گیس و بجلی کی تلاش
بھارت اور بنگلہ دیش کے بعد پاکستان بجلی کی سہولت سے محروم افراد کے تناسب سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔
کیا خوب گاڑے ہیں جمہوریت کے جھنڈے
اب گیس بھی ملتی ہے سنڈے کے سنڈے
ماؤں نے بچوں کو بھوکا سلا دیا
گھروں کے پڑے ہیں چولہے ٹھنڈے
راشد رحمانی کا یہ قطعہ ہمارے معاشرے کا عکاس ہے، جس پر ہمارے ایک دیرینہ قاری جناب یحییٰ سلطان (پیتل والے) نے راقم کو بھیجے گئے اپنے ای میل میں خوب تبصرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے تو ہر گھر کا مسئلہ تھا کہ کیا پکائیں لیکن اب تو ہر گھر کا مسئلہ ہے کہ کیسے پکائیں؟ گیس اب تو ملک کے ہر گھر کی پریشانی بن گئی ہے، صبح سویرے اٹھتے ہیں گھر کا چولہا منہ چڑھا رہا ہوتا ہے وہ کون سے ماں باپ ہوں گے جو اپنے بچوں کو بغیر ناشتے کے اسکول چھوڑ آئیں؟ مجبوراً ماں باپ کو ہوٹلوں کا مضرصحت ناشتہ اور کھانا کھلانا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے بچے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں، شہر کراچی کے زیادہ تر لوگ تو فلیٹوں میں رہتے ہیں، اب اگر فلیٹوں میں رہنے والے گیس نہ ہونے کی وجہ سے کوئلے اور لکڑی جلائیں تو سارے گھر میں دھواں بھرجانے کا ڈر بھی رہتا ہے، ویسے ہمارے حکمراں گاڑیوں سے پریشر ہارن تو ختم نہ کرسکے مگر گھروں میں سے گیس پریشر کم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، بتایا جاتا ہے کہ سی این جی اسٹیشن، ریسٹورنٹ، کیٹرنگ سروسز والے کسی کو بھتہ دیتے ہیں اس لیے ان کے یہاں پریشر زیادہ ہوجاتا ہے، گھریلو صارفین بھتہ نہیں دیتے وہاں گیس کا پریشر کم کردیتے ہیں، بہار کالونی، لیاری، ناظم آباد، فاطمہ جناح کالونی، جمشید روڈ، پونا والا گارڈن، ماڈل کالونی، ملیر، نیوٹاؤن کے علاقوں میں کئی جگہ گیس مکمل طور پر بند کردیتے ہیں۔ ویسے ہمارے حکمراں گھر پر کھانا کب پکاتے ہیں، ان کا کھانا تو بڑے بڑے ہوٹلوں سے آتا ہے یا پھر ان کا لنچ اور ڈنر گھر سے باہر ہوتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے ان پانچ سالوں میں لوگوں کو بجلی گیس تو نہ دے سکے، روٹی، کپڑا اور مکان کیا خاک دیں گے؟ اب تو آیندہ الیکشن میں وہی پارٹی کامیاب ہوگی جو ہر گھر میں بجلی، پانی اور گیس دینے کا نعرہ لگائے گی۔
ہمارے راجا پرویز صاحب کے مشیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین کا کہنا ہے کہ ملک میں گیس کی کھپت اس کی پیداوار سے زیادہ ہے اور طلب و رسد کے فرق کو ختم کرنے کے لیے حکومت نئے ذخائر کی تلاش کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔واضح رہے کہ ملک کی گیس کی ضروریات 6 ارب کیوبک فٹ جب کہ حکومت کے پاس 3 ارب کیوبک فٹ گیس دستیاب ہے جس میں سے 2 ارب کیوبک فٹ (66 فیصد) سوئی ناردرن گیس کمپنی کی طرف سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کو سپلائی کی جارہی ہے جب کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی طرف سے سندھ اور بلوچستان کو فراہم کی جانے والی گیس کا استعمال 1 ارب کیوبک فٹ (33 فیصد) ہے، ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کی طرف سے متعارف کرائے جانے والے شارٹ ٹرم پلان کے تحت گیس کی فراہمی میں 20 فیصد اضافہ کیا جائے گا جس کے لیے رواں مالی سال کے آخر جون تک مزید 75 ملین مکعب برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی او) گیس سسٹم میں شامل کی جائے گی۔
