سانحات پر منفی سیاست
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ بڑے حادثات اور سانحات پر منفی سیاست اب اپوزیشن رہنماؤں کی ترجیح بن چکی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ ملک میں پیش آنے والے سانحات پر منفی سیاست نہیں ہونی چاہیے اور ایسے موقعے پر غیر متوقع پیش آجانے والے واقعات کے سدباب پر توجہ دینی چاہیے۔ سانحہ احمد پور شرقیہ کا ذمے دار اپوزیشن حکومت کو قرار دے رہی ہے تو وزیر اعلیٰ پنجاب اسے ناخواندگی اورکرپشن کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں اور میڈیا اور غیر جانبدار حلقے اس کو غربت، لالچ اور غیر ذمے داری قرار دے رہے ہیں۔
جاہل سے جاہل آدمی بھی جانتا ہے کہ آگ پٹرول کی دشمن ہے اور مٹی کا تیل بھی آگ جلانے اور بھڑکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پٹرول تو انتہائی احتیاط اور اچھی طرح بند کرکے محفوظ کیا جاتا ہے جو انتہائی خطرناک ہوتا ہے جب کہ مٹی کا تیل عام اور کھلا ہوا فروخت ہوتا ہے اور پٹرول پمپوں پر سگریٹ پینا تو کیا موبائل فون بھی بند کردینے کی ہدایات لکھی تو ہوتی ہیں مگر عمل نہیں ہوتا ۔وزیر اعظم کا سانحہ احمد پور شرقیہ کے بعد وطن واپسی آنے کے لیے فیصلے کو تو ان کے سیاسی دشمن عمران خان نے بھی درست قرار دیا ہے مگر وزیر اعظم کے پارہ چنار نہ جانے پر تنقید کی ہے جب کہ عمران خان کو تو اتنی ہمت بھی نہیں ہوئی کہ وہ عید کے دنوں میں خود سانحہ احمد پور شرقیہ کے متاثرین کے پاس جاتے۔
انھیں لاہور میں زخمیوں کی عیادت کے لیے ہی جانا چاہیے تھا مگر انھوں نے عید کے تیسرے دن بنی گالا میں اپنے پارٹی اجلاس اور بعد میں پانامہ کا فیصلہ خود سنانے اور وزیر اعظم پر تنقید کے لیے میڈیا ٹاک کا موقع تو مل گیا مگر عید کے دوسرے روز بھی لاہور جانے کا سوچا نہیں۔
چوہدری برادران نے شہباز شریف کو واقعے کا ذمے دار قرار دے دیا اور شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور پی پی رہنماؤں نے حکومت کو بہاولپور میں برن یونٹ نہ ہونے کا ذمے دار قرار دیا۔ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے حامی سابق صدر زرداری اور یوسف رضاگیلانی کو اپنے دور میں یہ خیال کیوں نہیں آیا تھا حالانکہ جنوبی پنجاب 2008 میں بھی پی پی کا سیاسی اور اہم گڑھ تھا۔ 5 سال وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے پرویز الٰہی کو اپنے دور میں بہاولپور یا رحیم یار خان میں برن یونٹ یا اسپتال بنوانے کا خیال کیوں نہیں تھا۔
رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے اپنے علاقے ہی میں برن یونٹ ہی لگوالیا ہوتا تو واقعی بہت سی انسانی جانیں بچائی جاسکتی تھیں اور بعد میں ملتان اور لاہور بھیجے جانے والے زخمی بچ سکتے تھے جو تاخیر سے اسپتال پہنچائے گئے اور فوت ہوئے۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ بڑے حادثات اور سانحات پر منفی سیاست اب اپوزیشن رہنماؤں کی ترجیح بن چکی ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنے صوبے کے پی کے میں طبی سہولتوں کا فقدان نظر نہیں آتا، جب کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں نظر آتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ میں اسپتالوں کی تباہ حالی نظر نہیں آتی بلکہ پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں نظر آتی ہے اور مسلم لیگ (ن) والوں کو طبی سہولتوں کی عدم فراہمی پنجاب، اسلام آباد اور بلوچستان کی بجائے سندھ اور کے پی کے ہی میں نظر آتی ہے۔
