اقبال کی شاعری کو لازمی مضمون کا درجہ ملنا چاہیے ڈاکٹر بصیرہ عنبرین
کوشش ہوتی ہے ذہین اور اوسط طلبہ کو لیکچر یکساں سمجھ آئے
لاہور:
ایف اے تک وہ اقبال کا اردو اور فارسی کلام مکمل پڑھ چکی تھیں۔ یہ اقبال کو ادب کے اساتذہ سے پڑھنے کی کشش ہی تھی کہ انہوں نے نفسیات کے بجائے اردو میں ایم اے کرنے کا فیصلہ کیا، بعدازاں شعرِ اقبال کے مختلف فنی پہلوؤں پر ان کے تحقیقی کام نے علمائے ادب کو متاثر کیا۔ ممتاز نقاد شمیم حنفی ان کی کتاب ''مقائسہ ارمغان حجاز، فارسی'' کے خاص طور پر قائل ہیں۔ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے علمی و تحقیقی کام کا بنیادی حوالہ تو اقبالیات ہی ہے لیکن انہوں نے غالب شناسی، کلاسیکی داستان بیتال پچیسی کی تسہیل اور فکشن کے مترجم کی حیثیت سے بھی قابل قدر کام کیا ہے۔
ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے والد محمد رفیق مرزا محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے۔ والدین نے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بالخصوص توجہ دی، جس کی وجہ سے تمام بہن بھائیوں نے اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کیے۔ وہ بتاتی ہیں، ''والدین نے ہماری الحمدللہ اچھی تربیت کی جس کی وجہ سے شخصیت میں ایک ٹھہراؤ ہے اور ہمارے اندر دنیاوی ہوس پیدا نہیں ہوئی۔'' علاقے کے سرکاری سکول سے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا جہاں انہیں بہت اچھے اساتذہ میسر آئے۔ میٹرک میں لاہور بورڈ میں امتیازی پوزیشن حاصل کی۔ لاہور کالج برائے خواتین سے ایف اے اور بی اے آنرز کے امتحان بھی امتیازی حیثیت میں پاس کیے۔
اردو اور نفسیات کے مضامین میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے اردو میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا اور اسی ادارے میں پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ میں انہوں نے ''اقبال کی اردو شاعری کے فنی محاسن'' کے موضوع پر مقالہ لکھا جو کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے فارسی میں بھی ایم اے جبکہ ہندی زبان میں ڈپلوما کر رکھا ہے۔ انہوں نے اردو کی لیکچررشپ کے لیے منعقد ہونے والے مقابلے کے امتحان میں بھی ٹاپ کیا اور یوں عملی زندگی کا آغاز 1997ء میں لاہور کالج برائے خواتین میں تدریس سے ہوا۔ 2001ء میں وہ اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہو گئیں جہاں آج کل ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
اقبال کی انفرادیت سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا، ''عام طور پر ہوتا ہے کہ کسی شاعر کی فکر پرکشش ہوتی ہے، کسی کا فن کارآمد ہوتا ہے، لیکن اقبال کے ہاں فکر و فن کا بہت خوبصورت امتزاج ہے اور دونوں معاملات میں وہ عروج کو پہنچے ہوئے ہیں۔ تیسری چیز جو اقبال کو ممتاز کرتی ہے وہ انسانی نفسیات پر اس کی گہری نظر ہے۔ انسان کے مقاصد کیسے ہونے چاہئیں، زندگی میں اس کے اہداف کیا ہونے چاہئیں، یہ باتیں کوئی دوسرا شاعر نہیں کرتا۔ مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ یکساں طور پر اقبال کو پسند کرتے ہیں،کیوں کہ وہ انسان کی نفسیات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ چیز جب اس کے فکر و فن کے ساتھ مل کر سامنے آتی ہے تو اقبال ایک پرکشش شاعر ہوجاتا ہے۔'' وہ سمجھتی ہیں اقبال کی فارسی شاعری پڑھے بغیر ان کی شاعرانہ عظمت، پیغام اور فلسفہ خودی کو مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔''تضمینات اقبال'' ، ''مقائسہ ارمغان حجاز فارسی'' اور ''محسنات شعر اقبال''
