گوادر سے ہنگلاج تک ایک سفر
بلوچستان کے ساحلی علاقے اپنے قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ جغرافیائی حوالے سے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔
ISLAMABAD:
اگور ندی سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع نانی مندر کے سیکورٹی کے لئے بلوچستان لیویز کے چیک پوسٹ اگور کراس پر قائم ہے جہاں ہنگلاج جانے والوں کو چیکنگ کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب ہم یہاں پہنچے تو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اب یہ لنک روڑ پکی ہوچکی تھی اور ہنگلاج برج بھی مکمل ہوچکا تھا۔ جبکہ ہنگلاج ماتا کے قریب زائرین کے لئے رہائشی کمرے بھی بنادیے گئے تھے، اور ہنگلاج ماتا اور ہندووں کی دیگرہستیوں کی مندروں کو بھی سنگ مرمر کے ٹائلز سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
گوادر سے ہنگلاج تک بذریعہ روڑ سفر کرنے والے سیاح کئی انگت مناظر اپنے کیمروں میں قید کرتے ہیں، جہاں قدرتی حسن کے دلفریب مناظر دیکھنے اور اُن کے بارے میں جستجو کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقے اپنے قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ جغرافیائی حوالے سے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ سی پیک کے شہر گوادر سے بلوچستان کے معاشی گڑھ حب تک سیاحوں کے سفر ویسے تو ہروقت ہی جاری رہتے ہیں مگر عید اور دیگر چھٹیوں کے موقع پر یہاں سیاحوں کا رش زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
فوٹو: گوگل
میں بھی اِس جستجو میں سفر کو نکلا کہ آخر دیکھا تو جائے کہ لوگ اِن علاقوں کو اِس قدر پسند کیوں کرتے ہیں؟ میرا پہلا ٹھکانہ ہنگول نیشنل پارک تھا جہاں قدرتی حسن کے دلفریب مناظر، کنڈ ملیر کی ساحلی پٹی اور اور ہندؤؤں کے تاریخی مندر ہنگلاج ماتا سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے آرہے ہیں۔
فوٹو: گوگل
اورماڑہ سے نکل کر ہم نے ہنگول نیشنل پارک کا سفر شروع کیا جہاں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا صمد داؤد مجھے بچوں کی طرح ٹریفک قانون سمجھا رہا تھا اور اپنی معلومات ہم تک پہنچا رہا تھا جبکہ ہمارے ساتھ موجود نوجوان طلباء ثنااللہ اور اکرم سلفیاں بنانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے تھے۔ وہ ہر خوبصورت منظر کو دیکھ کر گاڑی رکواتے اور سییلفیاں بناتے رہے۔
فوٹو: گوگل
گوادر کی تحصیل اورماڑہ سے ہنگول نیشنل پارک شروع ہوتا ہے جوکہ تین اضلاع یعنی گوادر، آواران اور لسبیلہ پر مشتمل ہے۔ 1650 مربع کلومیٹر پر مشتمل یہ پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیچرل پارک ہے جو کہ بیک وقت سمندری، صحرائی، دریائی اور پہاڑی جنگلات کے تحفظ کا دعویدار ہے، جہاں جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت ہر قسم کے شکار پر پابندی ہے اور دو درجن کے قریب عملہ پارک کی نگرانی کررہا ہے، جن میں زیادہ تر گیم واچر ہیں۔