آرمی چیف نے تو آرمی کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے جھلسے ہوئے لوگوں کو جائے حادثہ سے منتقل کرایا تو تحریک انصاف والوں کے جہاز، سرکاری جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں سفر کرنے والے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے زخمیوں کے لیے اپنی حکومتوں سے طبی مدد کیوں نہیں بھیجی۔ آصف علی زرداری 3 روز نوابشاہ میں عید مناتے رہے جو جنوبی پنجاب کا بہت دم بھرتے ہیں مگر وہ بھی بہاولپور گئے نہ ملتان اور لاہور زخمیوں کے لیے عیادت کرنے گئے البتہ نوشہرو فیروز سیاست کرنے ضرور چلے گئے۔
شیخ رشید نے لاہور جاکر زخمیوں کی عیادت کم اور بعد میں میڈیا ٹاک میں شریف برادران پر تنقید زیادہ کی اور عمران خان کی طرح سپریم کورٹ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ سے قبل ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ خود ہی سنادیا۔
مفاداتی سیاست یہی ہے کہ سانحہ احمد پور شرقیہ پر متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے تحریک انصاف والوں نے پانامہ پر بیان بازی کرکے سیاست چمکائی اور شریف برادران کے مخالف علامہ طاہر القادری لاہور میں ہوتے ہوئے سانحہ احمد پور کے زخمیوں کی عیادت کے لیے نہیں گئے اور گجرات میں عید منانے والے چوہدری برادران کو بھی عیادت کے لیے جانا چاہیے تھا۔ ملک میں انصاف اور تبدیلی کے دعویدار عمران خان گلیات میں اپنے وزیر اعلیٰ کے ساتھ خوشگوار موڈ میں چیئرلفٹ پر تفریح کرتے رہے مگر متاثرین سے ہمدردی کرنے نہیں آئے۔
سانحات کسی حکومت کا انتظار نہیں کرتے اور ہر حکومت میں ہوتے رہتے ہیں مگر بد قسمتی سے ہر حکومت میں اپوزیشن نے سانحات پر منفی سیاست کی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ موجودہ حکومتوں میں چاروں صوبوں ہی میں حادثات اور دہشت گردی ہوتی رہی ہے۔
کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت میں بے شمار واقعات ہوئے جن میں اے پی ایس پشاور کی دہشت گردی سب سے المناک تھی جس سے کے پی کے کی حکومت بھی بری الذمہ نہیں تھی جب کہ ڈی آئی خان جیل توڑے جانے کا واقعہ بھی پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے مگر احمد پور شرقیہ کا سانحہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی ظاہر نہیں کرتا کیونکہ لوگ خود پٹرول لوٹنے کے چکر میں اس سانحے کا شکار ہوئے جس میں تقریباً دو سو افراد لقمہ اجل بن گئے اور اپوزیشن نے اس کو بھی اپنی سیاست چمکانے کا ذریعہ بنانا ضروری ہی سمجھا۔ اس سانحے پر سیاست کرتے ہوئے اپوزیشن کے کسی رہنما کے چہرے پر کرب نظر نہیں آیا اور ان سب کو اس انتہائی افسوسناک سانحے پر پانامہ کیس یاد رہا کسی نے متاثرین کی مدد کا نہیں سوچا۔
امریکا میں جب نائن الیون ہوا تھا تو وہاں کی اپوزیشن نے اس پر سیاست نہیں کی تھی اور یہی برطانیہ، فرانس اور دیگر ملکوں میں ہوا جہاں اپوزیشن نے قومی سانحات پر سیاست چمکانے کی بجائے حکومت سے مل کر قومی یکجہتی کا ثبوت دیا تھا مگر پاکستان میں ہمیشہ اس کے برعکس ہوتا آرہا ہے اور الزام تراشیوں کے ذریعے سیاست چمکانے کی مذموم کوشش کی جاتی رہی ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔
پارہ چنار کا سانحہ بھی نہایت افسوسناک تھا جس پر عمران خان نے وزیر اعظم کے وہاں نہ جانے پر جو تنقید کی وہ جائز تھی۔ وزیر اعظم کو وہاں جانا چاہیے تھا اور عمران خان کی طرح سیکیورٹی کلیئرنس کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم کے وہاں نہ جانے سے امتیاز پیدا کیا گیا۔ وزیر اعظم کو آرمی چیف کے ساتھ ہی پارہ چنار جانا چاہیے تھا۔
