نئے صوبوں کا قیام وژن کی ضرورت
پیپلزپارٹی کی حکومت نے مسلم لیگ کو کارنر کرنے کے لیے یہ گیم کھیلی تھی لیکن اب یہ ان کے گلے میں آگئی ہے
ISLAMABAD:
آج کل چونکہ پچاس ساٹھ سال پہلے کی نسبت آبادی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اسی حساب سے عوام کو درپیش مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انتظامی نقطہ نظر سے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے بڑے صوبوں کے بجائے چھوٹے صوبے بنائے جارہے ہیں، تاکہ انتظامی امور اور عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کو بہتر طریقے سے سرانجام دیا جاسکے۔ یہ بڑا نازک گہرا اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ اگر یہ کام جلد بازی میں یا کم تجربہ کار افراد کے ہاتھوں میں دے دیا جائے تو نقصانات اور ناقابل عمل ہونے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ نئے صوبے بنانے کا کام انتظامی امور کے ماہر نہایت تجربہ کار ریٹائرڈ بیوروکریٹ جج کی سربراہی میں تجربہ کار افراد کے ذریعے کرایا جاتا ہے جو مسائل کی سنگینی پیچیدگی اور ان کو حل کرنے کی مطلوبہ صلاحیت حاصل رکھتے ہوں۔ ایسے حضرات اپنے گراں قدر تجربے کی روشنی میں جو رپورٹ تیار کرتے ہیں اس میں نقائص اور خامیوں کا احتمال کم سے کم ہوتا ہے۔
ہندوستان میں ایک ایسا کمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے ایک سال کی سخت محنت اور عرق ریزی کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی تھی اس کی روشنی ہی میں نئے صوبے بنائے گئے تھے۔
پاکستان میں بھی ایسا ہی قومی کمیشن قائم کیا جانا چاہیے تھا جو ملک کے مختلف حصوں مثلاً قبائلی علاقوں میں فاٹا خیبر پختونخوا میں ہزارہ، پنجاب میں بھاولپور اور ملتان ڈیرہ غازی خان (جنوبی پنجاب) بلوچستان میں جنوبی پشتون اور سندھ میں کراچی سے صوبوں کے لیے اٹھنے والی آوازوں کا مکمل ادراک کے ساتھ بے لاگ غیر جانبدارانہ اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کرتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ صرف صوبہ پنجاب میں نئے صوبے بنانے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کمیشن کی بنیاد مخالف سیاسی پارٹی یعنی مسلم لیگ کو صوبہ بنانے کا کریڈٹ لینے سے محروم رکھنے کے لیے سیاسی چال بازی پر رکھی گئی ہے۔ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے مسلم لیگ کی قیادت سے اس سلسلے میں کوئی مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی اسے اعتماد میں لیا گیا۔
اس لیے اس کمیشن کی کارروائی یک طرفہ اور ہر آمرانہ انداز میں کی گئی حالانکہ نئے صوبے بنانے کا اصل بنیادی اور قانونی کام پنجاب اسمبلی جس میں مسلم لیگ کی بھاری اکثریت ہے نے ایک متفقہ قرارداد پاس کرکے کیا ہے۔ مزید اس کمیشن کی ساخت میں کئی خامیاں ہیں۔
1۔ یہ کمیشن چونکہ صوبہ پنجاب سے متعلق ہے اس لیے اس کے چیئرمین اور تمام ممبران کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہی ہونا چاہیے تھا اس کا چیئرمین کسی غیرجانبدار شخصیت یا اکثریت پارٹی مسلم لیگ صوبہ پنجاب کا رہائشی ہونا چاہیے تھا لیکن کمال فنکاری سے اس کا چیئرمین فرحت اللہ بابر کو بنایا گیا جو پیپلزپارٹی کے جیالے کارکن ہیں ان کے پاس اس سلسلے میں متعلقہ صلاحیتیں اور تجربہ نہیں ہے۔ نیز ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے، ان کا تقرر من مانے انداز میں دوسری سیاسی پارٹی مسلم لیگ کو اعتماد میں لیے بغیر کیا گیا ہے۔ نیز اس کے ممبروں میں سے ایک کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کی عوامی نیشنل پارٹی سے اور دوسرے کا تعلق سندھ کی متحدہ قومی موومنٹ سے ہے۔ جن کو اس کمیشن میں شامل کرنے کا کوئی تُک نہیں بنتا ہے۔
