر الزام لگاتی ہے اور واٹس ایپ کال بھی کی جاتی لیکن اس کا جواب بھی نہیں آتا جب کہ حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے کا پتہ نہیں چلتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ کہنے سے پہلے ثبوت فراہم کیے جائیں جب کہ اگر ہم دیکھیں کہ ہمیں انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا تو یہ کہنا ہمارا حق ہے جو آئین ہمیں دیتا ہے لیکن ہمارا سر عدالت کے احترام میں جھکا ہوا ہے اور جھکا رہے گا، اگر ہم عدالتوں کا احترام نہیں کریں گے تو ملک آگے نہیں جاسکتا چاہے فیصلہ ہمارے حق میں ہوں یا خلاف ہمیں فیصلہ ماننا پڑے گا۔
سعد رفیق نے کہا کہ مقبول فیصلے کسی کو نہیں کرنے چاہیئں چاہے وہ حکومتیں ہوں یا ادارے لیکن سب سے زیادہ یہ کام سیاستدان کرتے ہیں کہ کہیں لوگ ناراض نہ ہوجائیں لہذا ہمیں مقبول فیصلوں کے بجائے درست فیصلے کرنے چاہیئں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف آئین کے دائرہ سے باہر نکل کر کارروائی کریں گے تو ملک کو نقصان ہوگا، ہم چاہتے ہیں کہ اگلی نسل کو ایسا پاکستان دیں جہاں آئین کی حکمرانی ہو جب کہ جنہیں ہمارے چہرے اور شکلیں پسند نہیں، جنہیں ہماری سیاست سے اختلاف ہے ان سے درخواست کرتا ہوں کہ چند مہینے انتظار کریں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں گراتے گراتے آپ خود گر جائیں، ہم تو کئی بار گرے ہیں اور کھڑے ہوگئے ہیں لیکن آپ گرے تو کہیں ہڈی پسلی نہ تڑوا بیٹھیں کیونکہ پھر ہمیں آپ کو سپورٹ دینی پڑے گی۔
لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی سے جھگڑا نہیں کرنا اور نہ کسی کو چیلنج کرنا ہے، انتخابی مہم سے قبل ہمیں نفرت اور انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے میثاق جمہوریت قرارداد پاکستان کے بعد اہم دستاویز ہے، میثاق جمہوریت میں طے ہوا تھا کہ کسی پر جھوٹے الزامات نہیں لگائیں گے اور کسی مارشل لاء کا سہارا نہیں بنیں گے لیکن میثاق جمہوریت بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آیا تھا، میثاق جمہوریت کے بعد نفرت اور تعصب کا باب بند ہوچکا ہے لیکن اس وقت کچھ نئے مہرے اور کٹھ پتلیاں میثاق جمہوریت کو نشانا بنارہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب ووٹ مانگنے آئے تھے تو اس وقت میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی نے کچھ وعدے کیے تھے، آج 4 سال گزر چکے ہیں ملکی حالات میں کیا تبدیلی آئی یہ بتانا میرا کام ہے، میری ذمہ داری ہے، ہمیں بولنے سے نہیں روکا جاسکتا، ہمارا کام بولنا ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جب ہم اقتدار میں آئے تو ملکی ادارے ڈوب رہے تھے، دہشت گردی کا راج تھا۔ کراچی میں سیکڑوں لوگ مار دیے جاتے تھے، پاکستان کا پرچم بہت سے علاقوں میں لہرایا نہیں جاسکتا تھا، لوڈشیڈنگ عروج پر تھی اور پاکستان کا خزانہ خالی تھا لیکن آج کراچی کا امن لوٹ آیا ہے، بلوچستان میں لوگوں کے چہروں پر خوشیاں ہیں، دہشت گردی کا نیٹ ورک ٹوٹ چکا ہے،بجلی کے کارخانے لگ رہے ہیں اور پاکستان کے ادارے دوبارہ چل پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاناما کیس سے پہلے اسٹاک مارکیٹ اوپر جارہی تھی، اسٹیٹ بینک نے رپورٹ دی کہ ترقی کی شرح 10 سال کی بلند ترین سطح پر ہے، ایک گھر خراب ہوجائے تو اسے ٹھیک کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں ، پاکستان 20 کروڑ انسانوں کا گھر ہے اگر بگڑجائے تو ٹھیک کرنا آسان کام نہیں لیکن ہمیں اسے ٹھیک نہیں کرنے دیا جارہا، جب ہم ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں، جنہیں ہماری شکلیں پسند نہیں وہ اپنی مرضی کا پاکستان چاہتے ہیں، اگر داد نہیں دے سکتے تو کم از کم خاموش ہوجاؤ۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جنہیں ہماری موجودگی کھٹکتی ہے وہ اپنی مرضی کا پاکستان ڈیزائن کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی کی مرضی کا پاکستان ڈیزائن نہیں ہوسکتا، ان 4سالوں میں پہلا سال دھرنوں کی نزر کیا گیا پھر دھرنا پلس آیا اور جب دھاندلی کا ڈرامہ ناکام ہوگیا تو پھر غیبی مدد پاناما کیس کی صورت میں آئی جس کی کوئی قانونی حثیت نہیں ہے اور نہ کسی ملک نے سنجیدگی سے لیا لیکن صرف پاکستان میں ایک منتخب وزیراعظم اور اس کے خاندان کو احتساب کے کٹھرے میں کھڑا کردیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں پاناما کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کیونکہ اس کا ہدف صرف پاکستان تھا، پاکستان کی خوشحالی اس کے دشمنوں اور رقیبوں کی موت ہے، اگر پاکستان اپنے پاؤں پرکھڑا ہوتا ہے اور ترقی کا پہیہ چلتا ہے تو پھر کوئی پاکستان کو نہیں روک سکتا اور یہ بات پاکستان کے پڑوسی دشمن، اسرائیل اور سپر پاورز کو بھی پتہ ہے جب کہ یہ پاکستان کو سرنگوں رکھنا چاہتے ہیں۔