اقبال کے فن پر شائع ہونے والی ان کی کتابیں ہیں۔ انہوں نے شعر اقبال کے ان گوشوں پر تحقیق کرنے کو ترجیح دی جن پر پہلے کام نہیں ہوا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ''تضمین کو لفظی صنعت کہا جاتا ہے، مزے کی بات ہے کہ اقبال کے ہاں جب یہ آتی ہے تو معنوی صنعت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس سے پہلے جتنے شعرا ء تھے انہوں نے اس کو لفظی خوبصورتی کے لیے استعمال کیا۔ ''مقائسہ ارمغان حجاز فارسی'' تدوین ہے۔ چونکہ یہ واحد شعری مجموعہ ہے جو اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوا، اس میں اقبال کی بیاض کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے پہلے تین مطبوعہ ایڈیشنوں کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے اور اقبال کی سوچ کے قریب ترین متن پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ مقالہ میں نے بنیادی طورپر فارسی میں لکھا تھا، لیکن پھر ترجمہ کر کے حاشیے کے ساتھ اردو میں شائع کرایا، کیونکہ اردو میں قارئین کی تعداد زیادہ ہے۔''
ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نے منتخب جدید ایرانی افسانوں اور نیپالی لوک کہانیوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ترجمے کے عمل کے متعلق وہ کہتی ہیں، ''ترجمہ کرنے سے پہلے مجھے یہ ایک میکانکی سا عمل لگتا تھا۔ لیکن جب میں نے خود ترجمے کیے تو میرے اس کے بارے میں اب خیالات بالکل مختلف ہیں۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ ترجمہ مختلف اصناف میں مختلف طورپر اپنا اظہار چاہتا ہے۔ شاعری کا ترجمہ کریں تو وہ اور اظہار چاہتا ہے۔ علمی نثر کا ترجمہ اور اظہار چاہتا ہے اور افسانوی نثر کا ترجمہ کریں تو اس کا اظہار بہت مختلف ہو گا۔ میں نے دونوں طرح کے ترجمے کیے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کی ''لغت دوراں'' کا بھی ترجمہ کیا وہ ایک علمی تحریر تھی تصوف کے حوالے سے، اس کے تقاضے اور ہیں۔
اس میں آپ کو اصل متن سے انحراف بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ فکشن میں بھی آپ اصل متن سے انحراف تو نہیں کرتے لیکن اس کو اپنے کلچر اور محاورے سے ہم آہنگ کرنے کی ایک کوشش ضرور ہوتی ہے۔''انہوں نے اردو کی کلاسیکی داستان بیتال پچیسی کی تسہیل بھی کی۔وہ بتاتی ہیں، ''اس کی تسہیل اور تفہیم کے لیے کئی پیچیدگیوں اور مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑا۔میرا اس پر کافی وقت صرف ہوا اور بہت محنت بھی کرنا پڑی لیکن مجھے اچھا لگا کہ میں نے کلاسیکی ادب کو عام فہم بنایا ہے۔ کیونکہ اس سے یہ فرق پڑتا ہے کہ اس کی زندگی بڑھ جاتی ہے اور ہر کوئی اس کو پڑھ سکتا ہے۔'' اپنی کتاب ''گنجینہ غالب'' میں انہوں نے غالب کی اردو اور فارسی شاعری کی تراکیب پر پہلی مرتبہ کام کیا ہے، جو کہ غالب شناسی کے ضمن میں ایک اہم کتاب ہے۔
ایک کامیاب استاد بننا اور طالب علموں کی اچھے کام کے لیے حوصلہ افزائی کرنا بطور استاد ان کی ترجیح ہوتی ہے۔ وہ کوشش کرتی ہیں کہ ایک ذہین طالب علم اور اوسط درجے کے طالب علم دونوں کو لیکچر یکساں سمجھ آئے۔ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے بقول، ''میں بڑی خوش نصیب ہوں کہ مجھے ہمیشہ بہت اچھے اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا۔سکول کے زمانے میں میری اردو کی ٹیچر مسز ثریا احمد بہت اچھی تھیں۔ کالج میں بھی مسز مشتاق اور مسز خواجہ سعید نے مجھے شاعری اور عروض کے حوالے سے بہت اچھی طرح گائیڈ کیا۔
یونیورسٹی میں ڈاکٹر خواجہ زکریا، سہیل احمد خان، تحسین فراقی، فخرالحق نوری اور دوسرے اساتذہ سے کسب فیض کیا، ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔''ان کے شوہر ڈاکٹر وحید الرحمن خان بھی اردو ادب کی تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ مزاح نگار اور محقق ہیں۔ وہ دو بیٹیوں ایمن رحمان، عمیمہ رحمان اور ایک بیٹے ولید رحمان کی والدہ ہیں۔ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے مطابق، ''اقبال ایک پیچیدہ شاعر ہے اور اس پر کام کرنے کی گنجائش ہمیشہ رہے گی۔ یہ کچھ لوگوں پر اللہ کا خاص فیضان ہوتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں صرف اردو پڑھنے والوں کو ہی نہیں بلکہ مختلف شعبوں سائنس، میڈیکل، کامرس وغیرہ میں زیرتعلیم طالب علموں کو بھی کلام اقبال کا منتخب حصہ پڑھانا چاہیے۔ یہ ان کی اپنی ذات سے آگاہی کے لیے بہت اہم ہے۔''