پاکستان کی اپوزیشن کو حکومت کے غلط کاموں پر تنقیدکا مکمل جمہوری حق تو ضرور حاصل ہے مگر اپوزیشن کو قومی سانحات پر کوئی اصول ضرور وضع کرنا چاہیے اور ایسے موقعے پر حکومت پر تنقید سے سیاست نہیں چمکانی چاہیے کیونکہ سانحات ہر پارٹی حکومت میں رونما ہوتے رہے ہیں۔
جاہل سے جاہل آدمی بھی جانتا ہے کہ آگ پٹرول کی دشمن ہے اور مٹی کا تیل بھی آگ جلانے اور بھڑکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پٹرول تو انتہائی احتیاط اور اچھی طرح بند کرکے محفوظ کیا جاتا ہے جو انتہائی خطرناک ہوتا ہے جب کہ مٹی کا تیل عام اور کھلا ہوا فروخت ہوتا ہے اور پٹرول پمپوں پر سگریٹ پینا تو کیا موبائل فون بھی بند کردینے کی ہدایات لکھی تو ہوتی ہیں مگر عمل نہیں ہوتا ۔وزیر اعظم کا سانحہ احمد پور شرقیہ کے بعد وطن واپسی آنے کے لیے فیصلے کو تو ان کے سیاسی دشمن عمران خان نے بھی درست قرار دیا ہے مگر وزیر اعظم کے پارہ چنار نہ جانے پر تنقید کی ہے جب کہ عمران خان کو تو اتنی ہمت بھی نہیں ہوئی کہ وہ عید کے دنوں میں خود سانحہ احمد پور شرقیہ کے متاثرین کے پاس جاتے۔
انھیں لاہور میں زخمیوں کی عیادت کے لیے ہی جانا چاہیے تھا مگر انھوں نے عید کے تیسرے دن بنی گالا میں اپنے پارٹی اجلاس اور بعد میں پانامہ کا فیصلہ خود سنانے اور وزیر اعظم پر تنقید کے لیے میڈیا ٹاک کا موقع تو مل گیا مگر عید کے دوسرے روز بھی لاہور جانے کا سوچا نہیں۔
چوہدری برادران نے شہباز شریف کو واقعے کا ذمے دار قرار دے دیا اور شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور پی پی رہنماؤں نے حکومت کو بہاولپور میں برن یونٹ نہ ہونے کا ذمے دار قرار دیا۔ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے حامی سابق صدر زرداری اور یوسف رضاگیلانی کو اپنے دور میں یہ خیال کیوں نہیں آیا تھا حالانکہ جنوبی پنجاب 2008 میں بھی پی پی کا سیاسی اور اہم گڑھ تھا۔ 5 سال وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے پرویز الٰہی کو اپنے دور میں بہاولپور یا رحیم یار خان میں برن یونٹ یا اسپتال بنوانے کا خیال کیوں نہیں تھا۔
رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے اپنے علاقے ہی میں برن یونٹ ہی لگوالیا ہوتا تو واقعی بہت سی انسانی جانیں بچائی جاسکتی تھیں اور بعد میں ملتان اور لاہور بھیجے جانے والے زخمی بچ سکتے تھے جو تاخیر سے اسپتال پہنچائے گئے اور فوت ہوئے۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ بڑے حادثات اور سانحات پر منفی سیاست اب اپوزیشن رہنماؤں کی ترجیح بن چکی ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنے صوبے کے پی کے میں طبی سہولتوں کا فقدان نظر نہیں آتا، جب کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں نظر آتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ میں اسپتالوں کی تباہ حالی نظر نہیں آتی بلکہ پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں نظر آتی ہے اور مسلم لیگ (ن) والوں کو طبی سہولتوں کی عدم فراہمی پنجاب، اسلام آباد اور بلوچستان کی بجائے سندھ اور کے پی کے ہی میں نظر آتی ہے۔
آرمی چیف نے تو آرمی کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے جھلسے ہوئے لوگوں کو جائے حادثہ سے منتقل کرایا تو تحریک انصاف والوں کے جہاز، سرکاری جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں سفر کرنے والے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے زخمیوں کے لیے اپنی حکومتوں سے طبی مدد کیوں نہیں بھیجی۔ آصف علی زرداری 3 روز نوابشاہ میں عید مناتے رہے جو جنوبی پنجاب کا بہت دم بھرتے ہیں مگر وہ بھی بہاولپور گئے نہ ملتان اور لاہور زخمیوں کے لیے عیادت کرنے گئے البتہ نوشہرو فیروز سیاست کرنے ضرور چلے گئے۔