اورماڑہ سے چند کلومیٹر آگے ہنگول کا پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے اور مکران کوسٹل ہائی وے اپنی پیچ و تاب کے ساتھ انہی پہاڑی راستوں سے گزرتی ہوئی اوتھل زیرو پوائنٹ تک جاتا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ ایک دلکش اور دلفریب منظر کی عکاسی کرتا ہے۔ پیچ و تاب کھاتے ہوئے یہ راستے کبھی کسی حسینہ کی زلفوں کی طرح نظر آتے ہیں تو کبھی سانپ کی طرح رینگتے ہوئے۔ کبھی چڑھائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کبھی اترائی جیسے خطرناک راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
بزی ٹاپ اور Princess of hope کے مناظر دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ کبھی یہ مندر اور مینار ہوا کرتے تھے۔ ہنگول کا یہ پہاڑی سلسلہ جنگلی حیات کے لئے اہم ہے جہاں تیزی کے ساتھ نایاب ہونے والے جانورپائے جاتے ہیں۔ یہاں I.Bex، لومڑی، بھیڑیا، گیدڑ، چنکارہ اور پہاڑی بکرے پائے جاتے ہیں جبکہ یہاں آبی پرندے بھی وافر مقدار میں موجود ہیں، جن میں مرغابی، تیتر، باز، چیل اور فالکن کے علاوہ دیگر آبی پرندے شامل ہیں۔
فوٹو: گوگل
کیکر کے درخت کےعلاوہ جڑی بوٹیوں کی نایاب اقسام بھی یہاں موجود ہیں اور پہاڑی سلسلہ کچھ ختم ہونے کے بعد کنڈ ملیر کا علاقہ آتا ہے جو کہ کراچی سے تقریباً 240 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک جنت نظیر ساحلی پٹی ہے۔ کنڈ ملیر کا علاقہ بیک وقت سمندری، صحرائی اور پہاڑی مناظر کی بہترین عکاسی پیش کرتا ہے اور یہاں کے ریگستان میں رینگنے والی مخلوق کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں اور یہاں متعدد اقسام کے سانپ بھی پائے جاتے ہیں جن میں مگرمچھ، لمبی چھپکلی، وائپر اور کوبرا ناگ شامل ہیں۔
چھٹیوں اور عید کے موسم میں کنڈ ملیر کا سمندر سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے جہاں سمندر کے قریب موجود ہوٹل کے احاطے میں کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہاں سیاح رات بھی گزارتے ہیں۔ جب ہم یہاں پہنچے تو مکران اور کراچی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں سیاح پہلے سے ہی اِس سمندر میں تفریح کی غرض سے یہاں موجود تھے۔ رات کو ہونے والی محفل موسیقی نے نوجوانوں کو بھنگڑے ڈالنے پر مجبور کردیا۔ کوئی اپنی مرسڈیز کے ساتھ آیا ہوا تھا تو کسی کو بس کی چھت پر بیٹھ کر آنا پڑا جبکہ کچھ منچلے تو موٹر بائیک پر ہی پہنچ گئے تھے۔
فوٹو: گوگل
کراچی سے آنے والے ایک سیاح نے بتایا کہ عید کی چھٹیاں منانے کے لیے وہ گزشتہ کئی سالوں سے کنڈ ملیر پر ہی آرہے ہیں۔ اُس سیاح کا کہنا تھا کہ یہاں میٹھے پانی کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ رش کی وجہ سے قریب کے ہوٹل سیاحوں کو دیگر ضروریات کے لئے پانی نہیں دیتے۔ لیکن جہاں ایک طرف لوگوں کا یہاں آنا خوش آئند ہے وہیں کنڈ ملیر کے خوبصورت ساحل پر سیاحوں کے رش ہونے کی وجہ سے گندگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ہم نے یہاں دیکھا کہ پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر کچرے کی وجہ سے ساحل کی خوبصورتی ماند پڑ رہی تھی، صرف یہی نہیں بلکہ اِس گند کی وجہ سے سمندری مخلوخات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
کنڈ ملیر سے کراچی کی طرف جاتے ہوئے ہنگلاج ماتا آتا ہے۔ شام کے ڈھلتے ہی ہم ہنگلاج کی طرف رخت سفر باندھ چکے تھے۔ کراچی سے 250 کلو میٹر دور ہنگلاج ماتا یا نانی مندر ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں کا ایک مقدس مقام ہے۔
فوٹو: گوگل
