زندگی میں ناکامیاں اصل کامیابی کو جنم دیتی ہیں رافع راشدی
نوجوان ہدایت کار اور پروڈیوسر رافع راشدی کی ایکسپریس سے خصوصی نشست کا احوال
لاہور:
پاکستان فلم انڈسٹری اپنے احیاء کی جانب گامزن ہے، ایسے میں بہت سے نئے فلمساز بھی اس کو مستحکم کرنے کے لیے فلمیں بنا اور پروڈیوس کررہے ہیں، کچھ پر قسمت کی دیوی اس قدر مہربان ہے کہ ان کی فلمیں سپرہٹ ہیں جبکہ چند ایسے بھی ہیں جو فلمسازی کے بارے میں جنونی ہیں تاہم ان کی فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام ہیں۔
رافع راشدی، شوبزنس اور فلم انڈسٹری میں رونما ہونے والا ایسا ہی ایک مدھم ستارہ ہے جو پوری طرح نہ چمک سکا، ان کی بطور ہدایت کار پہلی فلم ''تھوڑا جی لے'' کو نہ صرف ناقدین کی جانب سے برے تاثرات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ یہ فلم باکس آفس پر بھی بری طرح فلاپ ہوئی، اس ناکاکی کے باوجود نوجوان ہدایت کار رافع راشدی کے حوصلے پست نہیں ہوئے، اور انہوں نے اپنی فلم کی ناکامی اور اس میں موجود خامیوں کو قبول کرتے ہوئے ڈرامہ انڈسٹری کی جانب اس امید کے ساتھ قدم رکھا ہے کہ ان سے جو غلطیاں فلم میں ہوئیں وہ اس کو بہتر کریں گے۔
''ایکسپریس'' نے رافع راشدی سے ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے اپنی فلم تھوڑا جی لے کا تجربہ، ریلیز کے بعد گزرا وقت، مومل پروڈکشنز میں بطور پروڈیوسر اور مستقبل کے پروجیکٹس کے حوالے سے کھل کر بات چیت کی، گفتگو کی تفصیل ذیل میں کچھ یوں ہے۔
رافع راشدی نے بتایا کہ فلم بری ہو یا اچھی، دونوں میں محنت لگتی ہے، میں نے بھی فلم کو اپنی تمام تر قوت اور توانائی دی، نئے چہروں اور ٹیم کے ساتھ کام کیا، افسوس کہ فلم کامیاب نہ ہوسکی لیکن ''تھوڑا جی لے'' کا تجربہ میرے فلم کیرئیر میں ہمیشہ معاون ثابت ہوگا، اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، میری فلم میں کئی خامیاں تھیں، ناقدین نے جو کہا کہ میں اس سے متفق ہوں، میں نے فلم ریویوز کو بہت سنجیدگی کے ساتھ لیا، فلم کی ریلیز کو لے کر مجھ پر کافی پریشر تھا، جنوری میں سینما کی صورتحال انتہائی ابتر تھی، بالی ووڈ فلموں پر پابندی تھی، میں تسلیم کرتا ہوں کہ فلم ریلیز کرنے میں جلدبازی کی، فلم ریلیز کے بعد جو ریویوز آئے اسے قبول کرنے میں وقت لگا، تمام ناقدین کو رجوع کیا کیونکہ کبھی کبھار بہت سی چیزیں بطور فلمساز ہمیں نظر نہیں آتی ہیں، یا ہمیں لگتا ہے کہ ہم ایسا پروڈکٹ بنارہے ہیں کہ وہ شائقین کو پسند آجائے گا، عوام کو کیا چاہیے تھا اس کا خیال نہیں رکھا گیا تھا، میں نے خود کو کافی وقت دیا کہ کہاں کمی رہ گئی۔
