تعلیم اور روزگار کا تعلق

تعلیم کسی بھی فرد کو شعور جیسی نعمت سے مالامال کرتی ہے۔ تاہم اسے خالصتاً معاشی نقطۂ نظر سے دیکھنا بھی صحیح نہیں۔

اعلا تعلیم کے بعد باعزت مقام پانے کی خواہش ہی نچلے طبقوں کو اس کی طرف آمادہ کرتی ہے ۔ فوٹو : فائل

تعلیم اور روزگار، دو مختلف چیزیں ہونے کے باوجود ان میں ایک خصوصی تعلق پایا جاتا ہے۔

لیکن ہمارے ہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملازمت نہ دینے والی تعلیم کی تو کوئی گنجایش ہی نہیں ہے۔ جوں ہی کسی شعبے کی کھپت میں کمی واقع ہوتی ہے اس کی تعلیم کا رجحان خاتمے کے قریب پہنچ جاتا ہے۔

عموماً لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ایسی تعلیم حاصل کی جائے جو اعلا سے علا تر ملازمت دلوا سکے۔ اس مقصد کے لیے اکثر فطری رجحانات کا گلا گھوٹ دیا جاتا ہے اور جیسے تیسے مطلوبہ تعلیمی معیار حاصل کیا جاتا ہے تاکہ اصل منشا حاصل ہوسکے۔ اس کے بعد بھی اگر کسی وجہ سے روزگار اور ملازمت کے حوالے سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے تو نتیجہ شدید مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے اور یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا فائدہ ہوا اتنا پڑھنے کا؟ یا جب یہ ہی کام کرنا تھا تو پھر خوامخواہ تعلیم میں وقت کیوں ضایع کیا؟

ایسی صورت حال کی وجہ ظاہر ہے، یہ طے شدہ سوچ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمیں معاشی مسائل سے چھٹکارا مل جائے گا یا بہتر ملازمت مل سکے گی۔ معاشرے کے متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ جب اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلا رہے ہوتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ مستقبل میں نہ صرف وہ آسودہ ہوں گے بلکہ ان کے بچے بھی پُرسکون زندگی گزاریں گے۔ تاہم، جب طویل عرصے تک مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی وہی صورت حال سامنے آئے تو اضطراب پیدا ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔


پھر ایک تعلیم یافتہ فرد ہونے کے ناتے ان کی حساسیت اور شعور ایک اَن پڑھ یا کم تعلیم یافتہ فرد سے کئی گنا بڑھ چکا ہوتا ہے، لہٰذا اسی تناسب سے وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور ان کی خود اعتمادی کو ایسا گہن لگتا ہے کہ ساری قابلیت اور صلاحیت بھی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ ایسے میں جب انہیں یہ مشورے دیے جائیں کہ ''کہیں بھی محنت مزوری کرلو یا اپنے شعبے کے برعکس کوئی دوسری نوکری کرلو'' تو ان کی ذہنی اذیت اور کوفت مزید کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ کیوںکہ یہ نصیحت کرنے والے معاشرے کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لاکھوں روپے تنخواہ حاصل کرنے والوں کے لیے تو یہ باتیں فقط الفاظ کی جُگالی ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے کالموں اور مضامین میں دُہراتے رہتے ہیں اور جی بھرکے اعلا تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کاہل اور کام چور جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔

محنت کی عظمت کے یہ سبق تو طالب علم پہلی جماعت کے نصاب سے پڑھتے آرہے ہیں۔ مسئلہ دراصل اس معاشرے کا ہے جہاں یہ باتیں صرف کتابوں میں ملتی ہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ طلبہ کو محنت کے مشورے دینے والے بزعم خود عملاً کسی مزدور کی کتنی عزت کرتے ہیں؟ کسی پتھارے دار اور ٹھیلے والے کی توقیر ان کی نظر میں کیا ہے؟ اسی پر قیاس کرتے چلے جائیں تو ایسے بقراطوں کے تضادکے نمونے ملتے چلے جائیں گے اور ساتھ ساتھ اعلا تعلیم کے بعد اچھی اور باعزت ملازمت کے لیے دربدر ہونے والے نوجوانوں کے مسئلے کی وجہ بھی سامنے آجائے گی۔

