کتنا ارمان تھا نا
واقعی انقلاب آگیا ہے۔ انفوٹینمنٹ ، انٹرٹینمنٹ۔۔۔فری میڈیا۔۔۔فری فار آل میڈیا۔۔۔۔حقائق کی صنعت ، آدھے سچ کی زراعت
ایک تجربہ تو کریں۔ پورے تیس دن صرف اور صرف پاکستانی ٹی وی چینلز دیکھیں۔آپ کو اکتیسویں دن وہ گیان حاصل ہوگا جو گوتم بدھ کو بھی نصیب نا ہوا۔
آپ کو محسوس ہوگا کہ دنیا میں صرف ڈیڑھ ممالک ہیں۔پاکستان اور باقی دنیا۔
آپ کو لگے گا کہ حالاتِ حاضرہ کے صرف تین مطلب ہیں۔انفوٹینمنٹ ، انفوٹینمنٹ اور انفوٹینمنٹ۔۔۔
آپ کو یقین آجائے گا کہ صحافت چار موضوعات سے باہر ممکن نہیں۔مقامی جرم و تشدد ، ملکی سیاست ، پاکستانی عدلیہ اور ممبئی مصالحہ۔
آپ کو اچھی طرح سمجھ میں آجائے گا کہ مزاحیہ پروگرام ایسے خاکوں کو کہتے ہیں جس میں صرف حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے کیری کیچرز بنائے جائیں اور ان کے ہم شکل فنکاروں سے وہ گفتگو کرائی جائے جس پر سب سے زیادہ ہنسی ان خاکوں کے مصنف کو ہی آئے۔
آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کسی بھی ڈرامے میں صرف چار سچیویشنز ہی ممکن ہیں۔سازشی سسرال ، ہمدرد میکہ ، شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہیرو ہیروئن اور خوش پوش ہمدرد سفاک ولن یا ولنز۔۔۔
صرف تیس دن مقامی چینلز مسلسل دیکھنے سے آپ پر یہ راز بھی کھلے گا کہ پاکستان میں صرف اعلیٰ ، متوسط اور نیم متوسط شہری طبقہ ہی آباد ہے۔یہاں کوئی کسان ، مزدور ، بچہ اور عورت نہیں رہتی چنانچہ ان سے متعلق موضوعات پر الگ سے پروگرام سازی کی بھی ضرورت نہیں ۔
آپ پر منکشف ہوجائے گا کہ اس ملک میں لوک موسیقی ، لوک تھیٹر ، لوک مزاح ، لوک نثری و شعری ادب جیسی کوئی بدعت نہیں۔لہذا تمام اردو چینلز کو مجبوراً انٹرٹینمٹ کے سلاٹس بھرنے اور قارئین و ناظرین کی بوریت دور کرنے کے لیے بپاشا باسو کے وزن میں کمی ، عامر خان کے نئے ٹی وی پروجیکٹ ، ٹام کروز کے ذہنی انتشار اور لیڈی گاگا کے بال ڈائی کرنے کے جنون وغیرہ کی خبروں پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔
کیا ایران میں بھی کسی سینما کا وجود ہے ، کیا جاپانی فلم انڈسٹری نے بھی کبھی کوئی نادر شاہکار تخلیق کیا ہے ، کیا چین میں بھی اوپرا فروغ پارہا ہے ، کیا مشرقی یورپ کے تھیٹر میں بھی کوئی نیا تجربہ ہورہا ہے ، کیا روسی بیلے ڈانسر اب تک پنجوں پر ناچ رہے ہیں۔کیا عرب دنیا کے میوزک چارٹ میں لیلا غزالی نے کوئی طوفان مچا رکھا ہے۔کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ضرورت بھی کیا ہے معلوم کرنے کی۔ ابھی تو بمشکل یہ خبر پہنچی ہے کہ ترکی میں بھی ہماری ٹکر کا ڈرامہ بننا شروع ہوگیا ہے۔
اب آپ ستر اور اسی کے عشرے کے ناظرین کی گھسی پٹی مثال خدا کے واسطے مت دیجیے گا۔جو کولمبو ، دی سینٹ ، خانم گوگوش ، سکس ملین ڈالر مین سے لے کر خدا کی بستی ، شہزوری ، الف نون ، سا رے گا ما ، اسٹوڈیو ڈھائی ، ففٹی ففٹی ، اشفاق احمد ، منو بھائی اور امانت علی خان تک ہر طرح کا الم غلم ہضم کرلیتے تھے۔وہ زمانے اور تھے ، لوگ اور تھے ، ملک اور تھا ، آب و ہوا اور تھی۔آج کی ڈسپوز ایبل دنیا کے جلد باز ناظر کے پاس اتنی فرصت کہاں۔آج تو سب بالی وڈ اور ہالی وڈ مانگتا ہے۔اور یہ فیصلہ بھی چینل میں بیٹھ کر ہی ہوجاتا ہے کہ عام آدمی کیا مانگتا ہے۔
