مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین

پاکستان نے جس طرح ماضی میں کشمیر کے مسئلہ کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا تھا،اب اس طرح کی کوشش ہوتی نظر نہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جہاں دنیا میں متعدد تبدیلیاں رونما ہوئیں وہاں ایشیاء میں برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کی آزادی بھی ایک اہم ترین عوامل میں سے ایک تھی۔البتہ پاکستان اورہندوستان دو الگ الگ ریاستیں بن گئیں ۔ دونوںنے اپنی علیحدہ علیحدہ حکومتیں بھی قائم کیں۔دونوں ممالک نے بین الاقوامی تعلقات میں بھی تیز رفتاری سے کام لیا۔اسی طرح ایشیاء کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں بھی عظیم تبدیلیاں رونما ہوئیں جن میں سب سے بڑی اور خطرناک تبدیلی فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں سامنے آئی اور اسی طرح ایشیاء میں کشمیر نامی خطہ اور سر سبز و شاداب وادی ہندو سامراج کے قبضے میں چلی گئی۔

مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین دو علیحدہ خطے اور جدا مسائل ہیں مگر ان مسائل کا حل ایک ہی ہے۔دونوں مسئلوں کے مابین مشترکات پائی جاتی ہیں۔پہلی مشترک بات یہ ہے کہ دونوں خطوں پر دو الگ الگ شکل مگر ایک ہی ذہنیت کے سامراج نے غاصبانہ قبضہ کیا۔یعنی 1947 میں پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی ہندوستان نے کشمیر پر قبضہ کی ٹھان لی اسی طرح کئی برسوں سے کی جانے والی بوڑھے استعمار برطانیہ کی ناپاک سازشوں کے نتیجے میں صیہونیوں نے سر زمین انبیاء فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔یعنی 1948ء میں کشمیر اور فلسطین دونوں مقبوضہ ہو چکے تھے۔ایک طرف صیہونزم سوچ کارفرما تھی اور دوسری طرف برہمنزم سوچ کار فرما تھی۔

دونوں طرف دنیا کی بڑی لادین قوتیں جو انسانوں کو اپنے سامنے اچھوت سمجھتی ہیں دنیا پر قبضے کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ایک طرف برہمن سوچ جو خود کو ہندوستان کی سب سے اعلیٰ قوم سمجھتی ہے دوسری طرف صیہونزم جو کسی اور کو اپنے سامنے کچھ نہیں سمجھتے۔دونوں کے درمیان مشترک بات یہ ہے کہ دونوں خود کو اعلیٰ ترین قوم سمجھتے ہیں اور دنیا میں بسنے والے دیگر انسانوں کی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔

بات کشمیر کی ہو تو وادی کشمیر اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک اہم اسٹرٹیجک علاقہ بھی ہے اور وسائل سے مالا مال بھی۔اگر بات فلسطین کی کریں تو فلسطین بین الاقوامی تجارت کے اعتبار سے اہم ترین خطہ اور بہترین وسائل کی جگہ ہے۔یعنی نہر سوئز۔

1948ء میں دونوں خطوں پر عالمی استعماری طاقتوں امریکا،برطانیہ،فرانس اور دیگر ممالک کی سازشوں کے سبب قبضہ کر لیا گیا۔یہاں کشمیر کی آزادی کے لیے 1948ء ، 1951ء،1965ء سمیت متعدد چھوٹے بڑے آپریشن ہوئے جس کے نتیجے میں کشمیر کا آدھا حصہ جسے آزاد کشمیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے آزاد کر لیا گیا۔البتہ ان جنگوں میں کئی اہم بہادر ان صف شکن شہید ہوئے جن میں کیپٹن سرور،میجر طفیل اور دیگر نامور شہداء ہیں۔واضح رہے کہ کیپٹن سرور کشمیر کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں شہید ہوئے اور پاکستان میں ان کو پہلا نشان حیدر (سب سے بڑا فوجی اعزاز) دیا گیا۔

دوسری طرف فلسطین میں بھی 1948ء ، 1952 ء، 1967ء، 1971ء سمیت متعدد موقعوں پر کئی جنگیں ہوئیں جس کے نتیجے میں فلسطین دو حصوں میں تقسیم ہوا ۔ایک حصے کو غزہ کہا جاتا ہے جب کہ دوسرا حصہ مغربی کنارہ یعنی یروشلم کہلاتا ہے۔البتہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس فلسطین میں ہے اور فلسطین انبیاء علیہم السلام کی سر زمین ہے۔

اب کشمیر ہو یا فلسطین دونوں خطو ں میں ایک ہی جیسے مظالم کی داستانیں ہیں۔کشمیر میں بھارتی قابض افواج نے کشمیریوں پر زندگی تنگ کر رکھی ہے جب کہ فلسطین میں غاصب اسرائیلی افواج نے فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم کی داستانیں رقم کر دی ہیں۔کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کی جو اہم مثالیں نظر آتی ہیں ان میں بچوں پر تشدد،خواتین کی بے حرمتی اور تشدد،نوجوانوں کو جیلوں کی سلاخوں میں قید کرنا،کشمیری تحریک کے رہنمائوں کو قتل کرنا سمیت ہر وہ ظلم کی داستان نظر آتی ہے جو انسان کے دل کو دہلا دیتا ہے۔ اسی طرح فلسطین میں بھی اسی طرح کے بلکہ اس سے بھی زیادہ خطر ناک اور پر سوز مظالم کی داستانیں آئے روز مظلوم فلسطینیو ں کے درد و غم میں اضافہ کر رہے ہیں۔