ہمیں ''محنت میں عظمت'' کے اسباق تو پڑھائے جاتے ہیں مگر طبقات میں تقسیم معاشرے میں حقیقی صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ لوگ نچلے پیشوں کو اپنانے والے رشتہ داروں سے ملنا تک گوارا نہیں کرتے جس سے معاشرے کے ایک عام محنت کش کے مرتبے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اعلا تعلیم کے بعد باعزت مقام پانے کی خواہش ہی نچلے طبقوں کو اس کی طرف آمادہ کرتی ہے لیکن جب صورت حال ایسی ہو تو تعلیم کی طرف رغبت کی حوصلہ شکنی ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے طالب علم بیرون ملک جاکر وہ چھوٹے موٹے کام بھی کرلیتے ہیں جنہیں ہمارے یہاں قابل ہتک سمجھا جاتا ہے، اس لیے کہ وہاں ایسا کرنے سے ان کی سفید پوشی اور عزت پر کوئی حرف نہیں آتا۔

تعلیم کسی بھی فرد کو شعور جیسی نعمت سے مالامال کرتی ہے۔ تاہم، اسے خالصتاً معاشی نقطۂ نظر سے دیکھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ موجودہ شرح تعلیم اور معاشی صورت حال کے تناظر میں ہم اسے فکرِ معاش سے قطعی طور پر الگ بھی نہیں کر سکتے۔ تعلیمی لحاظ سے نہایت پس ماندہ حالات اور اعلا تعلیم کی شرح ایک فی صد سے بھی کم ہونے کے باوجود ریاست معاشرے میں انہیں درست طور پر کھپانے میں ناکام ہے۔ اگرچہ بھیڑ چال کا بھی مسئلہ ہے مگر مجموعی طور پر جب ہمارے طلبہ کی ایک محدود تعداد ہی جامعات تک پہنچ پاتی ہے اور اسے بھی اپنے شعبے میں روزگار کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو یقینی طور پر یہ حکام بالا کی سنگین غفلت ہے۔ پھر ہم ایک ترقی پذیر معاشرے میں رہ رہے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے پیشوں کو کم تر سمجھا جانے کے باعث تعلیم یافتہ نوجوان اس کا رخ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جب ہم اپنے ملک میں معیار تعلیم کو قابل قدر سطح تک لے آئیں گے تو یقیناً اس سے یہ روش بھی بدلنے میں مدد ملے گی۔

تعلیم اور روزگار کا یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر ہر شعبہ ہائے زندگی میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ اس کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہر شعبے کے ماہرین تیار کیے جائیں تاکہ پہلے سے جمع کردہ اعداد وشمار کی روشنی میں ہمیں ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، استاد اور دیگر سماجی وسائنسی علوم کے ماہرین مل سکیں تاکہ ایک طرف ہم تعلیم یافتہ نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کر سکیں تو دوسری طرف ''تعلیم یافتہ بے روزگاری'' جیسے مسئلے سے بھی گلوخلاصی ہو۔ جس کے بعد بتدریج شرح خواندگی اور تعلیمی میدان میں ترقی کی راہیں کھُلتی چلی جائیں اور ''تعلیم برائے ملازمت'' کے نظریے کو بدلنے میں بھی مدد ملے، ورنہ اس وقت سرکاری سطح پر پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم کے لیے بھی من پسند پیشہ یا روزگار اختیار کرنے کی ضمانت موجود نہیں ہے جو ملک سے جہالت کے اندھیرے دور کرنے والے دانشوروں سمیت، حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
Load Next Story