اور جب ان نشریاتی حالات میں آپ تیس دن تک صرف اور صرف پاکستانی اردو چینلز کی خوراک پر پل جائیں گے تو اکتیسویں دن میں آپ سے مندرجہ ذیل باتیں پوچھنا پسند کروں گا۔
( اول ) ملک شام میں جاری خانہ جنگی میں اب تک کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔( ساٹھ ، چھ ہزار ، ساٹھ ہزار )
( دوم ) پاکستانی چینلز کے مزاحیہ پروگراموں میں جو خاکے پیش کیے جاتے ہیں، ان میں آصف زرداری ، نواز شریف ، شہباز شریف ، الطاف حسین ، مولانا فضل الرحمان ، رحمان ملک ، یوسف رضا گیلانی ، اسفند یار ، راجہ پرویز اشرف کے علاوہ کسی دسویں آرٹسٹ کا نام بتائیے۔
( سوم ) چینلز پر جو ٹاک شو پیش کیے جاتے ہیں ان میں جو سیاستداں ، سبجیکٹ ایکسپرٹ ، سابق بیورو کریٹ اور ریٹائرڈ جرنیل باقاعدگی سے آتے ہیں، ان کی تعداد سترہ ہے۔اٹھارویں کا نام بتائیے۔
( چہارم ) میں یہ بھی پوچھوں گا کہ آپ نے گذشتہ تیس روز میں ماحولیاتی آلودگی ، تعلیم ، صحت ، قبائلی نظام ، دیہی زندگی کے مسائل،آثارِ قدیمہ کی زبوں حالی ، دوردراز علاقوں میں پنپنے والی ثقافتی سرگرمیوں اور ایک دن فیصل آباد کے ٹیکٹسائل مزدور یا لیاقت پور کے بھٹہ مزدور یا قصور کے ایک سینٹری ورکر کے ساتھ جیسے موضوعات پر کوئی پروگرام ، دستاویزی فلم یا ٹاک شو دیکھا؟
( پنجم ) میں یہ بھی پوچھوں گا کہ کیا آپ نے ان تیس دنوں کے دوران کسی بھی چینل پر کراچی کی بھتہ مافیا ، دیہی علاقوں میں جدید ترین اسلحے کی بھرمار ، اندرونِ بلوچستان ہلاکتوں کے اسباب ، دہشت گردی کے ہلاک شدگان کے اہلِ خانہ کی حالت ، گرفتار خود کش بمباروں کے ذہنی سفر ، کاروں کی اسمگلنگ کے نیٹ ورک ، جعلی ڈگریوں کے کاروبار اور ان جیسے حساس و خطرناک موضوعات پر تحقیقی رپورٹنگ ملاحظہ کی ؟؟؟
کتنا ارمان تھا نا ہم سب کو کہ میڈیا آزاد ہوگا تو یہ کریں گے وہ کریں گے۔کتنی تنقید کیا کرتے تھے کہ سرکاری گرفت نے میڈیا کو کنوئیں کا مینڈک بنا دیا ہے۔کتنا شوق تھا کہ جب ہر نشریاتی زنجیر ٹوٹ جائے گی تو اندر کی خبر آئے گی ، شعور بڑھے گا ، عام آدمی سوال اٹھانے کے قابل بنا دیا جائے گا۔اسے پوری دنیا کی خبر ملے گی تو اس کا ویژ ن وسیع ہوگا اور مذہبی ، سماجی ، سیاسی ، جغرافیائی اور تاریخی سوچ کا تنگ دائرہ ایک بڑے عالمگیر دائرے میں مدغم ہوجائے گا۔
بل بورڈز دیکھیں تو لگتا ہے کہ واقعی انقلاب گیا ہے۔ انفوٹینمنٹ ، انٹرٹینمنٹ۔۔۔فری میڈیا۔۔۔فری فار آل میڈیا۔۔۔۔حقائق کی صنعت ، آدھے سچ کی زراعت ، منٹ کے پورے سچ کی تلاش۔۔۔ری انیکٹمنٹ کے لذیذ ساشے۔۔۔جو سب چھپاتے ہیں، وہ ہم دکھاتے ہیں۔۔۔اب کھولے جائیں گے سب راز۔۔۔۔اب تک کیے، آپ نے فیصلے اب کریں گے ہم فیصلے۔۔۔جو کہوں گا سچ کہوں گا۔۔۔۔۔اب کھلیں کے تمام سربستہ راز عبدالغفور کی زبانی۔۔۔۔نئی ہوش ربا سچی کہانی مہہ جبیں کی زبانی۔۔۔۔ٹو ڈے ود جیرا بلیڈ۔۔۔۔۔کل کی خبر آج محمد اسلم کے ساتھ۔۔۔۔۔
