کنٹرول لائن پر حالیہ کشیدگی کو بھارت نے بڑھاوا دیا
پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کے تحت دونوں اطراف کی فوجیں جارحیت سے اجتناب کریں گی۔
کشمیر کو جنت نظیر کہاجاتا ہے مگر گزشتہ 65برس سے یہ خطہ بھارت کے غاصبانہ قبضے اور ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے انتہائی نامساعد حالات کا شکار ہے۔
پاکستانی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہر طریقہ اپنایا مگر بھارتی ہٹ دھرمی ہمیشہ آڑے آتی رہی، کبھی معاہدہ کرکے اسے پورا نہ کیا گیا اورکبھی مذاکرات کو اتنا طول دیا گیا کہ بات مذاکرات تک ہی رہ گئی اور کوئی حل نہ نکل سکا۔
9برس قبل جنرل مشرف کے دور حکومت میںپاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا معاہد طے پا گیا تھا جس کے تحت دونوں اطراف کی فوجوں کو پابند کر دیا گیا کہ کسی قسم کی جارحیت سے مکمل اجتناب کیا جائے گا۔ 9سال تو خیرو عافیت سے گزر گئے اور کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا ، مگر گزشتہ سال کے آخری مہینے میں بھارتی فوج کو پتہ نہیں اچانک کیا سوجھی کہ انھوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے ہجیرہ سیکٹر میں گولہ باری شروع کر دی جس سے مدار پور ، بٹل اور سہڑا کے دیہات بری طرح متاثر ہوئے اور ایک شہری شہید اور دو زخمی ہوگئے، بھارت کنٹرول لائن پر جارحیت کا ارتکاب کرنے کے بعد ہمیشہ ایک ہی بہانہ کر تا ہے کہ پاکستان کی طرف سے دراندازی ہوئی ہے، حسب معمول اس مرتبہ بھی یہی بہانہ کیا گیا اور سارا الزام پاکستان پر تھوپ دیا گیا ۔ پاکستانی افواج نے بھارتی جارحیت کا جواب گولہ باری سے دیا۔
یوں عرصہ دراز سے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا خود بخود خاتمہ ہو گیا ۔دو ماہ کے دوران لائن آف کنٹرول پر پاکستانی او ر بھارتی فورسز میں تین مرتبہ جھڑپیں ہوئیں جن میں پاکستان کے دو فوجی شہید اور ایک زخمی ہوا۔ بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا کہ دو بھارتی فوجیوں کے سر قلم کر دئیے گئے اور یہ کام پاکستانی فوجیوں نے رات کو بارڈر پار کر کے کیا ۔ بھارت نے پاکستانی فوجیوں پر الزام تو لگا دیا مگر اس نے یہ نہیں سوچا کہ موجودہ کشیدہ صورتحال میں سرحد پار کر کے مخالف فوجیوں کے سر قلم کر کے واپس اپنی چوکیوں پر چلے جانا کوئی آسان کام نہیں، ہو سکتا ہے خود ان کے اپنے ہی زیر تسلط علاقے کے کچھ افراد نے یہ کام سرانجام دیا ہو۔ پاکستانی حکام نے بھارت کے واویلا مچانے پر کہا کہ سارے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جانی چاہئے جس کے لئے اقوام متحدہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے تو بھارت نے یہ کہہ کر تحقیقات کرانے سے انکار کر دیا کہ پاکستان جان بوجھ کر معاملات کو عالمی سطح تک لے جانے کے لئے ایسا کرتا ہے تا کہ کشمیر ایشو نمایاں رہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری کے لئے بھرپور کوششیں کی جا رہی تھیں اور اس کے لئے تجارتی روابط بھی بڑھائے گئے ، کھیلوں کے میدان میں بھی پیش رفت ہوئی ، حتٰی کہ پاکستان نے خیر سگالی کے لئے بھارت کو پاکستان کا پسندیدہ ملک قرار دے دیا۔ اس کے باوجود بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن پر جارحیت کی ابتدا پر سب حیران ہو گئے اور وہ لوگ جو یہ کہہ رہے تھے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی استواری میں اس حد تک آگے نہیں بڑھنا چاہئے انھیں گویا دوبارہ اپنے موقف پر اصرار کرنے کا موقع مل گیا ۔
بھارت ہمیشہ سے پاکستان پر ہی الزامات لگاتا آیا ہے کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں تربیتی کیمپ کھولے ہوئے ہیں اور وہ دہشت گردی میں ملوث ہے، اس مسئلے کو اس نے عالمی سطح پر بھی بہت اچھالا اور پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، اس کا پول اس کے اپنے ہی وزیر داخلہ کے ذریعے کھل گیا جس میں ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس ہندو دہشت گردی کے کیمپ چلا رہے ہیں اور سمجھوتہ ایکسپریس میں، مکہ مسجد اور دیگر مقدس مقامات پر دہشت گردی میں بھی انہی کا ہاتھ تھا،تحقیقاتی ایجنسیوں کی رپورٹ میں ایسے دس ایسے افراد شامل تھے جن کے خلاف دہشت گردی کے ثبوت ہیں،ان کا تعلق راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس )سے ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ کے اس بیان کے بعد ہندو انتہاپسند تنظیموں نے خوب واویلا مچایا مگر تیر تو کمان سے نکل چکا تھا ۔
