مگرمچھ جو انسانوں کو کچھ نہیں کہتے
منگھوپیر کے تاریخی مزار کا دلچسپ احوال
منگھوپیر کراچی کے قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ تیزی سے پھیلتے شہر کے شمالی حصے میں واقع یہ علاقہ صوفی بزرگ ،منگھو پیر کے مزار کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔صدیوں پرانے مزار کی انوکھی بات یہاں پر موجود بہت بڑا تالاب اور گرم پانی کا چشمہ ہے۔ تالاب میں درجنوں مگرمچھ رہتے ہیں جنہیں مزار پر آنے والے عقیدت مند کھانا کھلاتے ہیں۔لوگوں کا ماننا ہے کہ مگر مچھ صوفی بزرگ سے منسوب ہیں۔علاقے کی قدیم کتب اور انگریز مورخین کی تحریروں میں مزار کا ذکر ملتا ہے۔ کچھ کے مطابق یہ مگرمچھ صدیوں سے یہاں پر موجود ہیں۔
بعض ماہرینِ آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں یہاں مگرمچھوں کی ہزاروں سال پرانی باقیات ملی ہیں۔ برطانوی مصنفین کے مطابق بھی مگرمچھ وہاںہزاروں سال سے موجود ہیں۔منگھوپیر سندھ کی مکرانی اور شیدی برادریوں کے روحانی پیشوا ہیں۔یہ لوگ ان افریقی غلاموں کی اولادیں ہیں جنہیں دسویں تا سترہویں صدی کے دوران عرب، فارسی، ترک اور یورپی حملہ آور یہاں لائے تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر بلوچی بولنے والے مسلمان محنت کش مرد و عورت ہیں جو فٹ بال، باکسنگ، گدھوں کی ریس اور رقص میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔
یہ ہر سال مزار پر سالانہ میلہ منعقد کرتے ہیں جو افریقی طرز پہ منایا جاتا ہے۔
کراچی کے علاقے لیاری میں شیدی بہ اکثریت آباد ہیں۔وہاں گینگ وار اور انتہا پسند پسندوں کے منگھوپیر میں پناہ لینے کی وجہ سے دو سالوں سے یہاں میلہ منعقد نہیں ہو پایا ہے۔رینجرز اور پولیس کا جامع آپریشن علاقے کو کافی حد تک عسکری گروہوں سے خالی کروانے میں کامیاب رہا۔چناں چہ پانچ برس بعد فروری 2017ء میں میلا دھوم دھوم سے منعقد ہوا۔
کہتے ہیں،تیرہویں صدی میں جب منگول عراق پر حملہ کر رہے تھے تو پیر منگھو ہندوستان تشریف لے آئے۔ منگھو نے جنوبی پنجاب اور سندھ سے سفر کرتے ہوئے موجودہ کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔تب کراچی میں ماہی گیروں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد تھے۔ منگھو جس جگہ عبادت کرنے ٹھہرے، وہ الگ تھلگ، ایک پہاڑی کے اوپر قائم اور کھجور کے درختوں سے گھری ہوئی تھی۔جلد ماہی اردگرد کے دیہاتی لوگوں نے انھیں اپنا پیر تسلیم کر لیا۔جب ان کی وفات ہوئی تو مقامی لوگوں نے اسی جگہ چھوٹا سا مزار تعمیر کر ڈالا۔
سائنسدان اور ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ اس جگہ ایک تالاب یا جھیل بھی موجود تھی جس میں سیکڑوں مگر مچھ موجود تھے۔ان کے مطابق جھیل ایک قدیم سیلاب کی وجہ سے وجود میں آئی اور مگر مچھ بھی سیلاب کے ساتھ بہہ کر وہاں پہنچے تھے۔پیر منگھو نے ان مگر مچھوں کے پہلو میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ممکن ہے کہ انھیںکھانادیتے ہوں۔ اسی لیے ایک دیومالائی کہانی نے جنم لیا کہ مگرمچھ اصل میں جوئیں تھیں جو پیرکی معجزانہ طاقتوں سے مگر مچھوں میں تبدیل ہو گئیں۔
کاربن ڈیٹنگ کے مطابق یہاں ملنے والی ہڈیاں کانسی کے دورسے تعلق رکھتی ہیں۔ماہرین آثار قدیمہ کو یہاں سے پیتل کی قدیم اشیا بھی ملی ہیں جن پر موجود نقش و نگار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال پہلے کانسی دور کا ایک قدیم گاؤں آباد تھا۔ممکن ہے،اس کے باشندے مگرمچھوں کی عبادت کرتے ہوں۔کہا جاتا ہے کہ جب پیر منگھو نے یہاں سکونت اختیار کی تو علاقے میں بہت زیادہ سبزہ موجود تھا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تب تک مگرمچھ انسانوں سے مانوس ہو چکے تھے اور خوراک کے لیے پیر کے پیروکاروں پر انحصار کرنے لگے ۔حیرت انگیز بات یہ کہ مزار پر کبھی کسی مگرمچھ نے انسان پر حملہ نہیں کیا۔ مگرمچھ بھی جارح نہیں لیکن مزار کے مجاور خبردار رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔نسل در نسل مگر مچھ یہیں پر جیتے، مرتے اور بچے جنم دیتے ہیں۔ تمام مگرمچھ انہی مگر مچھوں کی نسل سے تعلق سے رکھتے ہیں جو صدیوں پہلے سیلاب کے ساتھ یہاں پہنچے تھے۔دنیا کے مگرمچھوں کے برعکس مزار پر موجود مگرمچھ گوشت سے لے کر مٹھائی تک تقریباً سب کچھ کھا لیتے ہیں۔ماہرین کے نزدیک وجہ یہ ہے کہ نسل در نسل پیروکاروں کے ہاتھوں سے طرح طرح کی خوراک کھا کر اب یہ مگرمچھ تمام چیزیں کھانے کے عادی ہوچکے۔
