کھجلی یا الرجی کی اصل وجہ
بہت تحقیق کی گئی ہے، ٹیسٹ کرائے گئے ہیں لیکن اس کھجلی یا الرجی کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے
ISLAMABAD:
ہم نے ایک مرتبہ پہلے بھی کھجلی کے مرض کے بارے میں بتایا ہے کہ آج کل کھجلی یا خارش کی بیماری کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے لیکن اس وقت ہم نے صرف اس کھجلی کی بات کی تھی جو صرف منہ یا زبان تک محدود ہوتی ہے، اس لیے زیادہ تر اسے خارش السیاست یا سیاسی کھجلی یا سپیکنگ ڈیزیز کہا جاتا ہے جو اس وقت ویسے تو تمام لیڈروں چاہے سرکاری ہو ں یا امیدواری سب کو لاحق ہے لیکن نواز شریف، عمران خان ، زرداری ، بلاول وغیرہ کو کچھ زیادہ لاحق ہے۔ مولانا فضل الرحمان ، مولانا سراج الحق اور شیخ رشید بھی اس کے متاثرین میں سے ہیں لیکن نسبتاً کچھ درجے کے۔ لیکن آج ہم اس کھجلی کا ذکر نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس اصلی کھجلی کا ذکر کرنا مقصود ہے جو بہت عام ہے اور فیشن ایبل نام اس کا الرجی ہے۔
آپ سوچیں گے کہ کیا بیماریات بھی فیشن کرتی ہیںتو ہمارا جواب نہ صرف ہاں میں ہوگا بلکہ اس کی مثالیں بھی ہمارے پاس بے شمار ہیں ، مثلاً غریبوں اور عوام کی مخصوص بلکہ محبوب بیماری تپ دق یا ٹی بی فیشن ایبل نام چیسٹ ڈیزیز ہے، دست واسہال کو فوڈپوائزن کہا جاتا ہے ، زکام کو فلو ، بخار کو فیور اور دل کی بیماریوں کو ہارٹ ڈیزیز بولا جاتا ہے، اسی طرح اس کھجلی کو بھی سکن ڈیزیز یا الرجی کا نام دیا گیا ہے۔
بہت تحقیق کی گئی ہے، ٹیسٹ کرائے گئے ہیں لیکن اس کھجلی یا الرجی کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے چنانچہ اسے بھی ماحول کے سر تھوپ دیا گیا ہے جو ''بد '' سے بد نام ''بُرا'' کے مطابق ہر بیماری کے لیے ذمے دار ٹھرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی زیادہ ٹھونستا ہے یا بوجہ نہ ملنے کے کم کھاتا ہے تو اسے بھی ماحول کا شاخسانہ کہا جاتا ہے، اصل ماحول کے ساتھ بھی وہ معاملہ ہو گیا ہے جو کسی مفرور ملزم کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہر تھانے کا ان ٹریس یا مک مکا والا کیس اس کے نام لکھ کر پرچہ چاک کردیا جاتا ہے، پھر یہ اس کا کام ہے کہ خود کو بے گناہ ثابت کرے کیونکہ قانون کی ایک ادا یہ بھی ہے کہ ہاتھ پیر باندھ کر دوڑنے کے لیے کہا جاتا ہے ، گویا
درمیان قصر دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش
یعنی بیج دریا میں تختے سے باندھ کر کہا جاتا ہے کہ اب تیر ، یا خبردار جو کپڑے بھگوئے ۔ چنانچہ جب تک ''ماحول'' خود کو بے گناہ نہیں ثابت کردیتا تب تک ڈاکٹروں، دوا سازوں اور حکومتی نو سربازوں کی بلا اسی طویلے کے سر پڑے گی بلکہ عین ممکن ہے کہ کسی دن یہ بھی سننے میں آجائے کہ ہمارے '' خادم '' بچارے ماحول کی آلودگی ہی کی وجہ سے اپنے ہست و نیست کے ساتھ ممالک غیر میں رہنا پسند کرتے ہیں،لیکن ہمیں صرف الرجی یا کھجلی نے ہائر کیا ہے کہ ہم اصل وجوہات کی تحقیق کر کے الرجی کو بے گناہ ثابت کریں جس طرح قبل ازیں کہ ہم نے کرپشن کا کیس لڑکر اسے ایک باعزت مقام دیا تھا، اس کھجلی یا الرجی کے پیچھے جب ہم نے اپنی تحقیق کا ٹٹو دوڑا یا تو بات ہی کچھ اور نکلی، در اصل اس ہمہ گیر کھجلی کی وجہ نہ کوئی ماحول ہے نہ خوراک میں ملاوٹ نہ مصنوعی ریشے کا لباس اور نہ ہی ملاوٹ کرنے والوں کی مساعی جمیلہ و شکیلہ۔