اس کے بعد بھارتی سیکرٹری داخلہ نے بیان دیا کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں دہشت گردی کے اڈے چلا رہی ہیں جن میں انتہا پسند ہندوئوں کو دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ بھارتی سیکرٹری داخلہ نے اقرار کیا کہ پاک بھارت سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے میں ملوث افراد کی شناخت ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے دو واقعات مکہ مسجد اور درگاہ شریف میں ملوث دس افراد کی نشاندہی ہو گئی ان کا تعلق آر ایس ایس سے ہے جس کے ثبوت موجود ہیں ۔ ان بیانات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہندو انتہا پسند تنظیمیں اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے کس حد تک جا سکتی ہیں۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کو ان ہندو انتہا پسند تنظیموں کے دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہونے کے بارے میں کیا اب پتہ چلا ہے؟ کیونکہ بھارت اورمقبوضہ کشمیر میں تو دہشت گردی کی کاروائیاں سالہا سال سے جاری ہیںاور یہی انتہا پسند ہندو تنظیمیں وہاں عرصہ دراز سے دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں، بھارتی مسلح فورسز کو ان کے حوالے سے سب علم ہے مگر وہ جان بوجھ کر نظر انداز کرتی ہیں کیونکہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جن میں بھارتی مسلح افواج خود ملوث ہیں اور اس کے باقاعدہ ثبوت مل چکے ہیں ، مگر بھارتی حکومت نے کبھی بھی ایسے کرپٹ فوجیوں کے خلاف کاروائی نہیں بلکہ ان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے کا جواز تسلیم کر لیا گیا ۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے دوران کیا خواتین اور بچے بھی مارے جاتے ہیں یا پھر کوئی نتہا شہری فوجیوں کی اندھی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے تو اسے زبردستی دہشت گردوں کا ساتھی قرار دے دیا جاتا ہے۔
ایک طرف تو بھارتی حکام کے کشمیر کے حوالے سے ایسے بیانات ہیں جن سے خود ان کی منافقانہ پالیسیوں کا پردہ چاک ہو ا تو دوسری طرف بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بیان دیا کہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کے لئے مذاکرات کا سہارا لیں گے ، لائن آف کنٹرول جیسے تنازعات مذاکراتی عمل سے حل ہونے چاہئیں، ماضی میں بھی دونوں ملکوں میں تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کئے جا چکے ہیں ، پاکستان کے ساتھ تنازعات پر بات چیت کے لئے پالیسی وضع کی جا رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تنازعات دونوں ملکوں کا مسئلہ ہے اور انھیں باہمی طور پر حل ہونا چاہئے۔
مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ ایک طرف تو مذاکرات کی باتیں تو دوسری طرف بھارت نے لائن آف کنٹرول سے غیر جانبدار فوجی مبصر ہٹانے کا مطالبہ کر دیا، اقوام متحدہ نے بھارتی مطالبہ مسترد کر دیا ، بھارت کی طرف سے یہ مطالبہ واضح ثبوت ہے کہ بھا رت کے ارادے کچھ اور ہی ہیں ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان مارٹن نے اس حوالے سے بیان دیا کہ صرف سلامتی کونسل ہی کشمیر کے متنازع خطے میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی نگرانی کرنے والے فوجی مبصر مشن کو ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
ایک طرف تو بھارت کشمیر سمیت تمام مسئلے مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے، دوسری طرف لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت اور پاکستان پر الزام تراشی اس کے دھرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے مبصر کو لائن آف کنٹرول سے ہٹانے کا مطالبہ تو انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ اقوام متحدہ ہی وہ ادارہ ہے جو مختلف ممالک کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کا فیصلہ کرتا ہے ، یہ تو تاریخ کا اہم باب ہے کہ کشمیر کے حوالے سے زیادہ تر قراردادیں اقوام متحدہ کے فورم سے ہی پیش گئی گئیں اور معاہدوں کو دونوں ممالک نے تسلیم بھی کیا، اب اگر بھارت اقوام متحدہ کے کردار سے ہی منحرف ہو رہا ہے تو اس سے اس کی بدنیتی عیاں ہو جاتی ہے۔