رافع نے کہا کہ پہلا ریویو جو فلم کے پریمیئر کے بعد آیا وہ یہ تھا کہ تھوڑا جی لے جیسی فلموں پر پابندی لگنی چاہیے، میں نے پورا ریویو پڑھا لیکن اس میں کئی چیزیں غلط لکھی ہوئی تھیں جیسا کہ کرداروں کے نام، میں مانتا ہوں کہ صحافی یا بلاگر کو مکمل آزادی ہے کہ ان کا جو دل کرے وہ لکھیں مگر درست اور مستند معلومات کے ساتھ لکھیں تو زیادہ بہتر ہے۔ زندگی میں کئی ناکامیاں دیکھی ہیں، میرا ماننا ہے کہ زندگی میں ناکامیاں، اصل کامیابی کو جنم دیتی ہیں۔
اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں رافع کا کہنا تھا کہ ابتدائی تعلیم سینٹ مائیکل کونوینٹ اسکول سے حاصل کی، اس کے بعد ایک سال گریفٹھ دبلین میں کمپوٹر سائنس پڑھی اور بعدازاں کامرس میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کینیڈا چلے گئے۔ماسٹرز ،سٹی یونیورسٹی لندن سے کیا۔ ماسٹرز کی پڑھائی کے دوران انہیںوالدین نے الیکشن لڑنے کے لیے بلوا لیا۔ انہوں نے کہا کہ والد صاحب چاہتے تھے کہ میں الیکشن لڑوں، لاڑکانہ میں پی ایس 38 دو بار الیکشن لڑا، ایک مرتبہ 2008 میں جبکہ دوسری بار 2013 ، اس کے بعد میں نے اپنی ماسٹرز کی تعلیم پوری کی اور پاکستان آگیا، مجھے لندن میں ملازمت کے کئی مواقع ملے لیکن میں ملک واپس آکر یہیں نام پیدا کرنا چاہتا تھا۔فلمسازی کا شوق تھا لیکن والدین کی طرف سے پڑھائی مکمل کرنے کا بھی پریشر تھا، فلمسازی کی ڈگری حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، جس وقت پڑھائی کی، اس وقت فلم کی جانب وہ رجحان نہ تھا لیکن اب اگر وقت ملا تو ضرور ڈگری حاصل کروں گا۔فلمسازی میں ڈگری حاصل کرنا ہر گز اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ آپ کامیاب فلمساز بنیں گے، میں فلم، کیمرہ، اینگلنگ، فریمنگ، لائٹنگ، پوسٹ پروڈکشن و دیگر تکنیکی امور کے بارے میں پڑھتا ہوں، امید ہے کہ مستقبل میں بہتر فلمسازی کی طرف توجہ دوں۔
رافع نے بتایا کہ فلم بنانے سے قبل لاڑکانہ میں امریکی پروڈیوسر کے ساتھ دستاویزی فلم بنائی تھی، لاڑکانہ میں حاجی علی کھوکھر نامی فرد ہیں، جو کھوئے ہوئے بچوں کو خاندان سے ملواتا ہے۔رافع راشدی فی الوقت مومل پروڈکشنز کے ساتھ بطور ہیڈ آف پروکشنز کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مومل پروڈکشن کو جوائن کیے 2ماہ ہوئے ہیں، سال میں چار سے پانچ ڈرامہ پروجیکٹس شروع کرنے کا ارادہ ہے، فلم کو بریک دیا ہے، ابھی خود کووقت دینا چاہتا ہوں تاہم کن موضوعات پر کام کرنا چاہتا ہوں ان کا فیصلہ کرلیا ہے، میری اگلی فلم سپورٹس یا ہارر سے متعلق ہوسکتی ہے، سپورٹس اس لیے کہ ابھی حالیہ چیمپیئز ٹرافی میں پاکستان نے جیت کر عوام کو بہترین تحفہ دیا، سپورٹس ہمیں آپس میں جوڑے رکھتی ہے، یہ پیار محبت اور اتحاد کو فروغ دیتاہے، ہم اپنے ہیروز کو بھول چکے ہیں تو اسپورٹس فلم ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی فلم میں اسٹار پاور نہیں تھی ، نئے لوگوں کو موقع دیا، اگلی فلم میں اسٹار پاور یقینی بناؤں گا، اگر فواد خان کو بھی کاسٹ کرنا پڑا تو کروں گا، میں صرف دل موہ لینے والی اسکرپٹ کا انتظار کررہا ہوں، اور خود کو وقت دے رہا ہوں کیونکہ اس بار غلطی کی گنجائش نہیں۔
