600 برساتی نالوں پر عمارتیں اور تجاوزات قائم صفائی ناممکن ہوگئی
نالوں پر سرکاری و نجی عمارتیں، رہائشی مکانات اور دکانیں تعمیرکردی گئیں،40ہزار سے زائدیونٹس نالوں پرقائم
شہر میں چھوٹے بڑے600 برساتی نالوں پر تجاوزات کی بھرمار سے نالوں کی مکمل صفائی ناممکن ہوگئی ہے۔
شہر میں چھوٹے بڑے 600 نالوں کا برساتی پانی لیاری و ملیر ندی میں گرتا ہے تاہم ان نالوں پر گزشتہ 40 سال میں تجاوزات کی بھرمار ہوگئی ہے جس کی وجہ سے برساتی نالے مکمل طور پر صاف نہیں کیے جاسکے سندھ حکومت، بلدیہ عظمیٰ ، ضلعی بلدیاتی اداروں اور سرکاری و نجی اداروں نے مختلف برساتی نالوں پر عمارتیں، مارکیٹیں اور پارکنگ سائٹس قائم کردی ہیں صوبائی و بلدیاتی اداروں نے برساتی نالوں کی اہمیت کو نہ سمجھا اور ان پر چھتیں ڈال دیں تو نجی اداروں کے مالکان اور شہریوں نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھویا اور لوٹ کا مال سمجھتے ہوئے جس کا جہاں بس چلا اس نے نالوں پر دکانیں اور رہائشی مکانات تعمیر کردیے۔
شہر بھر میں نالوں پر 40ہزار پختہ تعمیرات اور تجاوزات قائم کردی گئی ہیں جنھیں ہٹانا اب آسان نہیں بلدیہ عظمیٰ نے اردو بازار، لنڈا بازار، پیپرمارکیٹ، حیدری مارکیٹ ، جوبلی مارکیٹ، ستارہ مارکیٹ، مچھی میانی مارکیٹ کھارادر، ہوتی مارکیٹ رنچھوڑ لائن، بہادر شاہ مارکیٹ، اورنگزیب مارکیٹ، گوشت مارکیٹ گرومندر، پارکنگ سائٹ ایم آر کیانی روڈ نالوں پر قائم کررکھی ہیں۔
سندھ حکومت نے نیو سندھ سیکریٹریٹ، صوبائی محتسب کے دفاتر اور سرکاری اسپتال نالوں پر تعمیر کیے ہیں وفاقی اردو یونیورسٹی عبدالحق کیمپس کے کچھ بلاکس بھی نالوں پر قائم ہیں گلشن اقبال 13-D میں ضیا الحق کالونی کے نالے پر بھی دکانیں بن چکی ہیں سابق ٹاؤن ناظمین کے دور میں نالوں پر دکانیں تعمیر کرکے فروخت کردی گئیں، نجی اداروں نے بھی نالوں پر بلند عمارتیں اورشہریوں نے اپنی ضرورت کے تحت نالوں پر رہائشی مکانات تعمیر کردیے ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ بلدیاتی ادارے جزوی طور پر کھلے نالوں کی مختلف مقامات سے صفائی کرتی ہے لیکن یہ ناکافی ثابت ہوتا ہے، نالوں پر ان پختہ تعمیرات کی وجہ سے مذکورہ مقامات پر نالوں کی صفائی نہیں ہوپاتی جس کی وجہ سے یہاں سالہا سال سے جمع ہونے والا کچرا برساتی پانی کے بہاؤ کو روک دیتا ہے بارشوں کے دوران نالے چوک ہونے کی وجہ سے مختلف مقامات پر ابل پڑتے ہیں اور برساتی پانی کی نکاسی نہ ہونے سے اہم شاہراہیں اور نشیبی علاقے زیر آب آجاتے ہیں جس کا عذاب شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ چند ماہ قبل بلدیہ عطمیٰ اور سندھ حکومت کے باہمی اشتراک سے شہر کے سب سے بڑے گجرنالے سے بڑے پیمانے پر تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا تاہم اب اراضی کو محفوظ بنانے کیلیے متعلقہ ادارے کوئی اقدام نہیں اٹھارہے سندھ حکومت اور بلدیہ عظمی کراچی کے منتخب نمائندے اگر اپنے سیاسی اختلافات ختم کرکے نالوں سے تجاوزات اور عمارتوں کا خاتمہ کرنے کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں تو کراچی کے شہریوں کا دیرینہ مسئلہ حل ہوجائے گا اور موسم برسات شہریوں کے لیے رحمت ثابت ہوگا۔