شیخ رشید نے لاہور جاکر زخمیوں کی عیادت کم اور بعد میں میڈیا ٹاک میں شریف برادران پر تنقید زیادہ کی اور عمران خان کی طرح سپریم کورٹ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ سے قبل ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ خود ہی سنادیا۔
مفاداتی سیاست یہی ہے کہ سانحہ احمد پور شرقیہ پر متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے تحریک انصاف والوں نے پانامہ پر بیان بازی کرکے سیاست چمکائی اور شریف برادران کے مخالف علامہ طاہر القادری لاہور میں ہوتے ہوئے سانحہ احمد پور کے زخمیوں کی عیادت کے لیے نہیں گئے اور گجرات میں عید منانے والے چوہدری برادران کو بھی عیادت کے لیے جانا چاہیے تھا۔ ملک میں انصاف اور تبدیلی کے دعویدار عمران خان گلیات میں اپنے وزیر اعلیٰ کے ساتھ خوشگوار موڈ میں چیئرلفٹ پر تفریح کرتے رہے مگر متاثرین سے ہمدردی کرنے نہیں آئے۔
سانحات کسی حکومت کا انتظار نہیں کرتے اور ہر حکومت میں ہوتے رہتے ہیں مگر بد قسمتی سے ہر حکومت میں اپوزیشن نے سانحات پر منفی سیاست کی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ موجودہ حکومتوں میں چاروں صوبوں ہی میں حادثات اور دہشت گردی ہوتی رہی ہے۔
کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت میں بے شمار واقعات ہوئے جن میں اے پی ایس پشاور کی دہشت گردی سب سے المناک تھی جس سے کے پی کے کی حکومت بھی بری الذمہ نہیں تھی جب کہ ڈی آئی خان جیل توڑے جانے کا واقعہ بھی پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے مگر احمد پور شرقیہ کا سانحہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی ظاہر نہیں کرتا کیونکہ لوگ خود پٹرول لوٹنے کے چکر میں اس سانحے کا شکار ہوئے جس میں تقریباً دو سو افراد لقمہ اجل بن گئے اور اپوزیشن نے اس کو بھی اپنی سیاست چمکانے کا ذریعہ بنانا ضروری ہی سمجھا۔ اس سانحے پر سیاست کرتے ہوئے اپوزیشن کے کسی رہنما کے چہرے پر کرب نظر نہیں آیا اور ان سب کو اس انتہائی افسوسناک سانحے پر پانامہ کیس یاد رہا کسی نے متاثرین کی مدد کا نہیں سوچا۔
امریکا میں جب نائن الیون ہوا تھا تو وہاں کی اپوزیشن نے اس پر سیاست نہیں کی تھی اور یہی برطانیہ، فرانس اور دیگر ملکوں میں ہوا جہاں اپوزیشن نے قومی سانحات پر سیاست چمکانے کی بجائے حکومت سے مل کر قومی یکجہتی کا ثبوت دیا تھا مگر پاکستان میں ہمیشہ اس کے برعکس ہوتا آرہا ہے اور الزام تراشیوں کے ذریعے سیاست چمکانے کی مذموم کوشش کی جاتی رہی ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔
پارہ چنار کا سانحہ بھی نہایت افسوسناک تھا جس پر عمران خان نے وزیر اعظم کے وہاں نہ جانے پر جو تنقید کی وہ جائز تھی۔ وزیر اعظم کو وہاں جانا چاہیے تھا اور عمران خان کی طرح سیکیورٹی کلیئرنس کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم کے وہاں نہ جانے سے امتیاز پیدا کیا گیا۔ وزیر اعظم کو آرمی چیف کے ساتھ ہی پارہ چنار جانا چاہیے تھا۔
پاکستان کی اپوزیشن کو حکومت کے غلط کاموں پر تنقیدکا مکمل جمہوری حق تو ضرور حاصل ہے مگر اپوزیشن کو قومی سانحات پر کوئی اصول ضرور وضع کرنا چاہیے اور ایسے موقعے پر حکومت پر تنقید سے سیاست نہیں چمکانی چاہیے کیونکہ سانحات ہر پارٹی حکومت میں رونما ہوتے رہے ہیں۔