کشمیر کی روحوں کا غم
کشمیر کا مسئلہ اگر آج دنیا کی نگاہوں میں ہے اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں کی مقامی آبادی کی جدوجہد ہے۔
KARACHI:
میں زندہ ہوں اور ہمیشہ زندہ رہوں گا، میرا کارواں رواں دواں ہے اور ہمیشہ رواں دواں رہے گا، میری طاقت ایمان، میرا اسلحہ دلیل ہے، میرے کارواں کے لیے زادِراہ صداقت ہے، صداقت اور دلیل کی قوت نے جبریت سے نہ کبھی شکست کھائی ہے، نہ کبھی شکست کھائے گی، جبر انسانیت کے کمزور ترین اور پست ترین عناصر کا ہتھیار ہے، جبر دلیل کے افلاس اور حسنِ کردار سے محرومی کی علامت ہے، جبر ہمیشہ عارضی فتح کے لیے اپنی خونخوار چال چلتا ہے، مگر اس کی فتح ہی اس کی شکست بھی ہوتی ہے۔ نعیم صدیقی مرحوم کے یہ الفاظ آج کے دن کی نسبت سے بہت اہم نظر آتے ہیں جب آزادی کے حصول کے لیے سرگرداں قافلہ کئی مشکل گزار گھاٹیوں سے گزر کر دریا کی صورت اختیار کرنے والا ہے، صبر اور برادشت کا میٹھا پھل پک کر انسانیت کی جھولی میں گرنے کو ہے، بھٹکتی چیخوں اور آہوں کو ٹھکانے پر پناہ ملنے والی ہے، ہاں کشمیر کی آزادی کے دن قریب ہیں، لیکن اس دن کے آنے میں ساٹھ سال کی طویل سیاہ رات بھی ہے، جس کا اختتام ہوا چاہتا ہے۔ اس سحر کے آثار نظر میں آنے کے لیے اسی صداقت کا سہارا لیا گیا ہے جو کائنات کی حقیقت ہے اور وہ دلیل کی قوت ہے اس دلیل کی قوت نے نہ تو ایمان کی طاقت کو نظر انداز کیا ہے اور نہ ہی غیرت مندوں سے دلیل کا اسلحہ رکھوایا ہے بلکہ ان دونوں کی مدد کے ذریعے ہی کامیابی کا امکاں ہوا ہے۔
جہاں ایک طرف جبریت نے شکست کھائی ہے تو دوسری کچھ 'عقل' آئی ہے۔ ہزاروں لوگوں کا لہو پی کر تلواریں نیام میں جانے کا وقت قریب آلگا ہے، مذاکرات کی میزیں سجا کر عوام کے جذبات کا فیصلہ ہونے جارہا ہے، لیکن خون کا حق یہ ہے کہ وہ سوال کراتا ہے روز محشر بھی، اس سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں قتل کیا گیا تھا، اور دنیا میں موجود اس کے اقربا بھی سوال کرتے ہیں کہ جب یہ مسئلہ پچاس سال کی محاذآرائی اور خون ریزی کے بعد لمحوں میں فائلوں میں طے ہونا تھا تو ہمارے پیاروں کو کس جرم کی بھینٹ چڑھایا گیا؟ لاکھوں کشمیریوں کو خاک و خون میں غلطاں و پیچاں کرنے کے بعد امن کی فاختہ کیسے یاد آگئی؟ ہزاروں مجاہدین کو خاک و خون میں تڑپایا گیا، اگر سودے بازی آج ہو سکتی ہے، اگر معاہدہ ممکن تھا، تو برسوں تک کشمیر کے چناروں کو کیوں جلنے دیا گیا؟ لہو کے قطروں سے دنیا کو کیوں بے وقوف بنایا گیا؟ ایک وقت تھا کہ اس حوالے سے خبر دینا غداری کا جرم قرار دیا جاتا تھا، آج اس ادا پر کسی کا چپ رہنا اور کسی کا فخر جتانا کیا معنی رکھتا ہے؟
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جموں کشمیر پر خفیہ مذاکرات پا کستان بننے کے فوراً بعد سے جاری ہیں، لیکن سیاسی اور دفاعی مجبوری کا بہانہ بنا کر کشمیر کو ایک آتش فشاں کے طور پر زندہ رکھا گیا، اس کو زندہ رکھنے کے لیے مذہبی اور سیاسی جماعتیں آلہ کار بنیں، جہادی تحریکوں کی سرپرستی کی گئی، کوئی حکمران ایسا نہ گزرا جس نے بھارت سے اس مسئلے پر خفیہ دور نہ چلائے ہوں، لیکن یہ کام صدر پرویز مشرف اور صدر زرداری نے 'جرات رندانہ اور نعرہ مستانہ' بلند کرکے دِکھا دیا ہے۔ موجودہ حکومت کے سیکولر نظریات سے اختلاف کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف 'پیدا کردہ' ہے، پہلے 'لڑا' کر کمایا گیا اب 'کِھلا پلا' کر کمانے کی تیاری ہے۔ جب بھی کشمیر پر کوئی پیش رفت ہوئی ہے عوام کو یہ بتا کر گمراہ کیا جاتا ہے کہ یہ پاکستان دشمن ہیں جو غیر ملکی اشاروں پر کشمیر کا ایشو دبانا چاہتے ہیں اور یہ ہی لوگ اصل غدار ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام مشرف دور سے جاری تھا۔ افغانستان میں امریکا کی آمد کے بعد سے یہ تمام جہادی غائب تھے، کئی سال سے جاری مذاکرات کے وقت وہ تمام جہاد کشمیر کے علمبردار کہاں تھے جن کا کہنا تھا پہلی گولی بھی ہم نے چلائی تھی آخری بھی ہم چلائیں گئے۔ اب اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ترک کرکے یا کسی اور طریقے سے امن کا سمجھوتہ ہو سکتا تھا تو لاکھوں شہدا کے خون کی ذمے داری کس پر ہے؟ اگر تجارت اور معاشی مفادات کے نام پر ہندوئوں سے جاری محاذ آرائی ختم کی جاسکتی ہے تو اتنے عرصے جہاد کے نام پر جن نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا اس پر خاموشی سے'حکم' کا انتظار کرنے والے، لہو کا سودا کرنے والے وفادار ہیںکیا؟ اور لہو کا نذرانہ پیش کرنے والے دس سال سے کیا غدار تھے؟ کشمیر کمیٹی ہو یا دیگر مذہبی جماعتیں، کافی عرصے سے خاموشی کی چادر تانے آرام کر رہی ہیں۔ ؎
جس نے تمغہ لیا شجاعت کا
اس نے یارو کمال کر ڈالا
لے کے سارا لہو شہیدوں کا
اپنے سینے کو لال کر ڈالا
اب جب کہ جمہوری حکومت نے انتہائی 'دانشمندی' کے ساتھ اس معاملے کو مذاکرات کی میز پر لاکر پسندیدہ ملک کی خوبصورت اصطلاح اور تجارت کے ذریعے حل کرنے کی کو شش کی ہے تو پھر سے 'شیروں' کو بیدار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ افغانستان پر حملے کے بعد کشمیر میں خاموشی اختیار کرنے والے اچانک سے پھر نمودار ہونے لگے ہیں۔ نیٹو افواج کی واپسی کے بعد پھر سے لال قلعے کے سبز باغ دکھائے جارہے ہیں اور یہ کچھ نیا نہیں، تاریخ میں بھی ایسا ہی کچھ اس وقت ہوا جب روس کو مار کر بھگا دیا گیا تو ایک جنگجو کمانڈر سے دریافت کیا گیا کہ اب کیا پروگرام ہے؟ فرمایا کشمیر جائیں گے۔ یہ فرمانے کے بعد وہ آج تک کہیں بھی نہ جاسکے۔
کشمیر کا مسئلہ اگر آج دنیا کی نگاہوں میں ہے اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں کی مقامی آبادی کی جدوجہد ہے، قربانی کی لازوال داستانوں نے آج ہمارے ہاتھ اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ہم اپنے سے کئی گنا بڑی ریاست کو مذاکرات کی سطح تک لے آئے ہیں۔ اس موقع پر ایک بار پھر سے معصوم عوام کو ورغلا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ ناپسندیدہ ہے، جدوجہد پہلے بھی افراد کی تھی اور وہ آج بھی ان ہی حوصلوں سے جاری ہے، اس کے لیے کسی ادارے کی ضرورت نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ پہلے بھی صرف مذاکرات کا متقاضی تھا اور اب بھی بات چیت ہی اس کا حل ہے۔ آخر میں چند اشعار انگنت روحوں کے نام، جن کی کوشش کا ثمر نجانے 'کس کس' کو ملنے والا ہے۔
ایک جشن کا سماں تھا مگر میں وہاں نہ تھا
خوشبو کا کارواں تھا مگر میں وہاں نہ تھا
