ستم گروں سے بچا ہم کو بے کسوں کے رفیق
یہ جو فخریہ بھوکی عوام کے سامنے اپنے پرتعیش محلوں کو دکھاتے ہیں، ان سب کا ایسا ہی کڑا احتساب ہونا چاہیے
سال بھر بحرانوں میں گزر جاتا ہے۔ لوڈشیڈنگ، پینے کے پانی کی عدم دستیابی، گلیوں اور سڑکوں پر بہتے ابلتے گٹروں کا پانی، جگہ جگہ تعفن زدہ کوڑوں کے ڈھیر، ٹوٹی ہوئی سڑکیں، پھر بارشوں کا موسم آجاتا ہے، کمزور مکان گرتے ہیں، مکین مرتے ہیں، تیز ہواؤں سے بجلی کے کھمبے گرتے ہیں، پانی میں بجلی کا کرنٹ آجاتا ہے، کچھ لوگ کرنٹ لگ کر مر جاتے ہیں۔
ایک ڈیڑھ انچ کی بارش کے نتیجے میں ندی نالوں اور دریاؤں میں سیلاب آجاتا ہے۔ سیلاب کا بپھرا پانی کناروں سے اچھل کر بستیوں میں گھس جاتا ہے۔ ہزاروں گھر، مال مویشی سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔ کھیت تباہ ہو جاتے ہیں، سڑکیں بہہ جاتی ہیں، غریب لوگ اپنی جانیں بچانے کی خاطر محفوظ مقامات پر منتقل ہوجاتے ہیں۔ ملک بھر میں امدادی کیمپ لگ جاتے ہیں۔ خشک غذا کے تھیلے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرین پر برسائے جاتے ہیں، جنھیں بھوکے پیاسے انسان بھاگ بھاگ کر اٹھاتے ہیں، انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے۔ نوشہرہ سے بدین تک گھر اجڑ جاتے ہیں۔
امدادی ٹرک شہر شہر سے روانہ ہوتے ہیں۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت پھر سے گھر کے در و دیوار کھڑے کرتے ہیں، آئندہ سال کے لیے۔ بارشوں اور سیلاب کے بعد موسمی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں دوائیاں نہیں، ڈاکٹر نہیں۔ بس مریض اللہ کے حوالے۔ بچ گیا تو بچ گیا، ورنہ اوپر چلا گیا۔ غربت نے مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، یہ کچے گھروندے، یہ گھاس پھوس کے جھونپڑے، جہاں بھوک پیاس رہتے ہیں۔ یہ نقشہ نہیں بدلتا۔ آخری نبی بھی آچکے، بقول جالب:
کچے گھروں میں دیپ جلاتا نہیں کوئی
اور اب تو آسماں سے بھی آتا نہیں کوئی
یہ سسکتی انسانیت کے نشان، یہ کچے گھروندے، یہ جھونپڑے، یوں ہی رہیں گے۔ اور چند سو گھرانے پوری دولت پر قابض رہیں گے۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ ان ناجائز، سراسر ناجائز قابضین کا قبضہ چھڑانے والے کب آئیں گے؟
کہا جاتا ہے کہ جہاں کہیں کوئی محل، ماڑیاں دیکھو بڑے بڑے فارم ہاؤسز دیکھو، اصطبل دیکھو، سمجھ لو کہ حق داروں کا حق مارا گیا ہے۔ ڈاکا ڈالا گیا ہے، لوٹ مار کی گئی ہے۔ یہ جو مے فیئر اپارٹمنٹ لندن کا کیس، عدالت عظمیٰ میں زیر بحث ہے اس کا فیصلہ جو بھی آئے سو آئے، کسی انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اتنی قیمتی جائیدادیں بنائے اور پھر ہمارے ملک کے ''انسان'' جو بھوکے ننگے بے گھر انسانوں میں رہتے ہیں، جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں ۔عدالتی فیصلے جو بھی ہوں ایسی ضرورت سے زیادہ جائیدادیں سب ناجائز ہیں۔ یہ جو عدالتی سلسلہ چل نکلا ہے، اسے رکنا نہیں چاہیے، اسے جاری رہنا چاہیے۔ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