اور پیڑ پودے یا پھول پتے جو بے زبان اور معصوم ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مورد الزام اور اس بڑھتی ہوئی کھجلی کے ذمے دار مانے جاتے ہیں وہ تو سراسر بے قصور نکلے ان کے حق میں صرف یہ ایک دلیل بھی زرداری یعنی سب پر بھاری ہے کہ پیڑ پودے یا پھول پتے کوئی آج کل کی پیداوار تو نہیں یہ تو صدیوں سے اسی طرح ہیں بلکہ اب تو انسانوں کی ہمہ گیر مہربانی سے ان کی تعداد اور مقدار آدھی بھی نہیں رہی ہے ،اصل قصہ یہ ہے کہ لوگوں کی اپنی جلد یں یا چمڑے ہی با ر بار اتارے جانے کے سبب کچھ زیادہ حساس اور کمزور ہو کر رہ گئے ہیں اور یہ ہمارا صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ گہری تحقیق کا نتیجہ ہے۔
سامنے کی با ت ہے کہ خدا نے انسانوں حیوانوں اور شجر و حجر کو ان کی حفاظت کے لیے یہ جو جلد یا کھال دے رکھی ہے یا اون یا بال یا اسی طرح کی کوئی اور چیز تو ان کی حفاظت کے لیے دے رکھی ہے لیکن اگر ''اون '' کو قدرتی طریقے پر جھڑنے کے بجائے بار بار اور بے وقت اتارنا شروع کیا جائے اور کھال کو بھی قدرتی طریقے پر خود بخود اترنے یا ایک بار اترنے کے بجائے بار بار اتارا جائے تو ان کی وہ مضبوط اور دفاعی صلاحیت تو کم ہوتی چلی جائے گی جن جن جانوروں کو خدا کی خاص الخاص فضل و کرم سے ''حکومتیں'' اور '' خادم '' لاحق نہیں ہیں، وہ تو بڑے آرام سے خود بخود اپنے بال اور کھال اتار دیتے ہیں اسی قدرتی انداز میں جو اس کے لیے مقرر ہے یا زیادہ سے مرنے کے بعد تار دی جاتی ہے لیکن بچارے انسان پتہ نہیں کس جرم کی پاداش میں حکومت اورخادموں کی گرفت میں آئے ہوئے ہیں ،یعنی
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت
اور یہ تو ایک ووٹر یا کسی پارٹی کا سڑک نشین یا گلا پھاڑ کارکن جیسا بے وقوف بھی جانتا ہے کہ ان دونوں یعنی حکومتوں اور خادموں کو اور کچھ بھی آتا جاتا نہیں سوائے اون اور کھال اتارنے کے بلکہ یہی ان کا خاندانی اورپشت درپشت سے جاری پیشہ ہے ۔
پرانے زمانوں میں یہ اتنے طاق بھی نہیں تھے اور ان کی ضرورتیں بھی محدود اور صرف ملک کے اندر ہی اندر ہوتی تھیں اس لیے سال یا دو سال میں عوام کی اون یا کھال اتار لیتے تھے لیکن جب سے یہ سوئس ، دبئی ، امریکا اور برطانیہ کی نئی منڈیاں نکلی ہیں تب سے اون اور کھالوں کی مانگ بھی بے پناہ بڑھ گئی ہے، اس لیے سال میں کئی کئی بار اتاری جاتی ہیں جس طرح کچے پھل توڑ کر کاربائٹ کے ذریعے پکایا جاتا ہے اسی طرح اون اور کھالیں بھی کچی حالت میں اتاری جانے لگی ہیں، ابھی دوسری کھال پوری طرح '' پک '' بھی نہیں چکی ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا محکمہ اتارنے کے لیے آجاتا ہے۔ یو ںکہئے کہ جیسے گھر میں زیادہ بہوئیں ہونے کی وجہ سے دودھ کے اوپر کبھی بالائی نہیں بنتی ۔