میڈیا خبروں کے مطابق اس ضمن میں وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے حکام نے بتایا ہے کہ گیس کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے، اس کے علاوہ ایل این جی کی درآمد کے لیے بھی پراسس جاری ہے۔ مذکورہ شارٹ پلان کے تحت جون 2013 میں ایم او ایل سے مزید 200 ایم ایم سی ایف ڈی، کندھ کوٹ سے 20 ایم ایم سی ایف ڈی، ریری مارو سے 12 ایم ایم سی ایف ڈی، کوچھ سے 160 ایم ایم سی ایف ڈی گیس حاصل ہوگی جب کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پراجیکٹ سے 2013 کی دوسری سہہ ماہی میں ابتدائی طور پر 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس حاصل ہونا شروع ہوجائے گی، اس کے علاوہ رواں سال 500 ایم ایم سی ایف ڈی یومیہ کے حساب سے ایل این جی کی درآمد شروع ہوجائے گی، امید پر دنیا قائم ہے ویسے بھی ہماری قوم گزشتہ 65 سالوں سے امید پر ہے کہ کب ان کے بنیادی مسائل حل ہوں گے ایسے میں ایک اور امید سہی۔
جس زمانے میں ملک میں چولہا جلانے کے لیے گیس کا تصور نہیں تھا تو ہر گھر میں لکڑی پر مٹی کا تیل ڈال کر چولہا جلایا جاتا تھا، اب بھی ملک کے دور دراز علاقوں میں لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے جو ادھر اُدھر سے لاکر کام چلایا جاتا ہے۔ مگر شہری علاقوں میں لکڑی اور مٹی کا تیل استعمال کرنا ممکن نہیں رہا، کیونکہ شہری علاقے گنجان والی آبادی پر مشتمل ہوتے ہیں پھر یہ کہ لکڑی اور مٹی کے تیل کی قیمتیں اتنی ہوچکی ہیں کہ انھیں خریدنا غریبوں کے بس کی بات نہیں ہے ان دنوں مٹی کا تیل ایک سو اٹھارہ روپے پچاس پیسے فی لیٹر ہے جب کہ جلانے کی لکڑی 503.80 روپے فی 40 کلوگرام ہے یعنی فی کلو تقریباً13 روپے ہے اس طرح شہری علاقوں میں لکڑی اور مٹی کے تیل سے چولہا جلانے کا عمل قصہ پارینہ بن چکا ہے، ویسے بھی ماضی میں چولہا جلانے کا یہ طریقہ موجودہ جدید دور میں ماحولیات کی آلودگی اور انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ برطانوی ماہرین نے کہا ہے کہ لکڑیوں کے چولہے کا استعمال دل اور سانس کی بیماریوں کا سبب ہے۔
اس کا استعمال کم کرکے سانس اور دل کے امراض سے بچا جاسکتا ہے، ماہرین نے تحقیق میں آسٹریلوی شہر تسمانیا میں لکڑیوں کے چولہوں کی بجائے گیس اور الیکٹرانک چولہوں کے استعمال کے لیے مہم اور اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں تسمانیہ میں بہت زیادہ لکڑی کے چولہوں کا استعمال ہوتا تھا تاہم 2004 میں اس کے استعمال کے خاتمے کے لیے مہم جوئی کی گئی جس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ اس سے ماحولیاتی آلودگی کم ہوئی، مردوں میں اموات کی شرح 11.9 فیصد کم ہوئی۔ دل کی بیماریوں میں 17.9 فیصد کمی دیکھی گئی اور سانس کی بیماریوں میں 22.9 فیصد کمی واقع ہوئی تاہم خواتین میں اموات کی شرح کے حوالے سے نہیں بتایا گیا۔ ماہرین کے مطابق الیکٹرک اورگیس چولہوں کے استعمال سے بیماریوں سے بچ کر فعال اور صحت مند زندگی گزاری جاسکتی ہے۔