پاکستانی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہر طریقہ اپنایا مگر بھارتی ہٹ دھرمی ہمیشہ آڑے آتی رہی، کبھی معاہدہ کرکے اسے پورا نہ کیا گیا اورکبھی مذاکرات کو اتنا طول دیا گیا کہ بات مذاکرات تک ہی رہ گئی اور کوئی حل نہ نکل سکا۔
9برس قبل جنرل مشرف کے دور حکومت میںپاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا معاہد طے پا گیا تھا جس کے تحت دونوں اطراف کی فوجوں کو پابند کر دیا گیا کہ کسی قسم کی جارحیت سے مکمل اجتناب کیا جائے گا۔ 9سال تو خیرو عافیت سے گزر گئے اور کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا ، مگر گزشتہ سال کے آخری مہینے میں بھارتی فوج کو پتہ نہیں اچانک کیا سوجھی کہ انھوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے ہجیرہ سیکٹر میں گولہ باری شروع کر دی جس سے مدار پور ، بٹل اور سہڑا کے دیہات بری طرح متاثر ہوئے اور ایک شہری شہید اور دو زخمی ہوگئے، بھارت کنٹرول لائن پر جارحیت کا ارتکاب کرنے کے بعد ہمیشہ ایک ہی بہانہ کر تا ہے کہ پاکستان کی طرف سے دراندازی ہوئی ہے، حسب معمول اس مرتبہ بھی یہی بہانہ کیا گیا اور سارا الزام پاکستان پر تھوپ دیا گیا ۔ پاکستانی افواج نے بھارتی جارحیت کا جواب گولہ باری سے دیا۔
یوں عرصہ دراز سے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا خود بخود خاتمہ ہو گیا ۔دو ماہ کے دوران لائن آف کنٹرول پر پاکستانی او ر بھارتی فورسز میں تین مرتبہ جھڑپیں ہوئیں جن میں پاکستان کے دو فوجی شہید اور ایک زخمی ہوا۔ بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا کہ دو بھارتی فوجیوں کے سر قلم کر دئیے گئے اور یہ کام پاکستانی فوجیوں نے رات کو بارڈر پار کر کے کیا ۔ بھارت نے پاکستانی فوجیوں پر الزام تو لگا دیا مگر اس نے یہ نہیں سوچا کہ موجودہ کشیدہ صورتحال میں سرحد پار کر کے مخالف فوجیوں کے سر قلم کر کے واپس اپنی چوکیوں پر چلے جانا کوئی آسان کام نہیں، ہو سکتا ہے خود ان کے اپنے ہی زیر تسلط علاقے کے کچھ افراد نے یہ کام سرانجام دیا ہو۔ پاکستانی حکام نے بھارت کے واویلا مچانے پر کہا کہ سارے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جانی چاہئے جس کے لئے اقوام متحدہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے تو بھارت نے یہ کہہ کر تحقیقات کرانے سے انکار کر دیا کہ پاکستان جان بوجھ کر معاملات کو عالمی سطح تک لے جانے کے لئے ایسا کرتا ہے تا کہ کشمیر ایشو نمایاں رہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری کے لئے بھرپور کوششیں کی جا رہی تھیں اور اس کے لئے تجارتی روابط بھی بڑھائے گئے ، کھیلوں کے میدان میں بھی پیش رفت ہوئی ، حتٰی کہ پاکستان نے خیر سگالی کے لئے بھارت کو پاکستان کا پسندیدہ ملک قرار دے دیا۔ اس کے باوجود بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن پر جارحیت کی ابتدا پر سب حیران ہو گئے اور وہ لوگ جو یہ کہہ رہے تھے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی استواری میں اس حد تک آگے نہیں بڑھنا چاہئے انھیں گویا دوبارہ اپنے موقف پر اصرار کرنے کا موقع مل گیا ۔
بھارت ہمیشہ سے پاکستان پر ہی الزامات لگاتا آیا ہے کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں تربیتی کیمپ کھولے ہوئے ہیں اور وہ دہشت گردی میں ملوث ہے، اس مسئلے کو اس نے عالمی سطح پر بھی بہت اچھالا اور پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، اس کا پول اس کے اپنے ہی وزیر داخلہ کے ذریعے کھل گیا جس میں ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس ہندو دہشت گردی کے کیمپ چلا رہے ہیں اور سمجھوتہ ایکسپریس میں، مکہ مسجد اور دیگر مقدس مقامات پر دہشت گردی میں بھی انہی کا ہاتھ تھا،تحقیقاتی ایجنسیوں کی رپورٹ میں ایسے دس ایسے افراد شامل تھے جن کے خلاف دہشت گردی کے ثبوت ہیں،ان کا تعلق راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس )سے ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ کے اس بیان کے بعد ہندو انتہاپسند تنظیموں نے خوب واویلا مچایا مگر تیر تو کمان سے نکل چکا تھا ۔