ایف اے تک وہ اقبال کا اردو اور فارسی کلام مکمل پڑھ چکی تھیں۔ یہ اقبال کو ادب کے اساتذہ سے پڑھنے کی کشش ہی تھی کہ انہوں نے نفسیات کے بجائے اردو میں ایم اے کرنے کا فیصلہ کیا، بعدازاں شعرِ اقبال کے مختلف فنی پہلوؤں پر ان کے تحقیقی کام نے علمائے ادب کو متاثر کیا۔ ممتاز نقاد شمیم حنفی ان کی کتاب ''مقائسہ ارمغان حجاز، فارسی'' کے خاص طور پر قائل ہیں۔ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے علمی و تحقیقی کام کا بنیادی حوالہ تو اقبالیات ہی ہے لیکن انہوں نے غالب شناسی، کلاسیکی داستان بیتال پچیسی کی تسہیل اور فکشن کے مترجم کی حیثیت سے بھی قابل قدر کام کیا ہے۔
ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے والد محمد رفیق مرزا محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے۔ والدین نے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بالخصوص توجہ دی، جس کی وجہ سے تمام بہن بھائیوں نے اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کیے۔ وہ بتاتی ہیں، ''والدین نے ہماری الحمدللہ اچھی تربیت کی جس کی وجہ سے شخصیت میں ایک ٹھہراؤ ہے اور ہمارے اندر دنیاوی ہوس پیدا نہیں ہوئی۔'' علاقے کے سرکاری سکول سے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا جہاں انہیں بہت اچھے اساتذہ میسر آئے۔ میٹرک میں لاہور بورڈ میں امتیازی پوزیشن حاصل کی۔ لاہور کالج برائے خواتین سے ایف اے اور بی اے آنرز کے امتحان بھی امتیازی حیثیت میں پاس کیے۔
اردو اور نفسیات کے مضامین میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے اردو میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا اور اسی ادارے میں پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ میں انہوں نے ''اقبال کی اردو شاعری کے فنی محاسن'' کے موضوع پر مقالہ لکھا جو کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے فارسی میں بھی ایم اے جبکہ ہندی زبان میں ڈپلوما کر رکھا ہے۔ انہوں نے اردو کی لیکچررشپ کے لیے منعقد ہونے والے مقابلے کے امتحان میں بھی ٹاپ کیا اور یوں عملی زندگی کا آغاز 1997ء میں لاہور کالج برائے خواتین میں تدریس سے ہوا۔ 2001ء میں وہ اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہو گئیں جہاں آج کل ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
اقبال کی انفرادیت سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا، ''عام طور پر ہوتا ہے کہ کسی شاعر کی فکر پرکشش ہوتی ہے، کسی کا فن کارآمد ہوتا ہے، لیکن اقبال کے ہاں فکر و فن کا بہت خوبصورت امتزاج ہے اور دونوں معاملات میں وہ عروج کو پہنچے ہوئے ہیں۔ تیسری چیز جو اقبال کو ممتاز کرتی ہے وہ انسانی نفسیات پر اس کی گہری نظر ہے۔ انسان کے مقاصد کیسے ہونے چاہئیں، زندگی میں اس کے اہداف کیا ہونے چاہئیں، یہ باتیں کوئی دوسرا شاعر نہیں کرتا۔ مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ یکساں طور پر اقبال کو پسند کرتے ہیں،کیوں کہ وہ انسان کی نفسیات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ چیز جب اس کے فکر و فن کے ساتھ مل کر سامنے آتی ہے تو اقبال ایک پرکشش شاعر ہوجاتا ہے۔'' وہ سمجھتی ہیں اقبال کی فارسی شاعری پڑھے بغیر ان کی شاعرانہ عظمت، پیغام اور فلسفہ خودی کو مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔''تضمینات اقبال'' ، ''مقائسہ ارمغان حجاز فارسی'' اور ''محسنات شعر اقبال''