جتنے بھی سیاستدان ٹیلی وژن پر دکھائے گئے ہیں، سب کے محل، ان میں لہلہاتے قیمتی پردے، دیدہ زیب فرنیچر، اعلیٰ درجے کے واش رومز، بیڈ رومز، خوبصورت در و دیوار، بلند کھڑکیاں، باغیچے میں ٹہلتے اعلیٰ نسل کے مور، بگلے، ہرن، ان کے گھوڑے پستے بادام کھائیں، ان کے کتے بہترین تازہ گوشت کھائیں اور اس دھرتی پر بسنے والے کروڑوں انسان کوڑے کرکٹ میں اپنا رزق تلاش کریں۔
یہ جو فخریہ بھوکی عوام کے سامنے اپنے پرتعیش محلوں کو دکھاتے ہیں، ان سب کا ایسا ہی کڑا احتساب ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوا تو سمجھ لو، بھوک و ننگ سے تنگ لوگ خود ہی انصاف کر ڈالیں گے اور وہ احتساب کہیں زیادہ سخت ہوگا۔ یہ جو گلی گلی ڈاکے ڈل رہے ہیں، یہ جو بینک لٹ رہے ہیں، یہ جو موبائل فون چھین رہے ہیں، بقول عالمتاب تشنہ مرحوم:
''یہ اک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا''
چلیے پہلا مصرعہ بھی لکھے دیتا ہوں ''کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کرجانا''۔ بھوکے لوگ تو صدیوں سے ''آفات'' ہی میں گھرے زندگی گزار رہے ہیں۔ غاصبوں، قابضوں، لٹیروں، رسہ گیروں کے لیے ''اک اشارہ'' ہوگیا ہے اور یہ کام اب رکنے والا نہیں ہے۔ یہ ایک گھرانے کا ہی قصہ نہیں ہے۔ اس کے بعد دوسرے ''گھرانے'' بھی تیار ہیں۔ یہ جو سوچے بیٹھے ہیں کہ اب ''ان گھرانوں'' کے بچے حکمران بنیں گے، ان کا خیال ہے کہ ''بٹتی رہے گی محلوں میں محلوں کی روشنی'' تو اب ''وہ ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا''۔ اب بھوکے عوام محلوں کی روشنیاں چھین کر اپنے کچے گھروں میں جھونپڑوں میں لے آئیں گے۔
اس عظیم انسان کی کیا بات کروں۔ مگر کیے دیتا ہوں۔ مسجد نبوی میں امامت فرما رہے ہیں، سلام پھیرتے ہی گھر کی طرف بھاگے اور چند منٹ بعد واپس آکر دعا کرائی۔ بعداز دعا صحابیوں نے اچانک اٹھ کر جانے کا سبب پوچھا تو فرمایا ''گھر میں ضرورت سے زیادہ دو اشرفیاں پڑی تھیں، وہ کسی مستحق کو دینے گیا تھا'' یہ تھے ہمارے نبی حضرت محمدؐ۔ اب ہر کوئی خود ہی اپنا محاسبہ کرلے اور دیکھ لے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔
حیف صد حیف! مسلمانوں نے اپنے نبیؐ کے اوصاف چھوڑ دیے اور غیروں نے ان اوصاف کو اپنالیا۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع، جھوٹ بول کر کاروبار کرنا، جعلی دوائیں بنانا، جعلی مشروب بنانا، مسلمانوں کا کام بن کر رہ گیا اور غیر مسلموں میں یہ برائیاں نہیں ہیں۔ وہاں جو ہے خالص ہے، وہ جھوٹ نہیں بولتے۔
نبی پاکؐ یاد آگئے ہیں تو حبیب جالب کی نعت پڑھ لیجیے، دکھی دل سے لکھی نعت حسب حال ہے:
نظر نظر تھی محبت' ادا ادا تھی شفیق
کہاں تھی تیرے یہاں اونچ نیچ کی تفریق
چراغ جادہ ہستی ترا پیام بنا
ترے درود سے نوع بشر کا کام بنا