وزیر ریلوے نے کہا کہ ہمارے دشمن نہیں چاہتے کہ ہم سر اٹھائیں کیونکہ اگر پاکستان مضبوط ہوگا تو بھارت کشمیر پر تسلط برقرار نہیں رکھ سکے گا اور کوئی ریمنڈ ڈیوس کو بھی نہیں لے جاسکے گا، جو اس ملک میں لوگوں کو خودداری کا درس دیتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ خودداری اور آزادی معاشی آزادی کے ساتھ مشروط ہے جب کہ جو قومیں کشکول ہاتھ میں لیکر امیر ملکوں کے پاس جاتی ہیں وہ کبھی آزاد نہیں ہوتیں لہذا حکومت کسی کی بھی ہو اگر بھیک نہیں مانگیں گے تو ملکی عزت اور وقار پر کوئی بھی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ نواز شریف کا قصور اتنا ہے کہ نہ وہ سر جھکاتے ہیں اور نہ پاکستان کا سر جھکنے دیتے ہیں، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنے تھے تو پاکستان کی حکومت اور ریاستی ادارے ایک پیج پر تھے، بڑی دھمکیاں ملیں کہ امداد بند کردیں گے لیکن ہم نے دھماکے کیے اور امداد بند ہوگئی لیکن پاکستان بھوکا نہیں مرگیا۔ انہوں نے کہا کہ آج 9 وزرائے اعظم کو رسوا کرکے یہاں سے نکالا جاچکا ہے، کبھی مارشل لاء اور کبھی نظریہ ضرورت کے تحت لیکن اب لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے، جب عدلیہ بحالی کی تحریک چلی تھی پوری قوم جڑ گئی تھی، نواز شریف کو 2 وزرائے خارجہ کے فون آئے کہ باہر نہ جایئے گا خود کش حملہ ہوسکتا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ عدلیہ اگر بحال نہیں ہوئی تو ملک سرزمین بے آئین بن جائے گا۔
سعد رفیق کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جدید سیاسی جماعتیں نہیں بنیں، ہماری صفوں میں جمہوریت ہے لیکن اتنی نہیں مگر اسکا طریقا یہ نہیں کہ سیاسی جماعتوں کا سرقلم کردو، پیپلز پارٹی کو توڑا گیا تو آصف زرداری نکل آئے،ملک کو سیاسی جماعتیں جوڑتی ہیں لیکن اگر ہم سیاسی جماعتوں کو کمزور کردیں تو لوگوں کا ووٹ اور جمہوریت سے یقین اٹھنے لگے گا اور پھر لوگ ڈنڈیں اٹھالیں گے اور ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کو شام یا یمن نہیں بنانا بلکہ آگے جانا ہے اور اس کے لیے سب کو آئین کی حدود میں رہنا ہوگا اور بغیر ثبوت کے الزامات لگانا بند کرنا ہوں گے۔
سعد رفیق نے کہا کہ پاناما کا مقدمہ کرپشن کا مقدمہ نہیں ہے، منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا وہ کاغذ دیے گئے جس میں پکوڑے بیچنے چاہیئں، ہم جے آئی ٹی میں تحفظات کے باوجود پیش ہوتے ہیں، جے آئی ٹی فون بھی ٹیپ کرتی ہے، عید کے دن نوٹس بھی بھیجتی ہے اور اب بیٹیوں کو بلانا بھی شروع کردیا ہے لیکن کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ فون ٹیپ کرنے کی اجازت کس نے دی، جے آئی ٹی ریاستی اداروں پر الزام لگاتی ہے اور واٹس ایپ کال بھی کی جاتی لیکن اس کا جواب بھی نہیں آتا جب کہ حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے کا پتہ نہیں چلتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ کہنے سے پہلے ثبوت فراہم کیے جائیں جب کہ اگر ہم دیکھیں کہ ہمیں انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا تو یہ کہنا ہمارا حق ہے جو آئین ہمیں دیتا ہے لیکن ہمارا سر عدالت کے احترام میں جھکا ہوا ہے اور جھکا رہے گا، اگر ہم عدالتوں کا احترام نہیں کریں گے تو ملک آگے نہیں جاسکتا چاہے فیصلہ ہمارے حق میں ہوں یا خلاف ہمیں فیصلہ ماننا پڑے گا۔
سعد رفیق نے کہا کہ مقبول فیصلے کسی کو نہیں کرنے چاہیئں چاہے وہ حکومتیں ہوں یا ادارے لیکن سب سے زیادہ یہ کام سیاستدان کرتے ہیں کہ کہیں لوگ ناراض نہ ہوجائیں لہذا ہمیں مقبول فیصلوں کے بجائے درست فیصلے کرنے چاہیئں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف آئین کے دائرہ سے باہر نکل کر کارروائی کریں گے تو ملک کو نقصان ہوگا، ہم چاہتے ہیں کہ اگلی نسل کو ایسا پاکستان دیں جہاں آئین کی حکمرانی ہو جب کہ جنہیں ہمارے چہرے اور شکلیں پسند نہیں، جنہیں ہماری سیاست سے اختلاف ہے ان سے درخواست کرتا ہوں کہ چند مہینے انتظار کریں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں گراتے گراتے آپ خود گر جائیں، ہم تو کئی بار گرے ہیں اور کھڑے ہوگئے ہیں لیکن آپ گرے تو کہیں ہڈی پسلی نہ تڑوا بیٹھیں کیونکہ پھر ہمیں آپ کو سپورٹ دینی پڑے گی۔