امریکا کی خونی سرنگ جس نے سیکڑوں مزدوروں کی جانیں لے لیں
1868ء میں تعمیراتی کمپنی نے ایک تفتیش کار کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ عجیب و غریب آوازوں کی حقیقت کا سراغ لگا سکے۔
ISLAMABAD:
دنیا بھر میں ایسی جگہیں ملتی ہیں جن کے ساتھ خوفناک اور ڈراؤنے حادثے وابستہ ہیں۔انہی جگہوں میں ''ہوسیک سرنگ'' (Hoosac Tunnel)بھی شامل ہے ۔امریکی ریاست،میساچوٹس کے پہاڑی علاقے میں واقع یہ سرنگ دیکھنے میں تو معمولی لگتی ہے لیکن اس کے ساتھ خوفناک واقعات جڑے ہیں ۔ اسی لیے سرنگ کو ''خونی سرنگ'' بھی کہا جاتا ہے۔
اس 4.75 میل طویل سرنگ کی تعمیر کا آغاز 1851 میں ہوا۔ یہ سرنگ مغربی میساچوٹس کو نیویارک سے ملانے کے لیے تعمیر کی گئی۔ بدقسمتی سے تعمیر کے آغاز ہی میں یہ خونی سرنگ میں تبدیل ہوگئی۔ تعمیر کے دوران کم سے کم 200 مزدور ہلاک ہوئے۔حیران کن بات یہ کہ زیادہ تر اموات ان دھماکوں کی وجہ سے ہوئیں جوکھدائی کے واسطے کیے گئے تھے۔چونکا دینے والا مارچ 1865 میں پیش آیا جب دھماکے کرنے والے تین ماہرین، نیڈ برکمین،بلی نیش اور رنگو کیلی نے دھماکوں کے لیے نائٹرو گلیسرین استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ ایجاد تھی تعمیرات کے لیے زیادہ سے زیادہ زمینی حصے صاف کرنے کے کام آتی تھی۔
ماہرین نے منصوبہ بنایاکہ دھماکے کنکریٹ سے تیارکردہ شیلٹر کے پیچھے چھپ کر کیے جائیںتاکہ وہ محفوظ رہیں ۔اس مقصد کے تحت کیلی نے ایک کنکریٹ بلاک تیار کر لیا۔ تاہم باقی دو ماہرین نے یہ حفاظتی قدم نہیں اٹھایا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کیلی نے تو اپنے تیار کردہ شیلٹر کے پیچھے چھپ کر جان بچا لی لیکن دھماکے کی وجہ سے باقی دو ماہرین ہلاک ہوگئے۔ایسا اس نے دانستہ کیا تھا۔
واقعے کے بعد کیلی غائب ہوگیا اور اس کا کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ ایک سال گزرنے کے بعد کیلی کی لاش ٹھیک اسی مقام سے ملی جہاں دونوں ماہرین ہلاک ہوئے تھے۔ابتدا میں پولیس کا خیال تھا کہ شاید کیلی کو کسی نے قتل کیا ہے۔ لیکن پولیس کوئی شواہد دھونڈنے میں ناکام رہی اور یہ معاملہ پُراسرار ہوگیا۔چند سال بعد سرنگ کی تعمیر کرنے والے مزدوروں کو سرنگ سے عجیب و غریب آوازیں سنائی دینے لگیں۔چناں چہ اکثر ملازمین نے غروب آفتاب کے بعد کام کرنے سے ہی انکار کردیا۔یوں سرنگ کی تعمیر پھر متاثر ہو گئی۔
1868ء میں تعمیراتی کمپنی نے ایک تفتیش کار کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ عجیب و غریب آوازوں کی حقیقت کا سراغ لگا سکے۔ تفتیش کار کو ایک رات سرنگ میں سے شخص کے رونے کی آوازیں سنائی دیں لیکن اسے کوئی دکھائی نہیں دیا۔ ایک دن کام کے دوران اچانک گیس کا دھماکہ ہوا جس سے سرنگ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا۔ملبے میں دب کر 13 افراد ہلاک ہوگئے۔ دیگر ملازمین اور زیادہ خوفزدہ ہوگئے تاہم سرنگ کی تعمیر کا کام مسلسل جاری بھی رہا۔لیکن کام کرنے والوں کا واسطہ عجیب و غریب آوازوں سے پڑتا رہا۔آخر 1873ء میں سرنگ مکمل ہو گئی لیکن مقامی افراد اب بھی اس کے قریب جانے سے ڈرتے ہیں۔ ایک بڑی وجہ اس سے وابستہ ڈراؤنی اور خوفناک کہانیاں ہیں۔