2۔حکمراں اتحاد نے اپنے ممبر اپنی مرضی سے اپنی پارٹیوں سے چن لیے ہیں، لیکن یہ اختیار دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ کو نہیں دیا گیا بلکہ ان کے ممبر بھی مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر خود ہی نامزد کردیے ہیں جس سے دلوں میں شکوک پیدا ہوگئے ہیں اور مسلم لیگ کے ممبروں نے احتجاجاً کمیشن کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔بات دھرنے تک پہنچی ہے۔
3۔پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر دو صوبوں 1۔صوبہ بہاولپور کی بحالی۔ 2۔ نئے صوبے جنوبی پنجاب کے لیے قرارداد پاس کی ہوئی ہے۔
جب کہ یہ کمیشن پنجاب اسمبلی کی قرارداد کے خلاف دو صوبوں کی بجائے صرف ایک صوبہ بنانے پر کام کر رہا ہے جس پر پنجاب اسمبلی نے بھاری اکثریت سے اس کمیشن کو رد کردیا ہے۔ اس میں اپنے ممبر بھیجنے سے انکار کرکے کمیشن کا بائیکاٹ کیا ہواہے۔ اس کے خلاف ایک زبردست احتجاجی قرارداد پاس کی گئی ہے، اس طرح یہ کمیشن غیر متفقہ اور متنازعہ ہوگیا ہے۔
اس کمیشن نے اب جو رپورٹ تیار کی ہے اس کی رو سے صرف ایک صوبہ ''بہاولپور جنوبی پنجاب'' کے نام سے تجویز کیا ہے نیز میانوالی اور بھکر کے اضلاع کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں بنیادی کردار ادا کرنے والی پنجاب اسمبلی کی متفقہ قراردادوں کے سراسر خلاف ہیں۔ اس متنازعہ کمیشن کی رپورٹ غیر حقیقت پسندانہ ہے اور عوام کی آرزوؤں امنگوں اور خواہشات کے خلاف ہے۔ ملتان، میانوالی، بھکر، بھاولپور، بھاولنگر اور رحیم یار خان وغیرہ کے عوام اس کمیشن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت نے مسلم لیگ کو کارنر کرنے کے لیے یہ گیم کھیلی تھی لیکن اب یہ ان کے گلے میں آگئی ہے اسی لیے کہتے ہیں جو کوئی دوسرے کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے۔
آج کل چونکہ پچاس ساٹھ سال پہلے کی نسبت آبادی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اسی حساب سے عوام کو درپیش مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انتظامی نقطہ نظر سے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے بڑے صوبوں کے بجائے چھوٹے صوبے بنائے جارہے ہیں، تاکہ انتظامی امور اور عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کو بہتر طریقے سے سرانجام دیا جاسکے۔ یہ بڑا نازک گہرا اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ اگر یہ کام جلد بازی میں یا کم تجربہ کار افراد کے ہاتھوں میں دے دیا جائے تو نقصانات اور ناقابل عمل ہونے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ نئے صوبے بنانے کا کام انتظامی امور کے ماہر نہایت تجربہ کار ریٹائرڈ بیوروکریٹ جج کی سربراہی میں تجربہ کار افراد کے ذریعے کرایا جاتا ہے جو مسائل کی سنگینی پیچیدگی اور ان کو حل کرنے کی مطلوبہ صلاحیت حاصل رکھتے ہوں۔ ایسے حضرات اپنے گراں قدر تجربے کی روشنی میں جو رپورٹ تیار کرتے ہیں اس میں نقائص اور خامیوں کا احتمال کم سے کم ہوتا ہے۔
ہندوستان میں ایک ایسا کمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے ایک سال کی سخت محنت اور عرق ریزی کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی تھی اس کی روشنی ہی میں نئے صوبے بنائے گئے تھے۔