شہر میں چھوٹے بڑے 600 نالوں کا برساتی پانی لیاری و ملیر ندی میں گرتا ہے تاہم ان نالوں پر گزشتہ 40 سال میں تجاوزات کی بھرمار ہوگئی ہے جس کی وجہ سے برساتی نالے مکمل طور پر صاف نہیں کیے جاسکے سندھ حکومت، بلدیہ عظمیٰ ، ضلعی بلدیاتی اداروں اور سرکاری و نجی اداروں نے مختلف برساتی نالوں پر عمارتیں، مارکیٹیں اور پارکنگ سائٹس قائم کردی ہیں صوبائی و بلدیاتی اداروں نے برساتی نالوں کی اہمیت کو نہ سمجھا اور ان پر چھتیں ڈال دیں تو نجی اداروں کے مالکان اور شہریوں نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھویا اور لوٹ کا مال سمجھتے ہوئے جس کا جہاں بس چلا اس نے نالوں پر دکانیں اور رہائشی مکانات تعمیر کردیے۔
شہر بھر میں نالوں پر 40ہزار پختہ تعمیرات اور تجاوزات قائم کردی گئی ہیں جنھیں ہٹانا اب آسان نہیں بلدیہ عظمیٰ نے اردو بازار، لنڈا بازار، پیپرمارکیٹ، حیدری مارکیٹ ، جوبلی مارکیٹ، ستارہ مارکیٹ، مچھی میانی مارکیٹ کھارادر، ہوتی مارکیٹ رنچھوڑ لائن، بہادر شاہ مارکیٹ، اورنگزیب مارکیٹ، گوشت مارکیٹ گرومندر، پارکنگ سائٹ ایم آر کیانی روڈ نالوں پر قائم کررکھی ہیں۔
سندھ حکومت نے نیو سندھ سیکریٹریٹ، صوبائی محتسب کے دفاتر اور سرکاری اسپتال نالوں پر تعمیر کیے ہیں وفاقی اردو یونیورسٹی عبدالحق کیمپس کے کچھ بلاکس بھی نالوں پر قائم ہیں گلشن اقبال 13-D میں ضیا الحق کالونی کے نالے پر بھی دکانیں بن چکی ہیں سابق ٹاؤن ناظمین کے دور میں نالوں پر دکانیں تعمیر کرکے فروخت کردی گئیں، نجی اداروں نے بھی نالوں پر بلند عمارتیں اورشہریوں نے اپنی ضرورت کے تحت نالوں پر رہائشی مکانات تعمیر کردیے ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ بلدیاتی ادارے جزوی طور پر کھلے نالوں کی مختلف مقامات سے صفائی کرتی ہے لیکن یہ ناکافی ثابت ہوتا ہے، نالوں پر ان پختہ تعمیرات کی وجہ سے مذکورہ مقامات پر نالوں کی صفائی نہیں ہوپاتی جس کی وجہ سے یہاں سالہا سال سے جمع ہونے والا کچرا برساتی پانی کے بہاؤ کو روک دیتا ہے بارشوں کے دوران نالے چوک ہونے کی وجہ سے مختلف مقامات پر ابل پڑتے ہیں اور برساتی پانی کی نکاسی نہ ہونے سے اہم شاہراہیں اور نشیبی علاقے زیر آب آجاتے ہیں جس کا عذاب شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ چند ماہ قبل بلدیہ عطمیٰ اور سندھ حکومت کے باہمی اشتراک سے شہر کے سب سے بڑے گجرنالے سے بڑے پیمانے پر تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا تاہم اب اراضی کو محفوظ بنانے کیلیے متعلقہ ادارے کوئی اقدام نہیں اٹھارہے سندھ حکومت اور بلدیہ عظمی کراچی کے منتخب نمائندے اگر اپنے سیاسی اختلافات ختم کرکے نالوں سے تجاوزات اور عمارتوں کا خاتمہ کرنے کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں تو کراچی کے شہریوں کا دیرینہ مسئلہ حل ہوجائے گا اور موسم برسات شہریوں کے لیے رحمت ثابت ہوگا۔