بعض ماہرینِ آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں یہاں مگرمچھوں کی ہزاروں سال پرانی باقیات ملی ہیں۔ برطانوی مصنفین کے مطابق بھی مگرمچھ وہاںہزاروں سال سے موجود ہیں۔منگھوپیر سندھ کی مکرانی اور شیدی برادریوں کے روحانی پیشوا ہیں۔یہ لوگ ان افریقی غلاموں کی اولادیں ہیں جنہیں دسویں تا سترہویں صدی کے دوران عرب، فارسی، ترک اور یورپی حملہ آور یہاں لائے تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر بلوچی بولنے والے مسلمان محنت کش مرد و عورت ہیں جو فٹ بال، باکسنگ، گدھوں کی ریس اور رقص میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔
یہ ہر سال مزار پر سالانہ میلہ منعقد کرتے ہیں جو افریقی طرز پہ منایا جاتا ہے۔
کراچی کے علاقے لیاری میں شیدی بہ اکثریت آباد ہیں۔وہاں گینگ وار اور انتہا پسند پسندوں کے منگھوپیر میں پناہ لینے کی وجہ سے دو سالوں سے یہاں میلہ منعقد نہیں ہو پایا ہے۔رینجرز اور پولیس کا جامع آپریشن علاقے کو کافی حد تک عسکری گروہوں سے خالی کروانے میں کامیاب رہا۔چناں چہ پانچ برس بعد فروری 2017ء میں میلا دھوم دھوم سے منعقد ہوا۔
کہتے ہیں،تیرہویں صدی میں جب منگول عراق پر حملہ کر رہے تھے تو پیر منگھو ہندوستان تشریف لے آئے۔ منگھو نے جنوبی پنجاب اور سندھ سے سفر کرتے ہوئے موجودہ کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔تب کراچی میں ماہی گیروں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد تھے۔ منگھو جس جگہ عبادت کرنے ٹھہرے، وہ الگ تھلگ، ایک پہاڑی کے اوپر قائم اور کھجور کے درختوں سے گھری ہوئی تھی۔جلد ماہی اردگرد کے دیہاتی لوگوں نے انھیں اپنا پیر تسلیم کر لیا۔جب ان کی وفات ہوئی تو مقامی لوگوں نے اسی جگہ چھوٹا سا مزار تعمیر کر ڈالا۔
سائنسدان اور ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ اس جگہ ایک تالاب یا جھیل بھی موجود تھی جس میں سیکڑوں مگر مچھ موجود تھے۔ان کے مطابق جھیل ایک قدیم سیلاب کی وجہ سے وجود میں آئی اور مگر مچھ بھی سیلاب کے ساتھ بہہ کر وہاں پہنچے تھے۔پیر منگھو نے ان مگر مچھوں کے پہلو میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ممکن ہے کہ انھیںکھانادیتے ہوں۔ اسی لیے ایک دیومالائی کہانی نے جنم لیا کہ مگرمچھ اصل میں جوئیں تھیں جو پیرکی معجزانہ طاقتوں سے مگر مچھوں میں تبدیل ہو گئیں۔
کاربن ڈیٹنگ کے مطابق یہاں ملنے والی ہڈیاں کانسی کے دورسے تعلق رکھتی ہیں۔ماہرین آثار قدیمہ کو یہاں سے پیتل کی قدیم اشیا بھی ملی ہیں جن پر موجود نقش و نگار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال پہلے کانسی دور کا ایک قدیم گاؤں آباد تھا۔ممکن ہے،اس کے باشندے مگرمچھوں کی عبادت کرتے ہوں۔کہا جاتا ہے کہ جب پیر منگھو نے یہاں سکونت اختیار کی تو علاقے میں بہت زیادہ سبزہ موجود تھا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تب تک مگرمچھ انسانوں سے مانوس ہو چکے تھے اور خوراک کے لیے پیر کے پیروکاروں پر انحصار کرنے لگے ۔حیرت انگیز بات یہ کہ مزار پر کبھی کسی مگرمچھ نے انسان پر حملہ نہیں کیا۔ مگرمچھ بھی جارح نہیں لیکن مزار کے مجاور خبردار رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔نسل در نسل مگر مچھ یہیں پر جیتے، مرتے اور بچے جنم دیتے ہیں۔ تمام مگرمچھ انہی مگر مچھوں کی نسل سے تعلق سے رکھتے ہیں جو صدیوں پہلے سیلاب کے ساتھ یہاں پہنچے تھے۔دنیا کے مگرمچھوں کے برعکس مزار پر موجود مگرمچھ گوشت سے لے کر مٹھائی تک تقریباً سب کچھ کھا لیتے ہیں۔ماہرین کے نزدیک وجہ یہ ہے کہ نسل در نسل پیروکاروں کے ہاتھوں سے طرح طرح کی خوراک کھا کر اب یہ مگرمچھ تمام چیزیں کھانے کے عادی ہوچکے۔