اس کے بعد یہ بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں ہے کہ کھال کچی ہو تو اسے کھجلی یا الرجی کا عارضہ تو یقیناً لاحق ہوگا۔
ہم نے ایک مرتبہ پہلے بھی کھجلی کے مرض کے بارے میں بتایا ہے کہ آج کل کھجلی یا خارش کی بیماری کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے لیکن اس وقت ہم نے صرف اس کھجلی کی بات کی تھی جو صرف منہ یا زبان تک محدود ہوتی ہے، اس لیے زیادہ تر اسے خارش السیاست یا سیاسی کھجلی یا سپیکنگ ڈیزیز کہا جاتا ہے جو اس وقت ویسے تو تمام لیڈروں چاہے سرکاری ہو ں یا امیدواری سب کو لاحق ہے لیکن نواز شریف، عمران خان ، زرداری ، بلاول وغیرہ کو کچھ زیادہ لاحق ہے۔ مولانا فضل الرحمان ، مولانا سراج الحق اور شیخ رشید بھی اس کے متاثرین میں سے ہیں لیکن نسبتاً کچھ درجے کے۔ لیکن آج ہم اس کھجلی کا ذکر نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس اصلی کھجلی کا ذکر کرنا مقصود ہے جو بہت عام ہے اور فیشن ایبل نام اس کا الرجی ہے۔
آپ سوچیں گے کہ کیا بیماریات بھی فیشن کرتی ہیںتو ہمارا جواب نہ صرف ہاں میں ہوگا بلکہ اس کی مثالیں بھی ہمارے پاس بے شمار ہیں ، مثلاً غریبوں اور عوام کی مخصوص بلکہ محبوب بیماری تپ دق یا ٹی بی فیشن ایبل نام چیسٹ ڈیزیز ہے، دست واسہال کو فوڈپوائزن کہا جاتا ہے ، زکام کو فلو ، بخار کو فیور اور دل کی بیماریوں کو ہارٹ ڈیزیز بولا جاتا ہے، اسی طرح اس کھجلی کو بھی سکن ڈیزیز یا الرجی کا نام دیا گیا ہے۔
بہت تحقیق کی گئی ہے، ٹیسٹ کرائے گئے ہیں لیکن اس کھجلی یا الرجی کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے چنانچہ اسے بھی ماحول کے سر تھوپ دیا گیا ہے جو ''بد '' سے بد نام ''بُرا'' کے مطابق ہر بیماری کے لیے ذمے دار ٹھرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی زیادہ ٹھونستا ہے یا بوجہ نہ ملنے کے کم کھاتا ہے تو اسے بھی ماحول کا شاخسانہ کہا جاتا ہے، اصل ماحول کے ساتھ بھی وہ معاملہ ہو گیا ہے جو کسی مفرور ملزم کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہر تھانے کا ان ٹریس یا مک مکا والا کیس اس کے نام لکھ کر پرچہ چاک کردیا جاتا ہے، پھر یہ اس کا کام ہے کہ خود کو بے گناہ ثابت کرے کیونکہ قانون کی ایک ادا یہ بھی ہے کہ ہاتھ پیر باندھ کر دوڑنے کے لیے کہا جاتا ہے ، گویا
درمیان قصر دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش
یعنی بیج دریا میں تختے سے باندھ کر کہا جاتا ہے کہ اب تیر ، یا خبردار جو کپڑے بھگوئے ۔ چنانچہ جب تک ''ماحول'' خود کو بے گناہ نہیں ثابت کردیتا تب تک ڈاکٹروں، دوا سازوں اور حکومتی نو سربازوں کی بلا اسی طویلے کے سر پڑے گی بلکہ عین ممکن ہے کہ کسی دن یہ بھی سننے میں آجائے کہ ہمارے '' خادم '' بچارے ماحول کی آلودگی ہی کی وجہ سے اپنے ہست و نیست کے ساتھ ممالک غیر میں رہنا پسند کرتے ہیں،لیکن ہمیں صرف الرجی یا کھجلی نے ہائر کیا ہے کہ ہم اصل وجوہات کی تحقیق کر کے الرجی کو بے گناہ ثابت کریں جس طرح قبل ازیں کہ ہم نے کرپشن کا کیس لڑکر اسے ایک باعزت مقام دیا تھا، اس کھجلی یا الرجی کے پیچھے جب ہم نے اپنی تحقیق کا ٹٹو دوڑا یا تو بات ہی کچھ اور نکلی، در اصل اس ہمہ گیر کھجلی کی وجہ نہ کوئی ماحول ہے نہ خوراک میں ملاوٹ نہ مصنوعی ریشے کا لباس اور نہ ہی ملاوٹ کرنے والوں کی مساعی جمیلہ و شکیلہ۔