پاکستان میں بھی ایسا ہی قومی کمیشن قائم کیا جانا چاہیے تھا جو ملک کے مختلف حصوں مثلاً قبائلی علاقوں میں فاٹا خیبر پختونخوا میں ہزارہ، پنجاب میں بھاولپور اور ملتان ڈیرہ غازی خان (جنوبی پنجاب) بلوچستان میں جنوبی پشتون اور سندھ میں کراچی سے صوبوں کے لیے اٹھنے والی آوازوں کا مکمل ادراک کے ساتھ بے لاگ غیر جانبدارانہ اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کرتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ صرف صوبہ پنجاب میں نئے صوبے بنانے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کمیشن کی بنیاد مخالف سیاسی پارٹی یعنی مسلم لیگ کو صوبہ بنانے کا کریڈٹ لینے سے محروم رکھنے کے لیے سیاسی چال بازی پر رکھی گئی ہے۔ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے مسلم لیگ کی قیادت سے اس سلسلے میں کوئی مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی اسے اعتماد میں لیا گیا۔
اس لیے اس کمیشن کی کارروائی یک طرفہ اور ہر آمرانہ انداز میں کی گئی حالانکہ نئے صوبے بنانے کا اصل بنیادی اور قانونی کام پنجاب اسمبلی جس میں مسلم لیگ کی بھاری اکثریت ہے نے ایک متفقہ قرارداد پاس کرکے کیا ہے۔ مزید اس کمیشن کی ساخت میں کئی خامیاں ہیں۔
1۔ یہ کمیشن چونکہ صوبہ پنجاب سے متعلق ہے اس لیے اس کے چیئرمین اور تمام ممبران کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہی ہونا چاہیے تھا اس کا چیئرمین کسی غیرجانبدار شخصیت یا اکثریت پارٹی مسلم لیگ صوبہ پنجاب کا رہائشی ہونا چاہیے تھا لیکن کمال فنکاری سے اس کا چیئرمین فرحت اللہ بابر کو بنایا گیا جو پیپلزپارٹی کے جیالے کارکن ہیں ان کے پاس اس سلسلے میں متعلقہ صلاحیتیں اور تجربہ نہیں ہے۔ نیز ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے، ان کا تقرر من مانے انداز میں دوسری سیاسی پارٹی مسلم لیگ کو اعتماد میں لیے بغیر کیا گیا ہے۔ نیز اس کے ممبروں میں سے ایک کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کی عوامی نیشنل پارٹی سے اور دوسرے کا تعلق سندھ کی متحدہ قومی موومنٹ سے ہے۔ جن کو اس کمیشن میں شامل کرنے کا کوئی تُک نہیں بنتا ہے۔
2۔حکمراں اتحاد نے اپنے ممبر اپنی مرضی سے اپنی پارٹیوں سے چن لیے ہیں، لیکن یہ اختیار دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ کو نہیں دیا گیا بلکہ ان کے ممبر بھی مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر خود ہی نامزد کردیے ہیں جس سے دلوں میں شکوک پیدا ہوگئے ہیں اور مسلم لیگ کے ممبروں نے احتجاجاً کمیشن کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔بات دھرنے تک پہنچی ہے۔
3۔پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر دو صوبوں 1۔صوبہ بہاولپور کی بحالی۔ 2۔ نئے صوبے جنوبی پنجاب کے لیے قرارداد پاس کی ہوئی ہے۔
جب کہ یہ کمیشن پنجاب اسمبلی کی قرارداد کے خلاف دو صوبوں کی بجائے صرف ایک صوبہ بنانے پر کام کر رہا ہے جس پر پنجاب اسمبلی نے بھاری اکثریت سے اس کمیشن کو رد کردیا ہے۔ اس میں اپنے ممبر بھیجنے سے انکار کرکے کمیشن کا بائیکاٹ کیا ہواہے۔ اس کے خلاف ایک زبردست احتجاجی قرارداد پاس کی گئی ہے، اس طرح یہ کمیشن غیر متفقہ اور متنازعہ ہوگیا ہے۔
اس کمیشن نے اب جو رپورٹ تیار کی ہے اس کی رو سے صرف ایک صوبہ ''بہاولپور جنوبی پنجاب'' کے نام سے تجویز کیا ہے نیز میانوالی اور بھکر کے اضلاع کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں بنیادی کردار ادا کرنے والی پنجاب اسمبلی کی متفقہ قراردادوں کے سراسر خلاف ہیں۔ اس متنازعہ کمیشن کی رپورٹ غیر حقیقت پسندانہ ہے اور عوام کی آرزوؤں امنگوں اور خواہشات کے خلاف ہے۔ ملتان، میانوالی، بھکر، بھاولپور، بھاولنگر اور رحیم یار خان وغیرہ کے عوام اس کمیشن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت نے مسلم لیگ کو کارنر کرنے کے لیے یہ گیم کھیلی تھی لیکن اب یہ ان کے گلے میں آگئی ہے اسی لیے کہتے ہیں جو کوئی دوسرے کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے۔