پاکستان فلم انڈسٹری اپنے احیاء کی جانب گامزن ہے، ایسے میں بہت سے نئے فلمساز بھی اس کو مستحکم کرنے کے لیے فلمیں بنا اور پروڈیوس کررہے ہیں، کچھ پر قسمت کی دیوی اس قدر مہربان ہے کہ ان کی فلمیں سپرہٹ ہیں جبکہ چند ایسے بھی ہیں جو فلمسازی کے بارے میں جنونی ہیں تاہم ان کی فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام ہیں۔
رافع راشدی، شوبزنس اور فلم انڈسٹری میں رونما ہونے والا ایسا ہی ایک مدھم ستارہ ہے جو پوری طرح نہ چمک سکا، ان کی بطور ہدایت کار پہلی فلم ''تھوڑا جی لے'' کو نہ صرف ناقدین کی جانب سے برے تاثرات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ یہ فلم باکس آفس پر بھی بری طرح فلاپ ہوئی، اس ناکاکی کے باوجود نوجوان ہدایت کار رافع راشدی کے حوصلے پست نہیں ہوئے، اور انہوں نے اپنی فلم کی ناکامی اور اس میں موجود خامیوں کو قبول کرتے ہوئے ڈرامہ انڈسٹری کی جانب اس امید کے ساتھ قدم رکھا ہے کہ ان سے جو غلطیاں فلم میں ہوئیں وہ اس کو بہتر کریں گے۔
''ایکسپریس'' نے رافع راشدی سے ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے اپنی فلم تھوڑا جی لے کا تجربہ، ریلیز کے بعد گزرا وقت، مومل پروڈکشنز میں بطور پروڈیوسر اور مستقبل کے پروجیکٹس کے حوالے سے کھل کر بات چیت کی، گفتگو کی تفصیل ذیل میں کچھ یوں ہے۔
رافع راشدی نے بتایا کہ فلم بری ہو یا اچھی، دونوں میں محنت لگتی ہے، میں نے بھی فلم کو اپنی تمام تر قوت اور توانائی دی، نئے چہروں اور ٹیم کے ساتھ کام کیا، افسوس کہ فلم کامیاب نہ ہوسکی لیکن ''تھوڑا جی لے'' کا تجربہ میرے فلم کیرئیر میں ہمیشہ معاون ثابت ہوگا، اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، میری فلم میں کئی خامیاں تھیں، ناقدین نے جو کہا کہ میں اس سے متفق ہوں، میں نے فلم ریویوز کو بہت سنجیدگی کے ساتھ لیا، فلم کی ریلیز کو لے کر مجھ پر کافی پریشر تھا، جنوری میں سینما کی صورتحال انتہائی ابتر تھی، بالی ووڈ فلموں پر پابندی تھی، میں تسلیم کرتا ہوں کہ فلم ریلیز کرنے میں جلدبازی کی، فلم ریلیز کے بعد جو ریویوز آئے اسے قبول کرنے میں وقت لگا، تمام ناقدین کو رجوع کیا کیونکہ کبھی کبھار بہت سی چیزیں بطور فلمساز ہمیں نظر نہیں آتی ہیں، یا ہمیں لگتا ہے کہ ہم ایسا پروڈکٹ بنارہے ہیں کہ وہ شائقین کو پسند آجائے گا، عوام کو کیا چاہیے تھا اس کا خیال نہیں رکھا گیا تھا، میں نے خود کو کافی وقت دیا کہ کہاں کمی رہ گئی۔
رافع نے کہا کہ پہلا ریویو جو فلم کے پریمیئر کے بعد آیا وہ یہ تھا کہ تھوڑا جی لے جیسی فلموں پر پابندی لگنی چاہیے، میں نے پورا ریویو پڑھا لیکن اس میں کئی چیزیں غلط لکھی ہوئی تھیں جیسا کہ کرداروں کے نام، میں مانتا ہوں کہ صحافی یا بلاگر کو مکمل آزادی ہے کہ ان کا جو دل کرے وہ لکھیں مگر درست اور مستند معلومات کے ساتھ لکھیں تو زیادہ بہتر ہے۔ زندگی میں کئی ناکامیاں دیکھی ہیں، میرا ماننا ہے کہ زندگی میں ناکامیاں، اصل کامیابی کو جنم دیتی ہیں۔
اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں رافع کا کہنا تھا کہ ابتدائی تعلیم سینٹ مائیکل کونوینٹ اسکول سے حاصل کی، اس کے بعد ایک سال گریفٹھ دبلین میں کمپوٹر سائنس پڑھی اور بعدازاں کامرس میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کینیڈا چلے گئے۔ماسٹرز ،سٹی یونیورسٹی لندن سے کیا۔ ماسٹرز کی پڑھائی کے دوران انہیںوالدین نے الیکشن لڑنے کے لیے بلوا لیا۔ انہوں نے کہا کہ والد صاحب چاہتے تھے کہ میں الیکشن لڑوں، لاڑکانہ میں پی ایس 38 دو بار الیکشن لڑا، ایک مرتبہ 2008 میں جبکہ دوسری بار 2013 ، اس کے بعد میں نے اپنی ماسٹرز کی تعلیم پوری کی اور پاکستان آگیا، مجھے لندن میں ملازمت کے کئی مواقع ملے لیکن میں ملک واپس آکر یہیں نام پیدا کرنا چاہتا تھا۔فلمسازی کا شوق تھا لیکن والدین کی طرف سے پڑھائی مکمل کرنے کا بھی پریشر تھا، فلمسازی کی ڈگری حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، جس وقت پڑھائی کی، اس وقت فلم کی جانب وہ رجحان نہ تھا لیکن اب اگر وقت ملا تو ضرور ڈگری حاصل کروں گا۔فلمسازی میں ڈگری حاصل کرنا ہر گز اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ آپ کامیاب فلمساز بنیں گے، میں فلم، کیمرہ، اینگلنگ، فریمنگ، لائٹنگ، پوسٹ پروڈکشن و دیگر تکنیکی امور کے بارے میں پڑھتا ہوں، امید ہے کہ مستقبل میں بہتر فلمسازی کی طرف توجہ دوں۔
رافع نے بتایا کہ فلم بنانے سے قبل لاڑکانہ میں امریکی پروڈیوسر کے ساتھ دستاویزی فلم بنائی تھی، لاڑکانہ میں حاجی علی کھوکھر نامی فرد ہیں، جو کھوئے ہوئے بچوں کو خاندان سے ملواتا ہے۔رافع راشدی فی الوقت مومل پروڈکشنز کے ساتھ بطور ہیڈ آف پروکشنز کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مومل پروڈکشن کو جوائن کیے 2ماہ ہوئے ہیں، سال میں چار سے پانچ ڈرامہ پروجیکٹس شروع کرنے کا ارادہ ہے، فلم کو بریک دیا ہے، ابھی خود کووقت دینا چاہتا ہوں تاہم کن موضوعات پر کام کرنا چاہتا ہوں ان کا فیصلہ کرلیا ہے، میری اگلی فلم سپورٹس یا ہارر سے متعلق ہوسکتی ہے، سپورٹس اس لیے کہ ابھی حالیہ چیمپیئز ٹرافی میں پاکستان نے جیت کر عوام کو بہترین تحفہ دیا، سپورٹس ہمیں آپس میں جوڑے رکھتی ہے، یہ پیار محبت اور اتحاد کو فروغ دیتاہے، ہم اپنے ہیروز کو بھول چکے ہیں تو اسپورٹس فلم ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی فلم میں اسٹار پاور نہیں تھی ، نئے لوگوں کو موقع دیا، اگلی فلم میں اسٹار پاور یقینی بناؤں گا، اگر فواد خان کو بھی کاسٹ کرنا پڑا تو کروں گا، میں صرف دل موہ لینے والی اسکرپٹ کا انتظار کررہا ہوں، اور خود کو وقت دے رہا ہوں کیونکہ اس بار غلطی کی گنجائش نہیں۔