وزنی شولڈر بیگ کندھے گردن اور کمر کے درد میں مبتلا کرسکتے ہیں
بہتر ہے کہ کم وزن بیگ کا انتخاب کیا جائے۔
ISLAMABAD:
گھر سے باہر نکلتے ہوئے خواتین اپنے ساتھ شولڈر بیگ لے جانا نہیں بھولتیں۔ بیگ میں موبائل فون ، والٹ ، چابیاں، میک اپ کے سامان سمیت کئی اہم اشیاء موجود ہوتی ہیں۔ کئی خواتین بازار جاتے ہوئے پانی کی بوتل اور کھانے کی چیزیں بھی بیگ میں بھر لیتی ہیں۔ یہ سب چیزیں رکھنے کے بعد بیگ بھاری ہو جاتا ہے جسے اٹھائے وہ بازاروں میں گھومتی رہتی ہیں۔
وزنی بیگ کو کندھوں پہ لٹکا کے گھومنا جسمانی طور پر کتنا نقصان دہ ہے؟ یہ بہت کم خواتین جانتی ہیں۔ جو اس بات سے واقف ہیں وہ بھی کچھ شوق اور کچھ ضرورت کی وجہ سے بھاری بیگ کے اس نقصان دہ پہلو کو نظر انداز کر دیتی ہیں، حالاں کہ صحت انسان کی پہلی تر جیح ہونی چاہیے۔ بھاری بیگ لٹکانے کی وجہ سے کندھوں کی رگوں میں کھنچاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔
بیگ زیادہ دیر تک لٹکا رہے تو پھر کندھوں کے ساتھ ساتھ کمر میں بھی درد ہونے لگتا ہے۔ بعض اوقات بیگ میں اتنی اشیاء بھری ہوتی ہیں کہ وزن پانچ کلو سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر بیگ کا وزن پانچ سے سات کلو گرام ہو اور مسلسل اس کا استعمال کیا جاتا رہے تو خواتین کو کندھوں اور کمر کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
بھاری بیگ کندھے پر لٹکانے کی وجہ سے جسمانی توازن برقرار نہیں رہتا۔ بیگ کا بوجھ سہارنے والا شانہ ایک طرف جھک جاتاہے۔ کمر اور شانے کے درد سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ جسم کا توازن برقرار رکھا جائے۔ بیگ کے بوجھ کی وجہ سے اس جانب والے ہاتھ کا استعمال کم ہو جاتا ہے اور زیادہ تر کام دوسرے ہاتھ سے کرنے پڑتے ہیں ، جس کی وجہ سے اس ہاتھ پر دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ بھاری پرس کو مستقل ایک کندھے پر رکھا جائے تو کندھوں ، گردن اور کمر کے پٹھوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ایک وقت ایسا آتا ہے کہ پٹھے زیادہ وزن کی وجہ سے اکڑ جاتے ہیں اور جسم ان کے حصوں میں درد محسوس ہو نے لگتا ہے ۔گردن بھی آسانی سے حرکت نہیں کر سکتی ۔
ان تمام مسائل سے بچنے کے لیے ماہرین صحت مشورہ دیتے ہیں کہ اگر بیگ پہلے ہی قدرے وزنی ہے تو اس میں زیادہ چیزیں نہ رکھی جائیں۔ بہتر ہے کہ کم وزن بیگ کا انتخاب کیا جائے۔ ڈیزائنرز کے بیگز عموماً بھاری ہوتے ہیں۔ اس بات کا بھی دھیان رکھیں کہ پرس کے پٹے (straps )چوڑے ہوں ۔چوڑے اسٹریپ کی وجہ سے کندھے پر یکساں وزن پڑتا ہے جو قابلِ بر داشت ہو تا ہے ۔ لیکن اگر بیگ کا پٹا پتلا ہو گا تو کندھے کے محدود حصے پر وزن پڑے گا ،جس کی وجہ سے صرف وہی حصہ تکلیف سے متاثر ہوگا۔
تکلیف سے بچنے کے لیے خواتین کو پرس بھی ایسا خریدنے چاہییں جسے پکڑنے کے لیے ایک سے زیادہ ہینڈلز ہوں ۔ایک ہینڈل اوپر کی طرف ہو جسے بآسانی ہاتھ میں پکڑا جا سکے ،ساتھ ہی ایک پٹا موجود ہو جس کی مدد سے ضرورت کے وقت پرس کو کندھے پہ لٹکایا جا سکے ۔
سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے پرس بھاری ہو رہا ہو تو کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اسے کبھی کندھوں پہ لٹکا لیا جائے اور کبھی ہاتھ میں پکڑ لیا جائے ۔ مسلسل لٹکایا نہ جائے کہ اس سے کندھے میں درد ہوسکتا ہے۔ اگر صرف لٹکانے والا بیگ ہے تو اسے ایک ہی کندھے پر نہ لٹکایا جائے بلکہ کبھی دائیں کندھے پر تو کبھی بائیں کندھے پر لے لیا جائے تا کہ کسی ایک کندھے کے پٹھوں پر وزن نہ پڑ سکے ۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بھاری بیگز کندھوں پہ لٹکا کے اونچی ایڑی والی جوتی نہ پہنیں۔
ایک طرف اونچی ایڑی والی سینڈلز کمر اور پیروں میں درد کی وجہ ہے تو دوسری طرف بھاری بیگ اٹھا کے کندھوں اور گردن کی تکلیف کا باعث ہے ۔اسی لیے ہمیشہ بازاروں یا دفاتر میں آرام دہ جوتے پہننے چاہییں ۔ایسی خواتین جنھیں باقاعدگی سے زیادہ سامان بیگ میں لے جانا پڑتا ہے ،انھیں چاہیے کہ وہ بیگ پیک(ایسا بیگ جو کمر کی جانب موجود ہو تا ہے اور دونوں کندھوں پر لٹکایا جاتا ہے ) استعمال کریں ۔بیگ پیک خریدتے وقت اس بات کا دھیان رکھیں کہ وہ گردن کے پیچھے والے حصے سے چار انچ سے زیادہ نیچے نہ ہو ۔اگر بھاری بیگ پیک زیادہ دیر تک کمر کے نچلے حصے کی جانب لٹکایا جائے تو پھر کمر میں درد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
ممبئی کے ایک معروف ڈاکٹر شریدھر آرچک کہتے ہیں کہ صرف بھاری بیگ لٹکانے کی وجہ سے ہی خواتین کو کندھوں ،گردن اور کمر کے مسائل درپیش نہیں ہو تے بلکہ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بھی ان تکالیف کا سامنا ہوتا ہے ۔ مسلسل فون پہ بات کرنا یا پیغامات لکھنے کی وجہ سے بھی صحت کا مسئلہ ہو جاتا ہے ۔اس لیے کوشش کی جائے کہ موبائل فون کا استعمال کم کریں۔
گھر سے باہر نکلتے ہوئے خواتین اپنے ساتھ شولڈر بیگ لے جانا نہیں بھولتیں۔ بیگ میں موبائل فون ، والٹ ، چابیاں، میک اپ کے سامان سمیت کئی اہم اشیاء موجود ہوتی ہیں۔ کئی خواتین بازار جاتے ہوئے پانی کی بوتل اور کھانے کی چیزیں بھی بیگ میں بھر لیتی ہیں۔ یہ سب چیزیں رکھنے کے بعد بیگ بھاری ہو جاتا ہے جسے اٹھائے وہ بازاروں میں گھومتی رہتی ہیں۔
وزنی بیگ کو کندھوں پہ لٹکا کے گھومنا جسمانی طور پر کتنا نقصان دہ ہے؟ یہ بہت کم خواتین جانتی ہیں۔ جو اس بات سے واقف ہیں وہ بھی کچھ شوق اور کچھ ضرورت کی وجہ سے بھاری بیگ کے اس نقصان دہ پہلو کو نظر انداز کر دیتی ہیں، حالاں کہ صحت انسان کی پہلی تر جیح ہونی چاہیے۔ بھاری بیگ لٹکانے کی وجہ سے کندھوں کی رگوں میں کھنچاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔
بیگ زیادہ دیر تک لٹکا رہے تو پھر کندھوں کے ساتھ ساتھ کمر میں بھی درد ہونے لگتا ہے۔ بعض اوقات بیگ میں اتنی اشیاء بھری ہوتی ہیں کہ وزن پانچ کلو سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر بیگ کا وزن پانچ سے سات کلو گرام ہو اور مسلسل اس کا استعمال کیا جاتا رہے تو خواتین کو کندھوں اور کمر کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