جہاں تک ملک میں الیکٹرک کی صورت حال ہے اس سے ہر شخص بجلی زدہ ہے، وقت بے وقت کی بجلی کی لوڈشیڈنگ نے شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کر رکھا ہے۔ دنیا کے ایک ارب 30 کروڑ افراد تاحال بجلی کی سہولت سے محروم ہیں اور 2030 تک تقریباً ایک ارب افراد تک یہ سہولت نہیں پہنچ پائے گی جن میں جنوبی ایشیاء کے رہنے والے 70 کروڑ افراد شامل ہوں گے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے بعد پاکستان بجلی کی سہولت سے محروم افراد کا تناسب سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے البتہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے لیے شمسی توانائی، بائیو ماس، پن بجلی کے چھوٹے منصوبوں کے لیے بہترین جگہ ہے، پاکستان میں بجلی کے بحران کا واحد حل بجلی کی پیداوار پر آنے والی لاگت کو کم کرنے میں ہے، اس وقت حکومت ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے 40 منصوبوں پر کام کر رہی ہے جو آیندہ دو سالوں میں 2 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہی ہے جو آیندہ دو سالوں میں 2 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرسکیں گے جس سے سندھ کے دیہی علاقوں کے 120 اسکولوں کو بھی بجلی فراہم کی جاسکے گی، فی الوقت کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بجلی کی آنکھ مچولی کے سبب شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں ملک بھر میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا گیا ہے جس کی وجہ قدرتی گیس کی کمی بتائی جاتی ہے۔ ذرا سوچیں! ان حالات میں کس طرح گھروں کے چولہے جل سکتے ہیں؟ گیس بھی نہیں اور بجلی بھی نایاب اور پانی بجلی کے آنے کی مرہون منت ہے سو پانی بھی کمیاب۔ اُف۔۔۔۔میرے خدایا! ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اب گیس بھی ملتی ہے سنڈے کے سنڈے
ماؤں نے بچوں کو بھوکا سلا دیا
گھروں کے پڑے ہیں چولہے ٹھنڈے
راشد رحمانی کا یہ قطعہ ہمارے معاشرے کا عکاس ہے، جس پر ہمارے ایک دیرینہ قاری جناب یحییٰ سلطان (پیتل والے) نے راقم کو بھیجے گئے اپنے ای میل میں خوب تبصرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے تو ہر گھر کا مسئلہ تھا کہ کیا پکائیں لیکن اب تو ہر گھر کا مسئلہ ہے کہ کیسے پکائیں؟ گیس اب تو ملک کے ہر گھر کی پریشانی بن گئی ہے، صبح سویرے اٹھتے ہیں گھر کا چولہا منہ چڑھا رہا ہوتا ہے وہ کون سے ماں باپ ہوں گے جو اپنے بچوں کو بغیر ناشتے کے اسکول چھوڑ آئیں؟ مجبوراً ماں باپ کو ہوٹلوں کا مضرصحت ناشتہ اور کھانا کھلانا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے بچے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں، شہر کراچی کے زیادہ تر لوگ تو فلیٹوں میں رہتے ہیں، اب اگر فلیٹوں میں رہنے والے گیس نہ ہونے کی وجہ سے کوئلے اور لکڑی جلائیں تو سارے گھر میں دھواں بھرجانے کا ڈر بھی رہتا ہے، ویسے ہمارے حکمراں گاڑیوں سے پریشر ہارن تو ختم نہ کرسکے مگر گھروں میں سے گیس پریشر کم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، بتایا جاتا ہے کہ سی این جی اسٹیشن، ریسٹورنٹ، کیٹرنگ سروسز والے کسی کو بھتہ دیتے ہیں اس لیے ان کے یہاں پریشر زیادہ ہوجاتا ہے، گھریلو صارفین بھتہ نہیں دیتے وہاں گیس کا پریشر کم کردیتے ہیں، بہار کالونی، لیاری، ناظم آباد، فاطمہ جناح کالونی، جمشید روڈ، پونا والا گارڈن، ماڈل کالونی، ملیر، نیوٹاؤن کے علاقوں میں کئی جگہ گیس مکمل طور پر بند کردیتے ہیں۔ ویسے ہمارے حکمراں گھر پر کھانا کب پکاتے ہیں، ان کا کھانا تو بڑے بڑے ہوٹلوں سے آتا ہے یا پھر ان کا لنچ اور ڈنر گھر سے باہر ہوتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے ان پانچ سالوں میں لوگوں کو بجلی گیس تو نہ دے سکے، روٹی، کپڑا اور مکان کیا خاک دیں گے؟ اب تو آیندہ الیکشن میں وہی پارٹی کامیاب ہوگی جو ہر گھر میں بجلی، پانی اور گیس دینے کا نعرہ لگائے گی۔
ہمارے راجا پرویز صاحب کے مشیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین کا کہنا ہے کہ ملک میں گیس کی کھپت اس کی پیداوار سے زیادہ ہے اور طلب و رسد کے فرق کو ختم کرنے کے لیے حکومت نئے ذخائر کی تلاش کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔واضح رہے کہ ملک کی گیس کی ضروریات 6 ارب کیوبک فٹ جب کہ حکومت کے پاس 3 ارب کیوبک فٹ گیس دستیاب ہے جس میں سے 2 ارب کیوبک فٹ (66 فیصد) سوئی ناردرن گیس کمپنی کی طرف سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کو سپلائی کی جارہی ہے جب کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی طرف سے سندھ اور بلوچستان کو فراہم کی جانے والی گیس کا استعمال 1 ارب کیوبک فٹ (33 فیصد) ہے، ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کی طرف سے متعارف کرائے جانے والے شارٹ ٹرم پلان کے تحت گیس کی فراہمی میں 20 فیصد اضافہ کیا جائے گا جس کے لیے رواں مالی سال کے آخر جون تک مزید 75 ملین مکعب برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی او) گیس سسٹم میں شامل کی جائے گی۔
میڈیا خبروں کے مطابق اس ضمن میں وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے حکام نے بتایا ہے کہ گیس کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے، اس کے علاوہ ایل این جی کی درآمد کے لیے بھی پراسس جاری ہے۔ مذکورہ شارٹ پلان کے تحت جون 2013 میں ایم او ایل سے مزید 200 ایم ایم سی ایف ڈی، کندھ کوٹ سے 20 ایم ایم سی ایف ڈی، ریری مارو سے 12 ایم ایم سی ایف ڈی، کوچھ سے 160 ایم ایم سی ایف ڈی گیس حاصل ہوگی جب کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پراجیکٹ سے 2013 کی دوسری سہہ ماہی میں ابتدائی طور پر 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس حاصل ہونا شروع ہوجائے گی، اس کے علاوہ رواں سال 500 ایم ایم سی ایف ڈی یومیہ کے حساب سے ایل این جی کی درآمد شروع ہوجائے گی، امید پر دنیا قائم ہے ویسے بھی ہماری قوم گزشتہ 65 سالوں سے امید پر ہے کہ کب ان کے بنیادی مسائل حل ہوں گے ایسے میں ایک اور امید سہی۔
جس زمانے میں ملک میں چولہا جلانے کے لیے گیس کا تصور نہیں تھا تو ہر گھر میں لکڑی پر مٹی کا تیل ڈال کر چولہا جلایا جاتا تھا، اب بھی ملک کے دور دراز علاقوں میں لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے جو ادھر اُدھر سے لاکر کام چلایا جاتا ہے۔ مگر شہری علاقوں میں لکڑی اور مٹی کا تیل استعمال کرنا ممکن نہیں رہا، کیونکہ شہری علاقے گنجان والی آبادی پر مشتمل ہوتے ہیں پھر یہ کہ لکڑی اور مٹی کے تیل کی قیمتیں اتنی ہوچکی ہیں کہ انھیں خریدنا غریبوں کے بس کی بات نہیں ہے ان دنوں مٹی کا تیل ایک سو اٹھارہ روپے پچاس پیسے فی لیٹر ہے جب کہ جلانے کی لکڑی 503.80 روپے فی 40 کلوگرام ہے یعنی فی کلو تقریباً13 روپے ہے اس طرح شہری علاقوں میں لکڑی اور مٹی کے تیل سے چولہا جلانے کا عمل قصہ پارینہ بن چکا ہے، ویسے بھی ماضی میں چولہا جلانے کا یہ طریقہ موجودہ جدید دور میں ماحولیات کی آلودگی اور انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ برطانوی ماہرین نے کہا ہے کہ لکڑیوں کے چولہے کا استعمال دل اور سانس کی بیماریوں کا سبب ہے۔
اس کا استعمال کم کرکے سانس اور دل کے امراض سے بچا جاسکتا ہے، ماہرین نے تحقیق میں آسٹریلوی شہر تسمانیا میں لکڑیوں کے چولہوں کی بجائے گیس اور الیکٹرانک چولہوں کے استعمال کے لیے مہم اور اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں تسمانیہ میں بہت زیادہ لکڑی کے چولہوں کا استعمال ہوتا تھا تاہم 2004 میں اس کے استعمال کے خاتمے کے لیے مہم جوئی کی گئی جس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ اس سے ماحولیاتی آلودگی کم ہوئی، مردوں میں اموات کی شرح 11.9 فیصد کم ہوئی۔ دل کی بیماریوں میں 17.9 فیصد کمی دیکھی گئی اور سانس کی بیماریوں میں 22.9 فیصد کمی واقع ہوئی تاہم خواتین میں اموات کی شرح کے حوالے سے نہیں بتایا گیا۔ ماہرین کے مطابق الیکٹرک اورگیس چولہوں کے استعمال سے بیماریوں سے بچ کر فعال اور صحت مند زندگی گزاری جاسکتی ہے۔
جہاں تک ملک میں الیکٹرک کی صورت حال ہے اس سے ہر شخص بجلی زدہ ہے، وقت بے وقت کی بجلی کی لوڈشیڈنگ نے شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کر رکھا ہے۔ دنیا کے ایک ارب 30 کروڑ افراد تاحال بجلی کی سہولت سے محروم ہیں اور 2030 تک تقریباً ایک ارب افراد تک یہ سہولت نہیں پہنچ پائے گی جن میں جنوبی ایشیاء کے رہنے والے 70 کروڑ افراد شامل ہوں گے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے بعد پاکستان بجلی کی سہولت سے محروم افراد کا تناسب سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے البتہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے لیے شمسی توانائی، بائیو ماس، پن بجلی کے چھوٹے منصوبوں کے لیے بہترین جگہ ہے، پاکستان میں بجلی کے بحران کا واحد حل بجلی کی پیداوار پر آنے والی لاگت کو کم کرنے میں ہے، اس وقت حکومت ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے 40 منصوبوں پر کام کر رہی ہے جو آیندہ دو سالوں میں 2 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہی ہے جو آیندہ دو سالوں میں 2 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرسکیں گے جس سے سندھ کے دیہی علاقوں کے 120 اسکولوں کو بھی بجلی فراہم کی جاسکے گی، فی الوقت کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بجلی کی آنکھ مچولی کے سبب شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں ملک بھر میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا گیا ہے جس کی وجہ قدرتی گیس کی کمی بتائی جاتی ہے۔ ذرا سوچیں! ان حالات میں کس طرح گھروں کے چولہے جل سکتے ہیں؟ گیس بھی نہیں اور بجلی بھی نایاب اور پانی بجلی کے آنے کی مرہون منت ہے سو پانی بھی کمیاب۔ اُف۔۔۔۔میرے خدایا! ہم کہاں کھڑے ہیں؟