اچھا ہوا یہ کہنے والے جون ایلیا مرگئے،
وہ شورِ حشر ہے اس کی گلی میں
میری فریاد ماری جارہی ہے۔۔
آپ کو محسوس ہوگا کہ دنیا میں صرف ڈیڑھ ممالک ہیں۔پاکستان اور باقی دنیا۔
آپ کو لگے گا کہ حالاتِ حاضرہ کے صرف تین مطلب ہیں۔انفوٹینمنٹ ، انفوٹینمنٹ اور انفوٹینمنٹ۔۔۔
آپ کو یقین آجائے گا کہ صحافت چار موضوعات سے باہر ممکن نہیں۔مقامی جرم و تشدد ، ملکی سیاست ، پاکستانی عدلیہ اور ممبئی مصالحہ۔
آپ کو اچھی طرح سمجھ میں آجائے گا کہ مزاحیہ پروگرام ایسے خاکوں کو کہتے ہیں جس میں صرف حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے کیری کیچرز بنائے جائیں اور ان کے ہم شکل فنکاروں سے وہ گفتگو کرائی جائے جس پر سب سے زیادہ ہنسی ان خاکوں کے مصنف کو ہی آئے۔
آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کسی بھی ڈرامے میں صرف چار سچیویشنز ہی ممکن ہیں۔سازشی سسرال ، ہمدرد میکہ ، شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہیرو ہیروئن اور خوش پوش ہمدرد سفاک ولن یا ولنز۔۔۔
صرف تیس دن مقامی چینلز مسلسل دیکھنے سے آپ پر یہ راز بھی کھلے گا کہ پاکستان میں صرف اعلیٰ ، متوسط اور نیم متوسط شہری طبقہ ہی آباد ہے۔یہاں کوئی کسان ، مزدور ، بچہ اور عورت نہیں رہتی چنانچہ ان سے متعلق موضوعات پر الگ سے پروگرام سازی کی بھی ضرورت نہیں ۔
آپ پر منکشف ہوجائے گا کہ اس ملک میں لوک موسیقی ، لوک تھیٹر ، لوک مزاح ، لوک نثری و شعری ادب جیسی کوئی بدعت نہیں۔لہذا تمام اردو چینلز کو مجبوراً انٹرٹینمٹ کے سلاٹس بھرنے اور قارئین و ناظرین کی بوریت دور کرنے کے لیے بپاشا باسو کے وزن میں کمی ، عامر خان کے نئے ٹی وی پروجیکٹ ، ٹام کروز کے ذہنی انتشار اور لیڈی گاگا کے بال ڈائی کرنے کے جنون وغیرہ کی خبروں پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔
کیا ایران میں بھی کسی سینما کا وجود ہے ، کیا جاپانی فلم انڈسٹری نے بھی کبھی کوئی نادر شاہکار تخلیق کیا ہے ، کیا چین میں بھی اوپرا فروغ پارہا ہے ، کیا مشرقی یورپ کے تھیٹر میں بھی کوئی نیا تجربہ ہورہا ہے ، کیا روسی بیلے ڈانسر اب تک پنجوں پر ناچ رہے ہیں۔کیا عرب دنیا کے میوزک چارٹ میں لیلا غزالی نے کوئی طوفان مچا رکھا ہے۔کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ضرورت بھی کیا ہے معلوم کرنے کی۔ ابھی تو بمشکل یہ خبر پہنچی ہے کہ ترکی میں بھی ہماری ٹکر کا ڈرامہ بننا شروع ہوگیا ہے۔
اب آپ ستر اور اسی کے عشرے کے ناظرین کی گھسی پٹی مثال خدا کے واسطے مت دیجیے گا۔جو کولمبو ، دی سینٹ ، خانم گوگوش ، سکس ملین ڈالر مین سے لے کر خدا کی بستی ، شہزوری ، الف نون ، سا رے گا ما ، اسٹوڈیو ڈھائی ، ففٹی ففٹی ، اشفاق احمد ، منو بھائی اور امانت علی خان تک ہر طرح کا الم غلم ہضم کرلیتے تھے۔وہ زمانے اور تھے ، لوگ اور تھے ، ملک اور تھا ، آب و ہوا اور تھی۔آج کی ڈسپوز ایبل دنیا کے جلد باز ناظر کے پاس اتنی فرصت کہاں۔آج تو سب بالی وڈ اور ہالی وڈ مانگتا ہے۔اور یہ فیصلہ بھی چینل میں بیٹھ کر ہی ہوجاتا ہے کہ عام آدمی کیا مانگتا ہے۔
