مسلکی تضاد کا استعمال
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کے خلاف مذہبی انتہا پسندوں کی نفرت کا رخ مسلمانوں کے اپنے فرقوں کی طرف کیوں موڑا گیا؟
پارا چنار میں دہشت گردی سانحے کے خلاف احتجاجی دھرنا چیف آف اسٹاف جنرل باجوہ کی یقین دہانیوں کے بعد کہ پارا چنار میں سیکیورٹی کے مزید سخت انتظامات کیے جائیں گے ختم کردیاگیا۔ پارا چنار میں ایک مخصوص کمیونٹی کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں جب سے دہشت گردی کا آغاز ہوا ہے دہشت گرد خاص طور پر مسلکی بنیادوں پر لوگوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ماضی قریب میں بلوچستان میں لوگوں کو بسوں سے اتار کر لائنوں میں کھڑا کرکے گولیاں ماری گئیں۔ کوئٹہ میں برادری پر مسلسل حملے ہوتے رہے جس میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا آغاز اس وقت ہوا جب سابق امریکی صدر بش نے غلط اور بے بنیاد الزامات کے تحت عراق پر حملہ کیا۔ بش نے 9/11 کا غصہ اتارنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف مہم کا آغاز کیا اور اس مہم میں افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ 9/11 کا حادثہ بھی امریکا سے نفرت اور ناراضگی کا نتیجہ تھا اور اس کے بعد ہونے والی دہشت گردی کا اصل ٹارگٹ بھی امریکا ہی کو ہونا چاہیے تھا کیونکہ فلسطین اورکشمیر میں ہونے والی خونریزی کا ذمے دار مسلم انتہا پسند حلقے امریکا ہی کو سمجھتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کے خلاف مذہبی انتہا پسندوں کی نفرت کا رخ مسلمانوں کے اپنے فرقوں کی طرف کیوں موڑا گیا؟ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عرب وعجم کا مسئلہ صدیوں پرانا ہے لیکن اسے باضابطہ مسلکی جنگ میں اکیسویں صدی میں تبدیل کیا گیا۔ یہی وہ تبدیلی ہے جس پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔
عراق پر امریکی حملے سے پہلے بھی عراق میں مسلکی اختلافات موجود تھے لیکن عراق پر امریکی افواج کے قبضے کے بعد عراق میں مسلکی اختلافات میں اس قدر شدت آگئی کہ ہر روز بغداد میں مسلکی حوالے سے ٹارگٹ کلنگ کا آغاز ہوا اور ایک فرقہ دوسرے فرقے کے افراد کو انتہائی بے دردی سے قتل کرنے لگا۔ یہ تبدیلی نہ کوئی اچانک پیش آنے والا واقعہ تھا، نہ غیر منظم جنگ تھی بلکہ یہ سب ایک منظم اور منصوبہ بند سازش تھی جس کا پہلا مقصد مسلمانوں کی اجتماعیت اور اجتماعی طاقت کو توڑنا تھا۔ تاکہ مستقبل میں دنیا کی یہ لگ بھگ چوتھائی آبادی مغرب کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔
اس سازش کا دوسرا اور بڑا مقصد سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی نفرت کو روکنا تھا۔ برطانیہ سے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جو تحریک شروع ہوئی تھی وہ بتدریج ساری دنیا میں پھیلتی جا رہی تھی اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست اس تحریک سے بہت خائف تھے۔ مغرب کے منصوبہ سازوں کو یہ علم تھا کہ مسلمانوں کو مذہب و مسلک کے نام پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سو ان منصوبہ سازوں نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کا پلان بنایا۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وبا کو دنیا کا سب سے اہم اور سنگین مسئلہ بناکر دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا رخ موڑ دیاگیا اور دوسرا فائدہ اس تحریک میں مسلکی مسئلے کو شامل کرکے مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کو توڑ دیاگیا۔ یوں سانحہ پارا چنار اصل میں اسی سازش کا حصہ ہے۔
ایران کو امریکا کا سب سے بڑا دشمن بناکر اس کے خلاف سخت پابندیاں لگادی گئیں ان اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو اس قدر اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مرضی کے مطابق ایٹمی مسئلے پر اپنی پالیسی تبدیل کرلی۔ امریکا کو پھر بھی چین نہ آیا اس نے پچھلے دنوں سعودی عرب میں پچاس سے زیادہ مسلم ملکوں کی کانفرنس کو ایران کے خلاف استعمال کیا اور ایران کو تنہا کرنے کی کوشش کی۔