اس کے بعد بھارتی سیکرٹری داخلہ نے بیان دیا کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں دہشت گردی کے اڈے چلا رہی ہیں جن میں انتہا پسند ہندوئوں کو دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ بھارتی سیکرٹری داخلہ نے اقرار کیا کہ پاک بھارت سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے میں ملوث افراد کی شناخت ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے دو واقعات مکہ مسجد اور درگاہ شریف میں ملوث دس افراد کی نشاندہی ہو گئی ان کا تعلق آر ایس ایس سے ہے جس کے ثبوت موجود ہیں ۔ ان بیانات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہندو انتہا پسند تنظیمیں اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے کس حد تک جا سکتی ہیں۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کو ان ہندو انتہا پسند تنظیموں کے دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہونے کے بارے میں کیا اب پتہ چلا ہے؟ کیونکہ بھارت اورمقبوضہ کشمیر میں تو دہشت گردی کی کاروائیاں سالہا سال سے جاری ہیںاور یہی انتہا پسند ہندو تنظیمیں وہاں عرصہ دراز سے دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں، بھارتی مسلح فورسز کو ان کے حوالے سے سب علم ہے مگر وہ جان بوجھ کر نظر انداز کرتی ہیں کیونکہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جن میں بھارتی مسلح افواج خود ملوث ہیں اور اس کے باقاعدہ ثبوت مل چکے ہیں ، مگر بھارتی حکومت نے کبھی بھی ایسے کرپٹ فوجیوں کے خلاف کاروائی نہیں بلکہ ان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے کا جواز تسلیم کر لیا گیا ۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے دوران کیا خواتین اور بچے بھی مارے جاتے ہیں یا پھر کوئی نتہا شہری فوجیوں کی اندھی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے تو اسے زبردستی دہشت گردوں کا ساتھی قرار دے دیا جاتا ہے۔
ایک طرف تو بھارتی حکام کے کشمیر کے حوالے سے ایسے بیانات ہیں جن سے خود ان کی منافقانہ پالیسیوں کا پردہ چاک ہو ا تو دوسری طرف بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بیان دیا کہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کے لئے مذاکرات کا سہارا لیں گے ، لائن آف کنٹرول جیسے تنازعات مذاکراتی عمل سے حل ہونے چاہئیں، ماضی میں بھی دونوں ملکوں میں تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کئے جا چکے ہیں ، پاکستان کے ساتھ تنازعات پر بات چیت کے لئے پالیسی وضع کی جا رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تنازعات دونوں ملکوں کا مسئلہ ہے اور انھیں باہمی طور پر حل ہونا چاہئے۔
مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ ایک طرف تو مذاکرات کی باتیں تو دوسری طرف بھارت نے لائن آف کنٹرول سے غیر جانبدار فوجی مبصر ہٹانے کا مطالبہ کر دیا، اقوام متحدہ نے بھارتی مطالبہ مسترد کر دیا ، بھارت کی طرف سے یہ مطالبہ واضح ثبوت ہے کہ بھا رت کے ارادے کچھ اور ہی ہیں ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان مارٹن نے اس حوالے سے بیان دیا کہ صرف سلامتی کونسل ہی کشمیر کے متنازع خطے میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی نگرانی کرنے والے فوجی مبصر مشن کو ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
ایک طرف تو بھارت کشمیر سمیت تمام مسئلے مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے، دوسری طرف لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت اور پاکستان پر الزام تراشی اس کے دھرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے مبصر کو لائن آف کنٹرول سے ہٹانے کا مطالبہ تو انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ اقوام متحدہ ہی وہ ادارہ ہے جو مختلف ممالک کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کا فیصلہ کرتا ہے ، یہ تو تاریخ کا اہم باب ہے کہ کشمیر کے حوالے سے زیادہ تر قراردادیں اقوام متحدہ کے فورم سے ہی پیش گئی گئیں اور معاہدوں کو دونوں ممالک نے تسلیم بھی کیا، اب اگر بھارت اقوام متحدہ کے کردار سے ہی منحرف ہو رہا ہے تو اس سے اس کی بدنیتی عیاں ہو جاتی ہے۔