بھاری بیگ کندھے پر لٹکانے کی وجہ سے جسمانی توازن برقرار نہیں رہتا۔ بیگ کا بوجھ سہارنے والا شانہ ایک طرف جھک جاتاہے۔ کمر اور شانے کے درد سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ جسم کا توازن برقرار رکھا جائے۔ بیگ کے بوجھ کی وجہ سے اس جانب والے ہاتھ کا استعمال کم ہو جاتا ہے اور زیادہ تر کام دوسرے ہاتھ سے کرنے پڑتے ہیں ، جس کی وجہ سے اس ہاتھ پر دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ بھاری پرس کو مستقل ایک کندھے پر رکھا جائے تو کندھوں ، گردن اور کمر کے پٹھوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ایک وقت ایسا آتا ہے کہ پٹھے زیادہ وزن کی وجہ سے اکڑ جاتے ہیں اور جسم ان کے حصوں میں درد محسوس ہو نے لگتا ہے ۔گردن بھی آسانی سے حرکت نہیں کر سکتی ۔
ان تمام مسائل سے بچنے کے لیے ماہرین صحت مشورہ دیتے ہیں کہ اگر بیگ پہلے ہی قدرے وزنی ہے تو اس میں زیادہ چیزیں نہ رکھی جائیں۔ بہتر ہے کہ کم وزن بیگ کا انتخاب کیا جائے۔ ڈیزائنرز کے بیگز عموماً بھاری ہوتے ہیں۔ اس بات کا بھی دھیان رکھیں کہ پرس کے پٹے (straps )چوڑے ہوں ۔چوڑے اسٹریپ کی وجہ سے کندھے پر یکساں وزن پڑتا ہے جو قابلِ بر داشت ہو تا ہے ۔ لیکن اگر بیگ کا پٹا پتلا ہو گا تو کندھے کے محدود حصے پر وزن پڑے گا ،جس کی وجہ سے صرف وہی حصہ تکلیف سے متاثر ہوگا۔
تکلیف سے بچنے کے لیے خواتین کو پرس بھی ایسا خریدنے چاہییں جسے پکڑنے کے لیے ایک سے زیادہ ہینڈلز ہوں ۔ایک ہینڈل اوپر کی طرف ہو جسے بآسانی ہاتھ میں پکڑا جا سکے ،ساتھ ہی ایک پٹا موجود ہو جس کی مدد سے ضرورت کے وقت پرس کو کندھے پہ لٹکایا جا سکے ۔
سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے پرس بھاری ہو رہا ہو تو کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اسے کبھی کندھوں پہ لٹکا لیا جائے اور کبھی ہاتھ میں پکڑ لیا جائے ۔ مسلسل لٹکایا نہ جائے کہ اس سے کندھے میں درد ہوسکتا ہے۔ اگر صرف لٹکانے والا بیگ ہے تو اسے ایک ہی کندھے پر نہ لٹکایا جائے بلکہ کبھی دائیں کندھے پر تو کبھی بائیں کندھے پر لے لیا جائے تا کہ کسی ایک کندھے کے پٹھوں پر وزن نہ پڑ سکے ۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بھاری بیگز کندھوں پہ لٹکا کے اونچی ایڑی والی جوتی نہ پہنیں۔
ایک طرف اونچی ایڑی والی سینڈلز کمر اور پیروں میں درد کی وجہ ہے تو دوسری طرف بھاری بیگ اٹھا کے کندھوں اور گردن کی تکلیف کا باعث ہے ۔اسی لیے ہمیشہ بازاروں یا دفاتر میں آرام دہ جوتے پہننے چاہییں ۔ایسی خواتین جنھیں باقاعدگی سے زیادہ سامان بیگ میں لے جانا پڑتا ہے ،انھیں چاہیے کہ وہ بیگ پیک(ایسا بیگ جو کمر کی جانب موجود ہو تا ہے اور دونوں کندھوں پر لٹکایا جاتا ہے ) استعمال کریں ۔بیگ پیک خریدتے وقت اس بات کا دھیان رکھیں کہ وہ گردن کے پیچھے والے حصے سے چار انچ سے زیادہ نیچے نہ ہو ۔اگر بھاری بیگ پیک زیادہ دیر تک کمر کے نچلے حصے کی جانب لٹکایا جائے تو پھر کمر میں درد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
ممبئی کے ایک معروف ڈاکٹر شریدھر آرچک کہتے ہیں کہ صرف بھاری بیگ لٹکانے کی وجہ سے ہی خواتین کو کندھوں ،گردن اور کمر کے مسائل درپیش نہیں ہو تے بلکہ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بھی ان تکالیف کا سامنا ہوتا ہے ۔ مسلسل فون پہ بات کرنا یا پیغامات لکھنے کی وجہ سے بھی صحت کا مسئلہ ہو جاتا ہے ۔اس لیے کوشش کی جائے کہ موبائل فون کا استعمال کم کریں۔