آئی ایم ایف نے پاکستان کو ڈالر 116 روپے کرنے کا مشورہ دے دیا
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ روپے کی خرید و فروخت اس کی اصل قدر کے مطابق ہونی چاہیے
AUGUSTA:
اگرچہ گزشتہ روز کی گراوٹ کے بعد آج روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہونے لگا اور آج صبح انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کا کاروبار کا آغاز 107 روپے 80 پیسے سے ہوا لیکن صرف دو گھنٹے میں اس کی قیمت 108 روپے 10 پیسے پر پہنچ گئی۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سہ پہر 3 بجے امریکی ڈالر اوپن مارکیٹ میں 107 روپے 15 پیسے پر ٹریڈ ہورہا تھا جبکہ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینکوں کے سربراہان کا ہنگامی اجلاس بلالیا تھا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ڈالر کو پرلگ گئے، 109 روپے 10 پیسے پر پہنچ گیا
روپے کی قدر میں تیز رفتار کمی پر وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں بھی اختلافات سامنے آچکے ہیں کیونکہ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز روپے کی قدر میں کمی کو ملک میں جاری سیاسی بحران کا نتیجہ قرار دیا لیکن اسٹیٹ بینک کے مطابق ایسا بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر میں کمی کے باعث ہوا تھا اور یہ ایک مثبت رجحان ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدرمیں کمی کومثبت قراردے دیا
دوسری جانب ایکسپریس ٹربیون میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارے پچھلے چند سال سے وفاقی وزارتِ خزانہ سے مسلسل یہ کہتے آرہے ہیں کہ پاکستانی روپے کی خرید و فروخت اس کی ''اصل قیمت'' کے مطابق ہونی چاہیے جو اِن اداروں کے حساب سے اِس وقت 116 روپے فی ڈالر یا اس سے بھی کچھ زیادہ ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ روپے کی قدر میں غیرمعمولی کمی سے صرف 3 ہفتے قبل ہی آئی ایم ایف کے ڈائریکٹرز نے پاکستان سے کہا تھا کہ انتظامی اقدامات پر انحصار کرنے کے بجائے شرح مبادلہ (ایکسچینج ریٹ) میں لچک پیدا کی جائے تاکہ اس حوالے سے بیرونی عدم توازن کم کیا جاسکے۔
علاوہ ازیں وسط جون 2017 میں آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ ایک ہینڈ آؤٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈالر اور روپے میں مستحکم شرح مبادلہ کے تناظر میں پاکستان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہوئے ہیں یعنی حکومتِ پاکستان نے روپے کی قدر برقرار رکھنے کےلیے ڈالر کی حقیقی مالیت کو داؤ پر لگادیا ہے۔
فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آنے والے دنوں اور مہینوں میں روپے کی قدر مزید کم ہوگی یا اس میں اضافہ ہوگا لیکن ماضی کے تجربات مدنظر رکھے جائیں تو پاکستانی حکومت کے پاس آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دیئے گئے ''مشوروں'' پر عمل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں ہوگا۔
اگرچہ گزشتہ روز کی گراوٹ کے بعد آج روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہونے لگا اور آج صبح انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کا کاروبار کا آغاز 107 روپے 80 پیسے سے ہوا لیکن صرف دو گھنٹے میں اس کی قیمت 108 روپے 10 پیسے پر پہنچ گئی۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سہ پہر 3 بجے امریکی ڈالر اوپن مارکیٹ میں 107 روپے 15 پیسے پر ٹریڈ ہورہا تھا جبکہ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینکوں کے سربراہان کا ہنگامی اجلاس بلالیا تھا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ڈالر کو پرلگ گئے، 109 روپے 10 پیسے پر پہنچ گیا
روپے کی قدر میں تیز رفتار کمی پر وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں بھی اختلافات سامنے آچکے ہیں کیونکہ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز روپے کی قدر میں کمی کو ملک میں جاری سیاسی بحران کا نتیجہ قرار دیا لیکن اسٹیٹ بینک کے مطابق ایسا بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر میں کمی کے باعث ہوا تھا اور یہ ایک مثبت رجحان ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدرمیں کمی کومثبت قراردے دیا
دوسری جانب ایکسپریس ٹربیون میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارے پچھلے چند سال سے وفاقی وزارتِ خزانہ سے مسلسل یہ کہتے آرہے ہیں کہ پاکستانی روپے کی خرید و فروخت اس کی ''اصل قیمت'' کے مطابق ہونی چاہیے جو اِن اداروں کے حساب سے اِس وقت 116 روپے فی ڈالر یا اس سے بھی کچھ زیادہ ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ روپے کی قدر میں غیرمعمولی کمی سے صرف 3 ہفتے قبل ہی آئی ایم ایف کے ڈائریکٹرز نے پاکستان سے کہا تھا کہ انتظامی اقدامات پر انحصار کرنے کے بجائے شرح مبادلہ (ایکسچینج ریٹ) میں لچک پیدا کی جائے تاکہ اس حوالے سے بیرونی عدم توازن کم کیا جاسکے۔
علاوہ ازیں وسط جون 2017 میں آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ ایک ہینڈ آؤٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈالر اور روپے میں مستحکم شرح مبادلہ کے تناظر میں پاکستان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہوئے ہیں یعنی حکومتِ پاکستان نے روپے کی قدر برقرار رکھنے کےلیے ڈالر کی حقیقی مالیت کو داؤ پر لگادیا ہے۔
فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آنے والے دنوں اور مہینوں میں روپے کی قدر مزید کم ہوگی یا اس میں اضافہ ہوگا لیکن ماضی کے تجربات مدنظر رکھے جائیں تو پاکستانی حکومت کے پاس آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دیئے گئے ''مشوروں'' پر عمل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں ہوگا۔