مظلوم کشمیریوں او ر مظلوم فلسطینیوں نے ان دونوںغاصبوں (بھارت اور اسرائیل) سے اپنی جان آزاد کروانے کے لیے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ مزاحمت اور جہاد کا راستہ اختیار کیا۔ایک طرف فلسطینیوں نے اپنی آزادی کے لیے انتفاضہ کی تحریک کا آغاز کیا تو دوسری جانب کشمیریوںنے انتفاضہ کی تحریک کا دامن تھام لیا اور غاصب بھارتی افواج کے سامنے سینہ سپر ہو ئے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مزاحمت کرنے لگے۔دشمن اسی مزاحمت سے خوفزدہ ہوتا ہے کیونکہ غاصب بھارتی ہوں یا اسرائیلی دونوں ہی مزاحمت اور جہاد سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کی مزاحمت ہو یا فلسطینیوں کی مزاحمت دونوں ہی کے نتیجے میں مظلوموں کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی ہے اور غاصب درندوں(بھارت اور اسرائیل) کو بد ترین شکست کا سامنا رہاہے۔


مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین ،ان دونوں مسائل میں اقوام متحدہ نے بھی کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی اور اگر کبھی کشمیر اور فلسطین کے حق میں کوئی قرار دادیں منطور ہوئی بھی ہیں تو دونوں سامراجی دہشت گرد وں(برہمنزم اور صیہونزم کے پیرو کاروں)نے ان قرار دادوں پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا اور نہ خود ان قرار دادوں کو کوئی اہمیت دی۔یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین ان قرار دادوں سے آزاد ہو سکے نہ ہی کوئی حل نکل سکا۔

آج بھی 5فروری ہے اور پاکستان بھر سمیت دنیا بھر کے کشمیری اس دن کو ''یوم یکجہتی کشمیر '' کے عنوان سے منا رہے ہیں۔اسی طرح ہر سال 15مئی کو فلسطینی بھی فلسطین بھر اور دنیا بھر میں اس دن کو ''یوم نکبہ'' مناتے ہیں۔لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج 65برس گزر جانے کے بعد بھی آخر ان مظلوموں کی داد رسی کو کوئی کیوں نہیں پہنچا ؟ آخر ایسی کیا وجوہات ہیں جس کی بنا پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو دونوں غاصب دہشت گرد قوتیں اپنے پیروں تلے روند رہی ہیں؟سوال یہ بھی ہے کہ کیا کشمیری ہمارے بھائی نہیں؟کیا فلسطین میں بسنے والے انسان نہیں؟ کیا ہم دنیا کو نسل پرست قوتوں برہمنزم اور صیہونزم کے حوالے کر دیں؟ ہر گز نہیں ! ہر گز نہیں! ہمیں سوچنا ہو گا اور عمل کرنا ہو گا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج جب کہ ہم کشمیری مظلوم عوام سے ایک مرتبہ پھر یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں تو اس موقعے پر ہونا یہ چاہیے کہ دنیا بھر میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو منوانے کے لیے جد وجہد کی جائے ۔کیونکہ کشمیری اور فلسطینی عوام کا مشترکہ مسئلہ حق خود ارادیت۔وطن واپسی۔غصب شدہ علاقوں کی آزادی۔قیدیوں کی جیلوں سے رہائی۔فلسطین سے اسرائیل کا خاتمہ۔کشمیر سے بھارت کا خاتمہ۔یہ وہ مشترکہ نکات ہیں جو کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کے مابین مشترک ہیں۔

یہاں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت پاکستان نے جس طرح ماضی میں کشمیر کے مسئلہ کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا تھا اور اس کے حل کے لیے کوششیں کی تھیں اب ہمیں اس طرح کی کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آرہی ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ ا ور مسندوں پر راج کرنے والے سیاست دان اس لمحہ فکریہ کی طرف توجہ کریں اور دیکھیں کہ کہاں پر ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں اور کس طرح ہم کشمیر کے مظلوم عوام کے زخموں پر مرہم کا کام کر سکتے ہیں۔

سلام ہے ان کشمیری مظلوموں کو کہ جو فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ اظہار ہمدردی کو نہیں بھولتے اسی طرح فلسطینی مظلوموں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ کشمیر کی جد وجہد کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ آج بھی ہم یوم یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارا مزاج بن کر رہ جائے کہ ہم صرف یوم کشمیر اور یوم فلسطین تک محدود رہیں۔پس مسئلہ کشمیر کا ہو یا فلسطین کا۔دونوں کا حل صرف اور صرف مزاحمت اور جہاد کے راستے میں ہی ہے۔کیونکہ اسرائیل اور بھارت مزاحمت اور جہاد کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔مقبوضہ علاقوں کی رہائی کے لیے مزاحمت کا راستہ عین قانونی اور سیاسی راستہ ہے کیونکہ اقوام متحدہ کا چارٹر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر کسی علاقے پر کوئی غاصب طاقت قبضہ کر لے تو مقبوضہ علاقے کے باشندوں کا قانونی و سیاسی حق ہے کہ وہ مزاحمت کے ذریعے جدوجہد کریں اور اپنی آزادی حاصل کریں۔کیونکہ آزادی ہر انسان کا حق ہے۔کشمیر کی آزادی کی دعا کے ساتھ کشمیری مظلوموں اور مجاہد عوام کے نام۔۔۔

آزادیٔ کشمیر سے رشتہ ہے ہمارا۔۔۔جذبہ بھی اسی بات سے زندہ ہے ہمارا
اے وادیٔ کشمیر ۔۔۔اے وادیٔ کشمیر ۔۔۔اے وادیٔ کشمیر ۔۔۔
کشمیر کے ماتھے پر لکھیں گے یہی تحریر۔۔۔اب ٹوٹنے والی ہے ترے پائوں کی زنجیر
شامل تیرے جذبوں میں یہ جذبہ ہے ہمارا۔۔۔اے وادیٔ کشمیر ۔۔۔
Load Next Story