حکومت وقت نے مجھے سازش میں پھنسا لیا

فیض صاحب کی زبانی راولپنڈی سازش کیس کی کہانی

فیض صاحب کی زبانی راولپنڈی سازش کیس کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

قصّہ یہ ہے کہ سارا پنڈی سازش کیس وہ ہے جسے بات کا بتنگڑ بنانا کہتے ہیں ۔ چونکہ ہم فوج میں رہ چکے تھے، اس لیے بہت سے فوجی افسر ہمارے دوست تھے۔ ان سے ہمارے ذاتی مراسم تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن سے ہمارے سیاسی نظریات ہم آہنگ تھے۔ قصّہ صرف اتنا تھا کہ ہم لوگوں نے ایک دن بیٹھ کر بات کی کہ اس ملک میں کیا ہونا چاہیے؟ کس طرح سے یہاں کے حالات بہتر بنائے جائیں۔ ملک کو بنے ہوئے چار پانچ سال کا عرصہ گزرچکا تھا اور نہ یہاں آئین بنا ، نہ سیاست کا ڈھانچا ٹھیک طریقے سے منظم ہوا تھا۔

ملک کے بَری، بحری اور ہوائی فوج کے سربراہ لیاقت علی خان تھے۔ کشمیر کا قضیہ بھی تھا۔ غرض اس طرح کے مسائل تھے جن پر عموماً گفتگو رہتی ۔ چونکہ ان دوستوں سے میرے ذاتی مراسم تھے، اس لیے ہم بھی ان کی گفتگو میں شریک ہوتے ۔انہوں نے خود ہی ساری منصوبہ بندی کی اور ہم سے کہا، ہماری بات سنیے! ہم نے ان کی بات سن لی۔ انہوں نے پھر خود ہی فیصلہ کیا کہ حکومت کا تختہ نہیں الٹنا۔ انگریزوں نے سازش کا ایک قانون وضع کیا ہوا ہے کہ اگر تین آدمی ایک جگہ موجود ہوں اور ان میں سے دو آدمی کسی بات پر متفق ہوجائیں اور تیسرا آدمی گواہی دے کہ یہ دونوں اس بات پر متفق ہوگئے تھے تو سازش ثابت ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے ضرورت نہیں رہتی کہ کسی قسم کی عملی کارروائی کی جائے۔

ہمارے معاملے میں اس قانون کے بجائے نیا قانون بنایا گیا تاکہ فوری طور پر صفائی کی جو گنجائش رکھی گئی ہیں، ان کو حذف کیا جاسکے۔ یہ قانون بھی پارلیمنٹ یا نیشنل اسمبلی سے منظور نہیں ہوا، بلکہ اسے قانون ساز اسمبلی نے وضع کیا تھا۔ اور قانون ساز اسمبلی کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔جیسا کہ ہم نے بتایا، ہماری میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ ہمیں حکومت کا تختہ نہیں الٹنا۔کسی نے اوپر جاکر مخبری کردی کہ ہم لوگوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن پھر فیصلہ کیا ہے کہ منصوبے پر عمل نہ کیا جائے۔

لیکن ہم پر مقدمہ اس کے برعکس بنایا گیا۔ دوسری طرف استغاثہ کے جو انچارج تھے، انہوں نے ہمیں بتایا کہ آپ لوگوں کی ساری باتیں ٹھیک تھیں۔ یعنی یہ کہ آپ لوگ ملے تھے، آپ نے گفتگو کی تھی اور آپ نے طے کیا تھا کہ حکومت کا تختہ نہیں الٹنا۔ ہم نے صرف اپنی طرف سے یہ اضافہ کردیا کہ آپ نے حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مزید یہ کہ جن لوگوں نے یہ سارا پلان بنایا تھا۔

سوال: میجر جنرل اکبر خان نے؟

فیض: جی ہاں، انہوں نے ساری بات کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کہ کچھ نہیں کرنا ، جو کاغذات اس سلسلے میں تیار کیے تھے، وہ تلف نہیں کیے ۔ وہ ان کے پاس موجود تھے اور جب کسی نے مخبری کی تو سارے کاغذات نکل آئے اور پھر بات کا بتنگڑ بنایا گیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ حکومت ہمارے دوست فوجی افسروں سے خفا تھی۔ دوسرے حکومت کا شاید یہ تاثر بھی تھا کہ یہ لوگ پوری طرح سے فرماں بردار نہیں ۔لہذا وہ ان سے کسی نہ کسی طرح چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح انہیں ایک اچھا موقع ہاتھ آگیا۔ ہم تو بیچ میں یونہی آگئے۔


سوال: اس واقعے نے تو آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہوں گے؟

فیض: ہم چار سال تک جیل میں رہے۔ بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ پڑھنے لکھنے، دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا۔ ہمارا ضمیر مطمئن تھا کیونکہ ہم نے کچھ کیا ہی نہیں تھا، ہم بے گناہ تھے۔

سوال: ایسی سزا جو بے گناہ اور بے قصور ہونے کے باوجود ملے، کیا شدید غم و غصے اور جھنجھلاہٹ کو جنم نہیں دیتی؟

فیض: غصّہ تو آتا ہے، لیکن اس سے مورال بلند رہتا ہے، ہمت بلند رہتی ہے۔

سوال: کوئی ایسا مرحلہ درمیان میں آیا جب معافی نامہ وغیرہ لکھ کر رہائی پالینے کی پیشکش ہوئی ہو؟

فیض: سازش کیس میں معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لیے ایسا کوئی موقع نہیں آیا۔ البتہ ایوب خان کے دور میں سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے تھے، اس میں پیشکش ہوئی کہ معافی مانگ لو اور رہا ہوجاؤ۔ ظاہر ہے معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

(ڈاکٹر طاہر مسعود کو دئیے گئے انٹرویو سے اقتباس)
Load Next Story