(صدف عباس)
دنیا بھر میں ایسی جگہیں ملتی ہیں جن کے ساتھ خوفناک اور ڈراؤنے حادثے وابستہ ہیں۔انہی جگہوں میں ''ہوسیک سرنگ'' (Hoosac Tunnel)بھی شامل ہے ۔امریکی ریاست،میساچوٹس کے پہاڑی علاقے میں واقع یہ سرنگ دیکھنے میں تو معمولی لگتی ہے لیکن اس کے ساتھ خوفناک واقعات جڑے ہیں ۔ اسی لیے سرنگ کو ''خونی سرنگ'' بھی کہا جاتا ہے۔
اس 4.75 میل طویل سرنگ کی تعمیر کا آغاز 1851 میں ہوا۔ یہ سرنگ مغربی میساچوٹس کو نیویارک سے ملانے کے لیے تعمیر کی گئی۔ بدقسمتی سے تعمیر کے آغاز ہی میں یہ خونی سرنگ میں تبدیل ہوگئی۔ تعمیر کے دوران کم سے کم 200 مزدور ہلاک ہوئے۔حیران کن بات یہ کہ زیادہ تر اموات ان دھماکوں کی وجہ سے ہوئیں جوکھدائی کے واسطے کیے گئے تھے۔چونکا دینے والا مارچ 1865 میں پیش آیا جب دھماکے کرنے والے تین ماہرین، نیڈ برکمین،بلی نیش اور رنگو کیلی نے دھماکوں کے لیے نائٹرو گلیسرین استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ ایجاد تھی تعمیرات کے لیے زیادہ سے زیادہ زمینی حصے صاف کرنے کے کام آتی تھی۔
ماہرین نے منصوبہ بنایاکہ دھماکے کنکریٹ سے تیارکردہ شیلٹر کے پیچھے چھپ کر کیے جائیںتاکہ وہ محفوظ رہیں ۔اس مقصد کے تحت کیلی نے ایک کنکریٹ بلاک تیار کر لیا۔ تاہم باقی دو ماہرین نے یہ حفاظتی قدم نہیں اٹھایا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کیلی نے تو اپنے تیار کردہ شیلٹر کے پیچھے چھپ کر جان بچا لی لیکن دھماکے کی وجہ سے باقی دو ماہرین ہلاک ہوگئے۔ایسا اس نے دانستہ کیا تھا۔
واقعے کے بعد کیلی غائب ہوگیا اور اس کا کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ ایک سال گزرنے کے بعد کیلی کی لاش ٹھیک اسی مقام سے ملی جہاں دونوں ماہرین ہلاک ہوئے تھے۔ابتدا میں پولیس کا خیال تھا کہ شاید کیلی کو کسی نے قتل کیا ہے۔ لیکن پولیس کوئی شواہد دھونڈنے میں ناکام رہی اور یہ معاملہ پُراسرار ہوگیا۔چند سال بعد سرنگ کی تعمیر کرنے والے مزدوروں کو سرنگ سے عجیب و غریب آوازیں سنائی دینے لگیں۔چناں چہ اکثر ملازمین نے غروب آفتاب کے بعد کام کرنے سے ہی انکار کردیا۔یوں سرنگ کی تعمیر پھر متاثر ہو گئی۔
1868ء میں تعمیراتی کمپنی نے ایک تفتیش کار کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ عجیب و غریب آوازوں کی حقیقت کا سراغ لگا سکے۔ تفتیش کار کو ایک رات سرنگ میں سے شخص کے رونے کی آوازیں سنائی دیں لیکن اسے کوئی دکھائی نہیں دیا۔ ایک دن کام کے دوران اچانک گیس کا دھماکہ ہوا جس سے سرنگ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا۔ملبے میں دب کر 13 افراد ہلاک ہوگئے۔ دیگر ملازمین اور زیادہ خوفزدہ ہوگئے تاہم سرنگ کی تعمیر کا کام مسلسل جاری بھی رہا۔لیکن کام کرنے والوں کا واسطہ عجیب و غریب آوازوں سے پڑتا رہا۔آخر 1873ء میں سرنگ مکمل ہو گئی لیکن مقامی افراد اب بھی اس کے قریب جانے سے ڈرتے ہیں۔ ایک بڑی وجہ اس سے وابستہ ڈراؤنی اور خوفناک کہانیاں ہیں۔
(صدف عباس)