مسلکی اختلافات اب جس انتہا کو پہنچ گئے ہیں ،اس کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا کے دانشور اور اہل علم اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھیں کیونکہ یہ مسئلہ صرف مسلکی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس کے پیچھے اب سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات آگئے ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ امریکا کی موجودہ نا اہل قیادت اس اہلیت کے ساتھ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ اس سازش کو نہ روکا گیا تو تمام مسلم ممالک نہ صرف مسلکی اختلافات کی زد میں آجائیںگے بلکہ ان کی اجتماعی طاقت پارہ پارہ ہوکر رہ جائے گی۔
ریاض کانفرنس میں ٹرمپ نے مسلم ملکوں کو تقسیم کرنے اور ایران کو تنہا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ایران کے بعد اب قطرکو بھی اس تقسیم کا فریق بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ عرب ملک جن کے اقتداری مفادات امریکا سے جڑے ہوئے ہیں وہ ہر قیمت پر ایران کو تنہا کرنا چاہتے ہیں اور قطر کو بھی اس کا ہمنوا ثابت کرکے مشکلات میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا کی خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ ایک طرف جمہوریت کا اس قدر علم بردار نظر آتا ہے کہ کسی جمہوری ملک میں بوجوہ فوجی قیادت کا خطرہ پیدا ہوجائے تو کھل کر اس کی مخالفت کرتا ہے اور دوسری طرف اپنی اقتصادی مفادات کی خاطر بادشاہتوں کا دوست بنا ہوا ہے۔
عرب و عجم کا تضاد بہت گہرا ہے ہمارے وزیراعظم اس تضاد کی گہرائی سمجھے بغیر اسے حل کرنے کے لیے آگے بڑھے تھے لیکن ناکام رہے۔ مسلکی تضادات بہت گہرے ہیں انھیں کوئی حکمران یا سیاست دان حل نہیں کرسکتا اس کے لیے ایک تو عوامی سطح پر مسلکی یکجہتی کی کوششیں کرنی ہوںگی۔
دوسری طرف دانشورانہ سطح پر مسلم ملکوں کے دانشوروں اور مقلدوں کو آگے آنا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ اس مسئلے کو دہشت گردی سے منسلک کرکے مغرب منصوبہ ساز سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے مظالم سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں یہ مسئلہ اب محض مسلکی اختلافات کا مسئلہ نہیں رہا ہے۔
پاکستان میں جب سے دہشت گردی کا آغاز ہوا ہے دہشت گرد خاص طور پر مسلکی بنیادوں پر لوگوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ماضی قریب میں بلوچستان میں لوگوں کو بسوں سے اتار کر لائنوں میں کھڑا کرکے گولیاں ماری گئیں۔ کوئٹہ میں برادری پر مسلسل حملے ہوتے رہے جس میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا آغاز اس وقت ہوا جب سابق امریکی صدر بش نے غلط اور بے بنیاد الزامات کے تحت عراق پر حملہ کیا۔ بش نے 9/11 کا غصہ اتارنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف مہم کا آغاز کیا اور اس مہم میں افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ 9/11 کا حادثہ بھی امریکا سے نفرت اور ناراضگی کا نتیجہ تھا اور اس کے بعد ہونے والی دہشت گردی کا اصل ٹارگٹ بھی امریکا ہی کو ہونا چاہیے تھا کیونکہ فلسطین اورکشمیر میں ہونے والی خونریزی کا ذمے دار مسلم انتہا پسند حلقے امریکا ہی کو سمجھتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کے خلاف مذہبی انتہا پسندوں کی نفرت کا رخ مسلمانوں کے اپنے فرقوں کی طرف کیوں موڑا گیا؟ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عرب وعجم کا مسئلہ صدیوں پرانا ہے لیکن اسے باضابطہ مسلکی جنگ میں اکیسویں صدی میں تبدیل کیا گیا۔ یہی وہ تبدیلی ہے جس پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔
عراق پر امریکی حملے سے پہلے بھی عراق میں مسلکی اختلافات موجود تھے لیکن عراق پر امریکی افواج کے قبضے کے بعد عراق میں مسلکی اختلافات میں اس قدر شدت آگئی کہ ہر روز بغداد میں مسلکی حوالے سے ٹارگٹ کلنگ کا آغاز ہوا اور ایک فرقہ دوسرے فرقے کے افراد کو انتہائی بے دردی سے قتل کرنے لگا۔ یہ تبدیلی نہ کوئی اچانک پیش آنے والا واقعہ تھا، نہ غیر منظم جنگ تھی بلکہ یہ سب ایک منظم اور منصوبہ بند سازش تھی جس کا پہلا مقصد مسلمانوں کی اجتماعیت اور اجتماعی طاقت کو توڑنا تھا۔ تاکہ مستقبل میں دنیا کی یہ لگ بھگ چوتھائی آبادی مغرب کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔
