سپریم کورٹ میں ناکافی شواہد پر قتل کا ملزم 17 سال بعد بری
واقعے کا کوئی چشم دید گواہ نہیں، ماتحت دونوں عدالتوں نے کیس کے حقائق نہیں دیکھے، قائم مقام چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ
سپریم کورٹ نے عمرقید کے ملزم اسلم عرف اچھو کو 17 سال بعد جبکہ خاوند کے قتل کے الزام میں 16 سال سے قید خاتون اقبال بانو کو ناکافی شواہدکی بنا پر رہاکرنے کا حکم سنا دیا ہے۔
تینوں الگ الگ مقدمات کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس دوست محمدخان پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 2 رکنی بینچ نے منگل کے روز مقدمات کی سماعت کی پہلے مقدمے میں ملزم اسلم پر1999 میں قصور میں سرور نامی شخص کوقتل کرنے کا الزام تھا، دوران سماعت ریکارڈ کا جائزہ لیتے ہوئے قائمقام چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ وقوع کاکوئی چشم دید گواہ نہیں، نچلی دونوں عدالتوں نے کیس کے حقائق کو نہیں دیکھا۔
قائمقام چیف جسٹس نے ڈپٹی پراسیکیوٹر پنجاب محمد زبیر سے استفسارکیاکہ اسلم نے جوعمرقیدکاٹ لی وہ کس کے کھاتے میں جائے گی تو ڈپٹی پراسیکیوٹر کاکہنا تھا کہ وہ عدالتوں کے کھاتے میں جائے گی ۔ دوسرے مقدمے میں 16سال سے قید خاتون اقبال بانوپر پاکپتن کے علاقہ قبولہ شریف میں اپنے خاوند غلام مرتضی کو2001میں قتل کرنے کا الزام تھا۔
عدالت نے خاوندکے قتل کے الزام میں 16سال سے قید خاتون اقبال بانو کو ناکافی شواہدکی بنا پر رہاکرنے کا حکم سنا دیا۔تیسرے مقدمے میں عدالت نے دو ملزمان یاسین اورخدایار کی عمر قیدکی سزا کیخلاف بریت کی اپیلیں مسترد کر دیں ملزمان پر 2009میںعارف والا میں مقصود نامی شہری کو قتل کرنے کا الزام تھا۔
عدالت کا کہنا تھاکہ اس مقدمہ میں وجہ عناد ثابت ہے اس لیے سزا برقرار رکھی جاتی ہے۔جبکہ جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس قاضی فائزعیسی پرمشتمل عدالت عظمی کے دورکنی بینچ نے جعلی پنشنرز کے نام پرکروڑوں کاغبن کرنے کے مقدمے میں ملوث خاتون حمیدہ خانم کی ضمانت قبل ازگرفتاری منظورکرلی تاہم ملزمان عارف ،عبداللہ ،امتیاز اورخان محمدکی ضمانتیں منسوخ کردیں جس پرانھیں سپریم کورٹ سے گرفتارکرلیاگیا۔
واضح رہے کہ ملزم عارف نجی بینک (یو بی ایل) جبکہ دیگرملزمان نیشنل بینک کے ملازمین ہیں دوران سماعت پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایاکہ ملزمان جعلی پنشنرز کے نام پر چیک جاری کرتے تھے اور ان ملزمان نے پنشنرز کے نام پر پندرہ کروڑسے زائد کا غبن کیا،عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمان کا تعلق صوبہ سندھ کے علاقہ نوشہرہ فیروز سے ہے۔
تینوں الگ الگ مقدمات کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس دوست محمدخان پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 2 رکنی بینچ نے منگل کے روز مقدمات کی سماعت کی پہلے مقدمے میں ملزم اسلم پر1999 میں قصور میں سرور نامی شخص کوقتل کرنے کا الزام تھا، دوران سماعت ریکارڈ کا جائزہ لیتے ہوئے قائمقام چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ وقوع کاکوئی چشم دید گواہ نہیں، نچلی دونوں عدالتوں نے کیس کے حقائق کو نہیں دیکھا۔
قائمقام چیف جسٹس نے ڈپٹی پراسیکیوٹر پنجاب محمد زبیر سے استفسارکیاکہ اسلم نے جوعمرقیدکاٹ لی وہ کس کے کھاتے میں جائے گی تو ڈپٹی پراسیکیوٹر کاکہنا تھا کہ وہ عدالتوں کے کھاتے میں جائے گی ۔ دوسرے مقدمے میں 16سال سے قید خاتون اقبال بانوپر پاکپتن کے علاقہ قبولہ شریف میں اپنے خاوند غلام مرتضی کو2001میں قتل کرنے کا الزام تھا۔
عدالت نے خاوندکے قتل کے الزام میں 16سال سے قید خاتون اقبال بانو کو ناکافی شواہدکی بنا پر رہاکرنے کا حکم سنا دیا۔تیسرے مقدمے میں عدالت نے دو ملزمان یاسین اورخدایار کی عمر قیدکی سزا کیخلاف بریت کی اپیلیں مسترد کر دیں ملزمان پر 2009میںعارف والا میں مقصود نامی شہری کو قتل کرنے کا الزام تھا۔
عدالت کا کہنا تھاکہ اس مقدمہ میں وجہ عناد ثابت ہے اس لیے سزا برقرار رکھی جاتی ہے۔جبکہ جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس قاضی فائزعیسی پرمشتمل عدالت عظمی کے دورکنی بینچ نے جعلی پنشنرز کے نام پرکروڑوں کاغبن کرنے کے مقدمے میں ملوث خاتون حمیدہ خانم کی ضمانت قبل ازگرفتاری منظورکرلی تاہم ملزمان عارف ،عبداللہ ،امتیاز اورخان محمدکی ضمانتیں منسوخ کردیں جس پرانھیں سپریم کورٹ سے گرفتارکرلیاگیا۔
واضح رہے کہ ملزم عارف نجی بینک (یو بی ایل) جبکہ دیگرملزمان نیشنل بینک کے ملازمین ہیں دوران سماعت پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایاکہ ملزمان جعلی پنشنرز کے نام پر چیک جاری کرتے تھے اور ان ملزمان نے پنشنرز کے نام پر پندرہ کروڑسے زائد کا غبن کیا،عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمان کا تعلق صوبہ سندھ کے علاقہ نوشہرہ فیروز سے ہے۔