اگور ندی سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع نانی مندر کے سیکورٹی کے لئے بلوچستان لیویز کے چیک پوسٹ اگور کراس پر قائم ہے جہاں ہنگلاج جانے والوں کو چیکنگ کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب ہم یہاں پہنچے تو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اب یہ لنک روڑ پکی ہوچکی تھی اور ہنگلاج برج بھی مکمل ہوچکا تھا۔ جبکہ ہنگلاج ماتا کے قریب زائرین کے لئے رہائشی کمرے بھی بنادیے گئے تھے، اور ہنگلاج ماتا اور ہندووں کی دیگرہستیوں کی مندروں کو بھی سنگ مرمر کے ٹائلز سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
فوٹو: گوگل
ہنگول کے پہاڑ کے دامن میں تنگ غار میں موجود ہنگلاج ماتا کا مندر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دو سو سے ڈھائی سو سال پرانا ہے۔ اِس کے علاوہ ہندوؤں کی دیگر ہستیوں کے مندر ہیاں موجود ہیں جن میں کالی ماتا، گنیش، دیوامندر، گروگورک ناتھ دانی قابل ذکر ہیں۔
فوٹو: گوگل
ہنگلاج ماتا کے پنڈت مہاراج گوپال کا کہنا تھا کہ یہ لاکھوں سال پرانا مندر ہے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی غار ہے جو کہ بغیر کسی سہارے کے موجود ہے۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی آرتی دیو کہتی ہیں کہ اُن کا یقین ہے کہ اِس غار کی تعمیر میں انسانی ہاتھ استعمال نہیں ہوا بلکہ یہ قدرت کا کرشمہ ہے اور کالی ماتا کی مورتی یہاں قدرتی طور پر پائی جاتی ہے۔ اُن کے مطابق یہ آثارِ قدیمہ کا حصہ ہے اور یہاں کے پتھروں اور مٹی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کئی سال پہلے یہ جگہ دریا کے پانی میں گھری ہوئی تھی۔ اُن کے مطابق ہنگلاج ماتا کو نانی پیر کا نام لوگوں نے خود دیا ہے۔ پسنی کے مقامی صحافی غلام یاسین بزنجو کا کہنا ہے کہ نانی مندر ہزاروں سال پرانا ہے اور سترہویں صدی میں برِصغیر کے مختلف علاقوں سے ہندو یاتری زیارت کے لئے آتے تھے جبکہ تاریخی کتب اور حوالہ جات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قدیم نانی مندر ہنگول کے مقام پر ہے اور یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ دریائے ہنگول یہاں سے بہتا ہے، جبکہ ہندو روایت ہے کہ مہا کالی یعنی بھوانی کا مندر جوکہ اسٹولہ میں تھا وہ نہانے کے لئے ہنگلاج آتے تھے۔
یاد رہے کہ ہندوؤں کا سالانہ میلہ ہر سال اپریل میں ہنگلاج ماتا میں ہوتا ہے جہاں مکران، لسبیلہ، کراچی اور اندرونِ سندھ سے ہزاروں یاتری نانی مندر آتے ہیں اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کرتے ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ دو فیصد ہندو آباد ہیں، لیکن عید کی چھٹیوں میں یہاں کافی رش تھا۔ اشوک کمار نامی شخص نے بتایا کہ وہ 35 سالوں سے عید کے موقع پر نانی مندر آتے ہیں اور اکثر وہ پیدل بھی آجاتے ہیں کیونکہ اُن کا عقیدہ ہے کہ یہاں اُن کی مرادیں پورا ہوتی ہیں۔
رات شروع ہوتے ہی ہم واپس کنڈ ملیر کی طرف روانہ ہوئے جہاں بلوچی موسیقی کی سریلی دھن بج رہی تھیں اور سیاحوں کی عید کی خوشیوں کو دوبالا کررہی تھیں۔ پوری رات اِسی طرح خوشیاں بکھیرتے گزر گئی اور صبح ہوتے ہی ہم کئی یادگار سمیٹ کر واپس اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوچکے تھے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