ہاں کتنا دلفریب سفر روشنی کا تھا
ہر فرد شادماں تھا مگر میں وہاں نہ تھا
میں زندہ ہوں اور ہمیشہ زندہ رہوں گا، میرا کارواں رواں دواں ہے اور ہمیشہ رواں دواں رہے گا، میری طاقت ایمان، میرا اسلحہ دلیل ہے، میرے کارواں کے لیے زادِراہ صداقت ہے، صداقت اور دلیل کی قوت نے جبریت سے نہ کبھی شکست کھائی ہے، نہ کبھی شکست کھائے گی، جبر انسانیت کے کمزور ترین اور پست ترین عناصر کا ہتھیار ہے، جبر دلیل کے افلاس اور حسنِ کردار سے محرومی کی علامت ہے، جبر ہمیشہ عارضی فتح کے لیے اپنی خونخوار چال چلتا ہے، مگر اس کی فتح ہی اس کی شکست بھی ہوتی ہے۔ نعیم صدیقی مرحوم کے یہ الفاظ آج کے دن کی نسبت سے بہت اہم نظر آتے ہیں جب آزادی کے حصول کے لیے سرگرداں قافلہ کئی مشکل گزار گھاٹیوں سے گزر کر دریا کی صورت اختیار کرنے والا ہے، صبر اور برادشت کا میٹھا پھل پک کر انسانیت کی جھولی میں گرنے کو ہے، بھٹکتی چیخوں اور آہوں کو ٹھکانے پر پناہ ملنے والی ہے، ہاں کشمیر کی آزادی کے دن قریب ہیں، لیکن اس دن کے آنے میں ساٹھ سال کی طویل سیاہ رات بھی ہے، جس کا اختتام ہوا چاہتا ہے۔ اس سحر کے آثار نظر میں آنے کے لیے اسی صداقت کا سہارا لیا گیا ہے جو کائنات کی حقیقت ہے اور وہ دلیل کی قوت ہے اس دلیل کی قوت نے نہ تو ایمان کی طاقت کو نظر انداز کیا ہے اور نہ ہی غیرت مندوں سے دلیل کا اسلحہ رکھوایا ہے بلکہ ان دونوں کی مدد کے ذریعے ہی کامیابی کا امکاں ہوا ہے۔
جہاں ایک طرف جبریت نے شکست کھائی ہے تو دوسری کچھ 'عقل' آئی ہے۔ ہزاروں لوگوں کا لہو پی کر تلواریں نیام میں جانے کا وقت قریب آلگا ہے، مذاکرات کی میزیں سجا کر عوام کے جذبات کا فیصلہ ہونے جارہا ہے، لیکن خون کا حق یہ ہے کہ وہ سوال کراتا ہے روز محشر بھی، اس سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں قتل کیا گیا تھا، اور دنیا میں موجود اس کے اقربا بھی سوال کرتے ہیں کہ جب یہ مسئلہ پچاس سال کی محاذآرائی اور خون ریزی کے بعد لمحوں میں فائلوں میں طے ہونا تھا تو ہمارے پیاروں کو کس جرم کی بھینٹ چڑھایا گیا؟ لاکھوں کشمیریوں کو خاک و خون میں غلطاں و پیچاں کرنے کے بعد امن کی فاختہ کیسے یاد آگئی؟ ہزاروں مجاہدین کو خاک و خون میں تڑپایا گیا، اگر سودے بازی آج ہو سکتی ہے، اگر معاہدہ ممکن تھا، تو برسوں تک کشمیر کے چناروں کو کیوں جلنے دیا گیا؟ لہو کے قطروں سے دنیا کو کیوں بے وقوف بنایا گیا؟ ایک وقت تھا کہ اس حوالے سے خبر دینا غداری کا جرم قرار دیا جاتا تھا، آج اس ادا پر کسی کا چپ رہنا اور کسی کا فخر جتانا کیا معنی رکھتا ہے؟
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جموں کشمیر پر خفیہ مذاکرات پا کستان بننے کے فوراً بعد سے جاری ہیں، لیکن سیاسی اور دفاعی مجبوری کا بہانہ بنا کر کشمیر کو ایک آتش فشاں کے طور پر زندہ رکھا گیا، اس کو زندہ رکھنے کے لیے مذہبی اور سیاسی جماعتیں آلہ کار بنیں، جہادی تحریکوں کی سرپرستی کی گئی، کوئی حکمران ایسا نہ گزرا جس نے بھارت سے اس مسئلے پر خفیہ دور نہ چلائے ہوں، لیکن یہ کام صدر پرویز مشرف اور صدر زرداری نے 'جرات رندانہ اور نعرہ مستانہ' بلند کرکے دِکھا دیا ہے۔ موجودہ حکومت کے سیکولر نظریات سے اختلاف کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف 'پیدا کردہ' ہے، پہلے 'لڑا' کر کمایا گیا اب 'کِھلا پلا' کر کمانے کی تیاری ہے۔ جب بھی کشمیر پر کوئی پیش رفت ہوئی ہے عوام کو یہ بتا کر گمراہ کیا جاتا ہے کہ یہ پاکستان دشمن ہیں جو غیر ملکی اشاروں پر کشمیر کا ایشو دبانا چاہتے ہیں اور یہ ہی لوگ اصل غدار ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام مشرف دور سے جاری تھا۔ افغانستان میں امریکا کی آمد کے بعد سے یہ تمام جہادی غائب تھے، کئی سال سے جاری مذاکرات کے وقت وہ تمام جہاد کشمیر کے علمبردار کہاں تھے جن کا کہنا تھا پہلی گولی بھی ہم نے چلائی تھی آخری بھی ہم چلائیں گئے۔ اب اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ترک کرکے یا کسی اور طریقے سے امن کا سمجھوتہ ہو سکتا تھا تو لاکھوں شہدا کے خون کی ذمے داری کس پر ہے؟ اگر تجارت اور معاشی مفادات کے نام پر ہندوئوں سے جاری محاذ آرائی ختم کی جاسکتی ہے تو اتنے عرصے جہاد کے نام پر جن نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا اس پر خاموشی سے'حکم' کا انتظار کرنے والے، لہو کا سودا کرنے والے وفادار ہیںکیا؟ اور لہو کا نذرانہ پیش کرنے والے دس سال سے کیا غدار تھے؟ کشمیر کمیٹی ہو یا دیگر مذہبی جماعتیں، کافی عرصے سے خاموشی کی چادر تانے آرام کر رہی ہیں۔ ؎
جس نے تمغہ لیا شجاعت کا
اس نے یارو کمال کر ڈالا
لے کے سارا لہو شہیدوں کا
اپنے سینے کو لال کر ڈالا
اب جب کہ جمہوری حکومت نے انتہائی 'دانشمندی' کے ساتھ اس معاملے کو مذاکرات کی میز پر لاکر پسندیدہ ملک کی خوبصورت اصطلاح اور تجارت کے ذریعے حل کرنے کی کو شش کی ہے تو پھر سے 'شیروں' کو بیدار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ افغانستان پر حملے کے بعد کشمیر میں خاموشی اختیار کرنے والے اچانک سے پھر نمودار ہونے لگے ہیں۔ نیٹو افواج کی واپسی کے بعد پھر سے لال قلعے کے سبز باغ دکھائے جارہے ہیں اور یہ کچھ نیا نہیں، تاریخ میں بھی ایسا ہی کچھ اس وقت ہوا جب روس کو مار کر بھگا دیا گیا تو ایک جنگجو کمانڈر سے دریافت کیا گیا کہ اب کیا پروگرام ہے؟ فرمایا کشمیر جائیں گے۔ یہ فرمانے کے بعد وہ آج تک کہیں بھی نہ جاسکے۔
کشمیر کا مسئلہ اگر آج دنیا کی نگاہوں میں ہے اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں کی مقامی آبادی کی جدوجہد ہے، قربانی کی لازوال داستانوں نے آج ہمارے ہاتھ اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ہم اپنے سے کئی گنا بڑی ریاست کو مذاکرات کی سطح تک لے آئے ہیں۔ اس موقع پر ایک بار پھر سے معصوم عوام کو ورغلا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ ناپسندیدہ ہے، جدوجہد پہلے بھی افراد کی تھی اور وہ آج بھی ان ہی حوصلوں سے جاری ہے، اس کے لیے کسی ادارے کی ضرورت نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ پہلے بھی صرف مذاکرات کا متقاضی تھا اور اب بھی بات چیت ہی اس کا حل ہے۔ آخر میں چند اشعار انگنت روحوں کے نام، جن کی کوشش کا ثمر نجانے 'کس کس' کو ملنے والا ہے۔
ایک جشن کا سماں تھا مگر میں وہاں نہ تھا
خوشبو کا کارواں تھا مگر میں وہاں نہ تھا
ہاں کتنا دلفریب سفر روشنی کا تھا
ہر فرد شادماں تھا مگر میں وہاں نہ تھا