ہوا نہ ہوگا ترے جیسا خلق یار و خلیق
تری نظر میں ہے جو ہو رہا ہے آج یہاں
بنام نور ہے ظلمت کے سر پہ تاج یہاں
ستم گروں سے بچا، ہم کو بے کسوں کے رفیق
اٹھائیں فیض سدا تیر رہنمائی سے
ملے نجات ہمیں کاسۂ گدائی سے
کریں بلند ترا نام ہم کو دے توفیق
ایک ڈیڑھ انچ کی بارش کے نتیجے میں ندی نالوں اور دریاؤں میں سیلاب آجاتا ہے۔ سیلاب کا بپھرا پانی کناروں سے اچھل کر بستیوں میں گھس جاتا ہے۔ ہزاروں گھر، مال مویشی سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔ کھیت تباہ ہو جاتے ہیں، سڑکیں بہہ جاتی ہیں، غریب لوگ اپنی جانیں بچانے کی خاطر محفوظ مقامات پر منتقل ہوجاتے ہیں۔ ملک بھر میں امدادی کیمپ لگ جاتے ہیں۔ خشک غذا کے تھیلے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرین پر برسائے جاتے ہیں، جنھیں بھوکے پیاسے انسان بھاگ بھاگ کر اٹھاتے ہیں، انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے۔ نوشہرہ سے بدین تک گھر اجڑ جاتے ہیں۔
امدادی ٹرک شہر شہر سے روانہ ہوتے ہیں۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت پھر سے گھر کے در و دیوار کھڑے کرتے ہیں، آئندہ سال کے لیے۔ بارشوں اور سیلاب کے بعد موسمی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں دوائیاں نہیں، ڈاکٹر نہیں۔ بس مریض اللہ کے حوالے۔ بچ گیا تو بچ گیا، ورنہ اوپر چلا گیا۔ غربت نے مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، یہ کچے گھروندے، یہ گھاس پھوس کے جھونپڑے، جہاں بھوک پیاس رہتے ہیں۔ یہ نقشہ نہیں بدلتا۔ آخری نبی بھی آچکے، بقول جالب:
کچے گھروں میں دیپ جلاتا نہیں کوئی
اور اب تو آسماں سے بھی آتا نہیں کوئی
یہ سسکتی انسانیت کے نشان، یہ کچے گھروندے، یہ جھونپڑے، یوں ہی رہیں گے۔ اور چند سو گھرانے پوری دولت پر قابض رہیں گے۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ ان ناجائز، سراسر ناجائز قابضین کا قبضہ چھڑانے والے کب آئیں گے؟
کہا جاتا ہے کہ جہاں کہیں کوئی محل، ماڑیاں دیکھو بڑے بڑے فارم ہاؤسز دیکھو، اصطبل دیکھو، سمجھ لو کہ حق داروں کا حق مارا گیا ہے۔ ڈاکا ڈالا گیا ہے، لوٹ مار کی گئی ہے۔ یہ جو مے فیئر اپارٹمنٹ لندن کا کیس، عدالت عظمیٰ میں زیر بحث ہے اس کا فیصلہ جو بھی آئے سو آئے، کسی انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اتنی قیمتی جائیدادیں بنائے اور پھر ہمارے ملک کے ''انسان'' جو بھوکے ننگے بے گھر انسانوں میں رہتے ہیں، جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں ۔عدالتی فیصلے جو بھی ہوں ایسی ضرورت سے زیادہ جائیدادیں سب ناجائز ہیں۔ یہ جو عدالتی سلسلہ چل نکلا ہے، اسے رکنا نہیں چاہیے، اسے جاری رہنا چاہیے۔ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