اور جب ان نشریاتی حالات میں آپ تیس دن تک صرف اور صرف پاکستانی اردو چینلز کی خوراک پر پل جائیں گے تو اکتیسویں دن میں آپ سے مندرجہ ذیل باتیں پوچھنا پسند کروں گا۔
( اول ) ملک شام میں جاری خانہ جنگی میں اب تک کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔( ساٹھ ، چھ ہزار ، ساٹھ ہزار )
( دوم ) پاکستانی چینلز کے مزاحیہ پروگراموں میں جو خاکے پیش کیے جاتے ہیں، ان میں آصف زرداری ، نواز شریف ، شہباز شریف ، الطاف حسین ، مولانا فضل الرحمان ، رحمان ملک ، یوسف رضا گیلانی ، اسفند یار ، راجہ پرویز اشرف کے علاوہ کسی دسویں آرٹسٹ کا نام بتائیے۔
( سوم ) چینلز پر جو ٹاک شو پیش کیے جاتے ہیں ان میں جو سیاستداں ، سبجیکٹ ایکسپرٹ ، سابق بیورو کریٹ اور ریٹائرڈ جرنیل باقاعدگی سے آتے ہیں، ان کی تعداد سترہ ہے۔اٹھارویں کا نام بتائیے۔
( چہارم ) میں یہ بھی پوچھوں گا کہ آپ نے گذشتہ تیس روز میں ماحولیاتی آلودگی ، تعلیم ، صحت ، قبائلی نظام ، دیہی زندگی کے مسائل،آثارِ قدیمہ کی زبوں حالی ، دوردراز علاقوں میں پنپنے والی ثقافتی سرگرمیوں اور ایک دن فیصل آباد کے ٹیکٹسائل مزدور یا لیاقت پور کے بھٹہ مزدور یا قصور کے ایک سینٹری ورکر کے ساتھ جیسے موضوعات پر کوئی پروگرام ، دستاویزی فلم یا ٹاک شو دیکھا؟
( پنجم ) میں یہ بھی پوچھوں گا کہ کیا آپ نے ان تیس دنوں کے دوران کسی بھی چینل پر کراچی کی بھتہ مافیا ، دیہی علاقوں میں جدید ترین اسلحے کی بھرمار ، اندرونِ بلوچستان ہلاکتوں کے اسباب ، دہشت گردی کے ہلاک شدگان کے اہلِ خانہ کی حالت ، گرفتار خود کش بمباروں کے ذہنی سفر ، کاروں کی اسمگلنگ کے نیٹ ورک ، جعلی ڈگریوں کے کاروبار اور ان جیسے حساس و خطرناک موضوعات پر تحقیقی رپورٹنگ ملاحظہ کی ؟؟؟
کتنا ارمان تھا نا ہم سب کو کہ میڈیا آزاد ہوگا تو یہ کریں گے وہ کریں گے۔کتنی تنقید کیا کرتے تھے کہ سرکاری گرفت نے میڈیا کو کنوئیں کا مینڈک بنا دیا ہے۔کتنا شوق تھا کہ جب ہر نشریاتی زنجیر ٹوٹ جائے گی تو اندر کی خبر آئے گی ، شعور بڑھے گا ، عام آدمی سوال اٹھانے کے قابل بنا دیا جائے گا۔اسے پوری دنیا کی خبر ملے گی تو اس کا ویژ ن وسیع ہوگا اور مذہبی ، سماجی ، سیاسی ، جغرافیائی اور تاریخی سوچ کا تنگ دائرہ ایک بڑے عالمگیر دائرے میں مدغم ہوجائے گا۔
بل بورڈز دیکھیں تو لگتا ہے کہ واقعی انقلاب گیا ہے۔ انفوٹینمنٹ ، انٹرٹینمنٹ۔۔۔فری میڈیا۔۔۔فری فار آل میڈیا۔۔۔۔حقائق کی صنعت ، آدھے سچ کی زراعت ، منٹ کے پورے سچ کی تلاش۔۔۔ری انیکٹمنٹ کے لذیذ ساشے۔۔۔جو سب چھپاتے ہیں، وہ ہم دکھاتے ہیں۔۔۔اب کھولے جائیں گے سب راز۔۔۔۔اب تک کیے، آپ نے فیصلے اب کریں گے ہم فیصلے۔۔۔جو کہوں گا سچ کہوں گا۔۔۔۔۔اب کھلیں کے تمام سربستہ راز عبدالغفور کی زبانی۔۔۔۔نئی ہوش ربا سچی کہانی مہہ جبیں کی زبانی۔۔۔۔ٹو ڈے ود جیرا بلیڈ۔۔۔۔۔کل کی خبر آج محمد اسلم کے ساتھ۔۔۔۔۔
اچھا ہوا یہ کہنے والے جون ایلیا مرگئے،
وہ شورِ حشر ہے اس کی گلی میں
میری فریاد ماری جارہی ہے۔۔