اس سازش کا دوسرا اور بڑا مقصد سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی نفرت کو روکنا تھا۔ برطانیہ سے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جو تحریک شروع ہوئی تھی وہ بتدریج ساری دنیا میں پھیلتی جا رہی تھی اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست اس تحریک سے بہت خائف تھے۔ مغرب کے منصوبہ سازوں کو یہ علم تھا کہ مسلمانوں کو مذہب و مسلک کے نام پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سو ان منصوبہ سازوں نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کا پلان بنایا۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وبا کو دنیا کا سب سے اہم اور سنگین مسئلہ بناکر دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا رخ موڑ دیاگیا اور دوسرا فائدہ اس تحریک میں مسلکی مسئلے کو شامل کرکے مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کو توڑ دیاگیا۔ یوں سانحہ پارا چنار اصل میں اسی سازش کا حصہ ہے۔
ایران کو امریکا کا سب سے بڑا دشمن بناکر اس کے خلاف سخت پابندیاں لگادی گئیں ان اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو اس قدر اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مرضی کے مطابق ایٹمی مسئلے پر اپنی پالیسی تبدیل کرلی۔ امریکا کو پھر بھی چین نہ آیا اس نے پچھلے دنوں سعودی عرب میں پچاس سے زیادہ مسلم ملکوں کی کانفرنس کو ایران کے خلاف استعمال کیا اور ایران کو تنہا کرنے کی کوشش کی۔
مسلکی اختلافات اب جس انتہا کو پہنچ گئے ہیں ،اس کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا کے دانشور اور اہل علم اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھیں کیونکہ یہ مسئلہ صرف مسلکی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس کے پیچھے اب سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات آگئے ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ امریکا کی موجودہ نا اہل قیادت اس اہلیت کے ساتھ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ اس سازش کو نہ روکا گیا تو تمام مسلم ممالک نہ صرف مسلکی اختلافات کی زد میں آجائیںگے بلکہ ان کی اجتماعی طاقت پارہ پارہ ہوکر رہ جائے گی۔
ریاض کانفرنس میں ٹرمپ نے مسلم ملکوں کو تقسیم کرنے اور ایران کو تنہا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ایران کے بعد اب قطرکو بھی اس تقسیم کا فریق بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ عرب ملک جن کے اقتداری مفادات امریکا سے جڑے ہوئے ہیں وہ ہر قیمت پر ایران کو تنہا کرنا چاہتے ہیں اور قطر کو بھی اس کا ہمنوا ثابت کرکے مشکلات میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا کی خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ ایک طرف جمہوریت کا اس قدر علم بردار نظر آتا ہے کہ کسی جمہوری ملک میں بوجوہ فوجی قیادت کا خطرہ پیدا ہوجائے تو کھل کر اس کی مخالفت کرتا ہے اور دوسری طرف اپنی اقتصادی مفادات کی خاطر بادشاہتوں کا دوست بنا ہوا ہے۔
عرب و عجم کا تضاد بہت گہرا ہے ہمارے وزیراعظم اس تضاد کی گہرائی سمجھے بغیر اسے حل کرنے کے لیے آگے بڑھے تھے لیکن ناکام رہے۔ مسلکی تضادات بہت گہرے ہیں انھیں کوئی حکمران یا سیاست دان حل نہیں کرسکتا اس کے لیے ایک تو عوامی سطح پر مسلکی یکجہتی کی کوششیں کرنی ہوںگی۔
دوسری طرف دانشورانہ سطح پر مسلم ملکوں کے دانشوروں اور مقلدوں کو آگے آنا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ اس مسئلے کو دہشت گردی سے منسلک کرکے مغرب منصوبہ ساز سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے مظالم سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں یہ مسئلہ اب محض مسلکی اختلافات کا مسئلہ نہیں رہا ہے۔