جتنے بھی سیاستدان ٹیلی وژن پر دکھائے گئے ہیں، سب کے محل، ان میں لہلہاتے قیمتی پردے، دیدہ زیب فرنیچر، اعلیٰ درجے کے واش رومز، بیڈ رومز، خوبصورت در و دیوار، بلند کھڑکیاں، باغیچے میں ٹہلتے اعلیٰ نسل کے مور، بگلے، ہرن، ان کے گھوڑے پستے بادام کھائیں، ان کے کتے بہترین تازہ گوشت کھائیں اور اس دھرتی پر بسنے والے کروڑوں انسان کوڑے کرکٹ میں اپنا رزق تلاش کریں۔
یہ جو فخریہ بھوکی عوام کے سامنے اپنے پرتعیش محلوں کو دکھاتے ہیں، ان سب کا ایسا ہی کڑا احتساب ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوا تو سمجھ لو، بھوک و ننگ سے تنگ لوگ خود ہی انصاف کر ڈالیں گے اور وہ احتساب کہیں زیادہ سخت ہوگا۔ یہ جو گلی گلی ڈاکے ڈل رہے ہیں، یہ جو بینک لٹ رہے ہیں، یہ جو موبائل فون چھین رہے ہیں، بقول عالمتاب تشنہ مرحوم:
''یہ اک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا''
چلیے پہلا مصرعہ بھی لکھے دیتا ہوں ''کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کرجانا''۔ بھوکے لوگ تو صدیوں سے ''آفات'' ہی میں گھرے زندگی گزار رہے ہیں۔ غاصبوں، قابضوں، لٹیروں، رسہ گیروں کے لیے ''اک اشارہ'' ہوگیا ہے اور یہ کام اب رکنے والا نہیں ہے۔ یہ ایک گھرانے کا ہی قصہ نہیں ہے۔ اس کے بعد دوسرے ''گھرانے'' بھی تیار ہیں۔ یہ جو سوچے بیٹھے ہیں کہ اب ''ان گھرانوں'' کے بچے حکمران بنیں گے، ان کا خیال ہے کہ ''بٹتی رہے گی محلوں میں محلوں کی روشنی'' تو اب ''وہ ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا''۔ اب بھوکے عوام محلوں کی روشنیاں چھین کر اپنے کچے گھروں میں جھونپڑوں میں لے آئیں گے۔
اس عظیم انسان کی کیا بات کروں۔ مگر کیے دیتا ہوں۔ مسجد نبوی میں امامت فرما رہے ہیں، سلام پھیرتے ہی گھر کی طرف بھاگے اور چند منٹ بعد واپس آکر دعا کرائی۔ بعداز دعا صحابیوں نے اچانک اٹھ کر جانے کا سبب پوچھا تو فرمایا ''گھر میں ضرورت سے زیادہ دو اشرفیاں پڑی تھیں، وہ کسی مستحق کو دینے گیا تھا'' یہ تھے ہمارے نبی حضرت محمدؐ۔ اب ہر کوئی خود ہی اپنا محاسبہ کرلے اور دیکھ لے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔
حیف صد حیف! مسلمانوں نے اپنے نبیؐ کے اوصاف چھوڑ دیے اور غیروں نے ان اوصاف کو اپنالیا۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع، جھوٹ بول کر کاروبار کرنا، جعلی دوائیں بنانا، جعلی مشروب بنانا، مسلمانوں کا کام بن کر رہ گیا اور غیر مسلموں میں یہ برائیاں نہیں ہیں۔ وہاں جو ہے خالص ہے، وہ جھوٹ نہیں بولتے۔
نبی پاکؐ یاد آگئے ہیں تو حبیب جالب کی نعت پڑھ لیجیے، دکھی دل سے لکھی نعت حسب حال ہے:
نظر نظر تھی محبت' ادا ادا تھی شفیق
کہاں تھی تیرے یہاں اونچ نیچ کی تفریق
چراغ جادہ ہستی ترا پیام بنا
ترے درود سے نوع بشر کا کام بنا
ہوا نہ ہوگا ترے جیسا خلق یار و خلیق
تری نظر میں ہے جو ہو رہا ہے آج یہاں
بنام نور ہے ظلمت کے سر پہ تاج یہاں
ستم گروں سے بچا، ہم کو بے کسوں کے رفیق
اٹھائیں فیض سدا تیر رہنمائی سے
ملے نجات ہمیں کاسۂ گدائی سے
کریں بلند ترا نام ہم کو دے توفیق