اور پیڑ پودے یا پھول پتے جو بے زبان اور معصوم ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مورد الزام اور اس بڑھتی ہوئی کھجلی کے ذمے دار مانے جاتے ہیں وہ تو سراسر بے قصور نکلے ان کے حق میں صرف یہ ایک دلیل بھی زرداری یعنی سب پر بھاری ہے کہ پیڑ پودے یا پھول پتے کوئی آج کل کی پیداوار تو نہیں یہ تو صدیوں سے اسی طرح ہیں بلکہ اب تو انسانوں کی ہمہ گیر مہربانی سے ان کی تعداد اور مقدار آدھی بھی نہیں رہی ہے ،اصل قصہ یہ ہے کہ لوگوں کی اپنی جلد یں یا چمڑے ہی با ر بار اتارے جانے کے سبب کچھ زیادہ حساس اور کمزور ہو کر رہ گئے ہیں اور یہ ہمارا صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ گہری تحقیق کا نتیجہ ہے۔
سامنے کی با ت ہے کہ خدا نے انسانوں حیوانوں اور شجر و حجر کو ان کی حفاظت کے لیے یہ جو جلد یا کھال دے رکھی ہے یا اون یا بال یا اسی طرح کی کوئی اور چیز تو ان کی حفاظت کے لیے دے رکھی ہے لیکن اگر ''اون '' کو قدرتی طریقے پر جھڑنے کے بجائے بار بار اور بے وقت اتارنا شروع کیا جائے اور کھال کو بھی قدرتی طریقے پر خود بخود اترنے یا ایک بار اترنے کے بجائے بار بار اتارا جائے تو ان کی وہ مضبوط اور دفاعی صلاحیت تو کم ہوتی چلی جائے گی جن جن جانوروں کو خدا کی خاص الخاص فضل و کرم سے ''حکومتیں'' اور '' خادم '' لاحق نہیں ہیں، وہ تو بڑے آرام سے خود بخود اپنے بال اور کھال اتار دیتے ہیں اسی قدرتی انداز میں جو اس کے لیے مقرر ہے یا زیادہ سے مرنے کے بعد تار دی جاتی ہے لیکن بچارے انسان پتہ نہیں کس جرم کی پاداش میں حکومت اورخادموں کی گرفت میں آئے ہوئے ہیں ،یعنی
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت
اور یہ تو ایک ووٹر یا کسی پارٹی کا سڑک نشین یا گلا پھاڑ کارکن جیسا بے وقوف بھی جانتا ہے کہ ان دونوں یعنی حکومتوں اور خادموں کو اور کچھ بھی آتا جاتا نہیں سوائے اون اور کھال اتارنے کے بلکہ یہی ان کا خاندانی اورپشت درپشت سے جاری پیشہ ہے ۔
پرانے زمانوں میں یہ اتنے طاق بھی نہیں تھے اور ان کی ضرورتیں بھی محدود اور صرف ملک کے اندر ہی اندر ہوتی تھیں اس لیے سال یا دو سال میں عوام کی اون یا کھال اتار لیتے تھے لیکن جب سے یہ سوئس ، دبئی ، امریکا اور برطانیہ کی نئی منڈیاں نکلی ہیں تب سے اون اور کھالوں کی مانگ بھی بے پناہ بڑھ گئی ہے، اس لیے سال میں کئی کئی بار اتاری جاتی ہیں جس طرح کچے پھل توڑ کر کاربائٹ کے ذریعے پکایا جاتا ہے اسی طرح اون اور کھالیں بھی کچی حالت میں اتاری جانے لگی ہیں، ابھی دوسری کھال پوری طرح '' پک '' بھی نہیں چکی ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا محکمہ اتارنے کے لیے آجاتا ہے۔ یو ںکہئے کہ جیسے گھر میں زیادہ بہوئیں ہونے کی وجہ سے دودھ کے اوپر کبھی بالائی نہیں بنتی ۔
اس کے بعد یہ بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں ہے کہ کھال کچی ہو تو اسے کھجلی یا الرجی کا عارضہ تو یقیناً لاحق ہوگا۔