اقبال کے فن پر شائع ہونے والی ان کی کتابیں ہیں۔ انہوں نے شعر اقبال کے ان گوشوں پر تحقیق کرنے کو ترجیح دی جن پر پہلے کام نہیں ہوا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ''تضمین کو لفظی صنعت کہا جاتا ہے، مزے کی بات ہے کہ اقبال کے ہاں جب یہ آتی ہے تو معنوی صنعت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس سے پہلے جتنے شعرا ء تھے انہوں نے اس کو لفظی خوبصورتی کے لیے استعمال کیا۔ ''مقائسہ ارمغان حجاز فارسی'' تدوین ہے۔ چونکہ یہ واحد شعری مجموعہ ہے جو اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوا، اس میں اقبال کی بیاض کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے پہلے تین مطبوعہ ایڈیشنوں کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے اور اقبال کی سوچ کے قریب ترین متن پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ مقالہ میں نے بنیادی طورپر فارسی میں لکھا تھا، لیکن پھر ترجمہ کر کے حاشیے کے ساتھ اردو میں شائع کرایا، کیونکہ اردو میں قارئین کی تعداد زیادہ ہے۔''
ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نے منتخب جدید ایرانی افسانوں اور نیپالی لوک کہانیوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ترجمے کے عمل کے متعلق وہ کہتی ہیں، ''ترجمہ کرنے سے پہلے مجھے یہ ایک میکانکی سا عمل لگتا تھا۔ لیکن جب میں نے خود ترجمے کیے تو میرے اس کے بارے میں اب خیالات بالکل مختلف ہیں۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ ترجمہ مختلف اصناف میں مختلف طورپر اپنا اظہار چاہتا ہے۔ شاعری کا ترجمہ کریں تو وہ اور اظہار چاہتا ہے۔ علمی نثر کا ترجمہ اور اظہار چاہتا ہے اور افسانوی نثر کا ترجمہ کریں تو اس کا اظہار بہت مختلف ہو گا۔ میں نے دونوں طرح کے ترجمے کیے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کی ''لغت دوراں'' کا بھی ترجمہ کیا وہ ایک علمی تحریر تھی تصوف کے حوالے سے، اس کے تقاضے اور ہیں۔
اس میں آپ کو اصل متن سے انحراف بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ فکشن میں بھی آپ اصل متن سے انحراف تو نہیں کرتے لیکن اس کو اپنے کلچر اور محاورے سے ہم آہنگ کرنے کی ایک کوشش ضرور ہوتی ہے۔''انہوں نے اردو کی کلاسیکی داستان بیتال پچیسی کی تسہیل بھی کی۔وہ بتاتی ہیں، ''اس کی تسہیل اور تفہیم کے لیے کئی پیچیدگیوں اور مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑا۔میرا اس پر کافی وقت صرف ہوا اور بہت محنت بھی کرنا پڑی لیکن مجھے اچھا لگا کہ میں نے کلاسیکی ادب کو عام فہم بنایا ہے۔ کیونکہ اس سے یہ فرق پڑتا ہے کہ اس کی زندگی بڑھ جاتی ہے اور ہر کوئی اس کو پڑھ سکتا ہے۔'' اپنی کتاب ''گنجینہ غالب'' میں انہوں نے غالب کی اردو اور فارسی شاعری کی تراکیب پر پہلی مرتبہ کام کیا ہے، جو کہ غالب شناسی کے ضمن میں ایک اہم کتاب ہے۔
ایک کامیاب استاد بننا اور طالب علموں کی اچھے کام کے لیے حوصلہ افزائی کرنا بطور استاد ان کی ترجیح ہوتی ہے۔ وہ کوشش کرتی ہیں کہ ایک ذہین طالب علم اور اوسط درجے کے طالب علم دونوں کو لیکچر یکساں سمجھ آئے۔ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے بقول، ''میں بڑی خوش نصیب ہوں کہ مجھے ہمیشہ بہت اچھے اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا۔سکول کے زمانے میں میری اردو کی ٹیچر مسز ثریا احمد بہت اچھی تھیں۔ کالج میں بھی مسز مشتاق اور مسز خواجہ سعید نے مجھے شاعری اور عروض کے حوالے سے بہت اچھی طرح گائیڈ کیا۔
یونیورسٹی میں ڈاکٹر خواجہ زکریا، سہیل احمد خان، تحسین فراقی، فخرالحق نوری اور دوسرے اساتذہ سے کسب فیض کیا، ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔''ان کے شوہر ڈاکٹر وحید الرحمن خان بھی اردو ادب کی تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ مزاح نگار اور محقق ہیں۔ وہ دو بیٹیوں ایمن رحمان، عمیمہ رحمان اور ایک بیٹے ولید رحمان کی والدہ ہیں۔ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے مطابق، ''اقبال ایک پیچیدہ شاعر ہے اور اس پر کام کرنے کی گنجائش ہمیشہ رہے گی۔ یہ کچھ لوگوں پر اللہ کا خاص فیضان ہوتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں صرف اردو پڑھنے والوں کو ہی نہیں بلکہ مختلف شعبوں سائنس، میڈیکل، کامرس وغیرہ میں زیرتعلیم طالب علموں کو بھی کلام اقبال کا منتخب حصہ پڑھانا چاہیے۔ یہ ان کی اپنی ذات سے آگاہی کے لیے بہت اہم ہے۔''